Jasarat News:
2025-07-04@06:45:56 GMT

محرم کی وجہِ تسمیہ

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

علامہ سخاویؒ نے ذکر کیا ہے کہ محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ اس کی حرمت کی تاکید ہے۔ اس لیے کہ عرب زمانۂ جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے تھے، کبھی حلال کر ڈالتے، کبھی حرام کر ڈالتے (تفسیر ابن کثیر)۔

ماہِ محرم کی فضیلت
رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کے ہیں (مسلم)۔ اس حدیث میں رسول اللہؐ کا محرم الحرام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمانا، اس مہینے کے شرف اور خصوصی فضیلت پر دالّ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی مخلوق کی نسبت ہی اپنی طرف فرماتا ہے (لطائف المعارف)۔ اس حدیث سے پورے ماہِ محرم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے (الکوکب الدری)۔ نیز سیدنا ابن عباسؓ نے سورہ فجر میں آیت ’وَالْفَجْرِ‘ کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ اس سے مراد ماہِ محرم الحرام کی پہلی تاریخ کی فجر ہے، جس سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ سیدنا قتادہؓ سے بھی یہی منقول ہے، گو اس میں بہت سے اقوال ہیں (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی)۔

حرمت والامہینہ
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: اللہ کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں، جس روز سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اللہ کی کتاب میں سال کے بارہ مہینے لکھے ہوئے ہیں، ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں (التوبہ)۔

ماہِ محرم میں روزے کی فضیلت
سیدنا نعمان بن سعد سیدنا علیؓ سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپؓ رمضان کے علاوہ مجھے کس مہینے میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ سیدنا علیؓ نے فرمایا: میں نے اس کے متعلق ایک آدمی کو رسولؐ سے سوال کرتے ہوئے سنا۔ اس وقت میں آپؐ کی خدمت میں حاضر تھا۔ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اگر تم رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہو تو محرم کے روزے رکھا کرو، کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اسی دن دوسری قوم کی توبہ قبول کرے گا (ترمذی)۔

عاشورا کے روزے کی فضیلت واحکام
دسویں محرم کو عاشورا کہتے ہیں۔ سیدنا ابوقتادہؓ بیان کرتے ہیں، رسولؐ سے عاشورا کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: عاشورا کا روزہ، گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے (مسلم)۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب آپؐ نے یومِ عاشور کا روزہ رکھنے کو اپنا اصول ومعمول بنایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اس دن کو تو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (گویا یہ ان کا قومی ومذہبی شعار ہے) اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے، جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ان شاء اللہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھیں گے۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آئندہ سال ماہِ محرم آنے سے قبل ہی رسولؐ وفات پاگئے (مسلم)۔

فقہا و علما کے اقوال
اسی لیے فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ اور اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد یعنی نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور صرف عاشورا کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس لیے کہ اس میں یہود کی مشابہت ہے (شامی)۔ البتہ مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے ایک بات لکھی ہے کہ ہمارے زمانے میں چونکہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یومِ عاشور کا روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں، لہٰذا فی زماننا رفعِ تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کے روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے (معارف الحدیث)۔
یہ بھی خیال رہے کہ ان روایات میں جن گناہوں کی معافی کا ارشاد اور وعدہ ہے اس سے مراد صغائر ہیں، باقی کبیرہ گناہوں کی معافی کی بھی امید رکھنی چاہیے، مگر ان احادیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے بھروسہ پر گناہ کرنے لگے۔ گناہوں پر نادم ہو اور پاک باز رہنے کی کوشش کرتا رہے، تو یہ چیزیں ان شاء اللہ مددگار ثابت ہوں گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی کی فضیلت رمضان کے کا روزہ محرم کی

پڑھیں:

12 روزہ جنگ میں کس نے کیا کھویا کیا پایا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

13 جون سے 23 جون تک ایران اسرائیل کے بیچ جنگ اور 24 جون کو سیز فائر ہوجانے کے بعد عالمی منظرنامے میں کیا تغیر واقع ہوا ہے اس کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ جب اسرائیل نے ایران پر اس خبر کے باوجود بھی کہ ایران اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات آئندہ ہفتے معاہدے کی شکل میں ڈھل جائیں گے ایک بھر پور حملہ کردیا، گو کہ اسرائیل اس حملے کا چرچا کافی دیر سے کررہا تھا اور اس طرح مسلسل خبردار کرتے ہوئے اچانک حملہ کردیا۔ دشمن کی یہ بھی ایک چال ہوتی ہے کہ ایسے وقت پر دھاوا بولا جائے جب سامنے والے کے ذہن میں دور دور تک بھی اس حملے کے خدشات نہ ہوں۔ یعنی ایک طرف تو ایران کو اس پر ہونے والے حملے کی دھمکیاں تو مل رہی تھیں لیکن ایران کے سامنے یہ بات بھی تھی کہ ابھی تو اسرائیل کے واحد سرپرست امریکا سے بات چیت چل رہی ہے اس لیے اس دوران تو حملے کا کوئی امکان نہیں ہے، لیکن پھر یہ حملہ ہوگیا اور یہ اتنا بھرپور اور منظم حملہ تھا کہ ایران کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اچانک 200 طیارے ایران کی فضائوں کو اپنی گرفت میں لے لیں گے اور ابتداء ہی اہم اہداف کو نشانے پر رکھ کر اس کو تباہ کردیں گے اور دوسری طرف چوٹی کے سائنسدانوں اور فوج کے اہم افسران کو ان کے گھروں پر ہی بذریعہ ڈرونز شہید کردیں گے ایران کی قیادت کو یہ اندازہ ہی نہ تھا ایک ہی دن میں اس کے اعلیٰ دماغ اس طرح بے دردی سے منظر سے ہٹادیے جائیں گے۔

اسرائیل نے اچانک اتنا بڑا حملہ اس لیے کیا کہ وہ ابتداء ہی میں ایران کو شکست کے خوف میں لانا چاہتا تھا اور ایرانی حکومت کو کنفیوز کر کے اس کے اعصاب کو توڑ دینا چاہتا تھا کہ اس کے جنگ لڑنے والے دماغ تو رہے نہیں اب وہ کیا کرے۔ ایک اہم بات یہ کہ ایران اور اسرائیل کی کوئی سرحد تو ملتی نہیں جہاں زمینی فوج دشمن کا مقابلہ کرے ایران کی فضائیہ مختلف پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی بہت کمزور ہے اس لیے دو سو جہاز بڑے آرام سے تہران کی فضائوں میں چہل قدمی کرتے رہے اپنے اہداف کو نشانہ بناتے رہے انہیں گرائے جانے کا کوئی خوف تھا اور نہ سامنے کسی فضائی مقابلے کا خدشہ تھا لیکن ایرانی قیادت نے اپنے جوش اور ہوش کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اس حملے کا بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ اپنے جوابی مشن کا نام وعدۂ صادق رکھتے ہوئے میزائل حملوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ دوسری طرف اسرائیل کو اپنے ائر ڈیفنس سسٹم پر بڑا ناز اور اعتماد تھا کہ پورا اسرائیل 8 ائر ڈیفنس سسٹم کے چھائوں تلے محفوظ ہے ایک میزائل ایران سے چلتا ہے پہلے اسے عراق میں امریکی ڈیفنس سسٹم سے بچنا ہے، وہاں سے بچ گئے شام کے ڈیفنس سسٹم سے بچ کر پھر اردن اور مصر سے ہوتے ہوئے اسرائیل کی حدود میں داخل ہونا جہاں چار سطحی نظام ہیں آخر میں آئرن ڈوم کا بہت چرچا رہا چونکہ اس سے پہلے زمانہ امن میں اسرائیل نے کوئی شرارت کی تو ایران نے جو میزائل حملے کیے وہ سب راستے ہی میں اچک لیے گئے کوئی بھی اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکا اور کوئی دو ایک میزائل پہنچے بھی تو اس سے کوئی قابل ذکر اسرائیل کو نقصان نہیں پہنچا اسی وجہ سے اسرائیل کو اپنے ائر ڈیفنس سسٹم پر اعتماد تھا۔

جواب میں ایران نے مسلسل میزائل حملے جاری رکھے اور ایک ساتھ سو سے ڈیڑھ وسو میزائل اسرائیل کی طرف بھیج دیے اس حملے میں دس فی صد میزائل تما م ائر ڈیفنس سسٹم کو عبور کرتے ہوئے اپنے اہداف تک پہنچ گئے اب اسرائیل کو احساس ہوا کہ نہیں اب یہ باقاعدہ جنگ ہے اور یہ حملے بڑھتے رہیں گے اس کے جواب میں اسرائیل نے بھی اپنے فضائی حملے شدت سے جاری رکھے اور ساتھ ہی سائنسدانوں اور جنگی ماہرین کو قتل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا، انہوں نے امریکا پر دبائو بڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا کہ اسرائیل کی حفاظت امریکا کی آئینی اور سیاسی ذمے داری ہے اور یہ کہ ایران کی جوہری صلاحیت کو فوری ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ چونکہ دو ہفتے کا کہہ چکے تھے اس لیے ایران سمیت پوری دنیا کو یہ اعتماد تھا کہ امریکا ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہیں کرے گا لیکن وہ ٹرمپ ہی کیا جو دودن بھی اپنی بات پر قائم رہ سکے اور ایک دن ایران کی ان ایٹمی تنصیبات پر حملہ کردیا جو زیر زمین قائم تھیں اور زیر زمین نیو کلیئر سسٹم کو تباہ کرنے والا کلسٹر بم اور کئی ٹن وزنی اس بم کو گرانے کے لیے جہاز بھی امریکا کے پاس ہے اسی لیے امریکی صہیونی لابی اور اسرائیل کا دبائو ٹرمپ پر روز بروز بڑھ رہا تھا کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ ایران کے زیر زمین جوہری صلاحیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے ایک بم کی قیمت 97 کروڑ روپے ہے اور کہتے ہیں 14 بم گرائے گئے۔ بعد میں اس حملے کو خود امریکا کی طرف سے آنے والے اس بیان نے مشکوک اور متنازع بنا دیا کہ ہم نے دو دن پہلے ایران کو اس حملے کے بارے میں بتادیا تھا اس طرح ایران کو موقع مل گیا کہ ایٹمی صلاحیت کے حصول میں جو چیزیں قابل منتقلی تھیں وہ وہاں سے ہٹالی گئیں جو مشینیں نصب تھیں ان کی قربانی دے دی گئی۔ امریکی حملے سے یہ خوف بڑھ گیا کہ اب دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف جارہی ہے لیکن دوسرے دن یعنی 24 جون کو اچانک سیز فائر کا اعلان ہوگیا۔

اس جنگ کے تین فریق تھے امریکا، اسرائیل اور ایرا ن دیکھنا یہ ہے کہ جنگ جو ختم تو نہیں ہوئی لیکن عارضی طور پر رک گئی اس میں کس فریق نے کیا کھویا اور کیا پایا سب سے پہلے امریکا کی بات کرتے ہیں کہ جس نے اپنا عتماد کھویا دو ہفتے کا وقت دے کر اچانک حملہ کردیا ٹرمپ نے اپنا وقار کھویا کہ اپنے الفاظ کی حرمت کا بھی خیال نہ رکھا اور امریکی کانگریس نے اپنی اس روایت کو کھو دیا کہ امریکا کا کسی ملک پر حملہ کرنے سے پہلے کانگریس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ امریکا نے یہ سب کھونے کے بعد اسرائیل کو پالیا جو پہلے سے اس کی گود میں ہے۔ اسرائیل نے اس جنگ سے کیا پایا دیکھا جائے تو ایک عظیم الشان صفر۔ اسرائیلی حملے کے تین مقاصد بیان کیے گئے تھے پہلی تو یہ کہ ایران کی ایٹمی طاقت کو نیست ونابود کردیا جائے دوسری یہ کہ ایران میں رجیم چینج کردی جائے اور تیسرا مقصد یہ تھا کہ ایران ہتھیار ڈال دے۔ اسرائیل ان تینوں مقاصد کے حصول میں ناکام رہا، تجزیے یہ آرہے ہیں امریکی حملے سے ایران کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا بس نیوکلیئر پاور کے حصول میں چند ماہ کا اضافہ ہوگیا ہے اور سرنڈر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ سیز فائر کے بعد بھی ایران نے ایک بلیسٹک میزائل سے اسرائیل کو جو شدید نقصان پہنچایا جس میں ایک پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ تم نے اگر سیز فائر کی خلاف ورزی کی تو ہم منہ توڑ جواب دینے کی اب بھی قوت رکھتے ہیں اسرائیل نے پایا تو کچھ نہیں لیکن کھویا کیا؟ اب تک اسرائیل کا پوری دنیا میں جو بھرم قائم تھا کہ کوئی اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا وہ ختم ہوگیا بلکہ اسرائیل نے اپنے اس بھرم کو کھو دیا اگر یہ جنگ کچھ دن اور جاری رہتی تو اسرائیل دنیا کے نقشے سے گم ہو چکا ہوتا یہ تو امریکا نے ہیروشیما اور ناگا ساکی جیسی طرز پر کارروائی کرکے جنگ ختم بھی کی اور سیز فائر بھی کرادیا۔ ایران نے کھویا کچھ نہیں بس جنگ میں نقصان ہوا ہے جو کہ ہوتا ہے لیکن اسرائیل کا اس سے کہیں زیادہ نقصان ہوا ہے اور ایران نے پایا کیا؟ ایران ایک شاندار ماضی اور قابل فخر تہذیب کا حامل ملک ہے اس جنگ نے ایک کمزور ایران کو مضبوط ایران بنادیا یعنی ایران نے ایک مضبوط ایران کو پالیا۔

متعلقہ مضامین

  • عاشورہ کے روزے
  • محرم الحرام
  • اہلبیت رسولؑ نے اپنا سب کچھ قربان کرکے کفر کے مقابلے میں اسلام کو فتح مند کیا، علامہ حسن ظفر نقوی
  • 12 روزہ جنگ میں کس نے کیا کھویا کیا پایا
  • فاروق اعظم کے عظیم کارنامے
  • قال اللہ تعالیٰ وقا ل رسول اللہﷺ
  • سیدنا حسین کی شہادت دین کی بقاءکیلیے قربانی کا درس دیتی ہے،صفیہ شعیب
  • سکھراورگردونواح میں ہلکی بارش سے بھی گرمی کا زور کم نہ ہوسکا
  • محرم الحرام کے فضائل