اسلام آباد میں گدھا کانفرنس ، محنت کش جانور کومعاشی اثاثہ تسلیم کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, September 2025 GMT
اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک منفرد اور غیر روایتی مگر نہایت سنجیدہ موضوع پر کانفرنس منعقد ہوئی، جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ گدھے کو صرف ایک محنت کش جانور نہیں بلکہ ایک معاشی اثاثہ کے طور پر تسلیم کیا جائے۔
یہ کانفرنس “ڈونکی ڈویلپمنٹ فورم” کے عنوان سے پاکستان اور چین کے اشتراک سے منعقد کی گئی، جس میں حکومتی نمائندوں، زرعی ماہرین، کاروباری وفود اور بین الاقوامی کمپنیوں نے شرکت کی۔
گدھا — دیہی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی
پاکستان میں گدھا عرصہ دراز سے محنت و مشقت کی علامت رہا ہے۔ چاہے وہ دیہی علاقوں میں کھاد اور فصلیں ڈھونا ہو، یا شہروں میں اینٹیں اور پانی پہنچانا—یہ جانور ہمیشہ انسانی بوجھ اٹھاتا رہا ہے۔
تاہم، معاشی سروے میں گدھوں کی تعداد کا ذکر اکثر مذاق کا موضوع بنتا رہا ہے، لیکن اس کانفرنس نے اس سوچ کو بدلنے کی عملی کوشش کی۔
کانفرنس کا مقصد: معیشت میں گدھوں کا فعال کردار
کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ گدھوں کو صرف مزدور جانور کے بجائے قومی معیشت کا حصہ سمجھا جائے۔
موضوعات میں شامل تھے، گدھوں کی بہتر افزائش، پرورش اور خوراک، امراض سے بچاؤ اور ویٹرنری سہولیات، بین الاقوامی مارکیٹ میں گدھے کی کھال اور مصنوعات کی برآمد
اختتامی اعلامیے میں غیر قانونی ذبح اور مصنوعات کی اسمگلنگ پر پابندی کا عہد کیا گیا، جبکہ اسلامی اصولوں کے مطابق تمام تجارتی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا فیصلہ بھی شامل تھا۔
چین کے ساتھ مشترکہ اقدامات: روزگار اور ترقی کے نئے مواقع
کانفرنس میں چائنا چیمبر آف کامرس ان پاکستان کے چیئرمین وانگ ہوئی ہوا نے کہا کہ سی پیک کے فریم ورک میں ’ڈونکی انڈسٹری ڈویلپمنٹ‘ ایک نیا باب ہے جو زرعی ترقی، کسانوں کی آمدنی میں اضافہ اور غربت کے خاتمے میں کردار ادا کرے گا۔
چین میں گدھے کی کھال سے بننے والی مشہور دوا اور کاسمیٹک مصنوعات ’ایجو‘ کی تیاری ایک اربوں ڈالر کی صنعت بن چکی ہے، جس میں پاکستان کو بھی شامل کرنے کی بھرپور تجویز دی گئی۔
اوورسیز چراگاہیںاور دیہی ترقی کا منصوبہ
چینی ماہرین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت پاکستان میں ‘اوورسیز چراگاہیں’ قائم کرنے کی تجویز بھی دی، جہاں گدھوں کی جدید بنیادوں پر افزائش اور ان کی مصنوعات کی صنعتی پروسیسنگ کی جا سکے گی۔
پاکستانی کسانوں کے لیے نئی امید
کانفرنس کے شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ گدھوں کے ساتھ وابستہ منصوبے دیہی خاندانوں کے لیے معاشی ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
کسان اپنی زمینوں کے ساتھ ساتھ اپنے پالتو جانوروں سے بھی آمدنی حاصل کر سکیں گے۔
یہ بھی تجویز دی گئی کہ گدھے کی صنعت سے وابستہ تمام منصوبوں میں مقامی افراد کو روزگار دیا جائے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
مالدیپ میں سگریٹ نوشی پر سخت پابندیوں کا آغاز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مالے (انٹرنیشنل ڈیسک) مالدیپ کی وزارتِ صحت نے کہا ہے کہ ہفتے کے روز سے جنوری 2007 ء کے بعد پیدا ہونے والے ہر فرد پر سگریٹ نوشی کی پابندی کا نفاذ شروع کر دیا گیا ہے۔ اس طرح وہ تمباکو نوشی پر نسلی پابندی کا حامل واحد ملک بن گیا ہے۔ یہ فیصلہ صدر محمد معز نے سال کے اوائل میں کیا تھا ،جو یکم نومبر سے نافذ العمل ہوا ہ اور صحت عامہ کی حفاظت اور تمباکو سے پاک نسل کو فروغ دے گا۔ وزارت نے کہا کہ نئی شق کے تحت یکم جنوری 2007 کو یا اس کے بعد پیدا ہونے والے افراد پر مالدیپ کے اندر تمباکو کی مصنوعات خریدنے، استعمال یا فروخت کرنے پر پابندی ہے۔ اس پابندی کا اطلاق تمباکو کی تمام اقسام پر ہوتا ہے اور خوردہ فروشوں کو فروخت سے قبل عمر کی تصدیق کرنی ہو گی۔اس اقدام کا اطلاق ملک کا دورہ کرنے والے زائرین پر بھی ہوتا ہے ۔ مالدیپ کے جزائر خط استوا کے اس پار تقریباً 800 کلومیٹر کے فاصلے پر بکھرے ہوئے ہیں۔وزارت نے کہا کہ الیکٹرانک سگریٹ اور ویپنگ مصنوعات کی درآمد، فروخت، تقسیم، قبضے میں رکھنے اور استعمال کرنے پر بھی جامع پابندی برقرار ہے جو عمر سے قطع نظر تمام افراد پر عائد ہوتی ہے۔ کسی کم عمر شخص کو تمباکو کی مصنوعات فروخت کرنے پر 50ہزار روفیا (3ہزار 200 ڈالر) جبکہ ویپ ڈیوائسز استعمال کرنے پر 5ہزار روفیا (320 ڈالر) جرمانہ نافذ ہے۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں تجویز کردہ ایسی ہی نسلی پابندی ابھی قانون سازی کے عمل سے گزر رہی ہے جبکہ نیوزی لینڈ نے اسے متعارف کروانے کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں نومبر 2023 ء میں منسوخ کر دیا تھا۔