’’کھلے آسمان کے نیچے قید خانہ‘‘
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251028-03-6
جاوید الرحمن ترابی
الْحَمْدُللہ غزہ کی سرزمین نے ایک طویل، صبرآزما خونیں اور طویل جنگ، بے مثال صبر اور عظیم عزم کے بعد، وہ ثابت کر دیا جو کسی نے شاید تصور بھی نہ کیا تھا: اہل ِ غزہ کے حوصلے اور ایمان کی قوت کسی بھی عسکری یا سیاسی دباؤ سے مغلوب نہیں ہو سکی وہی قوت جو عالمی سطح پر خوف و دہشت کی علامت سمجھی جاتی تھی ایک ایسا ملک جس کے پیچھے عالمی قوتیں، جدید ہتھیار اور غیر مشروط حمایت میں کھڑی تھیں اور جو حماس کو صفحہ ہستی مٹانا چاہتی تھی اس طاقت کو اسی حماس سے بالواسطہ مذاکرات کر کے معاملات طے کرنے پڑے جو قوت سب کے لیے ناقابل تسخیر تھے حماس نے اسے اپنی قوت ایمانی جذبہ جہاد سے قابل تسخیر ثابت کیا اسرائیل ان بے سروسامان مجاہدین کا مقابلہ تو نہ کرسکا البتہ اس نے اہل غزہ پر ظلم وستم کے پہاڑ گرا دیے وہ غزہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے مختلف شکلوں میں ناکہ بندی، محاصرے اور اقتصادی بائکاٹ کا سامنا کر رہا تھا۔ جون 2007 کے بعد، جب حماس نے غزہ کا کنٹرول سنبھالا، تو اس علاقے پر زمینی، بحری اور فضائی سطح پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ ایک ایسا محاصرہ جس نے لوگوں کی آمد ورفت، تجارت، طبی امداد اور تعمیراتی سامان تک رسائی کو شدید حد تک محدود کر دیا۔ اس محاصرے نے غزہ کو ایک ’’کھلے آسمان کے نیچے قید خانہ‘‘ کی کیفیت میں ڈال دیا، جس کے سنگین معاشی، طبی اور سماجی نتیجے سامنے آئے۔
جون 2007 میں جب حماس نے غزہ پر انتظامی کنٹرول حاصل کیا تو اسرائیل نے اس پٹی پر زمینی، فضائی اور بحری محاصرہ مسلط کر دیا۔ جو آج 18 سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کئی بار کہا کہ یہ محاصرہ غزہ کو ایک ’’کھلے آسمان کے نیچے قید خانہ‘‘ میں بدل چکا ہے۔ 2008، 2012، 2014، 2021 اور پھر 2023 میں اسرائیل نے غزہ پر شدید حملے کیے جن میں ہزاروں شہری شہید اور زخمی ہوئے محاصرہ اس حد تک تھا کہ: خوراک، ایندھن، اور طبی سامان کی فراہمی تقریباً مکمل بند رہی۔ مریضوں کو علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے کی اجازت شاذ و نادر ہی ملی۔ ماہی گیری اور زراعت تباہ، روزگار ختم، اور شرحِ غربت 70 فی صد سے تجاوز کر گئی۔ تعلیمی ادارے مسلسل خطرے میں رہے، اور نئی نسل مایوسی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ یہ تمام عوامل ایک ’’خاموش نسل کشی‘‘ (Slow Genocide) کی شکل میں جاری رہے۔ جس نے 7 اکتوبر کے دھماکا خیز مرحلے کی بنیاد رکھی۔
اس طویل محاصرے کی وجہ سے نہ صرف بنیادی ضروریات کی فراہمی متاثر ہوئی بلکہ طبی نظام بھی مستقل دباؤ کا شکار رہا۔ اقوامِ متحدہ اور امدادی اداروں نے بارہا انتباہ دیا کہ اس نوعیت کی پابندیوں کے نتیجے میں بچوں، ماؤں اور ضعیف طبقات کی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں۔ مثال کے طور پر، سردیوں میں متعدد تازہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ رہائش، حرارت یا طبی سہولتوں کی کمی سے نومولود بھی قار و برف یا سردی کے باعث جان سے گئے۔ پھر 7 اکتوبر 2023 کا واقعہ آیا 7 اکتوبر 2023 کو طوفانِ اقصیٰ کے نام سے فلسطینی مزاحمت نے ایک فیصلہ کن قدم اٹھایا۔ ایک ایسا قدم جو اس طویل ذلت اور محاصرے کے خلاف صدیوں کی چیخ بن گیا۔ اس کے بعد جو اسرائیلی ردِ عمل آیا، وہ انسانی تاریخ کی بدترین تباہیوں میں شمار ہوتا ہے۔ دو سالہ جنگی دورانیے (اکتوبر 2023 تا اکتوبر 2025) میں غزہ مکمل طور پر ملبے میں بدل دیا گیا جس نے خطے کی جغرافیائی و سیاسی ترتیب کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد جو شدت اور دورانیہ کے ساتھ حملے، محاصرہ، اور انسانی المیے دیکھنے میں آئے، ان کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا۔ عینی شاہد اور ادارہ جاتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 7 اکتوبر 2023 سے لے کر 7 اکتوبر 2025 تک، غزہ میں ہلاک شدگان کی تعداد 67,173 کے قریب ہے اور زخمیوں کی تعداد 169,780 کے آس پاس رجسٹرڈ کی گئی۔ یہ اعداد مقامی وزارتِ صحت کی رپورٹس پر مبنی ہیں جنہیں انسانی ایجنسیوں نے بھی نوٹ کیا ہے۔ ایک دلخراش اور باعث ِ شرم حقیقت یہ ہے کہ بچوں پر ہونے والے حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات ایک سنگین انسانی بحران کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے بچوں کے ادارے (UNICEF) سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے رپورٹ کیا ہے کہ ہزاروں سے زائد بچے اس جنگ میں مارے یا شدید زخمی ہوئے۔
غزہ کی شہداء، زخمی اور انسانی نقصان (تفصیلی اعداد): غزہ کی وزارتِ صحت اور اقوامِ متحدہ کے مطابق: 67,173 فلسطینی شہید ہوئے (7 اکتوبر 2023 سے 7 اکتوبر 2025 تک) 169,780 زخمی ہوئے۔ ان شہداء میں: 17,921 بچے (31 فی صد)۔ 9,497 خواتین (16 فی صد)۔ 26,655 مرد (46 فی صد)۔ 4,307 بزرگ (7 فی صد) شامل ہیں۔ کم از کم 28,000 خواتین و لڑکیاں شہید ہوئیں (UN Women، مئی 2025)• 15,613 بچے تصدیق شدہ طور پر قتل کیے گئے (UN Commission of Inquiry)۔ 227 صحافی شہید ہوئے، جن میں 30 خواتین شامل ہیں۔ 62,000 سے زائد افراد قحط، بھوک، طبی کمی یا ثانوی اسباب سے جان بحق ہوئے (Brown University – Costs of War Project)۔ ’’Nature‘‘ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق بالواسطہ و بلاواسطہ اموات 84,000 سے تجاوز کر چکی ہیں وزارت صحت نے بتایا کہ: اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ 851 افراد وہ ہیں جو خوراک یا امداد لینے جاتے ہوئے شہید ہوئے اور 5,634 زخمی ہوئے ہیں۔
شہداء بچوں کی تعداد اور تعلیم کا نقصان: کمیشن ِ تحقیق ِ بین الاقوامی نے اپنی رپورٹ میں درج کیا ہے کہ 15,613 بچے کا تصدیق شدہ شمار 7 اکتوبر کے بعد سے قتل کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بتایا گیا ہے کہ غزہ میں 658,000 طلبہ ایسے ہیں جنہیں تعلیم تک رسائی سے محروم ہونا پڑا۔ انسانی بحران اور تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر۔ 2.
اخلاقی و قانونی پہلو: بین الاقوامی قانون کی رو سے اجتماعی سزا (Collective Punishment)، شہری آبادی پر بمباری، اور ناکہ بندی جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ (A/HRC/59/26) کے مطابق، اسرائیل کے اقدامات ’’نسلی تطہیر‘‘ (Ethnic Cleansing) کے قریب تر ہیں۔ مزید یہ کہ عالمی عدالت ِ انصاف (ICJ) نے مئی 2024 میں ایک عبوری حکم میں کہ ’’There is a plausible risk of genocide being committed in Gaza.‘‘ یہ جملہ دنیا کے انصاف کے نظام کے لیے آئینہ ہے۔ یہاں اہم فرق کو اجاگر کرنا ضروری ہے: 7 اکتوبر کے پیچھے پہلے سے جاری محاصرہ، اور غیر انسانی رویہ جس کا سامنا اہل غزہ پچھلی دو دہائیوں سے کر رہے تھے کا فطری نتیجہ تھا۔ یعنی غزہ میں انسانی ستم صرف ایک واقعے کا نتیجہ نہیں، بلکہ برسوں کے شکنجہ بند نظام کا نتیجہ بھی ہے۔ اہل غزہ ظلم اور جبر کے سامنے سر بسجود ہونے کے بجائے انتہائی بے سروسامانی میں اپنے حق کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طری نبردازما ہونے کا فیصلہ کیا اور اسی عزم نے 7 اکتوبر کے بعد جو تاریخی ردِ عمل پیدا کیا اس کی بنیاد رکھی۔ اور پوری دنیا کے انصاف پسند لوگ بلا تمیز مذہب ودین اہل غزہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
جنگ بندی کا اعلان، چاہے وقتی ہو، مگر اس کے معانی عمیق ہیں: اس نے دنیا کے سامنے یہ واضح کر دیا کہ طاقت کے ظاہری وسائل، ہتھیار، اور سفارتی پشت پناہی کسی قوم کے ضمیر اور نصب العین کو مکمل طور پر مٹانے کے لیے کافی نہیں۔ اسی دوران ان بین الاقوامی اداروں، حکومتوں اور تنظیموں کی اخلاقی ذمے داری بھی نمایاں ہوئی جنہوں نے انسانی حقوق کے دعووں کے باوجود خاموشی اختیار رکھی یا دوہرے معیار اپنائے اور یہ تضاد عوامی توجہ کا مرکز بنا۔ آج جب جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے، تو یہ محض عسکری وقفہ نہیں بلکہ ضمیر کی فتح ہے۔ اہل ِ غزہ نے دنیا کو دکھا دیا کہ ایمان کی طاقت، قربانی، اور عزمِ استقامت سے وہ کچھ ممکن ہے جو جدید اسلحہ سے ممکن نہیں۔ ان کے لہو نے ان تمام اداروں کے چہرے سے نقاب نوچ دیا جو ’’انسانی حقوق‘‘ کے نام پر خاموش تماشائی بنے رہے۔
آخر میں، اہل غزہ کے ساتھ یکجہتی کا تقاضا ہے کہ ہم انصاف، انسانی امداد، اور مستقل سیاسی حل کے لیے آواز اٹھائیں اور غزہ کی تعمیر نو میں اپنا حصہ ڈالیں غزہ انسانی حقوق اور عالمی انصاف کے تساؤلات کا سنگم ہے؛ 7 اکتوبر کے بعد جو منظرنامہ سامنے آیا، وہ محض فوجی میدان تک محدود نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور اخلاقی اندازِ جنگ کا نتیجہ ہے اور آج جو جنگ بندی ہے، وہ ایک وقتی سانس بھی ہے اور آئندہ کے لیے فیصلہ کن لمحہ بھی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی اکتوبر کے زخمی ہوئے شہید ہوئے اکتوبر 2023 کے بعد جو اہل غزہ غزہ کی کو ایک کر دیا کے لیے
پڑھیں:
غزہ: بنا پھٹے اسرائیلی بم انسانی جانوں کیلئے خطرہ
غزہ میں 2 سال تک جاری رہنے والی جنگ میں اسرائیل کی جانب سے پھینکا گیا بارود جنگ ختم ہونے کے بعد بھی انسانی جانوں کے لیے مستقل خطرہ بنا ہوا ہے۔
عرب میڈیا کے مطابق غزہ شہر کے میئر نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے لگنے والی پابندیوں کے سبب اس علاقے میں ہیوی مشینری نہیں پہنچ پارہی، جس کے بغیر ملبے کو ہٹانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
میئر یحییٰ السراج نے بتایا کہ ہمیں اس کام کے لیے کم از کم 250 مختلف اقسام کی بھاری گاڑیوں اور 1 ہزار ٹن سیمنٹ کی ضرورت ہے تاکہ پانی کی فراہمی و نکاس کا بندوبست کرسکیں۔
میڈیا کے مطابق بھاری مشینری کی حامل صرف 6 گاڑیاں غزہ پہنچی ہیں جنہیں صرف اسرائیلی یرغمالیوں کی تلاش میں وقف کردیا گیا ہے، جبکہ اندازاً 9 ہزار فلسطینی اب بھی ملبے تلے دفن ہیں، جن کہ چاہنے والے اب بھی ان کو ملبے سے اٹھانا چاہتے ہیں لیکن وہ ابھی تک ترجیحات میں شامل نہیں ہوسکیں ہیں۔