جموں و کشمیر حکومت نے اسمبلی میں انسانی حقوق فورم کے قیام کا بل مسترد کیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
نظام الدین بٹ نے کہا کہ جموں و کشمیر جیسی متنازع اور تنازعات سے دوچار ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر دونوں کی جانب سے ہوئی ہیں اور عالمی سطح پر اسکا سیاسی استعمال کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر حکومت نے اسمبلی میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے ’’لیجسلیٹو فورم‘‘ کے قیام کے بل مسترد کر دیا۔ حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ یونین ٹیریٹری کی اسمبلی پارلیمنٹ کے قوانین سے متصادم قانون نہیں بنا سکتی۔ یہ بل کانگریس کے رکن اسمبلی نظام الدین بٹ نے پیش کیا تھا جنہوں نے استدلال دیا کہ ان کا مجوزہ فورم قومی انسانی حقوق کمیشن (NHRC) کی جگہ لینے کے بجائے اسے معاونت فراہم کرے گا۔ نظام الدین بٹ نے کہا کہ جموں و کشمیر جیسی متنازع اور تنازعات سے دوچار ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر دونوں کی جانب سے ہوئی ہیں اور عالمی سطح پر اس کا سیاسی استعمال کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے حقیقی ذمہ داروں کی شناخت میں منصفانہ کردار ادا نہیں کر سکے۔ اس فورم کا مقصد متاثرین کو انصاف اور انسانی حقوق اداروں کو مدد فراہم کرنا ہے۔ جموں و کشمیر وزیراعلٰی عمر عبداللہ نے اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کی دفعہ 35 کے تحت، یونین ٹیریٹری کی اسمبلی کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو پارلیمنٹ کے کسی قانون سے ٹکرائے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ ریاست میں انسانی حقوق کمیشن موجود تھا، لیکن اب چونکہ یونین ٹیریٹری ہے، اس طرح کے فورم کا قیام قانونی طور پر ممکن نہیں۔ عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ اگر حالات بدلیں تو ایسے فورم کی ضرورت خود بخود ختم ہو جائے گی۔
اس پر نظام الدین بٹ نے کہا کہ وہ وزیراعلیٰ کے "پابند ماحول" کو سمجھتے ہیں، مگر یہ اسمبلی کی بے بسی کی علامت ہے۔ ایم ایل اے بانڈی پورہ نے کہا کہ تاریخ اسے ہماری مجبوری کے طور پر یاد رکھے گی۔ میں دباؤ میں آ کر یہ بل واپس لیتا ہوں۔ قابل ذکر ہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی سے قبل جموں و کشمیر کی ریاست کا اپنا اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن (SHRC) موجود تھا، جو 1990ء کی دہائی میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن نے سینکڑوں مقدمات کی سماعت کی تھی اور کئی متاثرین کے حق میں معاوضے کے احکامات جاری کئے تھے۔ تاہم اگست 2019ء کے بعد جب ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی تو کمیشن بھی تحلیل کر دیا گیا۔ اس کے بعد متعدد زیر سماعت مقدمات یا تو قومی انسانی حقوق کمیشن کو منتقل کئے گئے یا غیر حتمی حالت میں رہ گئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نظام الدین بٹ نے نے کہا کہ
پڑھیں:
انسانی حقوق کو یقینی بنانا ریاست کی ذمے داری ہے،وزیراعلیٰ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر )وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انسانی حقوق کے عالمی دن پر پیغام میں کہا ہے کہ انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیں مساوات اور عدل کی اہمیت یاد دلاتا ہے، فلاحِ عامہ، شفافیت اور مساوات پیپلز پارٹی حکومت کا عزم ہے، انسانی حقوق روزمرہ زندگی کا بنیادی حصہ ہیں، انسانی حقوق کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ حقوقِ انسانی کو عمل میں لانا پائیدار ترقی کے لیے ناگزیر ہے، کمزور طبقات کے تحفظ اور شہری سہولیات کی بہتری کے لیے اقدامات جاری ہیں۔سندھ حکومت بچوں، خواتین، اقلیتوں اور خصوصی افراد کے حقوق کے فروغ پر توجہ دیتی ہے،حقوقِ انسانی کو عمل میں لانا پائیدار ترقی کے لیے ناگزیر ہے، سندھ حکومت سماجی انصاف اور شفافیت کے عزم کا اعادہ کرتی ہے،تعلیم، صحت اور سوشل پروٹیکشن انسانی حقوق کے ایجنڈے کی بنیادی ترجیحات ہیں۔ سندھ میں سرکاری اسپتالوں کی سہولیات بہتر بنانے کے لیے متعدد اصلاحات نافذ کی ہیں،سرکاری اسکولوں کے انفرااسٹرکچر ، اساتذہ ٹریننگ اور حاضری نظام کو مضبوط بنانے کے اقدامات کیے ہیں۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت تعلیم کے شعبے میں STEAM اور جدید تعلیمی ماڈلز کو فروغ دے رہی ہے۔ سماجی تحفظ پروگراموں کے ذریعے کم آمدنی والے خاندانوں کی معاونت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ سندھ حکومت شہری انفرا اسٹرکچر میں بہتری لانے کے لیے کئی اقدامات کر رہی ہے، شہریوں کے لئے سڑکوں، ٹرانسپورٹ اور پانی کی فراہمی کے بہتری کے منصوبے جاری رکھے ہیں،قانون کی حکمرانی اور ای گورننس کے تحت شکایات کے ازالے کے نظام میں بہتری لائی گئی ہے جبکہ ماحولیات اور شہری صفائی سے متعلق منصوبوں میں بتدریج پیش رفت کی گئی ہے،