حسینؓ سب کے ،حسینؓ ہمارے ،بڑے پیارے
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
معرکہ حق و باطل ازل سے شروع ہے اور ابد تک جاری و ساری رہے گا‘پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا تھا کہ’’جابر سلطان اور بادشاہان وقت کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا سب سے بڑا جہاد ہے‘‘۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر پڑھئیے کہ امام عالی مقام حضرت سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفی ظالموں سے مخاطب ہو کر کیا فرماتے ہیں۔’’لوگو! میرا حسب ونسب یاد کرو، سوچو میں کون ہوں؟ پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے ضمیر کا محاسبہ کرو، خوب غور کرو !کیا تمہارے لئے میرا قتل کرنا اور میری حرمت کا رشتہ توڑنا جائز ہے؟ کیا میں تمہارے نبیﷺ کی لڑکی کا بیٹا ، اس کے چچا زاد بھائی کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا سید الشہدا حضرت حمزہ میرے باپ کے چچا نہیں تھے؟ کیا تم نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں رسول اکرمﷺ کا یہ مشہور قول نہیں سنا ’’سیدا شباب اھل الجنۃ الحسن و الحسین رضی اللہ عنہما‘‘حسن و حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں‘ اللہ کی قسم! اس روئے زمین پر میرے علاوہ کسی نبی کی صاحبزادی کا بیٹا موجود نہیں، میں تمہارے نبی کابلا واسطہ نواسہ ہوں، تم مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟ میں نے کسی کا مال چھینا ہے، کسی کا خون بہایا ہے؟ آخر میرا کیا قصور ہے؟‘‘حرف حرف بزرگی و کمال، لفظ لفظ عظمت و شجاعت کی خوشبو سے مہکتا ہوا یہ زندہ جاوید خطبہ شہید کربلا، نواسہ رسول ﷺ ، جگر گوشہ بتول، ابن شیر خدا، حضرت سیدنا حسینؓ نے دشمن کے سامنے میدان کربلا میں دیا تھا۔ منصف مزاج شخص کیلئے تو اس خطبے کا ایک ایک لفظ عظمت سیدنا حضرت حسینؓ کی دلیل ہے۔سیدنا حضرت حسینؓ میں بیک وقت اتنے اوصاف و کمالات جمع تھے جو شاید ہی کسی اور میں ہوں‘رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ جا رہے ہوتے تھے گلی میں حضرت حسینؓ نظر آجاتے تو اپنے صحابہؓ سے آگے بڑھ کر بانہیں پھیلا لیتے اور محبت وشفقت سے بانہوں میں لے کر ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے دوسرا سر پررکھتے پیار سے بوسہ لیتے اور فرماتے ’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، جو ان سے محبت کرے، اللہ اس سے محبت کرے‘‘ ۔سیدنا حضرت حسینؓ کا غلبہ حق کیلئے ناقابل فراموش کردار اور بے مثال عزیمت و استقامت والا اقدام تاریخ اسلام کی روشن جبیںکا آفتاب و ماہتاب کی طرح چمکدار وحسین جھومر ہے۔ اوروہ لازوال کارنامہ ہے جسے دھندلانے میں تاریخ کے سینکڑوں ، ہزاروں طوفان ناکام رہے اور قیامت تک ناکام رہیں گے۔حضرت سیدنا حسینؓ ۵ شعبان ۴ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ محترمہ، محبوب کائنات سیدالانبیا ﷺ کی محبوب صاحبزادی سیدہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرہؓ ہیںاور والدمحترم شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ ہیں۔پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ ہوا۔ خود سیدالانبیاءﷺ نے بکری ذبح فرمائی، کان میں اذان دی،منہ میں لعاب دہن داخل فرمایا، دعا فرمائی اور’’حسین‘‘ نام تجویز فرمایا۔ عقیقے کے موقع پر نبی کریمﷺ نے آپ کے سر کے بال اتروائے اور ان بالوں کے وزن برابر چاندی خیرات کی۔ حضرت سیدنا حسین سے نبی کریمﷺ کو بے حد محبت تھی اور سیدنا حسین کے اندر نبی کریم ﷺ کا مکمل عکس موجود تھا۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں ’’جس نے گردن سے چہرے تک حضور ﷺ کی شکل وشباہت دیکھنا ہو وہ حضرت سیدنا حسینؓ کو دیکھے اور جس نے گردن سے لیکر ٹخنوں تک نبی کریمﷺ کی شکل و شباہت دیکھنی ہو وہ حضرت سیدنا حسینؓ کو دیکھے ‘ حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں کہ میں کسی ضرورت سے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے، آپﷺ نے چادر اوڑھ رکھی تھی اور گود میں کچھ اٹھا رکھا تھا میں جب کام سے فارغ ہو گیا، تو عرض کیا یارسول اللہﷺ! یہ گود میں کیا ہے؟ آپﷺ نے چادر ہٹا دی، میں نے دیکھا کہ ایک جانب سیدنا حسن اور دوسری جانب سیدنا حسین ہیں پھر آپﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میں ان سے محبت کرتاہوں ، آپ بھی ان سے محبت فرمائیے اور جو شخص ان سے محبت کرے، اس کوبھی اپنا محبوب بنا لیجئے ۔‘‘حضرت حسینؓ درمیانے قد کے مالک تھے، کشادہ پیشانی ، گھنی داڑھی، چوڑا سینا اور بڑے کندھوں والے تھے۔ آپ کی ہڈیاں مضبوط اور ہاتھ پائوں قوی تھے۔بال سیاہ اور جسم توانا تھا۔ آپ کے رنگ کی سفیدی میں سرخی کی آمیزش تھی، آواز بہت خوبصورت تھی غرض حسن وجمال کا حسیں پیکر تھے ۔
بس ایک جھلک تم کو دیکھا تھا مگر اب تک
آئینے کو حیرت ہے، تصویر کو سکتہ ہے
اے دل! وہ خدا جانے خود کتنے حسیں ہوں گے
جب ان کے تصور کی تصویر بھی یکتا ہے
حضرت حسینؓ پیدائش کے وقت سے لیکر حضورﷺ کے آخری لمحہ حیات تک خاص محبوب اور شرف صحبت سے مشرف رہے، حضرت حسینؓ نے آپﷺ کی حیات طیبہ کا دور بہت ہی کم پایا۔ یعنی حضرت حسینؓ کی عمر جب چھ سال سات ماہ کی ہوئی تو حضورﷺ کا انتقال ہو گیالیکن اس قلیل عرصے میں بھی حضرت حسینؓ نے آپﷺ سے بہت فیوضات وبرکات کو حاصل کیا اورتقریباً آٹھ احادیث امت کو حضرت حسینؓ کے واسطے سے ملی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت حسینؓ فرماتے ہیں نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: کمال اسلا م یہ ہے کہ انسان ان تمام باتوں کو چھوڑ دے جولغو،لا یعنی اور بے فائدہ ہوں۔حضرت حسینؓ کے ساتھ جو واقعہ شہادت پیش آنا تھا، اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی نبی کریمﷺ کو اس کی اطلاع دیدی تھی۔ایک حدیث میں ہے: ام فضل فرماتی ہیں کہ ایک دن حضرت حسین کو گود میںلئے ہوئے نبی کریمﷺ کے پاس حاضرہوئی اورحضرت حسین کو آپﷺ کی گود میں بٹھا دیا۔ میں کسی کام میں لگ گئی، اچانک میری نظر پڑی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپﷺ کی دونوں آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیںحیرت سے میں نے دریافت کیا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپﷺ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو کیوں جاری ہو رہے ہیں؟ فرمایا میرے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے تھے انہوں نے مجھے خبر دی کہ ایک وقت ایساآئے گا کہ میرے امتی میرے اس پیارے بیٹے کو قتل کردیں گے ‘ام فضل کہتی ہیں میں نے دوبارہ تعجب سے معلوم کیا کہ کیا حسین ہی کے ساتھ یہ معاملہ پیش آئے گا؟ آپﷺ نے فرمایا‘ہاں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فرماتے ہیں گود میں ا پﷺ کی
پڑھیں:
کربلا کی جنگ سے ہمیں بے لوث ،عظیم تر بھلائی کیلئے قربانی کی اہمیت کا درس ملتا ہے‘ مسرت جمشید چیمہ
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 جولائی2025ء)پاکستان تحریک انصاف کی سینئر رہنما مسرت جمشید چیمہ نے عاشورہ محرم پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ طاقت کے استعمال سے ظلم و جبر کے شکار لوگوں کے لیے حضرت امام حسین کی مثال صبر ،برداشت اور ظلم کے خلاف مزاحمت تاریکی میں امید کا دیا جلائے رکھتی ہے،نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے محبوب نواسے اسلام کی اخلاقی اساس کی حفاظت کے لیے ڈٹے رہے اور انسانیت کی تاریخ میں اپنی شجاعت، بہادری اور ایمان کی طاقت کے ان مٹ نقوش چھوڑ گئے۔انہوںنے کہا کہ حضرت امام حسین کا اپنے وقت کے ظالم حکمران یزید کے خلاف موقف طاقت یا انتقام کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ انصاف، اسلامی اقدار کے تحفظ، بدعنوانی اور ظلم سے اسلامی معاشرے کی حفاظت کیلئے ایک اصولی موقف تھا۔(جاری ہے)
اس جرتمندانہ عمل سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں ظلم اور غلط کام کے سامنے نہیں جھکنا چاہیے اور ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔
انہوںنے کہا کہ حضرت امام حسین کے ساتھی جو اس پرآشوب دن میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے ہمیں وفاداری، راست بازی اور حق و انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا ساتھ دینے کی اہمیت سکھاتے ہیں،کربلا کی جنگ سے ہمیں بے لوث اور عظیم تر بھلائی کے لیے قربانی کی اہمیت کا درس ملتا ہے۔