Islam Times:
2025-10-27@15:47:04 GMT

طالبان رجیم کسی غلط فہمی کا شکار ہے۔۔۔

اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT

طالبان رجیم کسی غلط فہمی کا شکار ہے۔۔۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے ساتھ جنگ ان کے مفاد میں نہیں، بلکہ دونوں طرف کے مسلمانوں کی مشکلات بڑھانے کا سبب ہے۔ چند ہزار جنگجووں کو سمجھایا جاسکتا ہے، انہیں مصروف رکھنے کیلئے کوئی کام حوالہ کئے جاسکتے ہیں اور ان کے ہاتھ سے بندوق لے کر کوئی اور ذمہ داری تھمائی جاسکتی ہے، نہ ماننے کی صورت میں ان سے معذرت کی جاسکتی ہے۔ بہرحال ایک آزاد، خود مختار، پرامن اور ترقی یافتہ افغانستان اس خطے کیلئے بہت اہم ہے۔ حسینی صاحب سے بہت اختلاف رہتا ہے، مگر یہاں ہماری یہی خواہش ہے، مگر وہاں سے اٹک تک قبضے کے لیے یلغار کے نعرے ہیں، دیکھتے ہیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان کی لوکیشن ایسی ہے کہ جہاں یہ ایک ابھرتی سپر پاور کا پڑوسی ہے، ابتدا سے ہی انڈیا جیسے بڑے ملک نے اسے تسلیم نہیں کیا اور کوئی موقع ایسا نہیں  آیا کہ وہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہو اور اس نے نقصان نہ پہنچایا ہو۔ پچھلے چالیس سال کا تجزیہ کریں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان نے یہ پالیسی بنائی کہ ہم پہلے ہی دو بڑی طاقتوں کے ساتھ ہیں، اب اگر افغانستان میں بھی کوئی بڑی طاقت آجاتی ہے تو یہ کسی صورت میں ہمارے مفاد میں نہ ہوگا۔ لہذا کسی بھی صورت میں افغانستان میں کسی بڑی طاقت کو ٹکنے نہیں دینا۔ پاکستان نے روس کے خلاف امریکی تعاون کا فائدہ اٹھایا۔ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے اس وقت امریکی جنگ لڑی، میرے خیال میں یہ بات مکمل درست نہیں ہے، یہ امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جنگ بھی تھی۔

روس گوادر کا خواب لیے افغانستان  آیا تھا، یہ ہمارے لیے سلامتی کا معاملہ تھا، جسے ہم نے واپس ماسکو کا راستہ دکھایا۔ اس میں بہت سی بے اعتدالیاں ہوئیں، جن کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ پھر امریکہ بہادر خود تشریف لے آئے، یہ بھی اسی پالیسی کی زد میں آگئے۔ ہم نے امریکہ کے اتحادی بن کر اسی کے دیئے ہوئے وسائل سے بقول جنرل حمید گل مرحوم، امریکہ کے تعاون سے افغانستان میں امریکہ کو شکست دی۔ یہ سب کچھ بہت خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا۔ یہ بہرحال ایک بڑی کامیابی تھی کہ یورپ و امریکہ کے سامنے ہم نے ایٹمی پروگرام بنایا، چلایا اور دھماکے بھی کیے، مگر اپنی ضرورت ان کے لیے ایسے بنائے رکھی کہ اگر ہم سے بگاڑیں گے تو مسئلہ خراب ہو جائے گا اور روس طاقتور ہو کر سامنے آجائے گا۔

امریکہ ذلیل ہو کر افغانستان سے نکلا، ہم اور پورا خطہ کامیاب ہوئے کہ ایک بین الاقوامی استعمار یہاں سے چلا گیا۔ پاکستان کی پالیسی جسے اسٹریجک ڈیپتھ کہا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ افغانستان میں ہماری دوست حکومت ہو یا نہ ہو کم از کم ہماری دشمن حکومت نہیں ہونی چاہیئے۔ امریکہ کے بعد طالبان کو لانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہاں سے کم از کم ہمارے خلاف کارروائیاں نہیں ہوں گی اور خطہ کو تجارتی مرکز میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ طالبان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ابھی بھی گوریلا فورس کی طرح رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ خود کو ایک حکومت کے طور پر سمجھنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ وہ امریکہ کی جگہ ایک دشمن چاہتے ہیں، جو ان کی نظر میں پاکستان ہے۔ ویسے بھی افغانستان کی بڑی آبادی انہیں قبول نہیں کرتی۔ اس لیے انہیں کچھ ایسا چاہیئے، جس پر سب افغانستانی متحد ہو کر ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔

طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ فقط پاکستان دشنمی ہے۔ اٹک تک کے علاقے کا دعویٰ کرکے، دریائے کنڑ کا پانی بند کرنے کا اعلان کرکے وہ بار بار پاکستان سے گویا نظریاتی اور دیرپا تنازعات کو جنم دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ہوئے مسلسل حملے اس باعث بنے کہ پاکستان نے براہ راست کابل میں کارروائی کی، جو طالبان کے وہم گمان میں بھی نہ تھی۔ اس کے جواب میں طالبان نے پاکستان پر حملہ کیا اور کئی چوکیاں اب پاکستان کے قبضے میں ہیں۔ قطر ہوئے مذاکرات سے جنگ رک گئی ہے۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تین روز سے مذاکرات جاری ہیں۔ اس کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپنا حتمی موقف پیش کر دیا ہے۔

اے پی پی کے مطابق سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس (سرپرستی) کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔ پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ طالبان کے دلائل "غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں۔ نظر آرہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے۔ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویئے پر منحصر ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ طالبان کسی خبط عظمت کے زعم میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ وہ سمجھ رہی ہیں کہ انہوں نے روس کو اڑا دیا، انہوں نے امریکہ کو شکست دے دی، اب پاکستان تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

جنگ کی معیشت پر قائم افغانستان کو وہ جنگ پر ہی رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ لڑائی جھگڑے سے انہیں انڈیا یا دوسرے پاکستان دشمنوں سے بلینک چیک کی صورت ماہانہ خرچہ ملتا رہے۔ طالبان یہ بھول رہے ہیں کہ روس کے خلاف وہ فقط پیادے تھے، جنگ کسی اور نے لڑی۔ اسی طرح امریکہ کے خلاف بھی جنگ میں وہ فقط پیادرے تھے، جنگ کہیں اور سے ترتیب دی جا رہی تھی۔ روس، امریکہ باہر سے آئی ہوئی قوتیں تھی، جنہیں بہرحال جانا ہی تھا۔ مزاحمت کے ایکسپرٹ بتاتے ہیں کہ نقصان کے اعتبار سے بھی طالبان نے امریکہ کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا، جتنا عراقیوں نے پہنچایا۔ اسی لیے امریکی جلد عراق چھوڑ کر بھاگے تھے۔ پاکستان کو کوئی جلدی نہیں ہے، ہم یہیں ہیں اور یہیں رہیں گے۔ ہم نہیں تو ہماری اگلی نسلیں یہیں رہیں گے۔ وقت کا عنصر گوریلہ جنگوں میں بہت اہم ہوتا ہے۔ اس وقت ہم سے غلطی ہوئی کہ سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیئے۔

آپ ہمارے علاقوں میں گوریلے بھیج رہے ہیں، دو چار سال یہی صورتحال رہی تو آپ کے گوریلے ہی کابل و قندھار میں پھٹنے لگیں گے۔ بہت سے گروہ افغانستان میں موجود ہیں، جنہیں بس اشارہ درکار ہے اور وہ پرانی تنخواہ پر کام کے لیے بھی جلد میدان میں ہوں گے۔ ایک اہم عنصر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ افغانستان سے زیادہ پختون تو ہمارے ہاں موجود ہیں۔ آپ کی جنگ باہر کی فورس سے نہیں بلکہ مقامی پختون سے ہے۔ یقین نہ آئے تو پچھلے ایک ماہ کے شہداء کی فہرست پر نظر دوڑا لیں۔ اسّی فیصد پختون ہی ان حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔ انڈیا کی شہ پر پاکستان پر حملہ کیا گیا، ویسے انہی سے پوچھ لیتے کہ آخری جنگ میں پاکستان نے ان کا کیا حال کیا ہے۔؟ ہم بنئے کی فطرت کو جانتے ہیں، وہ خود نہیں لڑتا، کسی اور کو آگے کر دیتا ہے۔ اسی لیے اس نے ہمیشہ سکھوں کو ہم سے لڑایا ہے۔

مذاکرات کے حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ اگر کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان پر عمل نہیں ہوگا۔ جو لوگ خانہ کعبہ میں معاہدہ کریں اور وطن پہنچنے پر پھر جائیں، وہ ہمارے ساتھ معاہدے کے پاسداری نہیں کریں گے۔؟ اس لیے بطاہر یہ لگ رہا ہے کہ معاملہ طول کھینچے گا۔ پاکستان کی ریاستی پالیسی سے لگ رہا ہے کہ ادارے لمبی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے بغیر کسی ابہام کے بالکل واضح کر دیا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو جنگ ہوگی۔ بلی چوہے کا کھیل نہیں چلے گا اور دو بدو مقابلہ ہوگا۔ جو میں نے لکھا یہ میری خواہش نہیں تجزیہ ہے اور جو ہوتا نظر آرہا ہے، اس پر میری رائے تھی۔ خواہش کا پوچھتے ہیں تو ہمارے دوست جناب ہمدرد حسینی جو پی ٹی آئی کے رہنماء اور عمران خان پر ایک کتاب کے مصنف پختون لکھاری اور دانشور ہیں، اس پوری صورتحال پر بہت ہی اچھا تجزیہ کیا ہے۔ ہماری خواہش بھی یہی ہے: افغان حکومت کی اصل کامیابی جنگ سے بچ کر تعمیر و ترقی یقینی بنانے میں ہے۔

ایک عرب مہمان کیلئے بیس برس کی جنگ اپنے ملک پر لادنا خلاف حکمت کام تھا۔ دوبارہ وہی غلطی نہیں دہرانی چاہیئے۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ اس وقت ساری توجہ اپنے ملک کی فلاح و بہبود پر مرکوز کی جائے، بین الاقوامی برادری کے خدشات دور کیئے جائیں اور خصوصاً عورتوں کی تعلیم پر پابندی سے گریز کیا جائے، کیونکہ یہ قدم انہیں پہلے ہی بیرونی دنیا میں غیر مقبول بناچکی ہے اور اندرون ملک بھی انہیں زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کے ساتھ جنگ ان کے مفاد میں نہیں، بلکہ دونوں طرف کے مسلمانوں کی مشکلات بڑھانے کا سبب ہے۔ چند ہزار جنگجووں کو سمجھایا جاسکتا ہے، انہیں مصروف رکھنے کیلئے کوئی کام حوالہ کئے جاسکتے ہیں اور ان کے ہاتھ سے بندوق لے کر کوئی اور ذمہ داری تھمائی جاسکتی ہے، نہ ماننے کی صورت میں ان سے معذرت کی جاسکتی ہے۔ بہرحال ایک آزاد، خود مختار، پرامن اور ترقی یافتہ افغانستان اس خطے کیلئے بہت اہم ہے۔ حسینی صاحب سے بہت اختلاف رہتا ہے، مگر یہاں ہماری یہی خواہش ہے، مگر وہاں سے اٹک تک قبضے کے لیے یلغار کے نعرے ہیں، دیکھتے ہیں کہ بات کہاں تک پہنچتی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سکیورٹی ذرائع افغانستان میں ہے کہ پاکستان کہ پاکستان نے افغان طالبان مفاد میں نہ پاکستان کے پاکستان کی جاسکتی ہے امریکہ کے طالبان کے رہا ہے کہ جائے گا ہیں اور نہیں ہے کے ساتھ رہے ہیں کر دیا کے لیے کی جنگ ہیں تو ہیں کہ

پڑھیں:

بھارت اور افغانستان کا آبی گٹھ جوڑ؛ پاکستان کا آبی دفاع اور خودمختاری کا عزم

بھارت اور افغانستان کے آبی گٹھ جوڑ کے پیش نظر پاکستان نے آبی دفاع اور خودمختاری کا عزم ظاہر کیا ہے جب کہ معرکہ حق میں ذلت آمیز شکست کے بعد بھارت نے افغان طالبان کے ذریعے آبی جارحیت کو ہتھیار بنانا شروع کردیا۔

افغان طالبان رجیم اور بھارت کے درمیان بڑھتے تعلقات پاکستان مخالف عزائم کو واضح کرتے ہیں، بھارت کی جانب سے طالبان رجیم کو ایک ارب امریکی ڈالر مالی امداد کی پیشکش کی گئی ہے۔

افغان وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے بعد ’’پانی کو بطور سیاسی ہتھیار‘‘ استعمال کرنے کی پالیسی واضح ہو گئی ہے۔

انڈیا ٹو ڈے کی 24 اکتوبر 2025ء  کو شائع  رپورٹ کے مطابق؛ طالبان رجیم  دریائے کنڑ پر بھارتی حکومت کے تعاون سے  ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کو  پانی کی فراہمی روکنا چاہتی ہے۔

ایک اندازہ کے مطابق بھارت افغان رجیم کو مالی و تکنیکی معاونت فراہم کرکے مختلف ڈیمز تعمیر کروا رہا ہے، یہ  تعمیر ہونے والے ڈیم، جیسے نغلو، درونتہ، شاہتوت،  شاہ واروس، گمبیری اور باغدرہ، پاکستان کی آبی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ  ہوسکتے ہیں۔

اس بھارت افغان منصوبے کا ہدف پاکستان کے آبی نظام کو مشرق و مغرب دونوں اطراف سے روکنا ہے، بھارت نے پہلے ہی سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ معطل کر کے پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی آبی معاہدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

بھارت اب افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے دریائے کابل کے  بیسن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے، دریائے کابل سے پاکستان کو سالانہ اوسطاً 16.5 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی حاصل ہوتا ہے۔

پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ جیسے اضلاع میں گندم، مکئی اور گنے کی پیداوار براہِ راست اسی پانی پر منحصر ہے، پاکستان  کسی بھی قسم کی  آبی جارحیت کے بارے میں واضح اور دو ٹوک موقف رکھتا ہے۔

پانی پاکستان کی سلامتی، زراعت اور معیشت کی شہ رگ ہے، کسی بھی ملک کو اس پر دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔

آبی و قانونی ماہرین کے مطابق؛ بھارت-افغان آبی گٹھ جوڑ کے مقابلے میں پاکستان ایک جامع دفاعی حکمتِ عملی پر غور کر رہا ہے، اس حکمت عملی میں سب سے اہم قدم چترال ریور ڈائیورشن پروجیکٹ ہے۔

چترال ریور ڈائیورشن پروجیکٹ بھارت افغان آبی جارحیت کے مذموم منصوبے کو خاک میں ملا دے گا، اس حکمت عملی کے ذریعے  دریائے چترال کو افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی سوات بیسن کی طرف موڑنے کا منصوبہ ہے۔

اس منصوبے سے 2,453 میگاواٹ صاف اور قابلِ تجدید توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گی، نئی زمین زیرِ کاشت لائی جا سکے گی جبکہ سیلابی خطرات میں کمی اور ورسک و مہمند ڈیمز کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔

یہ اقدام پاکستان کی آبی خودمختاری کے مکمل دائرہ کار میں آتا ہے اور بین الاقوامی قانون کے عین مطابق ہے، پاکستانی قوم اس امر پر متحد ہیں کہ بھارت کی افغان سرزمین کے ذریعے پاکستان کے خلاف آبی مہم ناقابلِ قبول ہے۔

متعلقہ مضامین

  • انڈیا کی افغانستان سے دشمنی
  • بھارت کو پاکستان کیخلاف افغان طالبان رجیم کی حمایت مہنگی پڑ گئی
  • بھارت ، افغانستان آبی جارحیت کے منصوبے خاک میں ملانے کیلئے پاکستان کا چترال ڈائیورش پر اجیکٹ پر غور
  • افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان سے کس طرح لاتعلقی کر سکتے ہیں؟
  • مودی سرکار اور افغانستان کا آبی گٹھ جوڑ، بھارت نے آبی جارحیت کو ہتھیار بنانا شروع کردیا
  • معاملات مذاکرات سے طے نہ ہوئے تو افغان طالبان رجیم اور ہماری کھلی جنگ ہے، خواجہ آصف
  • بھارت اور افغانستان کا آبی گٹھ جوڑ؛ پاکستان کا آبی دفاع اور خودمختاری کا عزم
  • پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان مذاکرات کا دوسرا مرحلہ کس قدر اہم؟
  • پاک افغان جنگ بندی کا مستقبل؟