Express News:
2025-10-26@23:49:12 GMT

دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر

اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT

پاکستان نے مذاکرات کے دوسرے دور میں افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کا جامع پلان افغانستان کے حوالے کردیا ہے۔ پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا۔ طالبان حکام پاکستانی تجویز پر غور و خوض جاری رکھیں گے۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری تنازعات کو بخوبی حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم فی الحال انھیں اس میں مداخلت کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی جب کہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں معاہدے پر نہ پہنچنے کا مطلب ’’ کھلی جنگ‘‘ ہوگا، میرے خیال میں افغانستان امن چاہتا ہے۔

 استنبول میں پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور کی خبروں نے ملک بھر میں ایک مضبوط امید اور اسی کے ساتھ خوف کی کیفیت پیدا کی ہے۔ یہ مذاکرات نہ صرف سرحدی تحفظ اور دہشت گردی کے خاتمے کے روایتی مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے پیچیدہ اور متعدد جہتی تنازع کے حل کی آخری کوششوں میں سے ایک نظر آتے ہیں۔

پاکستان کی نمایندہ ٹیم نے جو جامع مسودہ افغان حکام کو پیش کیا ہے، وہ دراصل کئی دہائیوں کے کڑے تجربات، قربانیوں اور قومی مفادات کا مخلوط عکس ہے۔ اس مسودے کی نوعیت، اس میں موجود مطالبات اور ان مطالبات کے نفاذ کے طریق کار پر غور و فکر کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کا اثر ہماری قومی سلامتی، معیشت، سرحدی برآمدات، علاقائی تعلقات اور انسانی فلاح و بہبود پر پڑ سکتا ہے۔

پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان کا بنیادی سوال کیا ہے، اگرچہ سادہ الفاظ میں یہ مطالبہ دہشت گردی اور تربیتی کیمپوں کے خاتمے کا ہے، مگر حقیقت میں یہ موقف سرحدی خود مختاری، ریاستی سلامتی اور شہری تحفظ کا مرکب ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں سرحدی علاقوں میں ہونے والے حملے، شکنجے میں آتی ہوئی فوجی اور سویلین جانوں کی قربانیاں، قبائلی علاقوں میں تباہ کاری اور سرحد پار سے آنے والی سرکشی نے پاکستانی عوام میں ایک طویل عرصے تک جاری عدم برداشت پیدا کردی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری افواج اور حکومت اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے رکھتی ہیں۔ استنبول مذاکرات میں پیش کیا گیا جامع مسودہ دراصل ان مطالبات کا ایک منظم اور دستاویزی اظہار ہے جس میں ممکنہ طور پر دہشت گرد گروہوں کی شناخت، ان کے ٹھکانوں کی فہرست، تربیتی اور مالی نیٹ ورکس، ان کے کمانڈ و کنٹرول کے طریقے اور ان گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کے لیے مشترکہ طریقہ کار شامل ہوگا، مگر یہ تمام تکنیکی اور عملی پہلو جتنا ضروری ہے، اتنا ہی سیاسی اور اخلاقی پہلو بھی ہے جنھیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

سرحدی بندشیں اور تجارتی راہداریاں بند ہونے کی صورتحال نے ایک الگ قسم کا بحران پیدا کیا ہے۔ چمن، خیبر، جنوبی و شمالی وزیرستان اور ضلع کرم کی سرحدی راہداریاں چودہویں روز بھی بند ہیں اور باب دوستی طورخم، خرلاچی، انگور اڈہ اور غلام خان کے راستوں پر سیکڑوں مال بردار گاڑیاں پاکستان میں داخل ہونے کی منتظر ہیں۔ یہ محض تجارتی تاخیر نہیں، بلکہ روزمرہ کے سامان، صنعت کے خام مال، چھوٹے تاجروں کی آمدنی، روزگار کے مواقع اور بالواسطہ طور پر پوری علاقائی معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے۔

سرحدی تجارتی راہداریوں کی بندش سے مقامی لوگوں کی آمدنی متاثر ہوتی ہے، اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھتی ہیں، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار مشکلات میں آجاتے ہیں اور بڑے پیمانے پر معاشی سست روی پیدا ہوتی ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی بھی علامت ہے کہ اگر تصادم بڑھا تو اس کے اثرات صرف عسکری یا سیاسی میدان تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عوامی سطح پر ایک وسیع بحران جنم لے گا، جس کی تلافی برسوں لے سکتی ہے۔

 مزید ایک پہلو انسانی ہمدردی کا ہے۔ پاکستان میں چار دہائیوں سے زائد عرصے سے لاکھوں افغان مہاجرین آباد ہیں، جن میں کئی خاندانوں کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھ چکی ہیں۔ یہ مہاجرین ہماری قوم کے مہمان بنے، ہمارے محلے میں بسے اور ہمارے اقتصادی و سماجی دھارے کا حصہ بن گئے۔ وزیر دفاع کے اس بیان میں جہاں اس مہمان نوازی کی یاد دہانی کی گئی، وہیں یہ بھی بتایا گیا کہ کئی نسلیں یہاں جوان ہو چکی ہیں اور اب انھیں دہشت گردی کے خلاف جانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

افغان مہاجرین کو بطور انسانی ہمدردی کے ساتھ دیکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں انصاف، حقوق اور تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ریاست اپنے حقِ دفاع سے دستبردار ہو جائے، بلکہ یہ ضروری ہے کہ کسی بھی کارروائی میں عام افراد اور غیر جنگجو مہاجرین کو نقصان نہ پہنچے۔ اس تناظر میں عالمی انسانی تنظیموں اور مقامی سول سوسائٹی کا کردار کلیدی ہوگا کہ وہ سرحدی صورتحال میں انسانی حقوق اور بنیادی ضروریات کا تحفظ یقینی بنائیں۔

بیرونی شخصیات کا کردار بھی اس پورے معاملے کی پیچیدگی کو بڑھاتا ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات میں اس بات کا تاثر ملتا ہے کہ وہ اس تنازعے کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر فی الوقت مداخلت کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔ یہ کہاوت بذات خود کئی معنی رکھتی ہے۔ ایک طرف امریکا کی غیر مداخلت سے پاک افغان تنازع کے حل سازی پر ازخود خطے کے ممالک کو زیادہ خود مختاری مل سکتی ہے، مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی طاقتوں کی مداخلت یا ثالثی کبھی کبھار مسئلے کے حل میں مدد دیتی ہے۔

امریکا نے ماضی میں خطے میں مختلف مواقع پر مداخلتیں کیں اور ان کا اثر متنازع رہا ہے، کسی بھی بیرونی مداخلت کو نہایت دانشمندی اور خطے کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہوئے اختیار کرنا ہوگا۔ مزید یہ کہ ریاستیں جب بھی کسی مسئلے میں ثالثی کرتی ہیں تو ان کی داخلی پالیسی، داخلی مفادات اور علاقائی مفاہمتیں بھی اثر انداز ہوتی ہیں، اس لیے پاکستان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ علاقائی اور عالمی سطح پر ایسے اتحادیوں کی تلاش کرے جو اس کے قومی مفادات کو سمجھیں اور مذاکرات کی نجی نوعیت کو قائم رکھیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف کے سخت الفاظ، جو انھوں نے مذاکرات ناکام ہونے پر ’’کھلی جنگ‘‘ کے امکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استعمال کیے، ایک سنجیدہ و باریک بین پیغام ہے۔ یہ بیان دو حوالے سے اہم ہے۔ ایک، یہ داخلی نکتہ نظر سے عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ حکومت اور فوج مسائل کی سنگینی سے پوری طرح آگاہ ہیں اور لازم ہوا تو سخت قدم اٹھائے جائیں گے، دوسرا، یہ بیرونی فریقین، خاص طور پر بھارت کو ایک واضح انتباہ بھی ہے کہ پاکستان اپنی سرحدی سالمیت اور قومی مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

  استنبول میں ہونے والی مذاکراتی نشست میں ترکیہ اور قطر کا ثالثی کردار بھی اہم رہا ہے۔ قطر اور ترکیہ نے ماضی میں متعدد بار خطے میں ثالثی کے مثبت تجربات دیے ہیں اور ان کی شمولیت اس عمل کو بین الاقوامی حیثیت بھی دیتی ہے، یقینی شفافیت اور موثر مانیٹرنگ وہ کلیدی عناصر ہیں جو کسی بھی معاہدے کی کامیابی میں کردار ادا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے جتنی جلد ممکن ہو ایسا میکنزم تیار کیا جائے جو تیکنیکی اعتبار سے قابلِ تصدیق، غیر جانبدار اداروں کی نگرانی میں ہو اور جسے دونوں فریق قبول کریں۔

اس میں سیٹلائٹ نگرانی، مشترکہ انٹیلی جنس تبادلہ، مقامی کمیونٹی کی شمولیت، اور اقوامِ متحدہ یا دیگر بین الاقوامی اداروں کی شمولیت شامل ہو سکتی ہے تاکہ نفاذ کو شفاف بنایا جا سکے۔ دوسری جانب عالمی برادری کی موجودگی اور رد عمل بھی اہم ہے۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور دوسری بین الاقوامی تنظیمیں اس معاملے میں انسانی حقوق، مہاجرین کے تحفظ اور مذاکراتی عمل کی حمایت کے حوالے سے مناسب اقدامات کر سکتی ہیں۔

انسانی بنیادوں پر مدد، پناہ گزینوں کے حقوق کی حفاظت اور انسانی امداد کی فراہمی ایسی اہم چیزیں ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ مسئلے کے حل میں معاون اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور ترقیاتی بینک طویل المدتی ترقیاتی پیکیجز میں حصہ لے کر سرحدی علاقوں کی معیشت کو مضبوط بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ امن کی کوششیں صرف سرحدی اور عسکری حل تک محدود نہیں رہ سکتیں۔ ایک پائیدار امن کے لیے سیاسی حل، اقتصادی ترقی، تعلیمی اور سماجی شمولیت لازمی ہیں۔ افغان مسئلے کی ساخت میں نسلی، قبائلی اور تاریخی عوامل اہم ہیں۔

اس لیے مذاکرات میں ایسے شقوں کو شامل کیا جانا چاہیے جن میں مقامی رہنماؤں کی شمولیت، ان علاقوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور نوجوانوں کو انتہا پسندی سے دور رکھنے کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع شامل ہوں۔ اگر ہم اس موقع کو صحیح انداز میں استعمال کریں اور مذاکراتی میز کے ساتھ ساتھ داخلی استحکام، شفافیت، انسانی حقوق کے تحفظ، اور علاقائی تعاون کو مضبوط کریں تو یہ ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے جس میں نہ صرف سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوگا بلکہ دو پڑوسی ممالک کے درمیان دیرپا باہمی اعتماد کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی استنبول میں کے درمیان کی شمولیت ضروری ہے کسی بھی ہیں اور سکتی ہے کیا جا کے لیے میں ہو اور ان

پڑھیں:

استنبول میں پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور شروع، دوحا معاہدے پر پیش رفت کا جائزہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

استنبول : ترکیہ کی میزبانی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری امن مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں شروع ہوگیا، جس میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح وفود علاقائی سلامتی، سرحدی تعاون اور دوحا معاہدے پر پیش رفت کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ مذاکرات اس وقت ہو رہے ہیں جب دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور متعدد راہداریاں بدستور بند ہیں۔

ذرائع کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق استنبول کے ایک مقامی ہوٹل میں ہونے والے مذاکرات میں طالبان حکومت کی نمائندگی افغان نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ مجیب کر رہے ہیں جب کہ ان کے ہمراہ افغان وزیر داخلہ کے بھائی انس حقانی، وزارت دفاع کے عہدیدار نور الرحمان نصرت، قطر میں افغان سفارت خانے کے قائم مقام سربراہ، نور احمد نور اور وزارت خارجہ کے ترجمان بھی شامل ہیں۔

افغان وفد کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پاکستان کے سیکورٹی خدشات اور سرحد پار حملوں سے متعلق اعتراضات پر تفصیلی موقف پیش کرے۔

پاکستان کی جانب سے سیکورٹی اداروں کے دو سینئر حکام مذاکرات میں شریک ہیں، جو سرحد پار حملوں، دہشت گردی کے خطرات اور دوطرفہ رابطہ نظام کو مؤثر بنانے کے لیے تجاویز پیش کر رہے ہیں۔

پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران زور دیا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان مخالف عناصر کے استعمال سے باز رکھے اور دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے مشترکہ میکنزم تشکیل دیا جائے۔

میڈیا ذرائع کے مطابق مذاکرات میں دوحا میں طے پانے والے نکات پر عمل درآمد کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ قطر میں ہونے والے پہلے دور کے دوران طالبان حکومت نے پاکستان کے مطالبے پر فائر بندی میں توسیع اور بعض سرحدی اقدامات پر آمادگی ظاہر کی تھی،تاہم حالیہ ہفتوں میں چمن، خیبر، شمالی و جنوبی وزیرستان اور ضلع کرم کے سرحدی راستوں پر دوبارہ کشیدگی نے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

پاکستانی حکام کے مطابق طورخم، بابِ دوستی، خرلاچی، انگور اڈہ اور غلام خان سمیت متعدد گزرگاہیں اب بھی بند ہیں، جہاں سیکڑوں تجارتی گاڑیاں دونوں جانب پھنس کر رہ گئی ہیں۔ ان بندشوں سے نہ صرف تجارت متاثر ہو رہی ہے بلکہ انسانی ہمدردی کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاک-افغان سرحد، دہشت گردی اور ٹرانزٹ ٹریڈ
  • دراندازی کے واقعات افغان حکومت کے ارادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہیں، پاک فوج
  • پاکستان نے افغان سرزمین سے دہشتگردی کے خاتمہ کا جامع پلان افغانستان کے حوالے کر دیا
  • پاکستان اور قازقستان کی افواج کے درمیان انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں مشترکہ مشق،آئی ایس پی ار
  • استنبول میں پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور شروع، دوحا معاہدے پر پیش رفت کا جائزہ
  • پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں آج ہو گا، سرحدی گزرگاہیں بدستور بند
  • پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات کا ترکیہ میں آج دوسرا دور، سرحدی گزرگاہیں بدستور بند 
  • پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات کا ترکیہ میں آج دوسرا دور، سرحدی گزرگاہیں بدستور بند
  • ملکی ترقی کی راہ میں اصل رکاوٹ