Jasarat News:
2025-11-03@03:16:21 GMT

ماہ محرم اور یوم عاشور کی فضیلت

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اللہ ربّ العزت نے جب سے زمین وآسمان پیدا فرمائے ہیں، مہینوں کی تعداد بارہ مقرر کی ہے یعنی محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادیٰ الاولیٰ، جمادیٰ الثانی، رجب، شعبان، رمضان، شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ۔ ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں: محرم، رجب، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ۔ اور ان میں سے محرم الحرام کی نسبت اپنی طرف کی ہے:
ہادی عالم محمد رسول اللہؐ سے سیدنا ابوذر غفاریؓ نے پوچھا تھا کہ: ’’رات کا کون سا حصہ بہتر ہے اور کون سا مہینہ افضل ہے، تو آپؐ نے فرمایا: رات کا درمیانی حصہ بہتر ہے اور افضل مہینہ، اللہ کا وہ مہینہ ہے جسے تم محرم کہا کرتے ہو‘‘۔ امام نسائی نے السنن الکبری:4102 میں اس حدیث کو روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔

اس سے مراد اس کا رمضان المبارک کے علاوہ دوسرے مہینوں سے افضل ہونا ہے کیونکہ صحیح مسلم میں ابوہریرہؓ سے یہی بات مروی ہے:
رسول اللہؐ سے کسی نے پوچھا کہ بعد فرض نماز کے کون سی نماز افضل ہے اور ماہ رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نماز، رات کی (تہجد) اور روزے محرم کے‘‘ (صحیح مسلم)۔
سیدنا حسنؓ کی مرسل روایت میں ہے: ’’فرض نمازوں کے بعد افضل نماز وہ ہے جو درمیانی رات کو ادا کی جائے یعنی تہجد اور رمضان المبارک کے بعد افضل مہینہ محرم ہے اور یہی اللہ کا مضبوط مہینہ ہے‘‘۔
اس مہینے کے اللہ کی طرف منسوب ہونے سے ہی اس کی فضیلت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ کسی خاص چیز کی نسبت ہی اللہ کی طرف ہوسکتی ہے جیسے رسول اللہ، خلیل اللہ، بیت اللہ، کتاب اللہ، ناقۃ اللہ انہی نسبتوں کی طرح اس مہینے کی نسبت بھی اللہ کی طرف ہے اور اسے شھر اللہ المحرم قرار دیا گیا ہے۔
حرمت والے مہینوں کا اللہ کے ہاں خاص احترام ہے، ان میں لڑائی جھگڑا، دنگا فساد تو بالکل ہی نہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے:
’’اللہ کے ہاں اس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور اس دن سے ہے جس دن، اس نے زمین وآسمان پیدا فرمائے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، یہی سیدھا (اور معتدل) دین ہے، لہٰذا تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو‘‘ (سورہ التوبۃ: 36)۔

جس طرح حرمت والے مہینوں میں محرم الحرام کو شہراللہ ہونے کا شرف حاصل ہے اسی طرح اس مہینے کے دنوں میں عاشورا کو بھی خاص شرف حاصل ہے، کیونکہ:
اس دن اللہ نے سیدنا آدمؑ کی توبہ قبول فرمائی تھی۔ ابن عباسؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ’’یہی وہ دن ہے جس میں آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی گئی‘‘ (اتحاف اھل الاسلام بخصوصیات الصیام)۔
نوٹ: یوم عاشور سے متعلق اس طرح کی روایات کو ضعیف احادیث میں جمع کیا گیا ہے اور یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔
سیدنا علیؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: ماہ رمضان کے بعد کس مہینے میں روزہ رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں؟ تو انہوں نے اس سے کہا: میں نے اس سلسلے میں سوائے ایک شخص کے کسی کو پوچھتے نہیں سنا، میں نے اسے رسول اللہؐ سے سوال کرتے سنا، اور میں آپ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! ماہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر ماہ رمضان کے بعد تمہیں روزہ رکھنا ہی ہو تو محرم کا روزہ رکھو، وہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے کچھ لوگوں پر رحمت کی اور اس میں دوسرے لوگوں پر بھی رحمت کرے گا‘‘ (سنن ترمذی)

سیدنا علیؓ نے فرمایا: عاشورا کا یہ وہی دن ہے جس میں یونس علیہ السلام کی توبہ قبول کی گئی۔
ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب نبی کریمؐ مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ ایک دن یعنی عاشور کے دن روزہ رکھتے تھے۔ ان لوگوں (یہودیوں) نے بتایا کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی اور آل فرعون کو (اس کے لشکر سمیت بحیرۂ قلزم میں) غرق کیا تھا۔ اس کے شکر میں موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کا ان سے زیادہ قریب ہوں۔ چنانچہ آپؐ نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا (صحیح بخاری)۔
چنانچہ صحابہ کرامؓ اس روز خود بھی روزہ رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے اور ان کے لیے کھلونے بناتے جب وہ روتے تو انہیں ان سے شام تک بہلاتے تھے۔
’’اور انہیں ہم اون کا ایک کھلونا دے کر بہلائے رکھتے۔ جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو وہی دے دیتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا‘‘ (صحیح بخاری)
یہ معاملہ فرضیت صیام رمضان تک رہا۔ اس کے بعد اس کی پابندی ختم ہوگئی اور فضیلت باقی رہ گئی۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں ابوقتادہ سے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک آدمی نے نبیؐ سے یوم عاشور کے روزے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
’’میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ یوم عاشور کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے‘‘ (صحیح مسلم)

ام المؤمنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ عاشور ایک ایسا دن تھا کہ جس میں قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے اور رسولؐ بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، جب آپ مدینہ آئے تو اس دن آپ نے روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، لیکن جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو صرف رمضان ہی کے روزے فرض رہے اور آپ نے عاشورا کا روزہ ترک کر دیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے (سنن ترمذی)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: 1۔ یہ حدیث صحیح ہے، 2۔ اس باب میں ابن مسعود، قیس بن سعد، جابر بن سمرہ، ابن عمر اور معاویہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
ہاں البتہ آپ خود روزہ ضرور رکھتے بلکہ فرمایا تھا کہ میں آئندہ سال دو روزے رکھوں گا لیکن آپ کی عمر نے وفا نہ کی (صحیح مسلم)۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ماہ رمضان کے بعد روزہ رکھتے تھے علیہ السلام یوم عاشور رسول اللہ نے فرمایا حرمت والے کے بعد ا کا روزہ کو بھی بھی اس ہے اور

پڑھیں:

قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-1

 

 

زمین اور آسمانوں کے لشکر اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ زبردست اور حکیم ہے۔ اے نبیؐ، ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کر دینے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ اے لوگو، تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اْس کا ساتھ دو، اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔ اے نبیؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا اب جو اس عہد کو توڑے گا اْس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہوگا، اور جو اْس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے، اللہ عنقریب اس کو بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ (سورۃ الفتح:7تا10)

 

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روا یت ہے انہوں نے یہ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی سو جاتا ہے تو شیطان اس کے سر کے پچھلے حصے پر تین گرہیں لگاتا ہے ہر گرہ پر تھپکی دیتا ہے کہ تم پر ایک بہت لمبی رات (کا سونا لازم) ہے جب انسان بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے اور جب وہ وضو کرتا ہے اس سے دوسری گرہ کھل جاتی ہے پھر جب نماز پڑھتا ہے ساری گرہیں کھل جاتی ہیں اور وہ چاق چوبند ہشاش بشاش پاک طبیعت (کے ساتھ) صبح کرتا ہے ورنہ (جاگ کر عبادت نہیں کرتا تو) صبح کو گندے دل کے ساتھ اور سست اٹھتا ہے۔ (صحیح مسلم)

قرآن و حدیث

متعلقہ مضامین

  • تجدید وتجدّْ
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا
  • نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کل استنبول کا ایک روزہ دورہ کریں گے
  • این سی سی آئی اے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عثمان کا مزید دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • کراچی آرٹس کونسل میں 38 روزہ ورلڈ کلچر فیسٹیول کا آغاز
  • کوہستان کرپشن اسکینڈل کے مرکزی ملزم قیصر اقبال اور انکی اہلیہ کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور
  • بابا گورونانک کا 556ویں جنم دن، ننکانہ صاحب کے تعلیمی اداروں میں 3 روزہ تعطیل