خالد الحیا ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے قید و بند، ذاتی و خاندانی قربانیوں اور عسکری و سیاسی میدانوں میں مسلسل جدوجہد کے ذریعے اپنی حیثیت منوائی۔

آج بھی وہ حماس کی قیادت کے اگلے صف میں کھڑے تھے اور مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی سیاست میں ان کا کردار فیصلہ کن ثابت ہوسکتا تھا۔

ان کا پورا نام خالد اسماعیل ابراہیم الحیا تھا جب کہ وہ ابو اسامہ اور الخلیل الحیا کی عرفیت سے جانے جاتے تھے۔ 

وہ حماس کے اُن سینئر رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ تحریک کے سیاسی و عسکری ڈھانچے میں غیر معمولی اہمیت اختیار کرگئے تھے۔

اسماعیل ہنیہ اور یحییٰ سنوار کی شہادت کے بعد وہ تنظیم کی اعلیٰ قیادت میں سب سے نمایاں شخص کے طور پر ابھرے۔

الخلیل الحیا 5 نومبر 1960 کو غزہ میں پیدا ہوئے اور اسلامک یونیورسٹی سے 1983 میں بی اے اور 1989 میں یونیورسٹی آف اردن سے ایم اے کیا۔

بعد ازاں یونیورسٹی آف دی ہولی قرآن اینڈ اسلامک سائنسز، سوڈان سے 1997 میں حدیث اور سنت سائنسز میں پی ایچ ڈی کی۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ اسلامی یونیورسٹی غزہ میں تدریسی شعبے سے منسلک رہے اور 2001 میں ڈین آف اسٹوڈنٹ افیئرز کے عہدے پر فائز ہوئے۔

الخلیل الحیا جدوجہد آزادیٔ فلسطین کی تحریک سے 80 کی دہائی میں ہی منسلک ہوگئے تھے اور حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھی رہے۔

پھر وہ فلسطینی اسکالرز ایسوسی ایشن کے رکن بھی بنے۔ 2006 میں فلسطینی قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور "تبدیلی و اصلاح بلاک" کی قیادت کی۔

انھوں نے اپنے فہم و فراست اور سیاسی سمجھ بوجھ کی صلاحیتوں کے باعث حماس کے سیاسی بیورو میں شامل ہو کر عرب و اسلامی تعلقات اور میڈیا کے دفاتر کی سربراہی کی۔

انھوں نے 2012 اور 2014 کی جنگوں کے بعد جنگ بندی کے مذاکرات میں بھی مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ وہ عالمی قوتوں کے لیے سب سے قابل قبول قیادت تھے۔

بعد ازاں 2021 میں یحییٰ سنوار کے نائب مقرر ہوئے اور ان کی شہادت کے بعد غزہ میں تحریک کی قیادت سنبھالی۔

اس وقت وہ غزہ مذاکرات کے لیے حماس کی ٹیم کی قیادت کررہے تھے اور اسی سلسلے میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مقیم تھے۔

سیاسی تدبر کے ساتھ ساتھ وہ حماس کی عسکری مہمات میں بھی شریک رہے۔ اسرائیل میں 7 اکتوبر 2023 کے "طوفان الاقصیٰ" آپریشن کے مرکزی منصوبہ ساز بھی تصور کیے جاتے ہیں۔

وہ اس چھوٹے عسکری و سیاسی کونسل کا حصہ تھے جس نے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ خفیہ مشاورت بھی کی۔

اسی دوران ان کا کردار نمایاں ہوا اور وہ عالمی سطح پر حماس کے کلیدی ترجمان اور مذاکرات کار کے طور پر سامنے آئے۔

انہوں نے کئی مرتبہ جنگ بندی کے معاہدوں کا اعلان براہِ راست ٹی وی خطاب کے ذریعے کیا۔

ان خطابات میں انہوں نے حزب اللہ، انصار اللہ (حوثی)، ایران اور عراق کی مزاحمتی جماعتوں کے کردار کو سراہا۔

اپنی جدوجہد کے دوران الخلیل الحیا نے قید و صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ 90 کی دہائی میں تین سال اسرائیلی جیل میں قید رہے۔

2007 میں ایک حملے میں ان کے خاندان کے سات افراد شہید ہوگئے تھے۔ 2008 میں ان کا بیٹا حمزہ اسرائیلی ڈرون حملے میں شہید ہوا۔ 

اسی طرح 2014 کی جنگ میں ان کے بڑے بیٹے اسامہ، بہو اور تین پوتے شہید کر دیے گئے تھے۔

حالیہ جنگ میں اکتوبر 2023 میں اسرائیلی حملے میں ان کا گھر بھی تباہ کردیا گیا تھا۔

وہ اسرائیل کے متعدد قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے اور حماس میں ان کا قد مسلسل بڑھتا رہا۔

الخلیل الحیا اس وقت دوحہ اور قاہرہ میں "اسرائیل" کے ساتھ جاری بالواسطہ مذاکرات میں حماس کے اعلیٰ وفد کی قیادت کر رہے تھے۔

اسماعیل ہنیہ اور یحیٰی السنوار کی شہادتوں کے بعد انھیں ایران، قطر اور ترکی سمیت کئی خطے کے ممالک کی حمایت حاصل رہی ہے۔

رپورٹس کے مطابق حماس کی شوریٰ کونسل نے عارضی طور پر اجتماعی قیادت کا نظام تشکیل دیا تھا جس میں خالد الحیا نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

خیال رہے کہ اسرائیلی و عالمی تجزیہ کار الخلیل الحیا کو حماس کی مستقبل کی قیادت کے لیے متفقہ لیڈر کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران اور حزب اللہ سے گہرے تعلقات اور سیاسی مذاکرات میں تجربہ و مہارت الخلیل الحیا کو دوسرے رہنماؤں پر فوقیت دیتا تھا۔

تاہم مکار اسرائیل نے تمام تر بین الاقوامی قوانین کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک عظیم رہنما کو قطر میں نشانہ بناکر شہید کردیا۔

شہید الخلیل الحیا نے اپریل 2024 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر فلسطینی ریاست 1967 کی سرحدوں پر قائم ہو جائے تو حماس اپنی مسلح جدوجہد ختم کر کے ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

ان کی شہادت کے ساتھ ہی اسرائیل نے حماس کی جدوجہد کو سیاسی تحریک بننے کا ایک نادر موقع کھو دیا اور اب یہ تنظیم مزید مضبوطی سے ایک مزاحمتی جماعت بن کر ابھرے گی۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: الخلیل الحیا میں ان کا حملے میں کی قیادت حماس کی حماس کے کے ساتھ کے بعد

پڑھیں:

پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کمیٹیوں سے بھی مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ

پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے بعد پی ٹی آئی کا سینٹ کمیٹیوں سے بھی مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پارٹی قیادت کے فیصلے پر پی ٹی آئی کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر علی ظفر سینیٹرز کے استعفے جمع کرانے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آج اپنے پارٹی سینیٹرز کے کمیٹیوں سے استعفے جمع کرانے آیا ہوں، ہم نے تمام کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

بیرسٹر علی ظفر کی قیادت میں سینیٹرز کے استعفے چیئرمین سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرادیے گئے۔ جس کے بعد  پی ٹی آئی سینیٹرز کمیٹی اجلاسوں کا حصہ نہیں ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • حریت پسندکشمیری رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ  داعی اجل کو لبیک کہہ گئے
  • غزہ میں اسرائیلی حملے، 33 فلسطینی شہید، اسرائیل نے انخلا کے لیے عارضی راستہ کھول دیا
  • یورپی کمیشن کے آج ہونے والے اجلاس میں اسرائیل پر پابندیاں متوقع
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کمیٹیوں سے بھی مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ
  • پی ٹی آئی کے سینئر رہنما قاضی انور کی پارٹی قیادت پر تنقید
  • اسرائیلی وزیراعظم کی حماس رہنماؤں پر مزید حملے کرنے کی دھمکی
  • حماس کو عسکری اور سیاسی شکست نہیں دی جاسکتی: اسرائیلی آرمی چیف
  • عرب اسلامی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف مضبوط فیصلے کیے جائیں، سیکریٹری جنرل او آئی سی
  • حماس جہاں بھی ہو، ہم اُسے نشانہ بنائیں گے، نتین یاہو