بھارت مقبوضہ کشمیر میں سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہے، مقررین
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
ذرائع کے مطابق کشمیر سنٹر لاہور کے زیراہتمام عالمی یوم انسانی حقوق کے موقع پر سیمینار کے مقررین کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہے اور عالمی ادارے مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیر سنٹر لاہور کے زیراہتمام عالمی یوم انسانی حقوق کے موقع پر سیمینار کے مقررین کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہے اور عالمی ادارے مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما غلام عباس میر نے سیمینار کی صدارت کی جبکہ انسانی حقوق کے ممتاز کارکن صدر لیگل کونسل ہیومن رائٹس سوسائٹی اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ اس موقع پر مہمان خصوصی تھے۔ سیمینار کے مقررین نے کہا کہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کو بھارت کو سنگین جنگی جرائم پر جواب دہ بنانا چاہیے۔ انھوں نے افسوس ظاہر کیا کہ عالمی برادری مظلوم قوموں کے ساتھ دوہرا معیار جاری رکھے ہوئے ہے جسے ترک کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہا ہے۔ مقررین نے کہا کہ 2019ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں سیاسی، سماجی اور معاشی آزادیوں پر مسلسل پابندیاں عائد ہیں۔ سیاسی قیادت، حریت رہنما، صحافی، طلبہ اور عام شہریو ں کو جھوٹے مقدمات، گرفتاریوں اور نظر بندیوں کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض انتظامیہ مذہبی پابندیوں کی آڑ میں اسلامی شعائر کی بے حرمتی جاری رکھے ہوئے ہے، مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے جعلی مقابلوں میں کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ جاری ہے اور بڑی تعداد میں غیر کشمیری ہندوئوں کو ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ جاری کئے گئے ہیں۔مقررین میں انچارج سنٹر انعام الحسن، مولانا شفیع جوش، مرزا صادق جرال، چوہدری محمد شفیق، محترمہ آمنہ نصیر، سینئر صحافی نصیرالحق ہاشمی، علامہ مشتاق قادری، علامہ فدا الرحمان حیدری، اور دیگر شامل تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سنگین جنگی جرائم
پڑھیں:
معرکہ حق میں فتح سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی بحث کا موضوع بن گیا ہے، وفاقی وزیر
اسلام آباد:وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان امیرمقام نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی منظم اور سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلے کے فوری حل کا مطالبہ کیا اور کہا کہ معرکہ حق میں فتح سے مسئلہ کشمیر ایک بات پھر عالمی بحث کا موضوع بن گیا ہے۔
عالمی یوم انسانی حقوق کے موقع پر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اور کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام "کشمیری لوگ حقوق کے حامل ہیں، محض تابع نہیں" کے عنوان سے ایک اہم سیمینار جموں و کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس میں سیاسی رہنماؤں، سابق سفیروں، انسانی حقوق کے ماہرین، محققین، میڈیا کے نمائندگان اور طلبہ نے شرکت کی۔
وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان امیر مقام نے کہا کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا ہے، مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان نے طاقت کے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن کشمیریوں کا جذبہ ازادی نہیں دبا سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور کشمیری عوام کو سلام پیش کرتا ہوں، حکومت آزاد کشمیر کے عوام کی بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کر ے گی، معرکہ حق میں فتح نے کشمیر کے مسئلے کو ایک بار پھر عالمی بحث کا موضوع بنا لیا ہے۔
مقررین نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے موجودہ حالات اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کے عالمی چارٹر اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے عہدناموں میں درج حقِ خودارادیت کو کشمیری عوام کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ کی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور ابھی تک حل طلب ہے، بھارت کی جانب سے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ، پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے جیسے قوانین کے ذریعے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں منظم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جس میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، گرفتاریوں کا غلط استعمال، گھروں کی مسماری اور املاک کی ضبطی شامل ہیں، جس کی مذمت کی گئی۔
سیمینار کے مقررین نے بھارتی حکومت مذہبی اور ثقافتی شناخت تبدیل کرنے کی کوششوں، کتابوں پر پابندیوں اور "جعلی معمول کی صورت حال" کے سرکاری بیانیے کو مسترد کیا گیا۔
بھارت اور بیرون ملک کشمیری طلبہ اور پیشہ وروں کو ہراساں کرنے کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
مقررین نے کہا کہ کشمیری عوام 5 اگست 2019 کے بھارتی یک طرفہ اقدامات اور آرٹیکل 370 و 35اے کی منسوخی کو مسترد کرتے ہیں، اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی 2018 اور 2019 کی رپورٹس اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندگان کی نگرانی کو سراہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کو اقوام متحدہ کے نظام سے عدم تعاون اور مبصرین کو رسائی نہ دینے پر جواب دہ ٹھہرایا جائے اور مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں تمام سیاسی قیدیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کی فوری رہائی عمل میں لائی جائے اور انسانی حقوق کی ہر قسم کی منظم خلاف ورزیوں کو فوری روکا جائے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظالمانہ کالے قوانین ختم کیے جائیں۔
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کو کشمیر پر اپنی طویل عرصے سے زیر التوا تیسری رپورٹ جاری کرنے کی اپیل کی گئی اور مقررین نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کہ بھارت کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر جواب دہ بنایا جائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ اپنی منظور شدہ قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنائے اور کشمیری عوام کو آزادانہ استصواب رائے کا حق فراہم کیا جائے۔
مقررین نے خبردار کیا کہ اگر تنازع حل نہ ہوا تو مئی 2025 کے بعد صورت حال سنگین عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے جو علاقائی و عالمی امن کے لیے خطرناک ہے، اس خطے میں امن و سلامتی تنازع کشمیر کے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل میں مضمر ہے۔