کیریبین میں امریکہ کی نئی مہم جوئی
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: بیان شدہ تبدیلیوں کے تناظر میں امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے نافذالعمل عالمی نظام کو نہ صرف موثر نہیں سمجھتا بلکہ اسے ایک بیہودہ بوجھ بھی سمجھتا ہے کیونکہ اس کے دیرینہ اتحادیوں میں نہ صرف واشنگٹن کا فوجی میدان میں ساتھ دینے کی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ حتی اپنی حفاظت کرنے سے بھی عاجز ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا متنازعہ انداز میں امریکہ کا صدر منتخب ہو جانا بھی دراصل گذشتہ چند دہائیوں کے دوران خارجہ سیاست میں مسلسل ناکامیوں پر رائے عامہ کا ردعمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا نیا امریکہ تشکیل پا رہا ہے جو نہ تو گلوبلائزیشن پر یقین رکھتا ہے اور نہ ہی گوشہ گیر ہونا چاہتا ہے بلکہ ایک ایسی سرکش طاقت بننا چاہتا ہے جو وائٹ ہاوس کے مفادات کے علاوہ کسی چیز کا پابند نہ ہو۔ یوں امریکہ کے یکطرفہ اقدامات اور یکہ تازیوں میں مزید اضافہ ہونے کی توقع کرنی چاہیے۔ تحریر: سید رضا حسینی
بحیرہ کریبین ان دنوں 1989ء میں پاناما پر فوجی جارحیت کے بعد سے اب تک امریکہ کی سب سے بڑی فوج کشی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ بی بی ایس کے مطابق امریکی نیوی نے اس وقت 8 جنگی بحری جہاز وینزویلا کے قریب تعینات کر رکھے ہیں جن میں 10 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ اسی طرح یو ایس ایس جیرالڈ فورڈ جنگی طیارہ بردار جہاز بھی وینزویلا کے ساحل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ وائٹ ہاوس کی جانب سے اس عظیم فوج کشی کا بہانہ منشیات اسمگل کرنے والے مافیاز سے مقابلہ کرنا بیان کیا گیا ہے جبکہ اب تک وینزویلا کے ساحل کے قریب کئی کشتیوں کو نشانہ بھی بنایا جا چکا ہے جس میں دسیوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ کیریبین سی میں امریکہ کی اس فوجی مہم جوئی کے اہداف و مقاصد کچھ اور ہی ہیں۔
امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے سینیٹر ریک اسکاٹ نے اس بارے میں بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "اگر میں مادورو کی جگہ ہوتا تو اب تک چین یا روس کی طرف جا رہا ہوتا۔ وینزویلا کے اندر یا باہر اہم واقعات رونما ہونے والے ہیں اور مادورو کی حکومت گر جانے کے بعد کیوبا کا اختتام بھی ممکن ہو جائے گا۔" لیکن امریکہ کی جارحانہ خارجہ پالیسی صرف کاراکاس تک محدود نہیں ہے بلکہ برازیل سے آنے والی درآمدات پر 50 فیصد ٹیکس عائد کرنا، پاناما کینال پر قبضہ جمانے کی خواہش کا اظہار، ایکواڈور میں فوجی اڈہ بنانے کے امکان کا اظہار اور خاویر ملی کی حکومت کو مالی امداد کی فراہمی سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ روایتی مونرو ڈاکٹرائن کو دوبارہ زندہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس ڈاکٹرائن کی روشنی میں مشرقی طاقتوں کو امریکی اثرورسوخ والے علاقوں میں مداخلت سے باز رکھنا ہے۔
کاراکاس میں بلیک آپریشن
پالیسی سازی کے امور میں امریکی وزیر جنگ کے مشیر ایلبرج کولبی کی زیر نگرانی وضع کی گئی امریکہ کی نئی دفاعی پالیسی میں مغربی دنیا پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ لاطینی امریکہ میں تین قسم کی حکومتیں پائی جاتی ہیں: وینزویلا اور کیوبا جیسے ممالک سیکورٹی، نظریاتی اور اقتصادی شعبوں میں مشرقی طاقتوں سے قربتیں رکھنے والے ہیں، برازیل اور میکسیکو جیسے ممالک امریکہ کی فوجی طاقت کے لیے چیلنج بننے کے ساتھ ساتھ چین سے گہرے تعلقات رکھتے ہیں جبکہ باقی ممالک جیسے ارجنٹائن امریکہ کے زیر اثر ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کم اخراجات کے ذریعے خودمختار سوشلسٹ اور روس کے اتحادی ممالک خاص طور پر وینزویلا میں نکولاس مادورو کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ واشنگٹن کاراکاس میں رجیم چینج آپریشن کے ذریعے کیوبا کو تیل فراہمی کا راستہ بھی بند کر دینے کے درپے ہے اور یوں اسے امید ہے کہ 1959ء میں کاسترو کے انقلاب کے بعد آخرکار کیوبا بھی امریکہ کے زیر سایہ آ جائے گا۔
بیونس آئرس میں ٹرمپ ازم کی ترویج
لاطینی امریکہ میں اپنا اثرورسوخ دوبارہ بحال کرنے کے لیے واشنگٹن نے جو ہتھکنڈے استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے وہ صرف فوجی طاقت اور فوجی کاروائیوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ ٹرمپ ازم کی ترویج اور چین کا تجارتی اثرورسوخ کم کرنے کے لیے مالی امداد کی فراہمی بھی اس میں شامل ہے۔ اکونومسٹ کی رپورٹ کے مطابق ارجنٹائن میں پارلیمنٹ کے الیکشن قریب آنے پر ٹرم؛ حکومت نے اس ملک کی کرنسی پزو کو مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کی قیمت بہت زیادہ گر رہی ہے۔ امریکہ نے 20 ارب ڈالر کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ 5 ارب پزو خریدے بھی ہیں اور یوں ارجنٹائن کی معیشت مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ اقدامات خاویار میلی کی پارٹی کامیاب بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں جو ایک دائیں بازو کی جماعت ہے۔
سرکش طاقت
امریکہ کی خارجہ سیاست میں جارحانہ انداز کی اصل وجہ سرد جنگ کے بعد "لبرل عالمی نظام" متزلزل ہو جانا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین اور رشین فیڈریشن دو ابھرتی ہوئی نئی طاقتیں ہیں جنہوں نے انتہائی چالاکی سے ایسے وقت خود کو مضبوط بنایا جب امریکہ مغربی ایشیا میں نہ ختم ہونے والی جنگوں میں مصروف تھا۔ ان دونوں مشرقی طاقتوں نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز تجارت اور انرجی کو بنایا ہے اور 2008ء میں امریکہ کے نسبتاً زوال پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ یوریشیا سے لے کر بحر اوقیانوس تک نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کی کوشش کی ہے۔ چینی کمپنیوں نے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تعمیراتی اور سرمایہ کاری کے بڑے پراجیکٹس حاصل کیے جبکہ روس آرمی نے لاطینی امریکہ سے اسٹریٹجک معاہدے انجام دیے اور یوں دونوں نے امریکہ کے زیر اثر علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھایا ہے۔
بیان شدہ تبدیلیوں کے تناظر میں امریکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے نافذالعمل عالمی نظام کو نہ صرف موثر نہیں سمجھتا بلکہ اسے ایک بیہودہ بوجھ بھی سمجھتا ہے کیونکہ اس کے دیرینہ اتحادیوں میں نہ صرف واشنگٹن کا فوجی میدان میں ساتھ دینے کی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ حتی اپنی حفاظت کرنے سے بھی عاجز ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا متنازعہ انداز میں امریکہ کا صدر منتخب ہو جانا بھی دراصل گذشتہ چند دہائیوں کے دوران خارجہ سیاست میں مسلسل ناکامیوں پر رائے عامہ کا ردعمل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا نیا امریکہ تشکیل پا رہا ہے جو نہ تو گلوبلائزیشن پر یقین رکھتا ہے اور نہ ہی گوشہ گیر ہونا چاہتا ہے بلکہ ایک ایسی سرکش طاقت بننا چاہتا ہے جو وائٹ ہاوس کے مفادات کے علاوہ کسی چیز کا پابند نہ ہو۔ یوں امریکہ کے یکطرفہ اقدامات اور یکہ تازیوں میں مزید اضافہ ہونے کی توقع کرنی چاہیے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: وینزویلا کے ڈونلڈ ٹرمپ میں امریکہ امریکہ کی امریکہ کے چاہتا ہے ہے بلکہ ہے اور کے بعد جنگ کے رہا ہے کہ ایک کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ کے شخصی اقتدار کے خلاف احتجاج
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف امریکہ کی تمام 50ریاستوں میں ‘نوکنگز’کے نام سے مظاہرے نیو یارک، بوسٹن، لاس اینجلس، شکاگو سمیت دیگر ریاستوں میں 2 ہزار 700 مظاہرے ، یہ حکومت ظالمانہ اور آمرانہ ہے ، مظاہرین، ریپبلکن رہنماؤں نے مظاہروں کو ‘ہیٹ امریکہ ریلیاں’قرار دے دیا۔امریکہ کی سڑکوں پر ایک بار پھر وہی منظر ابھرا جب لوگ جمہوری جذبے سے لبریز ہو کر سڑکوں پر نکلے ۔ نعروں میں گونج تھا ”No Kings” یعنی ”کوئی بادشاہ نہیں”۔ یہ نعرہ محض ایک احتجاجی جملہ نہیں بلکہ اس احساس کا اظہار تھا کہ جمہوری نظام میں اگر طاقت کا توازن بگڑ جائے تو عوامی اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے ۔ مظاہرین کا ماننا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے دوران ریاستی طاقت کو ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی راہ پر گامزن ہیں، اور یہی طرزِ عمل ان مظاہروں کا بنیادی سبب بنا۔ ان مظاہروں کا پس منظر اچانک نہیں بلکہ کئی برسوں پر محیط ہے ۔ مختلف رپورٹس کے مطابق احتجاج کی شدت میں اضافہ اس وقت ہوا جب ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن پالیسی میں سختی کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر چھاپے مارنے شروع کیے ۔لاس اینجلسسمیت کئی شہروں میں فیڈرل ایجنسیاں گھروں، دفاتر اور کمیونٹی سینٹرز میں داخل ہوئیں، اور متعدد غیر ملکیوں کو حراست میں لے لیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق صرف ایک ہفتے میں تقریباً 7,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ یہ کارروائیاںآئی سی ای(امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ)کے اہلکاروں نے کیں، جنہوں نے عدالتوں، کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں تک چھاپے مارے ۔ اس سے نہ صرف خوف کی فضا پھیلی بلکہ عوام میں یہ احساس پیدا ہوا کہ حکومت طاقت کے غلط استعمال کی جانب بڑھ رہی ہے ۔
اسی دوران ایک اور پہلو نمایاں ہوا،جمہوری اداروں کی خودمختاری پر دباؤ۔ مظاہرین کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی عدلیہ کے فیصلوں کو بارہا نظرانداز کیا اور بعض مواقع پر ریاستی حکومتوں کے اختیارات میں مداخلت کی۔ مثال کے طور پر یونائیٹڈ اسٹیٹس نیشنل گارڈ کو لاس اینجلس میں مقامی انتظامیہ کی مرضی کے خلاف تعینات کیا گیا، جسے شہری حلقوں نے وفاقی زیادتی قرار دیا۔ اس واقعے نے احتجاج کو مزید شدت بخشی اور عوامی بحث میں یہ سوال گونجنے لگا کہ آیا ریاستی خودمختاری ختم ہو رہی ہے ؟
یہ مظاہرے صرف قانونی یا سیاسی نہیں بلکہ معاشرتی بھی تھے ۔ بہت سے امریکی شہریوں نے محسوس کیا کہ حکومت کی پالیسیاں نہ صرف امیگرینٹس بلکہ متوسط طبقے پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ Le Mondeایک مستند اور معروف فرانسیسی اخبار ہے، کی ایک رپورٹ کے مطابق 2025کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً 1.8ملین افراد اپنی نوکریوں سے محروم ہوئے ، جن میں اکثریت فیڈرل کنٹریکٹرز کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سماجی خدمات میں 20 فیصد تک کمی کی گئی جس سے غریب طبقات براہِ راست متاثر ہوئے ۔ عوام نے محسوس کیا کہ معیشت کے بوجھ تلے دبے معاشرے میں حکومت طاقت کی نمائش میں مصروف ہے ، عوامی فلاح پسِ پشت چلی گئی ہے ۔مظاہروں کا ایک اور محرک ٹرمپ کے طرزِ حکمرانی میں پایا جانے والا شخصی اقتدار تھا۔ ناقدین کے مطابق وہ ایک جمہوری صدر سے زیادہ خود کو ”قومی نجات دہندہ” کے طور پر پیش کر رہے تھے ۔ ان کے بیانات اور تقریریں، جن میں بارہا عدلیہ، میڈیا اور مخالفین کو ہدف بنایا گیا، امریکی عوام کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی بن گئیں۔ایسوی ایٹیڈ پریس کے مطابق جون 2025کے دوران صرف ایک ہفتے میں 14بڑے شہروں میں احتجاج ہوئے ، جن میںواشنگٹن،نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس، اور سان فرانسسکو نمایاں تھے۔ان مظاہروں کا مرکزی نعرہ” نو کنگز”تھا جو علامتی طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ امریکہ بادشاہت کے بجائے عوامی اقتدار کی بنیاد پر قائم ہوا۔ مظاہرین نے کہا کہ یہ ملک اس لیے بنا تھا کہ حکمران عوام کے خادم ہوں، آقا نہیں۔پبلک براڈکاسٹنگ سروس نیوز آورکے مطابق یہ نعرہ14 جون 2025 کو ٹرمپ کی اناسی ویں سالگرہ کے موقع پرہونے والی ملٹری پریڈ کے ردِعمل میں مقبول ہوا۔ مظاہرین نے اسے بادشاہانہ نمائش قرار دیا جو عوامی احساسات سے مطابقت نہیں رکھتی۔اسی دن کامن کاز آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر نے بیان دیا کہ یہ مظاہرے نفرت نہیں بلکہ حب الوطنی کے مظاہرے ہیں، یہ عوام کا مطالبہ ہے کہ طاقت عوام کے تابع رہے نہ کہ کسی فرد کے ۔ یہ جملہ اس تحریک کی روح کو واضح کرتا ہے ۔
اس تحریک میں امیگرینٹس، مزدور تنظیمیں، نسلی اقلیتیں، طلبہ گروپس اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شامل تھیں۔ ان سب کا مشترکہ نکتہ یہ تھا کہ حکومت نے امریکی آئین کی روح یعنی مساوات، آزادیِ اظہار اور شہری آزادیوں کو محدود کیا ہے ۔ مظاہرین نے میڈیا کی آزادی پر قدغنوں اور صحافیوں کے خلاف بیانات کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد پریس کو دبانا جمہوری زوال کی علامت ہے ۔احتجاجی مظاہروں کے دوران بعض مقامات پر تشدد بھی ہوا۔لاس اینجلس میں رات کے وقت کرفیو نافذ کیا گیا، جبکہ پورٹ لینڈ اور سیٹل میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں تقریباً 500افراد گرفتار ہوئے ۔ تاہم زیادہ تر مظاہرے پرامن رہے ۔گارجینکے مطابق یہ تحریک کسی پارٹی کے لیے نہیں بلکہ جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے ہے ۔ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مظاہرے صرف کسی ایک پالیسی یا واقعے کے خلاف نہیں تھے بلکہ ایک مجموعی احساسِ بے اعتمادی کا اظہار تھے ۔ عوام نے محسوس کیا کہ اقتدار کی مرکزیت بڑھ رہی ہے ، شفافیت کم ہو رہی ہے ، اور قانون کی حکمرانی کمزور پڑ رہی ہے ۔ اسی احساس نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا۔ یہ بھی اہم ہے کہ
امریکی معیشت میں غیر یقینی صورتحال نے مظاہروں کی توانائی کو بڑھایا۔ مہنگائی کی شرح 6.1فیصد تک جا پہنچی، جبکہ 5.8فیصد بے روزگاری کی شرح ریکارڈ کی گئی۔ ان معاشی مشکلات نے متوسط طبقے کو مشتعل کیا جو پہلے ہی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے بحران سے گزر رہا تھا۔کچھ مظاہرین نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران میں جمہوری اداروں کی آزادی متاثر ہوئی، مثلاً وفاقی الیکشن کمیشن (ایف ای سی)اورمحکمہ انصاف کے کردار پر سیاسی اثرات بڑھ گئے ۔ ایسے میں عوامی اعتماد کو زک پہنچی، اور احتجاج ایک اخلاقی مزاحمت میں بدل گیا۔
اس ساری صورتحال کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ مظاہروں نے امریکی سماج کو ایک بار پھر اپنے آئینی نظریات کی یاد دلائی۔ "We the People” کا تصور، جو امریکی آئین کا ابتدائی جملہ ہے ، ان مظاہروں میں بار بار بلند کیا گیا۔ عوام نے اس بات پر زور دیا کہ اقتدار کا سرچشمہ صرف عوام ہیں، نہ کہ کوئی سیاسی شخصیت یا پارٹی۔آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ ٹرمپ کے خلاف امریکی مظاہرے ایک شخص کے خلاف نہیں بلکہ ایک رویے کے خلاف تھے ۔ وہ رویہ جس میں شفافیت کی کمی، خودمختاری پر حملہ، اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے انحراف شامل تھا۔ ان مظاہروں نے ثابت کیا کہ اگر عوامی شعور بیدار ہو تو جمہوریت اپنی اصلاح خود کرتی ہے ۔اقدامات کے طور پر ضروری ہے کہ عوام سیاسی عمل میں فعال کردار ادا کریں، ووٹنگ کے حق کا استعمال یقینی بنائیں، شہری تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہوں اور حکومتی فیصلوں پر مسلسل نظر رکھیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ شفافیت اور جوابدہی کے اصولوں کو مضبوط بنائے ، امیگریشن پالیسی میں انسانی پہلو کو مقدم رکھے ، ریاستی خودمختاری کا احترام کرے ، اور آزاد میڈیا کو دبانے کے بجائے اس سے مکالمہ کرے ۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے امریکہ اپنے جمہوری تشخص کو برقرار رکھ سکتا ہے اور عوامی احتجاج کو عملی اصلاح میں بدل سکتا ہے۔