Jasarat News:
2025-10-28@16:00:11 GMT

انسانی وجود میں تخلیق کی بنیادیں

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بڑا تجربہ تخلیق کا سرچشمہ ہے، خواہ وہ المیہ ہو یا مسرت انگیز

انسانی وجود میں تخلیق کا سرچشمہ کہاں ہے، اور تخلیقی عمل کن بنیادوں پر استوار ہوتا ہے؟ یہ صدیوں سے تخلیقی زندگی کا بنیادی سوال ہے، اور ابھی تک اس کا کوئی حتمی جواب ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تخلیقی عمل ایک گہرا باطنی تجربہ ہے۔ اتنا گہرا باطنی تجربہ کہ خود تخلیق کاروں کو بھی پوری طرح اس کا شعور نہیں ہوتا۔ چنانچہ شاعروں، ادیبوں اور دیگر تخلیقی شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے تخلیقی عمل کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس کی حیثیت ایک قیاس آرائی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اس صورتِ حال سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ انسانی زندگی میں تخلیقی عمل کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ ہمیں تخلیقی عمل کی بنیادوں کا سراغ لگانے کے لیے مسلسل کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس سلسلے میں بعض بڑے تخلیق کاروں کی تخلیقی واردات ہماری رہنمائی کرسکتی ہے۔ مثلاً میر تقی میرؔ کا تخلیقی تجربہ۔

میرؔ کی زندگی رنج و الم کی داستان ہے۔ میرؔ ابھی بچے ہی تھے کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ میرؔ کے والد کو عدم موجود پاکر ان کے عزیزوں نے ان کی جائداد پر قبضہ کرلیا اور انہیں انتہائی تنگ دستی کی زندگی بسر کرنی پڑی۔ میرؔ کو محبت میں ناکامی کا شدید تجربہ ہوا اور ان پر جنون کی کیفیت طاری ہوگئی، یہاں تک کہ انہیں چاند میں اپنے محبوب کی صورت نظر آنے لگی۔ وہ کئی کئی دن تک ایک کمرے میں بند رہتے۔ میرؔ کی شاعرانہ عظمت نے انہیں کئی نوابوں کے قریب کیا اور ان کی معاشی مشکل کا حل برآمد ہوتا نظر آیا۔ لیکن میرؔ کی تنک مزاجی اور خودداری بے پناہ تھی، چنانچہ وہ کسی کے، اور کوئی اُن کے ساتھ دیر تک نہ رہ سکا۔ نتیجہ یہ کہ غم کا شدید تجربہ میرؔ کی پوری شخصیت پر چھا گیا۔ غم کے اس تجربے میں سب سے بڑا غم محبت میں ناکامی کا غم تھا۔ میرؔ کو اس تجربے کا پورا شعور تھا، چنانچہ انہوں نے فرمایا ہے:

درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
اسی طرح انہوں نے کہا ہے:
درہمی دہر کی ہے ساری مرے دیواں میں
سیر کر تُو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا

لیکن میرؔ کی تہذیبی شخصیت بہت مضبوط تھی، چنانچہ انہوں نے اپنے غم کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا بلکہ اسے اپنی طاقت بنالیا۔ انہوں نے شدید غم اور اس سے پیدا ہونے والی حساسیت کو اپنا ’’تناظر‘‘ بنالیا۔ اس تناظر سے انہوں نے پوری زندگی اور کائنات کو دیکھا بھی اور سمجھا بھی۔ چنانچہ میرؔ نے کہا ہے:

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

لیکن میرؔ نے ناکامیوں سے ’’کام‘‘ کیا کیا لیے ہیں؟ اس کی جھلکیاں خود میرؔ کی شاعری میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

…٭…

وجہِ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
خوش ہیں دیوانگیِ میرؔ سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ

…٭…

آنکھ ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

…٭…

وہ آئے بزم میں اتنا تو میرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

…٭…

تمنائے دل کے لیے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

…٭…

محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

ان شعروں میں معنی کی فراوانی ہے، فکر کی سطح بلند ہے، تناظر آفاقی ہے، زبان و بیان غیر معمولی ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ہر شعر پر ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ میرؔ کے یہاں ایسے سیکڑوں شعر موجود ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ میرؔ نے چھ ضخیم دیوان تخلیق کیے ہیں جنہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ میرؔ کی ذات وہ مرکز ہے جہاں سے شاعری کا دریائے نیل یا شاعری کی گنگا برآمد ہوئی ہے۔ میرؔ کو خود بھی اس بات کا احساس تھا، چنانچہ انہوں نے کہا ہے ؎

میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

طبیعت کی یہ روانی اس بڑے تجربے کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی جس نے پوری زندگی اور ساری کائنات کو میرؔ کی شاعری کا مواد بنادیا۔ میرؔ کی شاعری سہلِ ممتنع میں ہے۔ لیکن آسان کہنے سے زیادہ مشکل کام اور کوئی نہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو میرؔ کی شاعری کا یہ کمال بھی اُن کے بڑے تجربے کی دین ہے۔ انسان کا تجربہ بڑا ہو تو احساس کی شدت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ عام الفاظ بھی بڑے معنی کا ظرف بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر تجربہ بڑا اور گہرا نہ ہو بلکہ صرف بڑے تجربے کا خیال موجود ہو تو انسان پھر چھوٹے معنی کو بڑے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اردو میں جوش ملیح آبادی کی شخصیت اور شاعری اس کی بڑی مثال ہے۔

قرۃ العین حیدر اردو کی سب سے بڑی ناول نگار ہیں اور انہوں نے ایک دو نہیں، پانچ ناول لکھے ہیں۔ لیکن دراصل انہوں نے پانچ نہیں ایک ہی ناول لکھا ہے، اور ان کے پانچ ناول دراصل ان کے ایک ہی ناول کے پانچ ابواب ہیں۔ بلاشبہ یہ ناول ایک دوسرے سے مختلف پس منظر کو سامنے لاتے ہیں مگر ان تمام ناولوں کا ’’ہیرو‘‘ ایک ہے… یعنی ’’وقت‘‘۔ قرۃ العین حیدر نے اچھا خاصا فلسفہ پڑھ رکھا ہے مگر ان کے یہاں وقت کا تصور فلسفیانہ نہیں المناک ہے۔ ان کے ناولوں میں ہر طرف وقت کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ دنیا کے منظرنامے پر بڑی بڑی شخصیتیں طلوع ہوتی ہیں، بڑی بڑی تحریکیں جنم لیتی ہیں، بڑے بڑے خیالات ابھرتے ہیں، بڑی بڑی تہذیبیں اپنی بہاریں دکھاتی ہیں، لیکن وقت ہر چیز کو نگل جاتا ہے۔ قرۃ العین حیدر، اقبال سے بہت متاثر ہیں، مگر اقبال کی شاعری میں کائنات کی سب سے بڑی قوت وقت نہیں، عشق ہے جو وقت پر بھی غالب آجاتا ہے۔ لیکن قرۃ العین کے ناولوں میں وقت ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وقت کا یہی شدید المیہ احساس قرۃ العین حیدر کی شخصیت میں تخلیق کا سرچشمہ ہے اور ان کی پوری شخصیت اس کی گرفت میں محسوس ہوتی ہے۔ وقت کے اس شدید المیہ احساس سے اُن کے ناولوں کے موضوعات جنم لیتے ہیں۔ یہیں سے ان کے ناولوں کی بے مثال تفصیلات جنم لیتی ہیں۔ یہیں سے ان کا وہ اسلوب پیدا ہوتا ہے جو نثر میں شاعری کی لذت پیدا کردیتا ہے، جو ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ میں اپنے عروج پر ہے۔

وین گوف مغرب میں مصوری کے بڑے ناموں میں سے ایک ہے۔ بعض لوگ اسے مصوری میں تاثراتی اسکول کا بانی بھی کہتے ہیں۔ اگر ہمیں صحیح یاد ہے تو اس نے ابتدا میں کان کنی بھی کی، وہ کچھ عرصے کے لیے پادری کے روپ میں بھی سامنے آیا، لیکن اس کی شخصیت پر ابتدا ہی سے فطری مظاہر کے حسن و جمال کا شدید غلبہ تھا۔ اس غلبے نے اسے خودبخود مصوری کی جانب مائل کردیا، یہاں تک کہ اس کی شخصیت منقلب یا Transform ہوکر ایک مصور کی شخصیت بن گئی۔ اس کے مزاج میں بلا کی شدت تھی، وہ جس سے تعلق قائم کرتا، شدت کے ساتھ کرتا۔ اور اکثر لوگ اس کی شدت سے ڈر جاتے اور اس سے دور ہوجاتے۔ چنانچہ اس کی زندگی تقریباً ایک تنہا انسان کی زندگی تھی۔ اس کی معاشی حالت آخری وقت تک خراب رہی۔ اگر اس کا بھائی مسلسل اس کی مالی مدد نہ کرتا تو وہ بھوکا مر جاتا اور اس کے پاس کینوس، رنگ اور برش خریدنے کے بھی پیسے نہ ہوتے۔ وین گوف فطری مظاہر کو دیکھتا تو اس پر دیوانگی طاری ہوجاتی، اور وہ بلا رکے 24 گھنٹے پینٹنگز بناتا رہتا۔ اسے اس کے زمانے نے پہچان کر نہ دیا، مگر اسے اس بات کی پروا نہیں تھی۔ اس کا شدید احساسِ حُسن اسے مسلسل تخلیقی عمل میں مصروف رکھتا۔ یہاں تک کہ وہ شہرت کے دروازے پر دستک دیئے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کی موت کے بعد دنیا کو اس کی عظمت کا علم ہوا اور آج اس کی بعض تصاویر پندرہ اور بیس کروڑ ڈالر میں فروخت ہوتی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بڑا تجربہ تخلیق کا سرچشمہ ہے، خواہ وہ المیہ ہو یا مسرت انگیز… خواہ وہ تجربہ وصال کا ہو یا ہجر کا۔ بڑے اور گہرے تجربے کی اہمیت یہ ہے کہ وہ تخلیق کار کی ذہانت بن جاتا ہے، اس کے علم میں ڈھل جاتا ہے، اس کے تناظر میں تبدیل ہوجاتا ہے، اس کی تخلیقی صلاحیت کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔

تخلیقی انسانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بڑے تجربے کی طرح بڑی آرزو بھی تخلیق کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ اردو ادب میں اس کی سب سے بڑی مثال اقبال ہیں۔ اقبال کسی زمانے میں داغؔ کے شاگرد تھے، اور داغؔ کے پاس کچھ بھی بڑا نہیں تھا۔ اقبال اکبر الہٰ آبادی سے متاثر تھے لیکن اکبر نے اپنی طرح کی شاعری کے تمام امکانات کو استعمال کرڈالا تھا، اور اقبال اس میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن اقبال کی آرزو بڑی تھی، چنانچہ وہ داغؔ کے اثر سے بھی نکل آئے، اکبر کی بھی انہوں نے ایک حد سے زیادہ پیروی نہیں کی، اور انہوں نے اس بڑی آرزو کی بنیاد پر اردو شاعری کی ایک کائنات تخلیق کرڈالی۔ لیکن اقبال کی آرزو کیا تھی؟ اسلامی تہذیب کا احیاء اور غلبہ، اور امتِ مسلمہ کی شوکت۔ اس آرزو نے اقبال کو نئے اور عظیم الشان موضوعات دیئے، نئی اور سحر انگیز تشبیہات اور استعارے دیئے۔ اس آرزو نے اقبال کو شاعری کی نئی زبان عطا کی، منفرد اسلوب سے نوازا۔ اقبال خود کو گفتار کا غازی کہتے تھے اور سمجھتے کہ میں کردار کا غازی نہیں ہوں، لیکن اقبال کی آرزو نے اقبال کی گفتار کو کروڑوں لوگوں کے کردار سے بڑھا دیا۔

سوشلزم کے دائرے میں بڑی آرزو کا ظہور ممکن ہی نہیں تھا، اس لیے کہ سوشلزم باطل تھا اور تاریخ میں اس کی جڑ بنیاد بھی نہیں تھی۔ لیکن فیض احمد فیض سوشلزم کے مخلص سپاہی تھے اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہونے کی آرزو رکھتے تھے۔ یہ آرزو بہت سے ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں کی تھی، مگر ان کا اخلاص فیض کے اخلاص سے کم تھا۔ چنانچہ سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر سب سے بہتر شاعری فیض ہی نے تخلیق کی۔ انہوں نے شاعری میں اپنا اسلوب پیدا کیا، نئی تشبیہات، نئے استعارے اور نئی تراکیب وضع کیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے ایک ایسی فضا تخلیق کی جس نے سوشلسٹ انقلاب جیسی انسانیت سوز حقیقت کو بھی رومانوی بنادیا۔ اس کی وجہ سے فیض کی شاعری کی ابلاغی صلاحیت اور اثر آفرینی بہت بڑھ گئی۔

زبان کی اہلیت اپنی نہاد میں تخلیق کی اہلیت ہے۔ اس لیے کہ زبان کے ذریعے انسان چیزوں کو عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ انہیں نام دیتا ہے۔ انہیں تشخص عطا کرتا ہے۔ ان میں جذبے اور احساس کو برقی رو کی طرح جاری کرتا ہے۔ ان کے ذریعے خیالات، جذبات اور احساسات میں ترمیم و اضافہ کرتا ہے۔ انہیں منقلب کرتا ہے۔ ان کے ذریعے گونگے تجربات کو زبان دیتا ہے۔ ان کے ذریعے اپنے باطن کو ظاہر سے مربوط کرتا ہے۔

چنانچہ ہر بڑے تخلیق کار کے یہاں زبان کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے۔ میرؔ کا دور اردو زبان کا تشکیلی دور تھا اور اردو شاعری میں اظہار کے بڑے سانچے موجود نہیں تھے۔ میرؔ کے پاس تجربہ بڑا تھا اور اس کے لیے زبان کا بڑا سانچہ درکار تھا۔ میرؔ کے پاس یہ سانچہ موجود تھا، چنانچہ میرؔ کے تجربے اور زبان کی یکجائی نے برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کو میرؔ کی شاعری کا عظیم الشان تحفہ دیا۔ اکبر الہٰ آبادی کی شاعری میں زبان کے تخلیقی استعمال سے بھی شعر تخلیق ہوئے ہیں اور زبان کی تخریب یا Distortion سے بھی۔ اور ان دونوں کاموں کے لیے زبان کی غیر معمولی اہلیت درکار تھی۔ غالب کی شاعری کے معجزے کو ان کی زبان سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ کہنے والوں نے کہا بھی کہ اپنی زبان وہ خود سمجھتے ہیں یا خدا سمجھتا ہے۔ مگر غالب اس طرح کے الزامات سے گھبرائے نہیں۔ گھبرا جاتے تو شاید ان کی شاعرانہ عظمت کا ایک حصہ زبان پر معذرت خواہی کی نذر ہوجاتا۔ اقبال کی شاعری کے لیے اردو، فارسی اور عربی سے گہری واقفیت اور مغربی زبانوں کے تصورات سے واقفیت ناگزیر تھی۔ اس کے بغیر اقبال کی شاعری وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ لیکن یہاں زبان کی اہلیت کا مفہوم لفظوں کی گنتی نہیں، کیونکہ لغت تو نظیر اکبر آبادی اور جوش ملیح آبادی کی بھی بہت بڑی تھی، مگر ان کے یہاں زبان کسی گہری بات کو شاذ ہی سامنے لاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں صرف زبان کی قوت سے شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کا مواد ان کی لسانی اہلیت سے بہت کم ہے۔ اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا ’’تخلیقی اخلاص‘‘ میر، غالب اور اقبال سے بہت کم ہے۔

ہمارے عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں تخلیق کی یہ تینوں بنیادیں کسی جگہ مشکل ہی سے فراہم ہوپاتی ہیں۔ ہمارے دور میں بڑا تجربہ نایاب ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ شخصیت پرستی کا ہولناک رجحان ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا کہ شاعری شخصیت کا اظہار نہیں بلکہ اس سے فرار ہے۔ سوال یہ ہے کہ شاعر شخصیت سے فرار حاصل کرکے کہاں جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شاعر شخصیت سے فرار حاصل کرکے ’’ذات‘‘کی طرف جاتا ہے جو تخلیق کا مرکز ہے۔

شخصیت ہماری سماجیات، ہماری معاشیات، ہماری سیاست اور ہماری خودغرضی پر مبنی خواہشات کا مجموعہ ہوتی ہے اور بیشتر صورتوں میں معمول کی زندگی کے لیے کفایت کرتی ہے۔ شخصیت کی گرفت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ یہ اکثر انسانوں کو اپنے آپ سے بلند نہیں ہونے دیتی۔ صرف تخلیقی لوگوں کی توانائی انہیں شخصیت سے بلندکرتی ہے۔ لیکن فی زمانہ تخلیق کی آرزو اتنی کمزور ہوگئی ہے اور سماجیات اور معاشیات نے اتنی اہمیت حاصل کرلی ہے کہ تخلیقی صلاحیت رکھنے والوں کی اکثریت بھی شخصیت کے بت کے آگے سجدہ ریز ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ کسی بڑے تجربے سے دوچار نہیں ہوپاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑا تجربہ خودسپردگی کا مطالبہ کرتا ہے اور شخصیت خودسپردگی کی مزاحمت کرتی ہے۔ ہمارے عہد کا یہ المیہ بھی ہے کہ اب لوگوں کی آرزوئیں بڑی نہیں ہوتیں۔ بڑی آرزو مذہب سے آتی ہے یا تاریخ سے۔ اور فی زمانہ مذہب اور تاریخ سے یا تو لوگوں کا تعلق ہی نہیں، یا یہ تعلق سرسری اور سطحی ہے۔ ہمارے زمانے میں زبان کا مستحکم سانچہ بھی خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔ اس لیے کہ زبان یا تو مذہب سے فراہم ہوتی ہے یا ادب بالخصوص شاعری سے… اور اب لوگ نہ مذہبیات کا گہرا مطالعہ کررہے ہیں، نہ ان کی زندگی میں ادب اور بالخصوص شاعری کے لیے کوئی جگہ ہے۔ ہمارے دور میں زبان کی اہلیت اخبارات یا ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ تک محدود ہوگئی ہے، اور ان ذرائع سے کسی کو زبان کا اچھا سانچہ فراہم نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور میں انسانی وجود میں تخلیق کی تینوں بنیادیں کمزور پڑگئی ہیں، اور یہ مقامی نہیں عالمگیر صورتِ حال ہے، اور اس میں کسی ایک تہذیب کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانی تہذیب کے لیے سنگین خطرات موجود ہیں۔

درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
اسی طرح انہوں نے کہا ہے:
درہمی دہر کی ہے ساری مرے دیواں میں
سیر کر تُو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا

لیکن میرؔ کی تہذیبی شخصیت بہت مضبوط تھی، چنانچہ انہوں نے اپنے غم کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا بلکہ اسے اپنی طاقت بنالیا۔ انہوں نے شدید غم اور اس سے پیدا ہونے والی حساسیت کو اپنا ’’تناظر‘‘ بنالیا۔ اس تناظر سے انہوں نے پوری زندگی اور کائنات کو دیکھا بھی اور سمجھا بھی۔ چنانچہ میرؔ نے کہا ہے:

مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

لیکن میرؔ نے ناکامیوں سے ’’کام‘‘ کیا کیا لیے ہیں؟ اس کی جھلکیاں خود میرؔ کی شاعری میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

…٭…

وجہِ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
خوش ہیں دیوانگیِ میرؔ سے سب
کیا جنوں کر گیا شعور سے وہ

…٭…

آنکھ ہو تو آئنہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ

…٭…

وہ آئے بزم میں اتنا تو میرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

…٭…

تمنائے دل کے لیے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

…٭…

محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور

ان شعروں میں معنی کی فراوانی ہے، فکر کی سطح بلند ہے، تناظر آفاقی ہے، زبان و بیان غیر معمولی ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ہر شعر پر ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ میرؔ کے یہاں ایسے سیکڑوں شعر موجود ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ میرؔ نے چھ ضخیم دیوان تخلیق کیے ہیں جنہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ میرؔ کی ذات وہ مرکز ہے جہاں سے شاعری کا دریائے نیل یا شاعری کی گنگا برآمد ہوئی ہے۔ میرؔ کو خود بھی اس بات کا احساس تھا، چنانچہ انہوں نے کہا ہے ؎

میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

طبیعت کی یہ روانی اس بڑے تجربے کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی جس نے پوری زندگی اور ساری کائنات کو میرؔ کی شاعری کا مواد بنادیا۔ میرؔ کی شاعری سہلِ ممتنع میں ہے۔ لیکن آسان کہنے سے زیادہ مشکل کام اور کوئی نہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو میرؔ کی شاعری کا یہ کمال بھی اُن کے بڑے تجربے کی دین ہے۔ انسان کا تجربہ بڑا ہو تو احساس کی شدت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ عام الفاظ بھی بڑے معنی کا ظرف بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر تجربہ بڑا اور گہرا نہ ہو بلکہ صرف بڑے تجربے کا خیال موجود ہو تو انسان پھر چھوٹے معنی کو بڑے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اردو میں جوش ملیح آبادی کی شخصیت اور شاعری اس کی بڑی مثال ہے۔

قرۃ العین حیدر اردو کی سب سے بڑی ناول نگار ہیں اور انہوں نے ایک دو نہیں، پانچ ناول لکھے ہیں۔ لیکن دراصل انہوں نے پانچ نہیں ایک ہی ناول لکھا ہے، اور ان کے پانچ ناول دراصل ان کے ایک ہی ناول کے پانچ ابواب ہیں۔ بلاشبہ یہ ناول ایک دوسرے سے مختلف پس منظر کو سامنے لاتے ہیں مگر ان تمام ناولوں کا ’’ہیرو‘‘ ایک ہے… یعنی ’’وقت‘‘۔ قرۃ العین حیدر نے اچھا خاصا فلسفہ پڑھ رکھا ہے مگر ان کے یہاں وقت کا تصور فلسفیانہ نہیں المناک ہے۔ ان کے ناولوں میں ہر طرف وقت کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ دنیا کے منظرنامے پر بڑی بڑی شخصیتیں طلوع ہوتی ہیں، بڑی بڑی تحریکیں جنم لیتی ہیں، بڑے بڑے خیالات ابھرتے ہیں، بڑی بڑی تہذیبیں اپنی بہاریں دکھاتی ہیں، لیکن وقت ہر چیز کو نگل جاتا ہے۔ قرۃ العین حیدر، اقبال سے بہت متاثر ہیں، مگر اقبال کی شاعری میں کائنات کی سب سے بڑی قوت وقت نہیں، عشق ہے جو وقت پر بھی غالب آجاتا ہے۔ لیکن قرۃ العین کے ناولوں میں وقت ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو وقت کا یہی شدید المیہ احساس قرۃ العین حیدر کی شخصیت میں تخلیق کا سرچشمہ ہے اور ان کی پوری شخصیت اس کی گرفت میں محسوس ہوتی ہے۔ وقت کے اس شدید المیہ احساس سے اُن کے ناولوں کے موضوعات جنم لیتے ہیں۔ یہیں سے ان کے ناولوں کی بے مثال تفصیلات جنم لیتی ہیں۔ یہیں سے ان کا وہ اسلوب پیدا ہوتا ہے جو نثر میں شاعری کی لذت پیدا کردیتا ہے، جو ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’گردشِ رنگِ چمن‘‘ میں اپنے عروج پر ہے۔

وین گوف مغرب میں مصوری کے بڑے ناموں میں سے ایک ہے۔ بعض لوگ اسے مصوری میں تاثراتی اسکول کا بانی بھی کہتے ہیں۔ اگر ہمیں صحیح یاد ہے تو اس نے ابتدا میں کان کنی بھی کی، وہ کچھ عرصے کے لیے پادری کے روپ میں بھی سامنے آیا، لیکن اس کی شخصیت پر ابتدا ہی سے فطری مظاہر کے حسن و جمال کا شدید غلبہ تھا۔ اس غلبے نے اسے خودبخود مصوری کی جانب مائل کردیا، یہاں تک کہ اس کی شخصیت منقلب یا Transform ہوکر ایک مصور کی شخصیت بن گئی۔ اس کے مزاج میں بلا کی شدت تھی، وہ جس سے تعلق قائم کرتا، شدت کے ساتھ کرتا۔ اور اکثر لوگ اس کی شدت سے ڈر جاتے اور اس سے دور ہوجاتے۔ چنانچہ اس کی زندگی تقریباً ایک تنہا انسان کی زندگی تھی۔ اس کی معاشی حالت آخری وقت تک خراب رہی۔ اگر اس کا بھائی مسلسل اس کی مالی مدد نہ کرتا تو وہ بھوکا مر جاتا اور اس کے پاس کینوس، رنگ اور برش خریدنے کے بھی پیسے نہ ہوتے۔ وین گوف فطری مظاہر کو دیکھتا تو اس پر دیوانگی طاری ہوجاتی، اور وہ بلا رکے 24 گھنٹے پینٹنگز بناتا رہتا۔ اسے اس کے زمانے نے پہچان کر نہ دیا، مگر اسے اس بات کی پروا نہیں تھی۔ اس کا شدید احساسِ حُسن اسے مسلسل تخلیقی عمل میں مصروف رکھتا۔ یہاں تک کہ وہ شہرت کے دروازے پر دستک دیئے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کی موت کے بعد دنیا کو اس کی عظمت کا علم ہوا اور آج اس کی بعض تصاویر پندرہ اور بیس کروڑ ڈالر میں فروخت ہوتی ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو بڑا تجربہ تخلیق کا سرچشمہ ہے، خواہ وہ المیہ ہو یا مسرت انگیز… خواہ وہ تجربہ وصال کا ہو یا ہجر کا۔ بڑے اور گہرے تجربے کی اہمیت یہ ہے کہ وہ تخلیق کار کی ذہانت بن جاتا ہے، اس کے علم میں ڈھل جاتا ہے، اس کے تناظر میں تبدیل ہوجاتا ہے، اس کی تخلیقی صلاحیت کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔

تخلیقی انسانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بڑے تجربے کی طرح بڑی آرزو بھی تخلیق کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ اردو ادب میں اس کی سب سے بڑی مثال اقبال ہیں۔ اقبال کسی زمانے میں داغؔ کے شاگرد تھے، اور داغؔ کے پاس کچھ بھی بڑا نہیں تھا۔ اقبال اکبر الہٰ آبادی سے متاثر تھے لیکن اکبر نے اپنی طرح کی شاعری کے تمام امکانات کو استعمال کرڈالا تھا، اور اقبال اس میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن اقبال کی آرزو بڑی تھی، چنانچہ وہ داغؔ کے اثر سے بھی نکل آئے، اکبر کی بھی انہوں نے ایک حد سے زیادہ پیروی نہیں کی، اور انہوں نے اس بڑی آرزو کی بنیاد پر اردو شاعری کی ایک کائنات تخلیق کرڈالی۔ لیکن اقبال کی آرزو کیا تھی؟ اسلامی تہذیب کا احیاء اور غلبہ، اور امتِ مسلمہ کی شوکت۔ اس آرزو نے اقبال کو نئے اور عظیم الشان موضوعات دیئے، نئی اور سحر انگیز تشبیہات اور استعارے دیئے۔ اس آرزو نے اقبال کو شاعری کی نئی زبان عطا کی، منفرد اسلوب سے نوازا۔ اقبال خود کو گفتار کا غازی کہتے تھے اور سمجھتے کہ میں کردار کا غازی نہیں ہوں، لیکن اقبال کی آرزو نے اقبال کی گفتار کو کروڑوں لوگوں کے کردار سے بڑھا دیا۔

سوشلزم کے دائرے میں بڑی آرزو کا ظہور ممکن ہی نہیں تھا، اس لیے کہ سوشلزم باطل تھا اور تاریخ میں اس کی جڑ بنیاد بھی نہیں تھی۔ لیکن فیض احمد فیض سوشلزم کے مخلص سپاہی تھے اور پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہونے کی آرزو رکھتے تھے۔ یہ آرزو بہت سے ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں کی تھی، مگر ان کا اخلاص فیض کے اخلاص سے کم تھا۔ چنانچہ سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر سب سے بہتر شاعری فیض ہی نے تخلیق کی۔ انہوں نے شاعری میں اپنا اسلوب پیدا کیا، نئی تشبیہات، نئے استعارے اور نئی تراکیب وضع کیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے ایک ایسی فضا تخلیق کی جس نے سوشلسٹ انقلاب جیسی انسانیت سوز حقیقت کو بھی رومانوی بنادیا۔ اس کی وجہ سے فیض کی شاعری کی ابلاغی صلاحیت اور اثر آفرینی بہت بڑھ گئی۔

زبان کی اہلیت اپنی نہاد میں تخلیق کی اہلیت ہے۔ اس لیے کہ زبان کے ذریعے انسان چیزوں کو عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ انہیں نام دیتا ہے۔ انہیں تشخص عطا کرتا ہے۔ ان میں جذبے اور احساس کو برقی رو کی طرح جاری کرتا ہے۔ ان کے ذریعے خیالات، جذبات اور احساسات میں ترمیم و اضافہ کرتا ہے۔ انہیں منقلب کرتا ہے۔ ان کے ذریعے گونگے تجربات کو زبان دیتا ہے۔ ان کے ذریعے اپنے باطن کو ظاہر سے مربوط کرتا ہے۔

چنانچہ ہر بڑے تخلیق کار کے یہاں زبان کی اہمیت بنیادی ہوتی ہے۔ میرؔ کا دور اردو زبان کا تشکیلی دور تھا اور اردو شاعری میں اظہار کے بڑے سانچے موجود نہیں تھے۔ میرؔ کے پاس تجربہ بڑا تھا اور اس کے لیے زبان کا بڑا سانچہ درکار تھا۔ میرؔ کے پاس یہ سانچہ موجود تھا، چنانچہ میرؔ کے تجربے اور زبان کی یکجائی نے برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کو میرؔ کی شاعری کا عظیم الشان تحفہ دیا۔ اکبر الہٰ آبادی کی شاعری میں زبان کے تخلیقی استعمال سے بھی شعر تخلیق ہوئے ہیں اور زبان کی تخریب یا Distortion سے بھی۔ اور ان دونوں کاموں کے لیے زبان کی غیر معمولی اہلیت درکار تھی۔ غالب کی شاعری کے معجزے کو ان کی زبان سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ کہنے والوں نے کہا بھی کہ اپنی زبان وہ خود سمجھتے ہیں یا خدا سمجھتا ہے۔ مگر غالب اس طرح کے الزامات سے گھبرائے نہیں۔ گھبرا جاتے تو شاید ان کی شاعرانہ عظمت کا ایک حصہ زبان پر معذرت خواہی کی نذر ہوجاتا۔ اقبال کی شاعری کے لیے اردو، فارسی اور عربی سے گہری واقفیت اور مغربی زبانوں کے تصورات سے واقفیت ناگزیر تھی۔ اس کے بغیر اقبال کی شاعری وجود میں نہیں آسکتی تھی۔ لیکن یہاں زبان کی اہلیت کا مفہوم لفظوں کی گنتی نہیں، کیونکہ لغت تو نظیر اکبر آبادی اور جوش ملیح آبادی کی بھی بہت بڑی تھی، مگر ان کے یہاں زبان کسی گہری بات کو شاذ ہی سامنے لاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں صرف زبان کی قوت سے شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ان کا مواد ان کی لسانی اہلیت سے بہت کم ہے۔ اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا ’’تخلیقی اخلاص‘‘ میر، غالب اور اقبال سے بہت کم ہے۔

ہمارے عہد کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں تخلیق کی یہ تینوں بنیادیں کسی جگہ مشکل ہی سے فراہم ہوپاتی ہیں۔ ہمارے دور میں بڑا تجربہ نایاب ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ شخصیت پرستی کا ہولناک رجحان ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا کہ شاعری شخصیت کا اظہار نہیں بلکہ اس سے فرار ہے۔ سوال یہ ہے کہ شاعر شخصیت سے فرار حاصل کرکے کہاں جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شاعر شخصیت سے فرار حاصل کرکے ’’ذات‘‘کی طرف جاتا ہے جو تخلیق کا مرکز ہے۔

شخصیت ہماری سماجیات، ہماری معاشیات، ہماری سیاست اور ہماری خودغرضی پر مبنی خواہشات کا مجموعہ ہوتی ہے اور بیشتر صورتوں میں معمول کی زندگی کے لیے کفایت کرتی ہے۔ شخصیت کی گرفت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ یہ اکثر انسانوں کو اپنے آپ سے بلند نہیں ہونے دیتی۔ صرف تخلیقی لوگوں کی توانائی انہیں شخصیت سے بلندکرتی ہے۔ لیکن فی زمانہ تخلیق کی آرزو اتنی کمزور ہوگئی ہے اور سماجیات اور معاشیات نے اتنی اہمیت حاصل کرلی ہے کہ تخلیقی صلاحیت رکھنے والوں کی اکثریت بھی شخصیت کے بت کے آگے سجدہ ریز ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ کسی بڑے تجربے سے دوچار نہیں ہوپاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑا تجربہ خودسپردگی کا مطالبہ کرتا ہے اور شخصیت خودسپردگی کی مزاحمت کرتی ہے۔ ہمارے عہد کا یہ المیہ بھی ہے کہ اب لوگوں کی آرزوئیں بڑی نہیں ہوتیں۔ بڑی آرزو مذہب سے آتی ہے یا تاریخ سے۔ اور فی زمانہ مذہب اور تاریخ سے یا تو لوگوں کا تعلق ہی نہیں، یا یہ تعلق سرسری اور سطحی ہے۔ ہمارے زمانے میں زبان کا مستحکم سانچہ بھی خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔ اس لیے کہ زبان یا تو مذہب سے فراہم ہوتی ہے یا ادب بالخصوص شاعری سے… اور اب لوگ نہ مذہبیات کا گہرا مطالعہ کررہے ہیں، نہ ان کی زندگی میں ادب اور بالخصوص شاعری کے لیے کوئی جگہ ہے۔ ہمارے دور میں زبان کی اہلیت اخبارات یا ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ تک محدود ہوگئی ہے، اور ان ذرائع سے کسی کو زبان کا اچھا سانچہ فراہم نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور میں انسانی وجود میں تخلیق کی تینوں بنیادیں کمزور پڑگئی ہیں، اور یہ مقامی نہیں عالمگیر صورتِ حال ہے، اور اس میں کسی ایک تہذیب کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانی تہذیب کے لیے سنگین خطرات موجود ہیں۔

مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے

شاہنواز فاروقی دانیال عدنان.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انسانی وجود میں تخلیق اس ا رزو نے اقبال کو لیکن اقبال کی ا رزو تخلیق کا سرچشمہ ہے جوش ملیح ا بادی کی نے پوری زندگی اور شدید المیہ احساس چنانچہ انہوں نے انہوں نے کہا ہے وجہ یہ ہے کہ ان قرۃ العین حیدر اقبال کی شاعری تینوں بنیادیں بالخصوص شاعری مگر ان کے یہاں تخلیقی صلاحیت سوشلسٹ انقلاب اس لیے کہ زبان دیکھا جائے تو زبان کی اہلیت کے یہاں زبان ہمارے عہد کا میں تخلیق کی کی شاعری میں شاعری کے لیے یہاں زبان کی جنم لیتی ہیں اقبال سے بہت ممکن ہی نہیں بڑے تجربے کی انہوں نے ایک اور انہوں نے تہذیب کے لیے ناکامیوں سے کی سب سے بڑی سے بہت کم ہے کی بنیاد پر اس کی شخصیت ان کی زندگی ان کے ذریعے اور زبان کی کے لیے زبان کی شاعری کے کی شاعری کا ایک ہی ناول تخلیقی عمل غیر معمولی عظیم الشان چنانچہ میر فطری مظاہر اسلوب پیدا تخلیق کی ا یہیں سے ان پانچ ناول نہیں بلکہ موجود ہیں اور احساس تخلیق کار سوشلزم کے چنانچہ وہ تجربہ بڑا کائنات کو اور تاریخ اور اقبال بڑا تجربہ چنانچہ ان اس کی شدت اور اس کے بڑی ا رزو میں اس کی اس کی وجہ اور اس سے ہوتی ہیں نہیں تھا تاریخ سے بڑی مثال اکبر الہ ہوگئی ہے فی زمانہ نہیں تھی شاعری ک

پڑھیں:

’’کھلے آسمان کے نیچے قید خانہ‘‘

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251028-03-6

 

جاوید الرحمن ترابی

الْحَمْدُللہ غزہ کی سرزمین نے ایک طویل، صبرآزما خونیں اور طویل جنگ، بے مثال صبر اور عظیم عزم کے بعد، وہ ثابت کر دیا جو کسی نے شاید تصور بھی نہ کیا تھا: اہل ِ غزہ کے حوصلے اور ایمان کی قوت کسی بھی عسکری یا سیاسی دباؤ سے مغلوب نہیں ہو سکی وہی قوت جو عالمی سطح پر خوف و دہشت کی علامت سمجھی جاتی تھی ایک ایسا ملک جس کے پیچھے عالمی قوتیں، جدید ہتھیار اور غیر مشروط حمایت میں کھڑی تھیں اور جو حماس کو صفحہ ہستی مٹانا چاہتی تھی اس طاقت کو اسی حماس سے بالواسطہ مذاکرات کر کے معاملات طے کرنے پڑے جو قوت سب کے لیے ناقابل تسخیر تھے حماس نے اسے اپنی قوت ایمانی جذبہ جہاد سے قابل تسخیر ثابت کیا اسرائیل ان بے سروسامان مجاہدین کا مقابلہ تو نہ کرسکا البتہ اس نے اہل غزہ پر ظلم وستم کے پہاڑ گرا دیے وہ غزہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے مختلف شکلوں میں ناکہ بندی، محاصرے اور اقتصادی بائکاٹ کا سامنا کر رہا تھا۔ جون 2007 کے بعد، جب حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھالا، تو اس علاقے پر زمینی، بحری اور فضائی سطح پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ ایک ایسا محاصرہ جس نے لوگوں کی آمد ورفت، تجارت، طبی امداد اور تعمیراتی سامان تک رسائی کو شدید حد تک محدود کر دیا۔ اس محاصرے نے غزہ کو ایک ’’کھلے آسمان کے نیچے قید خانہ‘‘ کی کیفیت میں ڈال دیا، جس کے سنگین معاشی، طبی اور سماجی نتیجے سامنے آئے۔

 

جون 2007 میں جب حماس نے غزہ پر انتظامی کنٹرول حاصل کیا تو اسرائیل نے اس پٹی پر زمینی، فضائی اور بحری محاصرہ مسلط کر دیا۔ جو آج 18 سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کئی بار کہا کہ یہ محاصرہ غزہ کو ایک ’’کھلے آسمان کے نیچے قید خانہ‘‘ میں بدل چکا ہے۔ 2008، 2012، 2014، 2021 اور پھر 2023 میں اسرائیل نے غزہ پر شدید حملے کیے جن میں ہزاروں شہری شہید اور زخمی ہوئے محاصرہ اس حد تک تھا کہ: خوراک، ایندھن، اور طبی سامان کی فراہمی تقریباً مکمل بند رہی۔ مریضوں کو علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے کی اجازت شاذ و نادر ہی ملی۔ ماہی گیری اور زراعت تباہ، روزگار ختم، اور شرحِ غربت 70 فی صد سے تجاوز کر گئی۔ تعلیمی ادارے مسلسل خطرے میں رہے، اور نئی نسل مایوسی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ یہ تمام عوامل ایک ’’خاموش نسل کشی‘‘ (Slow Genocide) کی شکل میں جاری رہے۔ جس نے 7 اکتوبر کے دھماکا خیز مرحلے کی بنیاد رکھی۔

 

اس طویل محاصرے کی وجہ سے نہ صرف بنیادی ضروریات کی فراہمی متاثر ہوئی بلکہ طبی نظام بھی مستقل دباؤ کا شکار رہا۔ اقوامِ متحدہ اور امدادی اداروں نے بارہا انتباہ دیا کہ اس نوعیت کی پابندیوں کے نتیجے میں بچوں، ماؤں اور ضعیف طبقات کی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں۔ مثال کے طور پر، سردیوں میں متعدد تازہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ رہائش، حرارت یا طبی سہولتوں کی کمی سے نومولود بھی قار و برف یا سردی کے باعث جان سے گئے۔ پھر 7 اکتوبر 2023 کا واقعہ آیا 7 اکتوبر 2023 کو طوفانِ اقصیٰ کے نام سے فلسطینی مزاحمت نے ایک فیصلہ کن قدم اٹھایا۔ ایک ایسا قدم جو اس طویل ذلت اور محاصرے کے خلاف صدیوں کی چیخ بن گیا۔ اس کے بعد جو اسرائیلی ردِ عمل آیا، وہ انسانی تاریخ کی بدترین تباہیوں میں شمار ہوتا ہے۔ دو سالہ جنگی دورانیے (اکتوبر 2023 تا اکتوبر 2025) میں غزہ مکمل طور پر ملبے میں بدل دیا گیا جس نے خطے کی جغرافیائی و سیاسی ترتیب کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد جو شدت اور دورانیہ کے ساتھ حملے، محاصرہ، اور انسانی المیے دیکھنے میں آئے، ان کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ عینی شاہد اور ادارہ جاتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 7 اکتوبر 2023 سے لے کر 7 اکتوبر 2025 تک، غزہ میں ہلاک شدگان کی تعداد 67,173 کے قریب ہے اور زخمیوں کی تعداد 169,780 کے آس پاس رجسٹرڈ کی گئی۔ یہ اعداد مقامی وزارتِ صحت کی رپورٹس پر مبنی ہیں جنہیں انسانی ایجنسیوں نے بھی نوٹ کیا ہے۔  ایک دلخراش اور باعث ِ شرم حقیقت یہ ہے کہ بچوں پر ہونے والے حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات ایک سنگین انسانی بحران کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے بچوں کے ادارے (UNICEF) سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے رپورٹ کیا ہے کہ ہزاروں سے زائد بچے اس جنگ میں مارے یا شدید زخمی ہوئے۔

 

غزہ کی شہداء، زخمی اور انسانی نقصان (تفصیلی اعداد): غزہ کی وزارتِ صحت اور اقوامِ متحدہ کے مطابق: 67,173 فلسطینی شہید ہوئے (7 اکتوبر 2023 سے 7 اکتوبر 2025 تک) 169,780 زخمی ہوئے۔ ان شہداء میں: 17,921 بچے (31 فی صد)۔ 9,497 خواتین (16  فی صد)۔ 26,655 مرد (46 فی صد)۔ 4,307 بزرگ (7 فی صد) شامل ہیں۔ کم از کم 28,000 خواتین و لڑکیاں شہید ہوئیں (UN Women، مئی 2025)• 15,613 بچے تصدیق شدہ طور پر قتل کیے گئے (UN Commission of Inquiry)۔ 227 صحافی شہید ہوئے، جن میں 30 خواتین شامل ہیں۔ 62,000 سے زائد افراد قحط، بھوک، طبی کمی یا ثانوی اسباب سے جان بحق ہوئے (Brown University – Costs of War Project)۔ ’’Nature‘‘ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق بالواسطہ و بلاواسطہ اموات 84,000 سے تجاوز کر چکی ہیں وزارت صحت نے بتایا کہ: اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ 851 افراد وہ ہیں جو خوراک یا امداد لینے جاتے ہوئے شہید ہوئے اور 5,634 زخمی ہوئے ہیں۔

 

شہداء بچوں کی تعداد اور تعلیم کا نقصان: کمیشن ِ تحقیق ِ بین الاقوامی نے اپنی رپورٹ میں درج کیا ہے کہ 15,613 بچے کا تصدیق شدہ شمار 7 اکتوبر کے بعد سے قتل کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بتایا گیا ہے کہ غزہ میں 658,000 طلبہ ایسے ہیں جنہیں تعلیم تک رسائی سے محروم ہونا پڑا۔ انسانی بحران اور تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر۔ 2.1 ملین افراد (غزہ کی 95 فی صد آبادی) بے گھر ہو چکے ہیں۔ 193,000 عمارتیں تباہ یا شدید نقصان کا شکار ہیں۔ 90 فی صد تعلیمی ادارے ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ 14 اسپتال جزوی طور پر فعال ہیں۔ باقی مکمل طور پر بند یا تباہ ہو چکے ہیں۔ 658,000 طلبہ تعلیم سے محروم ہیں۔ بجلی، پانی، دوا، خوراک سب بند۔ 18 مارچ 2025 کو ایک ہی روز میں 413 افراد شہید ہوئے جن میں 174 بچے شامل تھے۔ جون 2025 میں خوراک لینے والوں پر ٹینک حملے میں 70 افراد مارے گئے۔ یہ وہ اعداد نہیں جو محض خبر ہیں، یہ انسانیت کی مجموعی ناکامی کا اعلان ہیں۔

 

اخلاقی و قانونی پہلو: بین الاقوامی قانون کی رو سے اجتماعی سزا (Collective Punishment)، شہری آبادی پر بمباری، اور ناکہ بندی جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ (A/HRC/59/26) کے مطابق، اسرائیل کے اقدامات ’’نسلی تطہیر‘‘ (Ethnic Cleansing) کے قریب تر ہیں۔ مزید یہ کہ عالمی عدالت ِ انصاف (ICJ) نے مئی 2024 میں ایک عبوری حکم میں کہ ’’There is a plausible risk of genocide being committed in Gaza.‘‘ یہ جملہ دنیا کے انصاف کے نظام کے لیے آئینہ ہے۔ یہاں اہم فرق کو اجاگر کرنا ضروری ہے: 7 اکتوبر کے پیچھے پہلے سے جاری محاصرہ، اور غیر انسانی رویہ جس کا سامنا اہل غزہ پچھلی دو دہائیوں سے کر رہے تھے کا فطری نتیجہ تھا۔ یعنی غزہ میں انسانی ستم صرف ایک واقعے کا نتیجہ نہیں، بلکہ برسوں کے شکنجہ بند نظام کا نتیجہ بھی ہے۔ اہل غزہ ظلم اور جبر کے سامنے سر بسجود ہونے کے بجائے انتہائی بے سروسامانی میں اپنے حق کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طری نبردازما ہونے کا فیصلہ کیا اور اسی عزم نے 7 اکتوبر کے بعد جو تاریخی ردِ عمل پیدا کیا اس کی بنیاد رکھی۔ اور پوری دنیا کے انصاف پسند لوگ بلا تمیز مذہب ودین اہل غزہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔

 

جنگ بندی کا اعلان، چاہے وقتی ہو، مگر اس کے معانی عمیق ہیں: اس نے دنیا کے سامنے یہ واضح کر دیا کہ طاقت کے ظاہری وسائل، ہتھیار، اور سفارتی پشت پناہی کسی قوم کے ضمیر اور نصب العین کو مکمل طور پر مٹانے کے لیے کافی نہیں۔ اسی دوران ان بین الاقوامی اداروں، حکومتوں اور تنظیموں کی اخلاقی ذمے داری بھی نمایاں ہوئی جنہوں نے انسانی حقوق کے دعووں کے باوجود خاموشی اختیار رکھی یا دوہرے معیار اپنائے اور یہ تضاد عوامی توجہ کا مرکز بنا۔ آج جب جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے، تو یہ محض عسکری وقفہ نہیں بلکہ ضمیر کی فتح ہے۔ اہل ِ غزہ نے دنیا کو دکھا دیا کہ ایمان کی طاقت، قربانی، اور عزمِ استقامت سے وہ کچھ ممکن ہے جو جدید اسلحہ سے ممکن نہیں۔ ان کے لہو نے ان تمام اداروں کے چہرے سے نقاب نوچ دیا جو ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام پر خاموش تماشائی بنے رہے۔

 

آخر میں، اہل غزہ کے ساتھ یکجہتی کا تقاضا ہے کہ ہم انصاف، انسانی امداد، اور مستقل سیاسی حل کے لیے آواز اٹھائیں اور غزہ کی تعمیر نو میں اپنا حصہ ڈالیں غزہ انسانی حقوق اور عالمی انصاف کے تساؤلات کا سنگم ہے؛ 7 اکتوبر کے بعد جو منظرنامہ سامنے آیا، وہ محض فوجی میدان تک محدود نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور اخلاقی اندازِ جنگ کا نتیجہ ہے اور آج جو جنگ بندی ہے، وہ ایک وقتی سانس بھی ہے اور آئندہ کے لیے فیصلہ کن لمحہ بھی۔

جاوید الرحمن ترابی

متعلقہ مضامین

  • آزادی، عدل ، انسانی وقار کی جنگ اور27اکتوبر
  • ’’کھلے آسمان کے نیچے قید خانہ‘‘
  • خیبر پختونخوا اسمبلی نے پشتو، ہندکو اور انگریزی کے بعد ایک زبان کو قواعد و ضوابط میں شامل کردیا
  • خیبر پختونخوا اسمبلی نے گوجری زبان کو پارلیمانی زبان قرار دینے کی منظوری دیدی
  • میٹا نے پاکستان میں اپنی مصنوعی ذہانت ’میٹا اے آئی‘ کا اردو ورژن لانچ کردیا
  • خیبرپختونخوا اسمبلی نے پشتو، ہندکو اور انگریزی کے بعد ایک زبان کو قواعد و ضوابط میں شامل کردیا
  • دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر
  • جان کاشمیری کی نعتیہ شاعری
  • ٹیکنالوجی ایک طاقتور حلیف لیکن انسانی فیصلے اور ہمدردی کی جگہ نہیں لے سکتی، جسٹس سوریا کانت