data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام ایک دین کامل ہے جس کے ہر حکم میں اللہ کی حکمت و دانائی پوشیدہ ہے۔ اسلامی مہینوں میں بھی رب کائنات نے ہمارے لیے بہت سی نشانیاں رکھی ہیں۔ اسلامی کلینڈر کے چار مہینے یعنی رجب، ذی القعد، ذو الحجہ اور محرم الحرام حرمت والے مہینے ہیں اور ان میں خصوصیت سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کو بجا لانا چاہیے اور نافرمانی والے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر36 میں اللہ تبارک و تعالیٰ حرمت والے مہینوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’بے شک شمار مہینوں کا، اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں، اللہ کی کتاب میں جس دن اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ان میں سے چار (مہینے) حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے، تو نہ ظلم کرو تم ان میں اپنی جانوں پر اور لڑو مشرکوں سے اکٹھے ہو کر جیسا کہ وہ لڑتے ہیں تم سے اکٹھے ہو کر اور جان لو کہ بے شک اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے‘‘۔
صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس ؓسے روایت ہے کہ جب رسول اللہؐ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ نبی کریمؐ نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس دن موسیٰ علیہ السلام نے فرعون پر غلبہ پایا تھا۔آپؐ نے اس پر فرمایا کہ پھر ہم ان کے مقابلے میں موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ حقدار ہیں۔ مسلمانو! تم لوگ بھی اس دن روزہ رکھو۔ بعد ازاں آپؐ نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملانے کا حکم صادر فرمایا جو اَب بھی مسنون ہے۔
سیدنا ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ زمانۂ جہالت میں لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو رسول اللہؐ اور مسلمانوں نے بھی رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے اس دن کا روزہ رکھا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو رسولؐ نے فرمایا کہ عاشورہ اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے تو جو چاہے عاشورہ کا روزہ رکھے اور جو چاہے اسے چھوڑ دے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ساتھ محرم الحرام کا مہینہ امیر المومنین سیدنا فاروق اعظمؓ کی عظیم شخصیت کی یاد بھی دلاتا ہے۔ امیر المومنین سیدنا فاروق اعظمؓ صحابہ کرامؓ میں سے انتہائی ممتاز حیثیت کے حامل ہیں اور آپؓ ان صحابہ کرامؓ میں شامل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے رسولؐ نے اپنی مبارک زبان سے جنت کی بشارت دی تھی۔ سنن ابی دائود میں روایت ہے کہ سعید بن زیدؓ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں رسولؐ پر کہ میں نے آپؐ کو فرماتے سنا۔ دس لوگ جتنی ہیں، ابوبکرؓ جنتی ہیں، عمرؓ جنتی ہیں، عثمانؓ جنتی ہیں، علیؓ جنتی ہیں، طلحہؓ جنتی ہیں، زبیرؓ جنتی ہیں، سعید بن مالکؓ جنتی ہیں، ابو عبیدہ بن جراحؓ جنتی ہیں اور عبدالرحمن بن عوفؓ جنتی ہیں۔ اور اگر میں چاہتا تو دسویں کا نام لیتا۔ وہ کہتے ہیں لوگوں نے عرض کیا وہ کون ہیں؟ تو وہ خاموش رہے، لوگوں نے پھر پوچھا وہ کون ہیں؟ تو کہا وہ سعید بن زیدؓ ہی ہیں‘‘۔
سیدنا فاروق اعظمؓ کو نبی کریمؐ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے بعد خلیفۃ المسلمین ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔ خلفائے راشدین میں سے آپؓ اپنی گورننس، نظم نسق اور بے مثال حکومت کے حوالے سے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ خدمت انسانیت کے حوالے سے سیدنا فاروق اعظمؓ نے جو کردار ادا کیا وہ رہتی دنیا تک ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ عمر فاروقؓ کی گورننس اور آپؓ کی حکومت نہ صرف اہل اسلام کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ غیر مسلم بھی آپ کے نظم و نسق اور حکمرانی کی صلاحیتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ آپؓ نبی کریمؐ کے عہد مبارک میں آپؐ کے جانثار ساتھی تھے اور آپ کے ہر حکم کی تعمیل کرنا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے تھے۔ آپؓ ابوبکر صدیقؓ کے دور میں ان کے قریبی ساتھی رہے اور آپ کے بعد اسلامی حکومت کی باگ ڈور کو سنبھالا اور بہترین انداز میں حکومت فرماتے رہے۔
سیدنا عمر فاروقؓ مدینہ میں رہتے ہوئے اس بات کی تمنا بھی کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپؓ کو شہادت کی خلعت فاخرہ عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی اس تمنا کو پورا فرمایا اور آپؓ دنیا سے شہید کی حیثیت سے رخصت ہوئے اور اس بات کا ذکر نبی آخر الزماں محمد رسول اللہؐ نے اپنی حیات مبارکہ ہی میں فرما دیا تھا۔ صحیح بخاری میں سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ جب نبی کریمؐ ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ اور عثمان بن عفانؓ کو ساتھ لے کر اُحد پہاڑ پر چڑھے تو اُحد کانپ اُٹھا۔ آپؐ نے فرمایا: اُحد! قرار پکڑ، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں‘‘۔ سیدنا عمر فاروقؓ کا یہ بھی اعزاز ہے کہ آپؓ کو تدفین کے لیے رسول اللہؐ کا جوار نصیب ہوا اور آپؓ قیامت کے روز تک کے لیے آپؐ کے ہمراہ محو خواب ہوگئے۔
محرم الحرام کا مہینہ سیدنا امام حسینؓ کی یاد بھی دلاتا ہے۔
سیدنا امام حسینؓ نبی کریمؐ کے خانوادے کے ایک عظیم اور جلیل القدر فرزند ہیں۔ آپؓ حضرت رسول اللہؐ کے انتہائی محبوب نواسے تھے اور نبی کریمؐ آپ سے بہت ہی زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے۔ سیدنا امام حسینؓ سیدنا علی المرتضیؓ کے لختِ جگر اور سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ کے نور نظر ہیں۔ آپؓ کی عظمت کے حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں عبداللہؓ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ حسن و حسینؓ کے لیے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا (ابراہیم علیہ السلام) بھی ان کلمات کے ذریعے اللہ کی پناہ سیدنا اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کے لیے مانگا کرتے تھے۔ ترجمہ: ’’میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعے ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے‘‘۔
2۔صحیح بخاری کی روایت ہے کہ انسؓ نے کہا سیدنا امام حسینؓ رسول اللہ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔
3۔صحیح بخاری میں عبداللہؓ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا تھا کہ میرے دونوں نواسے سیدنا امام حسنؓ اور امام حسینؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
4۔جامع ترمذی میں سیدنا ابو سعیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ سیدنا امام حسنؓ اور امام حسینؓ اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
سیدنا امام حسینؓ نے انتہائی مقدس اور پاکیزہ زندگی گزاری اور تاحیات اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی اور عبادت میں مشغول رہے۔ عمر بھر رسول اللہ کے نقش قدم پر گامزن رہے۔ اس قدر خوبصورت اور پاکیزہ زندگی گزارنے کے بعد دس محرم الحرام کو آپؓ کربلا کے مقام پر شہید ہوگئے۔ آپؓ کی شہادت کی کسک آج بھی اُمت مسلمہ کے ہر فرد و بشر کے دل میں موجود ہے۔ ؎
حسینؓ ابن علی ؓ نے کربلا میں یہ کیا ثابت
رہے جاری جو نیزے پر تلاوت ہو تو ایسی ہو
مستند روایات اور کتب میں درج ہے علامہ جزریؒ لکھتے ہیں کہ امام عالی مقام ؓ تمام نمازیں ادا کرتے تھے، آپؓ روزے رکھتے اور حج کرتے، بکثرت صدقہ دینے والے اور نیکی کے کاموں میں بہت زیادہ سبقت لے جانے والے تھے۔ آپؓ نے تقریباً25 حج پیدل کیے، اس کے علاوہ ساری رات قیام اور سال کے اکثر ایام میں روزہ رکھنا آپؓ کی مبارک زندگی کا معمول رہا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے، (کبھی) خوف اور (کبھی) بھوک (کبھی) جان ومال و ثمرات (دنیاوی نعمتوں اور اولاد) کی کمی کے ذریعے اور (ایسے حالات میں) صبر کرنے والوں کو (جنت کی بشارت) دے دیجیے‘‘ (سورۃ البقرہ: 155)۔
ترمذی شریف کی جلد ثانی میں ہے کہ ایک عورت کہتی ہے محرم کی دسویں تاریخ کو مدینہ طیبہ میں سیدہ ام سلمہؓ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ میں نے دیکھا آپؓ رو رہی ہیں۔ میں نے رونے کی وجہ پوچھی۔ تو ام المومنینؓ نے فرمایا: میں نے ابھی ابھی خواب دیکھا ہے کہ رسول انورؐ کے سر انور مبارک اور ریش مبارک میں گرد و غبار ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کیا بات ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: میں ابھی کربلا سے آ رہا ہوں، آج میرا حسینؓ قتل کر دیا گیا ہے۔ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ مجھے وُہی مٹی یاد آ گئی جو امام حسینؓ کی پیدائش کے وقت جبرائیل علیہ السلام نے میدان کربلا سے لا کر حضور پاکؐ کو دی تھی اور نبی کریمؐ نے وہ مٹی مجھے دے کر فرمایا کہ اس مٹی کو اپنے پاس رکھو جس دن میرا حسینؓ شہید ہوگا یہ مٹی خون بن جائے گی۔ سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی دیکھی تو خون بن چکی تھی اس مٹی کو میں نے شیشی میں سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔
میدان کربلا میں عظیم مصائب کے اوقات بھی آپؓ نے اللہ کے کلام کی تلاوت میں بسر کئے اور راتیں رکوع و سجود میں گزاریں۔ انتہا یہ ہے کہ جب آپؓ کو شہید کیا گیا اس وقت بھی آپؓ اللہ پاک کے حضور سجدہ میں تھے۔ آپؓ اور آپ کے ساتھیوں کو دس محرم 61 ہجری کو شہید کر دیا گیا۔ آپؓ کی شہادت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان پر جتنی مصیبتیں آجائیں صبر سے کام لیں اور ظالم جابر کے سامنے نہ جھکیں۔ ہر وقت اللہ کی عبادت کریں۔
ماہ محرم الحرام ہمیں جہاں ان عظیم شخصیات کی یاد دلاتا ہے وہیں ہم سے اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم مقدسات امت کے ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں اور کسی بھی طور پر ایسی گفتگو سے اعراض کریں کہ جس سے صحابہ کرام ؓ، اہل بیت عظامؓ، خلفائے راشدینؓ اور امہات المومنینؓ کی شان میں کسی قسم کی کمی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں حرمت والے اس مہینے میں نیکی کے کام کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سیدنا فاروق اعظم محرم الحرام علیہ السلام اللہ تعالی فرمایا کہ عمر فاروق حرمت والے نے فرمایا رسول اللہ جنتی ہیں کرتے تھے کے لیے ا اللہ کی اللہ کے کا روزہ کے ساتھ ہے کہ ا اور ا پ ہیں کہ
پڑھیں:
قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ اْن ہستیوں کو شریک ٹھیراؤں جنہیں میں نہیں جانتا، حالانکہ میں تمہیں اْس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلا رہا ہوں۔ نہیں، حق یہ ہے اور اِس کے خلاف نہیں ہو سکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو اْن کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے نہ آخرت میں، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے، اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں۔ آج جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اْسے یاد کرو گے اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔ (سورۃ غافر:42تا44)
سیدنا ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بے شک زمانہ گھوم کر پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کیے تھے۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں جس میں تین لگاتار ہیں: ذی قعد، ذی الحجہ اور محرم، چوتھا رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے‘‘۔ (بخاری) تشریح: ان حرمت والے مہینوں میں کسی قسم کی برائی اور فسق و فجور سے کلی طور پر اجتناب کرنا اور ان کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ یوں تو چاروں مہینے برکت و فضیلت سے بھر پور ہیں، لیکن ماہ محرم وہ مہینہ ہے جس میں دس تاریخ کو رسول اللہؐ نے روزے کا دن قرار دیا اور اسے سال بھر کے لیے کفارئہ گناہ ٹھیرایا ہے۔