اسلام ٹائمز: رپورٹ کے مطابق کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کے خلاف غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ یہ کارروائیاں بین الاقوامی اور ملکی عدالتوں میں چلائی جا سکتی ہیں، اور ایسے مقدمات کی متعدد تاریخی مثالیں موجود ہیں۔ رپورٹ میں قانونی دلیل کے طور پر بین الاقوامی قانون کے کردار کے حوالے سے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کی ذمہ داری کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے لیے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کو مجرمانہ کردار کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایگزیکٹوز کی ذمہ داری انفرادی بھی ہو سکتی ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ
سب برانڈ اس جرم میں شریک ہیں:
رپورٹ کے مطابق کمپنیوں کی کاروباری سرگرمیاں نہ صرف قابض صیہونی رجیم کے مظالم کے تسلسل کو ہوا دینے کا سبب ہیں بلکہ جنگوں اور محاصرے میں شدت آنے سے یہ عمل ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، جسے ساختیاتی بنیادوں پر فلسطینیوں کی نسل کشی کہا جا سکتا ہے۔ قابض اسرائیل کے سابقہ ​​ہتھیار، جیسے فوجی سازوسامان، ٹیکنالوجی، پانی اور توانائی وغیرہ اب قتل کرنے، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے اور فلسطینی عوام پر ناقابل رہائش حالات مسلط کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ البانیز اس منظم کام کو ایک "مشترکہ مجرمانہ منصوبہ" قرار دیتے ہیں، جس میں کمپنیاں براہ راست یا بالواسطہ شریک ہیں۔ فلسطین پر قبضے کی غیر قانونی نوعیت اور اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے مقدمے کے 2024 کے بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کو دیکھتے ہوئے، کمپنیوں کیطرف سے قابض اسرائیل کیساتھ کسی بھی قسم کا تعاون بین الاقوامی جرائم میں ملوث ہونے کی مثال بن سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کمپنیوں کے لیے ذمہ داری کے 3 درجات کی وضاحت کی گئی ہے، یعنی کس طرح ان کمپنیوں نے 3 شعبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ لیا ہے، اور ہر شعبے میں انہیں فوری طور پر اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے اور قابض حکومت کے ساتھ تعاون کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔ اقوام متحدہ کے نمائندے کا خیال ہے کہ کمپنیاں یا تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تخلیق میں براہ راست ملوث رہی ہیں، ایسی صورت میں وہ اپنی سرگرمیاں روکنے اور نقصان کی تلافی کرنے کی پابند ہیں، یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ لیا ہے، جن میں ایسے معاملات بھی شامل ہیں جہاں کمپنیوں نے خلاف ورزیوں کے لیے سہولتیں فراہم کی ہیں، یا آخر کار، ان کا انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بالواسطہ تعلق ہے۔ 

کمپنیوں کیخلاف قانونی کاروائی ممکن ہے:
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا غزہ کی نسل کشی میں ملوث کمپنیوں پر بھی بین الاقوامی اداروں کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟۔ رپورٹ کے مطابق کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کے خلاف غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہونے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ یہ کارروائیاں بین الاقوامی اور ملکی عدالتوں میں چلائی جا سکتی ہیں، اور ایسے مقدمات کی متعدد تاریخی مثالیں موجود ہیں۔ رپورٹ میں قانونی دلیل کے طور پر بین الاقوامی قانون کے کردار کے حوالے سے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کی ذمہ داری کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے لیے کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز کو مجرمانہ کردار کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایگزیکٹوز کی ذمہ داری انفرادی بھی ہو سکتی ہے۔

یہ ذمہ داری نہ صرف جرم میں براہ راست شرکت کے لیے پیدا ہوتی ہے، بلکہ مدد کرنے، اُبھارنے، اور اکسانے کے لیے بھی (جیسے لاجسٹک، مالی، یا آپریشنل سپورٹ فراہم کرنا) بھی اس میں شامل ہے۔ اس ذمہ داری کو ثابت کرنے کے لیے، جرم کے بارے میں کمپنی کا علم اور آگاہی کافی ہے اور مخصوص ارادے کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نہ ہی کمپنیاں "ڈومیسٹک قانون کی تعمیل" یا "مستعدی کے اصول" کو استعمال کرنے جیسے عذر کے ساتھ خود کو ذمہ داری سے بری کر سکتی ہیں۔ اہم معیار ان کے اعمال کے حقیقی اثرات ہیں۔ ساتھ ہی، بین الاقوامی قانون کے تحت، بین الاقوامی جرائم سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں کے خلاف منی لانڈرنگ اور دیگر جرائم کے قوانین کے تحت کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔

مقدمات کی تاریخی مثالیں:
اقوام متحدہ کا نمائندہ واضح طور پر بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) اور قومی عدالتوں سے اس میں ملوث ڈائریکٹرز اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات اور مقدمہ چلانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس حوالے سے تاریخی مثالوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے تاکہ اس طرح کے مقدمات کی فزیبلٹی ثابت ہو سکے۔ پہلی مثال میں، دوسری جنگ عظیم کے بعد نیورمبرگ ٹرائلز کا حوالہ دیا گیا ہے، جہاں کمپنیاں جیسے آئی جی فاربن اور کروپ پر دوسری جنگ عظیم کے بعد نازی جرائم میں حصہ لینے پر مقدمہ چلایا گیا۔ جنوبی افریقی سچائی اور انکوائری کمیشن نے نسل پرستی کے نظام میں کمپنیوں کے کردار کا بھی جائزہ لیا۔ یہ ریکارڈز بتاتے ہیں کہ اسی طرح کے حالات میں کمپنیوں اور ان کے ڈائریکٹرز پر مقدمہ چلانا ممکن ہے۔

اسپیشل رپورٹر کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے اور موجودہ حالات میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعاون کا مطلب بین الاقوامی جرائم میں جان بوجھ کر حصہ لینا ہے۔ لہذا، "معمول کے مطابق کاروبار" اب قابل قبول نہیں ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ طویل مدتی قبضہ ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں اس کا منافع تشدد اور کسی قوم کی تباہی پر مبنی ہے، لہٰذا اس صورت حال کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قبضے اور نسل کشی کی حمایت کرنے والے معاشی میکانزم کو منظم طریقے سے بند کیا جائے۔

خصوصی نمائندے کی سفارشات:
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی حیثیت سے البانیز نے بھی اس سلسلے میں متعدد فوری اقدامات کی سفارش کی ہے، جس میں صیہونی حکومت اور غزہ میں نسل کشی میں ملوث کمپنیوں کے خلاف ریاستی پابندیاں عائد کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے سفارش کی ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں ان کمپنیوں پر پابندیاں عائد کریں، تجارتی معاہدوں کی معطلی، ہتھیاروں کی مکمل پابندی، اور اپنے ایجنڈے میں شامل کمپنیوں کے اثاثے منجمد کریں۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کام کرنے والی کمپنیاں فوری طور پر اسرائیل سے تعاون بند کریں، یہودی بستیوں میں سرگرمیاں بند کر دیں، اور فلسطینی عوام کو معاوضہ ادا کریں (بشمول ایک منصوبے کے ذریعے جس کا نام "اپارتھائیڈ ویلتھ ٹیکس" ہے)۔

البانیز نے نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں مینیجرز اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کا بھی مطالبہ کیا ہے اور سول سوسائٹی کو ایک سفارش میں کہا ہے کہ قابض صیہونیوں کے معاشی ڈھانچے پر دباؤ ڈالنے کے لیے بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اور پابندیاں (BDS) مہموں کو جاری رکھنے پر غور کیا جانا چاہیے۔

کاروبار یا جرائم کی پشت پناہی کا ایک منافع بخش منصوبہ:
اس رپورٹ میں پیش کی گئی مجموعی تصویر، اسرائیلی معیشت کی نہ صرف فلسطین پر فوجی قبضے کی بنیاد پر، بلکہ عالمی سرمایہ داری کے ستونوں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی ملی بھگت کو بھی واضح کرتی ہے۔ اس ظالمانہ معاشی کاروباری ڈھانچے نے فلسطین پر صیہونی قبضے کو ایک منافع بخش منصوبے میں بدل دیا ہے، جو سرمائے، ٹیکنالوجی اور سائنس کے عالمی نیٹ ورک کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ البانیز کے الفاظ میں، غزہ اور مغربی کنارے میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک "مشترکہ مجرمانہ منصوبہ" ہے۔ یعنی فلسطینیوں کو ختم کرنے کا منصوبہ۔ اسرائیلی حکومت کے لیے جوابدہ ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ ان کمپنیوں، بینکوں، یونیورسٹیوں اور ان کے منتظمین کو بھی بین الاقوامی عدالتوں اور عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش ہونا چاہیے اور ان پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ اس قانونی عمل کا حتمی مقصد کارپوریٹ احتساب، نسل کشی کا خاتمہ اور فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کمپنیوں اور ان کے ایگزیکٹوز ایگزیکٹوز کی ذمہ داری انسانی حقوق کی خلاف بین الاقوامی قانون نسل کشی میں ملوث کمپنیوں کے خلاف پر مقدمہ چلایا کی خلاف ورزیوں مقدمہ چلایا جا میں ملوث ہونے اقوام متحدہ جا سکتا ہے رپورٹ میں مقدمات کی کے مطابق گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مرتکب، تحقیقاتی کمیشن

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے غیرجانبدار بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کا مرتکب ہوا ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت تمام ممالک کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قتل عام کو روکنے اور اس کے ذمہ داروں کو سزا دینے کے اقدامات کریں۔

کمیشن نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکام اور سکیورٹی فورسز نے 1948 کے 'کنونشن برائے انسدادِ نسل کشی' میں بیان کردہ پانچ میں سے چار ایسے افعال کا ارتکاب کیا ہے جو نسل کشی کی ذیل میں آتے ہیں۔

Tweet URL

ان میں مخصوص انسانی گروہ کا قتل، اس کے ارکان کو شدید جسمانی و ذہنی نقصان پہنچانا، ان پر مکمل یا جزوی تباہی کا باعث بننے والے حالات زندگی مسلط کرنا اور ان کے تولیدی حقوق کو غصب کرنا یا نقصان پہنچانا شامل ہیں۔

(جاری ہے)

یہ تمام افعال اقوام متحدہ کے انسداد نسل کشی کنونشن کے تحت نسل کشی کے واضح اور سنگین مظاہر تسلیم کیے گئے ہیں۔

کمیشن کی سربراہ نوی پِلے نے کہا ہے کہ ان ہولناک جرائم کی ذمہ داری اسرائیلی کے اعلیٰ ترین حکام پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے تقریباً دو سال سے فلسطینیوں کو غزہ میں تباہ کرنے کی مخصوص نیت کے ساتھ ایک منظم نسل کشی کی مہم چلائی۔

اس کمیشن کا قیام اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی جانب سے 2021 میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس نے 7 اکتوبر 2023 اور اس کے بعد دو سال کے دوران غزہ میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں ایسے تمام اقدامات کی تفصیلات بیان کی ہیں جو فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہیں۔

نسل کشی کی منظم مہم

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ اسرائیل نہ صرف نسل کشی کو روکنے بلکہ ان افعال کی تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں بھی ناکام رہا۔

کمیشن نے نسل کشی کی نیت ثابت کرنے کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے مقدمے 'بوسنیا بنام سربیا' میں طے کیے گئے معیار یعنی 'واحد معقول نتیجہ' کو اپنایا اور اس معاملے میں اسرائیلی حکام کے بیانات کا جائزہ لیا جو نسل کشی کی نیت کا براہ راست ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

کمیشن نے غزہ میں اسرائیلی حکام اور سیکیورٹی فورسز کے عملی رویے کا تجزیہ بھی کیا جس میں فلسطینیوں کو فاقہ کشی پر مجبور کرنا اور غزہ میں ان پر غیر انسانی حالاتِ مسلط کرنا شامل ہے۔

ان شواہد کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایسی کارروائیوں میں نسل کشی کی نیت شامل تھی۔

رپورٹ میں کہا کیا گیا ہے کہ یہ نسل کشی ایک منظم اور طویل المدتی مہم کا حصہ تھی۔ اسرائیل نے نہ صرف نسل کشی کی نیت سے کارروائیاں کیں بلکہ اسے روکنے یا مجرموں کو سزا دینے میں بھی ناکام رہا۔ یہ نتائج بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق، اور عالمی ضمیر کے لیے ایک انتہائی سنجیدہ مسئلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

© UNICEF/Mohammed Nateel اسرائیل سے مطالبات

کمیشن نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں پر فوری عمل کرے جن میں غزہ کی پٹی میں نسل کشی کا خاتمہ اور 'آئی سی جے' کی جانب سے جاری کردہ عبوری اقدامات پر مکمل عملدرآمد بھی شامل ہے۔

تحقیقاتی کمیشن نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ بھوک کا بطور ہتھیار استعمال فوری بند کرے، غزہ کا محاصرہ اٹھائے اور انسانی امداد تک وسیع، محفوظ اور بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنائے۔ اس میں اقوام متحدہ کے تمام عملے، بشمول فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اس کے امدادی ادارے (انروا)، انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر اور تمام تسلیم شدہ بین الاقوامی انسانی امدادی اداروں کو رسائی دینا بھی شامل ہے۔

کمیشن نے نے اسرائیل سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ 'غزہ امدادی فاؤنڈیشن' کی سرگرمیوں کو فوراً بند کرے۔

© UN Women/Samar Abu Elouf عالمی برادری کی ذمہ داری

کمیشن نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں اور ایسے دیگر سازوسامان کی منتقلی کو روکیں جو نسل کشی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں، یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ ان کے دائرہ اختیار میں موجود افراد اور کمپنیاں براہ راست یا بالواسطہ کسی بھی صورت نسل کشی میں ملوث نہ ہوں اور ایسے افراد یا کمپنیوں کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائی کے ذریعے جوابدہی کو یقینی بنایا جائے جو نسل کشی میں کسی بھی طور پر شریک پائے جائیں۔

نوی پِلے نے کہا ہے کہ عالمی برادری غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموش نہیں رہ سکتی۔

جب نسل کشی کی واضح علامات اور ثبوت سامنے آ جائیں تو اسے روکنے میں ناکامی، خود اس جرم میں شراکت کے مترادف ہے۔

اس معاملے میں ہر روز کی بے عملی مزید انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہی ہے اور اس سے عالمی برادری کی ساکھ کو شدید نقصان ہو رہا ہے جبکہ تمام ممالک پر اس نسل کشی کو روکنے کے لیے اپنے اختیار میں موجود تمام ذرائع بروئے کار لانے کی قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی کا مرتکب، تحقیقاتی کمیشن
  • قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی، وولکر ترک
  • حکومت کی اوگرا اور کمپنیوں کو گیس کنکشنز کی پروسیسنگ فوری شروع کرنے کی ہدایت
  • امریکا کا بڑا اقدام: ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد
  • عرب اسلامی سربراہی اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ
  • ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ کے خلاف کسی پرتشدد اقدام سے گریز کیا جائے، پاکستان سمیت 16 مسلم ممالک کا انتباہ
  • مہسا امینی کی تیسری برسی پر ایران کے خلاف بین الاقوامی اقدامات کا مطالبہ
  • دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ دنیا کو محفوظ بنانے  کے لیے ہے، وفاقی وزیر اطلاعات
  • برلن،فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج