12 روزہ جنگ میں کس نے کیا کھویا کیا پایا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
13 جون سے 23 جون تک ایران اسرائیل کے بیچ جنگ اور 24 جون کو سیز فائر ہوجانے کے بعد عالمی منظرنامے میں کیا تغیر واقع ہوا ہے اس کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ جب اسرائیل نے ایران پر اس خبر کے باوجود بھی کہ ایران اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات آئندہ ہفتے معاہدے کی شکل میں ڈھل جائیں گے ایک بھر پور حملہ کردیا، گو کہ اسرائیل اس حملے کا چرچا کافی دیر سے کررہا تھا اور اس طرح مسلسل خبردار کرتے ہوئے اچانک حملہ کردیا۔ دشمن کی یہ بھی ایک چال ہوتی ہے کہ ایسے وقت پر دھاوا بولا جائے جب سامنے والے کے ذہن میں دور دور تک بھی اس حملے کے خدشات نہ ہوں۔ یعنی ایک طرف تو ایران کو اس پر ہونے والے حملے کی دھمکیاں تو مل رہی تھیں لیکن ایران کے سامنے یہ بات بھی تھی کہ ابھی تو اسرائیل کے واحد سرپرست امریکا سے بات چیت چل رہی ہے اس لیے اس دوران تو حملے کا کوئی امکان نہیں ہے، لیکن پھر یہ حملہ ہوگیا اور یہ اتنا بھرپور اور منظم حملہ تھا کہ ایران کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اچانک 200 طیارے ایران کی فضائوں کو اپنی گرفت میں لے لیں گے اور ابتداء ہی اہم اہداف کو نشانے پر رکھ کر اس کو تباہ کردیں گے اور دوسری طرف چوٹی کے سائنسدانوں اور فوج کے اہم افسران کو ان کے گھروں پر ہی بذریعہ ڈرونز شہید کردیں گے ایران کی قیادت کو یہ اندازہ ہی نہ تھا ایک ہی دن میں اس کے اعلیٰ دماغ اس طرح بے دردی سے منظر سے ہٹادیے جائیں گے۔
اسرائیل نے اچانک اتنا بڑا حملہ اس لیے کیا کہ وہ ابتداء ہی میں ایران کو شکست کے خوف میں لانا چاہتا تھا اور ایرانی حکومت کو کنفیوز کر کے اس کے اعصاب کو توڑ دینا چاہتا تھا کہ اس کے جنگ لڑنے والے دماغ تو رہے نہیں اب وہ کیا کرے۔ ایک اہم بات یہ کہ ایران اور اسرائیل کی کوئی سرحد تو ملتی نہیں جہاں زمینی فوج دشمن کا مقابلہ کرے ایران کی فضائیہ مختلف پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی بہت کمزور ہے اس لیے دو سو جہاز بڑے آرام سے تہران کی فضائوں میں چہل قدمی کرتے رہے اپنے اہداف کو نشانہ بناتے رہے انہیں گرائے جانے کا کوئی خوف تھا اور نہ سامنے کسی فضائی مقابلے کا خدشہ تھا لیکن ایرانی قیادت نے اپنے جوش اور ہوش کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اس حملے کا بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ اپنے جوابی مشن کا نام وعدۂ صادق رکھتے ہوئے میزائل حملوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ دوسری طرف اسرائیل کو اپنے ائر ڈیفنس سسٹم پر بڑا ناز اور اعتماد تھا کہ پورا اسرائیل 8 ائر ڈیفنس سسٹم کے چھائوں تلے محفوظ ہے ایک میزائل ایران سے چلتا ہے پہلے اسے عراق میں امریکی ڈیفنس سسٹم سے بچنا ہے، وہاں سے بچ گئے شام کے ڈیفنس سسٹم سے بچ کر پھر اردن اور مصر سے ہوتے ہوئے اسرائیل کی حدود میں داخل ہونا جہاں چار سطحی نظام ہیں آخر میں آئرن ڈوم کا بہت چرچا رہا چونکہ اس سے پہلے زمانہ امن میں اسرائیل نے کوئی شرارت کی تو ایران نے جو میزائل حملے کیے وہ سب راستے ہی میں اچک لیے گئے کوئی بھی اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکا اور کوئی دو ایک میزائل پہنچے بھی تو اس سے کوئی قابل ذکر اسرائیل کو نقصان نہیں پہنچا اسی وجہ سے اسرائیل کو اپنے ائر ڈیفنس سسٹم پر اعتماد تھا۔
جواب میں ایران نے مسلسل میزائل حملے جاری رکھے اور ایک ساتھ سو سے ڈیڑھ وسو میزائل اسرائیل کی طرف بھیج دیے اس حملے میں دس فی صد میزائل تما م ائر ڈیفنس سسٹم کو عبور کرتے ہوئے اپنے اہداف تک پہنچ گئے اب اسرائیل کو احساس ہوا کہ نہیں اب یہ باقاعدہ جنگ ہے اور یہ حملے بڑھتے رہیں گے اس کے جواب میں اسرائیل نے بھی اپنے فضائی حملے شدت سے جاری رکھے اور ساتھ ہی سائنسدانوں اور جنگی ماہرین کو قتل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا، انہوں نے امریکا پر دبائو بڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا کہ اسرائیل کی حفاظت امریکا کی آئینی اور سیاسی ذمے داری ہے اور یہ کہ ایران کی جوہری صلاحیت کو فوری ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ چونکہ دو ہفتے کا کہہ چکے تھے اس لیے ایران سمیت پوری دنیا کو یہ اعتماد تھا کہ امریکا ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہیں کرے گا لیکن وہ ٹرمپ ہی کیا جو دودن بھی اپنی بات پر قائم رہ سکے اور ایک دن ایران کی ان ایٹمی تنصیبات پر حملہ کردیا جو زیر زمین قائم تھیں اور زیر زمین نیو کلیئر سسٹم کو تباہ کرنے والا کلسٹر بم اور کئی ٹن وزنی اس بم کو گرانے کے لیے جہاز بھی امریکا کے پاس ہے اسی لیے امریکی صہیونی لابی اور اسرائیل کا دبائو ٹرمپ پر روز بروز بڑھ رہا تھا کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ ایران کے زیر زمین جوہری صلاحیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے ایک بم کی قیمت 97 کروڑ روپے ہے اور کہتے ہیں 14 بم گرائے گئے۔ بعد میں اس حملے کو خود امریکا کی طرف سے آنے والے اس بیان نے مشکوک اور متنازع بنا دیا کہ ہم نے دو دن پہلے ایران کو اس حملے کے بارے میں بتادیا تھا اس طرح ایران کو موقع مل گیا کہ ایٹمی صلاحیت کے حصول میں جو چیزیں قابل منتقلی تھیں وہ وہاں سے ہٹالی گئیں جو مشینیں نصب تھیں ان کی قربانی دے دی گئی۔ امریکی حملے سے یہ خوف بڑھ گیا کہ اب دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف جارہی ہے لیکن دوسرے دن یعنی 24 جون کو اچانک سیز فائر کا اعلان ہوگیا۔
اس جنگ کے تین فریق تھے امریکا، اسرائیل اور ایرا ن دیکھنا یہ ہے کہ جنگ جو ختم تو نہیں ہوئی لیکن عارضی طور پر رک گئی اس میں کس فریق نے کیا کھویا اور کیا پایا سب سے پہلے امریکا کی بات کرتے ہیں کہ جس نے اپنا عتماد کھویا دو ہفتے کا وقت دے کر اچانک حملہ کردیا ٹرمپ نے اپنا وقار کھویا کہ اپنے الفاظ کی حرمت کا بھی خیال نہ رکھا اور امریکی کانگریس نے اپنی اس روایت کو کھو دیا کہ امریکا کا کسی ملک پر حملہ کرنے سے پہلے کانگریس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ امریکا نے یہ سب کھونے کے بعد اسرائیل کو پالیا جو پہلے سے اس کی گود میں ہے۔ اسرائیل نے اس جنگ سے کیا پایا دیکھا جائے تو ایک عظیم الشان صفر۔ اسرائیلی حملے کے تین مقاصد بیان کیے گئے تھے پہلی تو یہ کہ ایران کی ایٹمی طاقت کو نیست ونابود کردیا جائے دوسری یہ کہ ایران میں رجیم چینج کردی جائے اور تیسرا مقصد یہ تھا کہ ایران ہتھیار ڈال دے۔ اسرائیل ان تینوں مقاصد کے حصول میں ناکام رہا، تجزیے یہ آرہے ہیں امریکی حملے سے ایران کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا بس نیوکلیئر پاور کے حصول میں چند ماہ کا اضافہ ہوگیا ہے اور سرنڈر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ سیز فائر کے بعد بھی ایران نے ایک بلیسٹک میزائل سے اسرائیل کو جو شدید نقصان پہنچایا جس میں ایک پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ تم نے اگر سیز فائر کی خلاف ورزی کی تو ہم منہ توڑ جواب دینے کی اب بھی قوت رکھتے ہیں اسرائیل نے پایا تو کچھ نہیں لیکن کھویا کیا؟ اب تک اسرائیل کا پوری دنیا میں جو بھرم قائم تھا کہ کوئی اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا وہ ختم ہوگیا بلکہ اسرائیل نے اپنے اس بھرم کو کھو دیا اگر یہ جنگ کچھ دن اور جاری رہتی تو اسرائیل دنیا کے نقشے سے گم ہو چکا ہوتا یہ تو امریکا نے ہیروشیما اور ناگا ساکی جیسی طرز پر کارروائی کرکے جنگ ختم بھی کی اور سیز فائر بھی کرادیا۔ ایران نے کھویا کچھ نہیں بس جنگ میں نقصان ہوا ہے جو کہ ہوتا ہے لیکن اسرائیل کا اس سے کہیں زیادہ نقصان ہوا ہے اور ایران نے پایا کیا؟ ایران ایک شاندار ماضی اور قابل فخر تہذیب کا حامل ملک ہے اس جنگ نے ایک کمزور ایران کو مضبوط ایران بنادیا یعنی ایران نے ایک مضبوط ایران کو پالیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ائر ڈیفنس سسٹم یہ کہ ایران حملہ کردیا اسرائیل کی اسرائیل کو اسرائیل نے کہ اسرائیل ایران نے ایران کو سیز فائر ایران کی نے والے سے پہلے اس حملے ہے اور تھا کہ اس لیے
پڑھیں:
ایران اسرائیل کی امکانی استعداد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران پر اسرائیلی حملوں کا آغاز 13جون کو ہوا اور 24 جون کو جنگ بندی ہوئی، اس میں بلاشبہ تناسب کے اعتبار سے ایران کا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ اعلیٰ فوجی قیادت منظر سے ہٹ گئی، بعض ایٹمی مراکز، حساس دفاعی تنصیبات اور شہری مقامات پر اندھا دھند بمباری کی گئی ہے۔ لیکن امریکا، اسرائیل اور اہل ِ مغرب کے تمام تر اندازوں کے برعکس ایران نے ہتھیار نہیں ڈالے، بلکہ جرأت واستقامت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ایران کی بعض کمزوریاں بھی سامنے آئیں کہ موساد، را اور سی آئی اے کے اشتراک سے دشمن کا جاسوسی نظام اُن کی صفوں کے اندر نفوذ کرچکا تھا حتیٰ کہ ایران کے اندر ڈرون تیار کرنے کا کارخانہ بھی بنالیا گیا تھا۔ اس انٹیلی جنس خامی کے سبب ایران کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، لیکن انہوں نے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ سطورِ ذیل میں ہم ایران اور اسرائیل کی امکانی استعداد کا تقابل کرتے ہیں:
(۱) ایران کا رقبہ پاکستان سے دوگنا یعنی 1648000 مربع کلومیٹر ہے، جبکہ اس کے مقابل اسرائیل کا رقبہ 22145 کلومیٹر ہے، پس ایران کا رقبہ اسرائیل سے تقریباً 75 گنا بڑا ہے۔ ایران کی آبادی تقریباً آٹھ کروڑ نوّے لاکھ اور اسرائیل کی آبادی تقریباً پچانوے لاکھ ہے، پس ایران کی آبادی اسرائیل سے تقریباً ساڑھے نوگنا زائد ہے۔ رقبے کی وسعت اور آبادی کا تناسب ایران کی بہت بڑی قوت ہے۔ ایرانی بھاری نقصان اٹھاکر بھی دوبارہ ابھرسکتے ہیں، طاقت بن سکتے ہیں، کیونکہ ان میں قومی تفاخر کا جذبہ موجود ہے، جنگ کی شدید ترین تباہی و بربادی کے باوجود ایرانیوں کے جلوسوں اور جمعوں کے اجتماعات سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایران سے بھارت کو پہچاننے میں غلطی ہوئی اور اس کا نقصان انہیں اس جنگ میں اٹھانا پڑا۔ اس جنگ کا سبق یہ ہے کہ ایران کو پڑوسی مسلم ممالک پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کرنا چاہیے۔ ایران کا ایک صوبہ آذربائیجان ہے اور اس کے متصل آذربائیجان ایک خودمختار ملک بھی ہے، ایران کے اُس کے ساتھ بھی تعلقات خوشگوار نہیں ہیں، ایران کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(۲) اسرائیل کی آبادی اور رقبہ دونوں محدود ہیں، اگر ایران دس آدمیوں کا نقصان برداشت کرسکتا ہے تو اُس کے مقابل اسرائیل کے لیے ایک آدمی کا نقصان بھی ناقابل ِ برداشت ہے۔ مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ موت سے نہیں ڈرتا، کیونکہ اس کا عقیدہ ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے اور وہ ٹلتا نہیں ہے، جبکہ قرآنِ کریم کی شہادتیں موجود ہیں اور ہم ایک گزشتہ کالم میں اُن آیاتِ مبارکہ کے حوالے دے چکے ہیں کہ یہودی موت سے بہت ڈرتا ہے اور یہی اُس کی بڑی کمزوری بھی ہے۔
(۳) ایران کی کمزوری فضائی قوت کا نہ ہونا ہے، کیونکہ اُس کے پاس شاہ کے زمانے کے فرسودہ جنگی ہوائی جہاز ہیں جو جدید دور کے جنگی ہوائی جہازوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اسی سبب اسرائیل کو فضا میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کیونکہ اسرائیل کے جنگی جہاز جدید ترین ہیں، انہیں پانچویں نسل کے جنگی جہاز کہاجاتا ہے اور موجودہ دور کی جنگوں میں وہی استعمال ہوتے ہیں، الحمدللہ! پاکستان کے پاس بھی جدید ترین جنگی جہاز موجود ہیں اور حالیہ پاک بھارت جنگ میں اُن کی برتری ثابت ہوچکی ہے۔ یہ محض یک طرفہ دعویٰ نہیں ہے، بلکہ عالمی میڈیا نے اسے تسلیم کیا ہے، اگرچہ بھارت کو اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں سبکی محسوس ہورہی ہے۔
(۳) اسرائیل کے پاس فضائی دفاع کا آئرن ڈوم نظام ہے، اس کے ذریعے دشمن کے میزائلوں کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے فضا میں تحلیل کردیا جاتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ایران کے میزائلوں کے ساتھ ہوا۔ لیکن جب ایران نے فتح، خیبر اور سِجِّیْل ہائپر سونک میزائل داغے تو اسرائیل کا فضائی دفاعی نظام سو فی صد مؤثر نہیں رہا۔ لہٰذا بعض میزائل اپنے اہداف تک پہنچے میں کامیاب ہوگئے، اگرچہ اُن کا حقیقی تناسب ابھی تک سامنے نہیں آیا، کیونکہ زمانۂ جنگ میں قومی اعتماد کو قائم رکھنے کے لیے حقائق کو چھپایا بھی جاتا ہے۔ تاہم یہ ضرور ثابت ہوا کہ میزائل ٹیکنالوجی میں ایران کافی آگے ہے اور شاید اسرائیل، امریکا اور اہلِ مغرب کو بھی ایران کی اس استعداد کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔
(۴) اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے میزائل سازی کے کارخانے کو بھی تباہ کردیا ہے۔ اس کی حقیقت تو ہمیں معلوم نہیں ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ ایران نے ایک سے زائد مقامات پر یہ کارخانے لگائے ہوں، لیکن ایران کے سابق وزیر خارجہ نے بجا طور پر کہا ہے کہ آپ میزائل سازی کے کارخانوں اور حساس ایٹمی مراکز تو نقصان پہنچا سکتے ہیں، لیکن آپ علم کو نیست ونابود نہیں کرسکتے۔ جب ہمارے پاس اعلیٰ ٹیکنالوجی، جدید سائنسی اور جوہری علوم کے حامل رِجالِ کار موجود ہوں گے، تو ہم دوبارہ یہ قوت حاصل کرلیں گے۔ جنگ میں اسلحے کی آزمائش بھی ہوتی ہے، اس لیے جنگ کے بعد اس کی تکنیکی کمزوریوں پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ ایران اسرائیل جنگ کے تجربے کا ایک سبق یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی میزائل سازی کی صنعت کو مزید ترقی دینے کی ضرورت ہے، اب ہمیں ہائپر سونک میزائلوں کی طرف جانا ہوگا، نیز آئرن ڈوم کی طرز پر فضائی دفاعی نظام بنانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
(۵) یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایران نے عالمی پابندیوں اور اقتصادی مشکلات کے باوجود اپنے کافی وسائل شام، لبنان، یمن اور عراق میں اپنے زیر ِ اثر مسلّح گروہ تشکیل دینے پر خرچ کیے، لیکن آخر ِ کار اُن علاقوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ اب انہیں اس امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آیا یہ حکمتِ عملی درست تھی، اس پر کتنے وسائل خرچ ہوئے اور نتائج کیا ملے۔ بشار الاسد کی حکومت کو بچانے کے لیے ایران نے بہت کچھ کیا، لیکن انجامِ کار اُس کے زوال کو بھی بچایا نہ جاسکا، یہ ایران کے لیے مایوسی اور ندامت کی بات تھی۔ اگر ایران یہ تمام وسائل اپنی فضائی، برّی اور بحری قوت کو منظم کرنے پر خرچ کرتا تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پاسدارانِ انقلاب اور باقاعدہ افواج کی الگ الگ قیادت اور ذمے داریوں کے نتائج مثبت رہے یا منفی۔
(۶) ایران کی حکمت ِ عملی کی ایک غلطی انقلاب کو برآمد کرنے کا نعرہ تھا، اس سے عرب حکمرانوں کو اپنی سلطنتیں اور حکومتیں بچانے کی فکر لاحق ہوگئی، اس کے نتیجے میں ایران کو دس سال تک عراق کے ساتھ بے نتیجہ جنگ میں اپنے وسائل جھونکنے پڑے۔ فارسی کا مقولہ ہے: ’’مشک آنست کہ خود ببوید، نہ کہ عطار بگوید‘‘، یعنی خوشبو اپنا اشتہار خود ہوتی ہے، عطّار کی تعریف کی محتاج نہیں ہوتی۔ پس اگر انقلاب کے بعد ایران اعلیٰ معیار کا نظامِ حکومت قائم کر دیتا، جہاں ہر سو عدل کا دور دورہ ہوتا، عوام خوشحال ہوتے، عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد و محبت کا رشتہ ہوتا، تو پڑوسی ممالک پر یقینا اس کے اثرات مرتب ہوتے اور اُن کے عوام کے دلوں میں بھی آزادی کی خواہش جنم لیتی۔ انقلاب برآمد کرنے کے نعرے اور بیرونِ ملک اپنے زیرِ اثر گروہ پیدا کرنے سے ایران کے بارے میں ایک توسیع پسندانہ ریاست کا تصور پیدا ہوا۔
(۷) یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایران عراق جنگ کے زمانے میں ہمارے ملک میں بھی بیرونی سرمائے سے اپنے تابع فرمان گروہ پیدا کیے گئے، مسالک کے درمیان مسلّح تصادم ہوئے، اس سے ہمارے ملک کو بہت نقصان پہنچا۔ اگر یہ سلسلے اب موقوف کردیے جائیں تو سب پڑوسی ممالک کے لیے اچھا ہوگا، امارتِ اسلامیہ افغانستان کو بھی ہمارا مشورہ یہی ہے۔ بہر صورت اب جنگ بندی کے بعد ٹھنڈے دل سے اس کے اسباب، نتائج اور حکمت ِ عملی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
(۸) ہمارے ائمہ ٔ مجتہدین نے ہمیشہ اپنے اجتہادات کو قرآن وسنّت کے دلائل سے مزیّن کیا، اسی بنیاد پر بحث وتمحیص کا شِعار رائج کیا، نزاع اور تصادم سے گریز کیا، اس کے نتیجے میں اسلام کو بہت بڑا علمی سرمایہ ورثے میں ملا۔ پس بہتر ہے کہ اپنے اپنے دائرۂ کار میں سب اپنے موقف کو اپنے دلائل سے بیان کریں، دوسروں پرطنز، طَعن وتشنیع، سبّ وشتم، تبرّا اور تحقیر واہانت کا سلسلہ ترک کردیں تو ملک و ملّت کے لیے یہ شعار بہتر ہوگا۔ جب کسی کے علمی اثاثے میں دلائل نہ ہوں تو طاقت کے استعمال کی نوبت آتی ہے اور یہیں سے فساد کا آغاز ہوتا ہے۔ آج ہمارے دفاعی ادارے ایسے ہی طبقات کو فتنۃ الخوارج اور فتنۂ ہند سے تعبیر کر رہے ہیں۔ یہ تقابل ہم نے اپنی فہم کے مطابق نیک نیتی سے کیا ہے۔