Juraat:
2025-10-26@04:40:27 GMT

ٹرمپ کے شخصی اقتدار کے خلاف احتجاج

اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT

ٹرمپ کے شخصی اقتدار کے خلاف احتجاج

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے خلاف امریکہ کی تمام 50ریاستوں میں ‘نوکنگز’کے نام سے مظاہرے نیو یارک، بوسٹن، لاس اینجلس، شکاگو سمیت دیگر ریاستوں میں 2 ہزار 700 مظاہرے ، یہ حکومت ظالمانہ اور آمرانہ ہے ، مظاہرین، ریپبلکن رہنماؤں نے مظاہروں کو ‘ہیٹ امریکہ ریلیاں’قرار دے دیا۔امریکہ کی سڑکوں پر ایک بار پھر وہی منظر ابھرا جب لوگ جمہوری جذبے سے لبریز ہو کر سڑکوں پر نکلے ۔ نعروں میں گونج تھا ”No Kings” یعنی ”کوئی بادشاہ نہیں”۔ یہ نعرہ محض ایک احتجاجی جملہ نہیں بلکہ اس احساس کا اظہار تھا کہ جمہوری نظام میں اگر طاقت کا توازن بگڑ جائے تو عوامی اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے ۔ مظاہرین کا ماننا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کے دوران ریاستی طاقت کو ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی راہ پر گامزن ہیں، اور یہی طرزِ عمل ان مظاہروں کا بنیادی سبب بنا۔ ان مظاہروں کا پس منظر اچانک نہیں بلکہ کئی برسوں پر محیط ہے ۔ مختلف رپورٹس کے مطابق احتجاج کی شدت میں اضافہ اس وقت ہوا جب ٹرمپ انتظامیہ نے امیگریشن پالیسی میں سختی کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر چھاپے مارنے شروع کیے ۔لاس اینجلسسمیت کئی شہروں میں فیڈرل ایجنسیاں گھروں، دفاتر اور کمیونٹی سینٹرز میں داخل ہوئیں، اور متعدد غیر ملکیوں کو حراست میں لے لیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق صرف ایک ہفتے میں تقریباً 7,000 افراد کو حراست میں لیا گیا۔ یہ کارروائیاںآئی سی ای(امیگریشن اینڈ کسٹم انفورسمنٹ)کے اہلکاروں نے کیں، جنہوں نے عدالتوں، کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں تک چھاپے مارے ۔ اس سے نہ صرف خوف کی فضا پھیلی بلکہ عوام میں یہ احساس پیدا ہوا کہ حکومت طاقت کے غلط استعمال کی جانب بڑھ رہی ہے ۔
اسی دوران ایک اور پہلو نمایاں ہوا،جمہوری اداروں کی خودمختاری پر دباؤ۔ مظاہرین کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی عدلیہ کے فیصلوں کو بارہا نظرانداز کیا اور بعض مواقع پر ریاستی حکومتوں کے اختیارات میں مداخلت کی۔ مثال کے طور پر یونائیٹڈ اسٹیٹس نیشنل گارڈ کو لاس اینجلس میں مقامی انتظامیہ کی مرضی کے خلاف تعینات کیا گیا، جسے شہری حلقوں نے وفاقی زیادتی قرار دیا۔ اس واقعے نے احتجاج کو مزید شدت بخشی اور عوامی بحث میں یہ سوال گونجنے لگا کہ آیا ریاستی خودمختاری ختم ہو رہی ہے ؟
یہ مظاہرے صرف قانونی یا سیاسی نہیں بلکہ معاشرتی بھی تھے ۔ بہت سے امریکی شہریوں نے محسوس کیا کہ حکومت کی پالیسیاں نہ صرف امیگرینٹس بلکہ متوسط طبقے پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ Le Mondeایک مستند اور معروف فرانسیسی اخبار ہے، کی ایک رپورٹ کے مطابق 2025کی پہلی سہ ماہی میں تقریباً 1.

8ملین افراد اپنی نوکریوں سے محروم ہوئے ، جن میں اکثریت فیڈرل کنٹریکٹرز کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سماجی خدمات میں 20 فیصد تک کمی کی گئی جس سے غریب طبقات براہِ راست متاثر ہوئے ۔ عوام نے محسوس کیا کہ معیشت کے بوجھ تلے دبے معاشرے میں حکومت طاقت کی نمائش میں مصروف ہے ، عوامی فلاح پسِ پشت چلی گئی ہے ۔مظاہروں کا ایک اور محرک ٹرمپ کے طرزِ حکمرانی میں پایا جانے والا شخصی اقتدار تھا۔ ناقدین کے مطابق وہ ایک جمہوری صدر سے زیادہ خود کو ”قومی نجات دہندہ” کے طور پر پیش کر رہے تھے ۔ ان کے بیانات اور تقریریں، جن میں بارہا عدلیہ، میڈیا اور مخالفین کو ہدف بنایا گیا، امریکی عوام کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی بن گئیں۔ایسوی ایٹیڈ پریس کے مطابق جون 2025کے دوران صرف ایک ہفتے میں 14بڑے شہروں میں احتجاج ہوئے ، جن میںواشنگٹن،نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس، اور سان فرانسسکو نمایاں تھے۔ان مظاہروں کا مرکزی نعرہ” نو کنگز”تھا جو علامتی طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ امریکہ بادشاہت کے بجائے عوامی اقتدار کی بنیاد پر قائم ہوا۔ مظاہرین نے کہا کہ یہ ملک اس لیے بنا تھا کہ حکمران عوام کے خادم ہوں، آقا نہیں۔پبلک براڈکاسٹنگ سروس نیوز آورکے مطابق یہ نعرہ14 جون 2025 کو ٹرمپ کی اناسی ویں سالگرہ کے موقع پرہونے والی ملٹری پریڈ کے ردِعمل میں مقبول ہوا۔ مظاہرین نے اسے بادشاہانہ نمائش قرار دیا جو عوامی احساسات سے مطابقت نہیں رکھتی۔اسی دن کامن کاز آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر نے بیان دیا کہ یہ مظاہرے نفرت نہیں بلکہ حب الوطنی کے مظاہرے ہیں، یہ عوام کا مطالبہ ہے کہ طاقت عوام کے تابع رہے نہ کہ کسی فرد کے ۔ یہ جملہ اس تحریک کی روح کو واضح کرتا ہے ۔
اس تحریک میں امیگرینٹس، مزدور تنظیمیں، نسلی اقلیتیں، طلبہ گروپس اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شامل تھیں۔ ان سب کا مشترکہ نکتہ یہ تھا کہ حکومت نے امریکی آئین کی روح یعنی مساوات، آزادیِ اظہار اور شہری آزادیوں کو محدود کیا ہے ۔ مظاہرین نے میڈیا کی آزادی پر قدغنوں اور صحافیوں کے خلاف بیانات کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد پریس کو دبانا جمہوری زوال کی علامت ہے ۔احتجاجی مظاہروں کے دوران بعض مقامات پر تشدد بھی ہوا۔لاس اینجلس میں رات کے وقت کرفیو نافذ کیا گیا، جبکہ پورٹ لینڈ اور سیٹل میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں تقریباً 500افراد گرفتار ہوئے ۔ تاہم زیادہ تر مظاہرے پرامن رہے ۔گارجینکے مطابق یہ تحریک کسی پارٹی کے لیے نہیں بلکہ جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے ہے ۔ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مظاہرے صرف کسی ایک پالیسی یا واقعے کے خلاف نہیں تھے بلکہ ایک مجموعی احساسِ بے اعتمادی کا اظہار تھے ۔ عوام نے محسوس کیا کہ اقتدار کی مرکزیت بڑھ رہی ہے ، شفافیت کم ہو رہی ہے ، اور قانون کی حکمرانی کمزور پڑ رہی ہے ۔ اسی احساس نے لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا۔ یہ بھی اہم ہے کہ
امریکی معیشت میں غیر یقینی صورتحال نے مظاہروں کی توانائی کو بڑھایا۔ مہنگائی کی شرح 6.1فیصد تک جا پہنچی، جبکہ 5.8فیصد بے روزگاری کی شرح ریکارڈ کی گئی۔ ان معاشی مشکلات نے متوسط طبقے کو مشتعل کیا جو پہلے ہی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے بحران سے گزر رہا تھا۔کچھ مظاہرین نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران میں جمہوری اداروں کی آزادی متاثر ہوئی، مثلاً وفاقی الیکشن کمیشن (ایف ای سی)اورمحکمہ انصاف کے کردار پر سیاسی اثرات بڑھ گئے ۔ ایسے میں عوامی اعتماد کو زک پہنچی، اور احتجاج ایک اخلاقی مزاحمت میں بدل گیا۔
اس ساری صورتحال کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ مظاہروں نے امریکی سماج کو ایک بار پھر اپنے آئینی نظریات کی یاد دلائی۔ "We the People” کا تصور، جو امریکی آئین کا ابتدائی جملہ ہے ، ان مظاہروں میں بار بار بلند کیا گیا۔ عوام نے اس بات پر زور دیا کہ اقتدار کا سرچشمہ صرف عوام ہیں، نہ کہ کوئی سیاسی شخصیت یا پارٹی۔آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ ٹرمپ کے خلاف امریکی مظاہرے ایک شخص کے خلاف نہیں بلکہ ایک رویے کے خلاف تھے ۔ وہ رویہ جس میں شفافیت کی کمی، خودمختاری پر حملہ، اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے انحراف شامل تھا۔ ان مظاہروں نے ثابت کیا کہ اگر عوامی شعور بیدار ہو تو جمہوریت اپنی اصلاح خود کرتی ہے ۔اقدامات کے طور پر ضروری ہے کہ عوام سیاسی عمل میں فعال کردار ادا کریں، ووٹنگ کے حق کا استعمال یقینی بنائیں، شہری تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہوں اور حکومتی فیصلوں پر مسلسل نظر رکھیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ شفافیت اور جوابدہی کے اصولوں کو مضبوط بنائے ، امیگریشن پالیسی میں انسانی پہلو کو مقدم رکھے ، ریاستی خودمختاری کا احترام کرے ، اور آزاد میڈیا کو دبانے کے بجائے اس سے مکالمہ کرے ۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے امریکہ اپنے جمہوری تشخص کو برقرار رکھ سکتا ہے اور عوامی احتجاج کو عملی اصلاح میں بدل سکتا ہے۔

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ان مظاہروں مظاہرین نے لاس اینجلس مظاہروں کا نہیں بلکہ کے دوران کے مطابق کے خلاف کیا کہ رہی ہے کے لیے تھا کہ

پڑھیں:

نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سامنا کرنے سے ہچکچانے لگے

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سامنا کرنے سے گریز کرنے لگے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ڈائیلاگ پارٹنر ہونے کے باوجود نریندر مودی نے آسیان سمٹ کے لیے ملائشیا نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ اجلاس میں آن لائن شرکت کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: مودی سرکار کو ایک اور جھٹکا، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کا دورہ منسوخ کردیا

بھارتی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ وزیراعظم مودی ورچوئل طور پر سمٹ میں شریک ہوں گے۔ اس سے قبل بھی وہ شرم الشیخ سمٹ میں خود شریک ہونے کے بجائے ایک جونیئر وزیر کو بھیج چکے ہیں۔

کانگریس کے رہنما جے رام رمیش نے کہا کہ مودی ملائشیا اس لیے نہیں گئے کیونکہ وہ صدر ٹرمپ کا سامنا نہیں کرنا چاہتے اور شرم الشیخ سمٹ میں شریک نہ ہونے کی بھی یہی وجہ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نریندر مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی 4 فون کالز مسترد کردیں، جرمن اخبار کا دعویٰ

ان کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات مودی کے لیے سیاسی طور پر خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news آسیان سمٹ امریکا بھارت ڈونلڈ ٹرمپ رام رمیش شرم الشیخ نریندر مودی

متعلقہ مضامین

  • بہت جلد غزہ میں بین الاقوامی فورس تعینات کی جائیگی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • صدر ٹرمپ ملائیشیا جاتے ہوئے ایئرپورٹ پر قطر کے امیر سے اہم ملاقات کریں گے
  • نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سامنا کرنے سے ہچکچانے لگے
  • پاکستان میں اسموگ کے زراعت پر اثرات  اور ممکنہ حل
  • امریکا میں غیرقانونی غیرملکیوں کیخلاف کریک ڈاؤن جاری، شکاگو میں مظاہرین اور وفاقی اداروں میں جھڑپیں
  • نیتن یاہو نے غزہ معاہدے کو خطرے میں ڈالا تو ٹرمپ انہیں خود سبق سکھائیں گے، امریکی اہلکار
  • لاہور میں تصوف کا نیا مرکز،روحانیت، سکون اور علم کا حسین امتزاج
  • 40 ہزار سکوں سے خریدی گئی اسکوٹی، باپ نے بیٹی کے خواب کو حقیقت بنا دیا
  • عدالتی بینچ خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ آئین و قانون کے مطابق بنیں گے، جج سپریم کورٹ