زباں فہمی267 ; عربی اسمائے معرفہ اور ہمارے ذرایع ابلاغ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, November 2025 GMT
ہمارے ذرایع ابلاغ (عُرف میڈیا) کی مثال خودرَو جنگل کی سی ہے کہ بس کسی نے کوئی تخم ڈالا نہ ڈالا، اِدھر اُدھر سے، ہوایا بارش یا کسی اور وسیلے سے تخم ریزی ہوئی اور مخصوص حالات میں یا مخصوص ومحدود ماحول میں بہت سے پودے درخت بنے، جھاڑیاں ۔یا۔ جھاڑ جھنکاڑ بنتے بنتے گویا چند برسوں میں ایک ایسا جنگل کھڑا ہوگیا کہ جس کی حالت میں سُدھار، کسی متعلق فرد یا سرپرست کے بس کی بات نہیں۔ یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرے کہ صاحب! اگر آپ کو کوئی پوچھتا نہیں یعنی عوامی بولی (Slang) میں کہیں کہ Lift نہیں کراتا تو آپ ایسے سخت تبصرے کرتے ہیں۔
{کوئی پچیس سال پہلے جب ہمارے خبررَساں ٹیلیوژن چینلز(News TV channels) کا ’’سیلابی در‘‘ (Floodgate) کھُلا تھا تو اِبتدائی برسوں میں (بلکہ مابعد بھی، وقفے وقفے سے) اس راقم کا متعدد چینلز میں جانے اور ’’خوار ‘‘ ہونے کا کئی مرتبہ تجربہ ہوا، ایک بہت بڑے چینل میں ’پیشکش‘ بھی ہوئی جو ہم نے بوجوہ ٹھکرادی.
یہ چینلز اور پھر اِ ن سے منسلک یا متأثر ہونے والے اخبارات وجرائد نہ صرف اُردو کا ستیاناس کرنے پر تُلے رہتے ہیں، بلکہ حسبِ منشاء دنیا کی ہر زبان کا ہر نام یعنی اسم ِ معرفہ بھی بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنادیتے ہیں۔ پچھلے مضمون میں چند تازہ مثالوں کی بات ہوئی تو لگے ہاتھوں یہ بھی دیکھتے چلیں کہ ہمارے شعبہ خبر کے لوگ، سب سے زیادہ جس زبان کی ایسی تیسی کرتے ہیں، وہ عربی ہے۔ (ہاں جہاں جہاں ان کی لاعلمی عروج پر ہو، انگریزی، فرینچ اور دیگر مغربی زبانوں کے ساتھ بھی سوتیلی ماں والا سلوک کرنے سے نہیں چُوکتے)۔
ماضی میں اس بارے میں متعددکالم اور مضامین لکھے جانے کے باوجود، تصحیح اِملاء و تلفظ کا باب ہنوز نامکمل ہے۔ ہمیں ایک ہی نام بہ یک وقت دس پندرہ یا کبھی تو اِس سے بھی زیادہ ٹی وی چینلز کی خبروں میں غلط سننے کو ملتا ہے اور پھر مَرے پہ سَو دُرّے کے مصداق اخبارات بھی بھیڑچال کا عملی نمونہ فراہم کرنے سے نہیں چُوکتے۔ یہاں مناسب بلکہ ناگزیر محسوس ہوتا ہے کہ عالمی تناظُر میں بہت عام اور مشہور اسمائے معرفہ کی چند مثالیں پیش کی جائیں جن کا ماخذ عربی ہے اور جو تقریباً تمام اردو چینل (نیز اُن کی تقلید میں مقامی/علاقائی زبانوں کے چینل) ہمیشہ یا اکثر غلط ہی بولتے ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں شامل، سب سے بڑی ریاست، اَبوظبی کو ہمارے یہاں نہ صرف ذرایع ابلاغ بلکہ عوام وخواص کی غالب اکثریت ’ابوظُہہ۔بِی‘ یا انگریزی کے اثر سے ابو۔دھابی (Abu Dhabi) لکھتی پڑھتی اور کہتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض حضرات ابوظبی ہی میں رہتے ہیں اور جب یہاں پاکستان آتے ہیں تو ابو۔دھابی یا ابودہابی کہتے ہیں۔ اسی طرح امارات میں شامل دوسری ریاست دُبئی کو ہمارے لوگ دو۔بئی لکھ دیتے ہیں، بلکہ بہت پہلے کسی نے مجھے ٹوکا بھی تھا کہ آپ نے دوبئی کو دُبئی کیوں لکھ دیا۔
{عربی سے ہٹ کر بات کروں تو ایک اور لسانی لطیفہ پیش کرسکتا ہوں۔ سندھ کا ایک شہر ہے خیرپُور مِیرس۔ یہ نام انگریز کا دیا ہوا ہے یعنی Khairpur Mirs۔یا۔ مِیروں /ٹالپُروں کا خیرپُور۔ ماضی قریب میں ایسے دو تین افراد سے واسطہ پڑا جو وہیں کے رہنے والے تھے مگر اپنے شہر کا نام ’’خیر پور مِی رَس‘‘ لے رہے تھے}۔
ہمارے ذرایع ابلاغ میں افریقی مسلم ملک الجزائر کو فرینچ/ انگریزی نام الجیریا ( Algeria) سے زیادہ یاد کیا جانے لگا ہے، جس کی کوئی وجہ نہیں۔ اس کا سرکاری نام الجمہوریۃ الجزائریۃ الدیمقراطیہ ) (People's Democratic Republic of Algeria ہے اور اِس کا مختصر نام الجزائر مدتوں سے اردو میں موجود ہے، مگر ہمارے ذرایع ابلاغ سے منسلک بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ یہ نام دارالحکومت الجزائر ہی کے نام پر رکھا گیا ہے مگر اُسے انگریزی میں الجیریا کی بجائے الجیئر (Algiers ) کہتے ہیں (فرینچ لفظ ہے، آخری حرف ساکن کے ساتھ)۔
اَلاَخضَر اَلابرہیمی نہ کہ لخدر براہیمی (Lakhdar Brahimi): اقوام متحدہ کے سابق ایلچی اور الجزائر کے سابق وزیرخارجہ جن کا نام کوئی دس پندرہ سال پہلے بہت زیادہ لیا جاتا تھا (مگر غلط: لخدر) گویا زباں زدِخاص وعام تھا۔ بات کی بات ہے کہ ابراہیم سے ابراہیمی اور پھر براہیمی درست ہے، مگر اصل نام الاخضر یعنی سبز کو بِگاڑ کر ’’لخدر‘‘ کرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں!
علامہ اقبال نے کہا تھا:
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ اِلّا اللہ
اور اُن کی نظم ’طلوعِ اسلام‘ کے ایک شعر میں ’براہیمی‘ بھی استعمال ہوا:
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہَوَس چھُپ چھُپ کے سِینوں میں بنالیتی ہے تصویریں
اسی طرح کا ایک اور نام بھی ماضی میں بہت زیادہ سننے پڑھنے کو ملتا تھا اور وہ بھی غلط: صائب عریقات (فلسطینی مذاکرات کار) کو بزبانِ انگریزی Saeb Erekat لکھا جاتا ہے۔ ہمارے چینلز اور اخبارات نے یہ نام سائب ارکات اور سائب اریکات بنا دیا۔
القاعدہ کو اِس قدر کثرت سے لکھا، پڑھا، پڑھایا اور سُنایا گیا کہ بہت سے لوگ اس کا صحیح املاء ہی بھول گئے یا اُنھوں نے جاننے کی سعی کیے بغیر ’القائدہ‘ لکھنا شروع کردیا، غالباً یہ وہی لوگ ہوں گے جنھوں نے بچپن میں ’قاعدہ ‘ نہیں پڑھا اور ’قائدہ‘ کہیں لکھا دیکھ کر یاد کرلیا۔ اسی تنظیم کے دوسرے سربراہ کا نام ہمارے یہاں اَیمَن اَلظواہِری ( اَظ۔ظوا۔ہِری: اس نام میں لام نہیں بولا جاتا) کی بجائے ایمن اَلزواہِری لکھا جاتا رہا جو کسی بھی طرح درست نہیں۔ اس غلطی کا سبب انگریزی سے اندھا دُھند نقل اور کسی عربی ماخذ یا کسی بھی عالم فاضل شخص سے معلوم نہ کرنا ہے۔
ہمارے عربی داں دوست جناب عبدالرحمٰن صدیقی بتاتے ہیں کہ ’القاعدہ‘ کا مطلب ہے، اَڈّہ، عمارت کی بنیاد یا ضابِطہ، جبکہ ’القائدہ‘ سے مراد ہے پھیلا ہوا لمبا ٹِیلہ ۔یا۔ آگے رہنے والا (کارواں یا قطار میں) اونٹ۔ اب جنھیں اونٹ کی سواری کا شوق زیادہ ہو، وہ ’القاعدہ‘ نہ لکھا کریں، القائدہ ہی پر ڈٹے رہیں۔
عربی میں ’اَل‘ کا استعمال کلمہ تخصیصی (Definite article) کے طور پر ہوتا ہے۔ یہ چھوٹی سی بات ہمارے خواندہ لوگ عموماً یاد نہیں رکھتے اور اَسمائے معرفہ کے معاملے میں اُلجھن کا شکار رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذرایع ابلاغ نے ایک اور عربی لفظ ’آل‘ کو گڈ مڈ کردیا ہے یعنی اگر کسی نے نام کے ساتھ نسبت لگی ہے، آل، تو وہ اسے ’ال‘ بنادیتے ہیں۔ شیخ زایدبن سلطان آل نہیان (6 مئی1918ء تا 2 نومبر 2004ء) کا نام ہمارے یہاں نہ صرف ذرایع ابلاغ میں بلکہ عام گفتگو میں بھی بکثرت غلط لیا جاتا ہے۔ لوگ عموماً شیخ زید ۔بن۔سلطان ۔اَل۔نَہیَان لکھتے پڑھتے اور کہتے سُنائی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ’ال‘ کے استعمال کی مثالیں بھی موجود ہیں:
قطر کے موجودہ اَمیر کا نام شیخ تَمِیم بن حَمَد الثانی (SheikhTamim bin Hamad Al Thani) ہے۔ اُنھیں یار لوگ تمیم بن حماد۔ اَتھ۔تھانی پڑھ دیتے ہیں کیونکہ یہ تو ۹۹ فیصد پاکستانی خواندہ (عرف دیسی انگریزوں) کو معلوم ہی نہیں کہ TH کی آواز، عربی کے ’ث‘ کے مماثل بھی ہے، اسی لیے حدیث کو Hadith لکھا جاتا رہا ہے مگر ہمارے برگر بچّوں کو بہت دِقّت ہوتی تھی، اس لیے آکسفرڈ اور کیمبرج نے اپنا معیار تبدیل کرتے ہوئے Hadeesکو بھی صحیح قرار دے دیا، حالانکہ حدیس کہنے سے یہ کچھ اور ہی ہوجاتا ہے۔
امیر موصوف کے والد مرحوم اور دیگر اَراکین ِ خانہ کو بھی ’حمََد‘ کی بجائے ’حماد‘ (بلکہ بعض جگہ تو میم پر تشدید کے ساتھ) اور اَث۔ثانی کی بجائے اَتھ۔تھانی لکھا، پڑھا اورکہا جاتا رہا ہے۔ ’ال‘ کے استعمال کی ایک اور مثال اُردَن ( نہ کہ اُردُن) کے بادشاہ عبداللّہ اَلثانی کی ہے۔ اس کے علاوہ، سعودی عرب کے عمائدین کے یہاں ’ال‘ کا استعمال بہت عام ہے، البتہ ’آلِ سعود‘ کو ’اَل۔سعود‘ ۔یا۔ اَس سعود لکھنا اور کہنا درست نہیں!
پچھلے مضمون میں یہ بات لکھنے سے رہ گئی کہ رام اللّہ کے دو معانی ملتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قدیم کنعانی زبان کے لفظ ’رام‘ بمعنیٰ بلند علاقہ کے ساتھ عربوں نے اللّہ کا اضافہ کرکے اسے خالص اسلامی عربی نام بنادیا گویا مفہوم ہوا، اللّہ کا بلند وبالا علاقہ، دیگر یہ کہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ عربی میں رام کا مطلب ہے ’ارادہ۔یا۔فیصلہ کرنا‘، چنانچہ ’’رام اللّہ‘‘ کا مطلب ہوا: اللّہ نے ارادہ کیا یا اللہ نے فیصلہ کیا۔ میرا لسانی قیاس یہ کہتا ہے کہ پہلی توجیہ ہی صحیح ہے۔
فلسطین کی انتظامیہ کے زیرانتظام، مغربی کنارے کے جنوب میں واقع، علاقہ الخلیل، انگریزی میں Hebron کہا جاتا ہے، مگر تعجب ہے کہ ہمارے یہاں بھی لوگ انگریزی یا صہیونی یہودی/اسرائیلی نام ہیبرون پکارنے اور لکھنے لگے ہیں۔ یہ شہر، یہودیوں کے چار مقدس شہروں میں شامل ہے۔ دیگر تین کے نام یہ ہیں: یروشلم یعنی بیت المقدس، الخلیل، طبریا(Tiberias) اور صَفَد (عبرانی میں زیفاتTzfat or Zefat:) جسے سہواً سفید بھی لکھا گیا ہے۔ اسی طرح فلسطین ہی کا قدیم علاقہ اَرِیحا بھی ہے جس کا نام اسلامی تاریخ میں بھی منقول ہے، اس کا انگریزی نام Jericho ہمارے یہاں نقل ہورہا ہے۔
مُلک شام کا قدیم اور تاریخی شہر حَلَب، انگریزی میں Aleppo کہلاتا ہے۔ یہ شہر دنیا کے اُن قدیم شہروں میں شامل ہے جو ہزاروں سال سے مسلسل آباد ہیں۔ آرامی (Aramaic) جیسی انتہائی قدیم زبان میں اسے حلبہ (Halba) کہتے تھے، پھر عَکّادی ۔یا۔اَکّادی (Akkadian) زبان میں اسے حَلَب کہا گیا اور یہی نام عربی میں اپنالیا گیا۔ ابنِ بَطّوطہ کے سفرنامے میں مذکور رِوایت کی رُو سے اس شہر کے قدیم مقام پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں اور مسافروں کو اَپنی بکریوں کا دودھ پیش کیا کرتے تھے اور اِسی وجہ سے اس جگہ کو ’’حَلَبِ اِبراہیم‘‘ کہا جانے لگا تھا۔
حَلَب کا نام ہماری اسلامی تاریخ میں بھی بہت مشہور ہوا۔ سپہ سالارِاِسلام ’امین الامّت‘ حضرت ابوعًبیدہ بن الجرّاح (رضی اللہ عنہ‘) نے، سن16ہجری (مطابق 637 عیسوی) میں امیرالمؤمنین سَیّذُنا عمر فاروق (رضی اللہ عنہ‘) کے عہد ِ خلافت میں اسے فتح کرکے اسلامی حکومت کا حصہ بنایا۔ حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ہماری درسی کتب میں یہ نام ہنوز موجود ہے، کوئی نامانوس یا متروک نام نہیں، مگر ہمارے ٹی وی چینلز نے کچھ عرصے سے انگریزی نام اپنالیا ہے، کیونکہ وہاں اتنے پڑھے لکھے لوگ نہیں جو اَصل عربی نام جاننے کی زحمت گوارا کریں۔
رَفَح نامی فلسطینی شہر کو رومن رسم الخط میں Rafah لکھا ہوا دیکھ کر ہمارے چینلز اور اخبارات نے ’’رفاہ‘‘ بنا دیا۔
کرکٹ کے شعبے میں شارجہ کا نام بہت مشہور ہے، یہ اصل میں شارقہ ہے جس کا انگریزی رُوپ ہمارے یہاں اپنالیا گیا اور آج لوگ باگ شارقہ سے واقف نہیں۔ عرب دنیا میں دو نام فقط ہجّے کے فرق سے مختلف ہیں، ورنہ بظاہر ایک ہی ہیں اور اِسی وجہ سے لوگ انھیں گڈ مڈ کردیتے ہیں۔ عَمّان (Amman)، اُردَن کا دارالحکومت ہے جبکہ عُمان (Oman) ایک خلیجی ملک کا نام ہے جس کا دارالحکومت مسقط ہے۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ ان دونوں ناموں کو خلط ملط کرنے کے علاوہ، عُمان کو ’’اومان‘‘ بھی لکھ دیتے ہیں۔ فِلَسطِین کا ایک بڑا شہر ہے نابلُس (Nablus)، اسے ہمارے یہاں سہواً نابلُوس کہا جانے لگا۔ ایک اور فلسطینی شہر ’طولکرِم‘ (Tulkarem) ہے جسے ہمارے یہاں تُلکرم لکھا جانے لگا ہے۔
یہ فہرست بہت طویل ہے مگر قارئین کرام بشمول ذرایع ابلاغ سے متعلق لوگ پہلے اسے ہی پڑھ کر، سمجھ کر، پرچار کریں اور دوسروں کو دعوتِ اصلاح دیں تو سارے نام گنوانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ہدیہ سپاس: اس مضمون کی تیاری میں بزم زباں فہمی کے معزز رُکن اور میرے دیرینہ (غائبانہ) دوست جناب عبدالرحمٰن صدیقی کی نگارش بعنوان ’’اردو ذرایع ابلاغ میں عربی زبان کی بعض عام اغلاط کا جائزہ‘‘، مشمولہ معارف مجلّہ تحقیق، بابت جنوری تا جون 2015ء سے استفادہ کیا گیا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہمارے ذرایع ابلاغ ہمارے یہاں کی بجائے دیتے ہیں جانے لگا کے ساتھ جاتا ہے ایک اور اور ا س سے لوگ یہ نام کا نام بہت سے کی بات
پڑھیں:
تجدید وتجدّْد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
3
مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔
متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔
تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)
آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔
الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔
غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔
(جاری)