Jasarat News:
2025-08-18@07:40:20 GMT

12 روزہ جنگ میں کس نے کیا کھویا کیا پایا

اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

13 جون سے 23 جون تک ایران اسرائیل کے بیچ جنگ اور 24 جون کو سیز فائر ہوجانے کے بعد عالمی منظرنامے میں کیا تغیر واقع ہوا ہے اس کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ جب اسرائیل نے ایران پر اس خبر کے باوجود بھی کہ ایران اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات آئندہ ہفتے معاہدے کی شکل میں ڈھل جائیں گے ایک بھر پور حملہ کردیا، گو کہ اسرائیل اس حملے کا چرچا کافی دیر سے کررہا تھا اور اس طرح مسلسل خبردار کرتے ہوئے اچانک حملہ کردیا۔ دشمن کی یہ بھی ایک چال ہوتی ہے کہ ایسے وقت پر دھاوا بولا جائے جب سامنے والے کے ذہن میں دور دور تک بھی اس حملے کے خدشات نہ ہوں۔ یعنی ایک طرف تو ایران کو اس پر ہونے والے حملے کی دھمکیاں تو مل رہی تھیں لیکن ایران کے سامنے یہ بات بھی تھی کہ ابھی تو اسرائیل کے واحد سرپرست امریکا سے بات چیت چل رہی ہے اس لیے اس دوران تو حملے کا کوئی امکان نہیں ہے، لیکن پھر یہ حملہ ہوگیا اور یہ اتنا بھرپور اور منظم حملہ تھا کہ ایران کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اچانک 200 طیارے ایران کی فضائوں کو اپنی گرفت میں لے لیں گے اور ابتداء ہی اہم اہداف کو نشانے پر رکھ کر اس کو تباہ کردیں گے اور دوسری طرف چوٹی کے سائنسدانوں اور فوج کے اہم افسران کو ان کے گھروں پر ہی بذریعہ ڈرونز شہید کردیں گے ایران کی قیادت کو یہ اندازہ ہی نہ تھا ایک ہی دن میں اس کے اعلیٰ دماغ اس طرح بے دردی سے منظر سے ہٹادیے جائیں گے۔

اسرائیل نے اچانک اتنا بڑا حملہ اس لیے کیا کہ وہ ابتداء ہی میں ایران کو شکست کے خوف میں لانا چاہتا تھا اور ایرانی حکومت کو کنفیوز کر کے اس کے اعصاب کو توڑ دینا چاہتا تھا کہ اس کے جنگ لڑنے والے دماغ تو رہے نہیں اب وہ کیا کرے۔ ایک اہم بات یہ کہ ایران اور اسرائیل کی کوئی سرحد تو ملتی نہیں جہاں زمینی فوج دشمن کا مقابلہ کرے ایران کی فضائیہ مختلف پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی بہت کمزور ہے اس لیے دو سو جہاز بڑے آرام سے تہران کی فضائوں میں چہل قدمی کرتے رہے اپنے اہداف کو نشانہ بناتے رہے انہیں گرائے جانے کا کوئی خوف تھا اور نہ سامنے کسی فضائی مقابلے کا خدشہ تھا لیکن ایرانی قیادت نے اپنے جوش اور ہوش کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے اس حملے کا بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ اپنے جوابی مشن کا نام وعدۂ صادق رکھتے ہوئے میزائل حملوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ دوسری طرف اسرائیل کو اپنے ائر ڈیفنس سسٹم پر بڑا ناز اور اعتماد تھا کہ پورا اسرائیل 8 ائر ڈیفنس سسٹم کے چھائوں تلے محفوظ ہے ایک میزائل ایران سے چلتا ہے پہلے اسے عراق میں امریکی ڈیفنس سسٹم سے بچنا ہے، وہاں سے بچ گئے شام کے ڈیفنس سسٹم سے بچ کر پھر اردن اور مصر سے ہوتے ہوئے اسرائیل کی حدود میں داخل ہونا جہاں چار سطحی نظام ہیں آخر میں آئرن ڈوم کا بہت چرچا رہا چونکہ اس سے پہلے زمانہ امن میں اسرائیل نے کوئی شرارت کی تو ایران نے جو میزائل حملے کیے وہ سب راستے ہی میں اچک لیے گئے کوئی بھی اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکا اور کوئی دو ایک میزائل پہنچے بھی تو اس سے کوئی قابل ذکر اسرائیل کو نقصان نہیں پہنچا اسی وجہ سے اسرائیل کو اپنے ائر ڈیفنس سسٹم پر اعتماد تھا۔

جواب میں ایران نے مسلسل میزائل حملے جاری رکھے اور ایک ساتھ سو سے ڈیڑھ وسو میزائل اسرائیل کی طرف بھیج دیے اس حملے میں دس فی صد میزائل تما م ائر ڈیفنس سسٹم کو عبور کرتے ہوئے اپنے اہداف تک پہنچ گئے اب اسرائیل کو احساس ہوا کہ نہیں اب یہ باقاعدہ جنگ ہے اور یہ حملے بڑھتے رہیں گے اس کے جواب میں اسرائیل نے بھی اپنے فضائی حملے شدت سے جاری رکھے اور ساتھ ہی سائنسدانوں اور جنگی ماہرین کو قتل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا، انہوں نے امریکا پر دبائو بڑھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا کہ اسرائیل کی حفاظت امریکا کی آئینی اور سیاسی ذمے داری ہے اور یہ کہ ایران کی جوہری صلاحیت کو فوری ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ چونکہ دو ہفتے کا کہہ چکے تھے اس لیے ایران سمیت پوری دنیا کو یہ اعتماد تھا کہ امریکا ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ نہیں کرے گا لیکن وہ ٹرمپ ہی کیا جو دودن بھی اپنی بات پر قائم رہ سکے اور ایک دن ایران کی ان ایٹمی تنصیبات پر حملہ کردیا جو زیر زمین قائم تھیں اور زیر زمین نیو کلیئر سسٹم کو تباہ کرنے والا کلسٹر بم اور کئی ٹن وزنی اس بم کو گرانے کے لیے جہاز بھی امریکا کے پاس ہے اسی لیے امریکی صہیونی لابی اور اسرائیل کا دبائو ٹرمپ پر روز بروز بڑھ رہا تھا کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ ایران کے زیر زمین جوہری صلاحیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے ایک بم کی قیمت 97 کروڑ روپے ہے اور کہتے ہیں 14 بم گرائے گئے۔ بعد میں اس حملے کو خود امریکا کی طرف سے آنے والے اس بیان نے مشکوک اور متنازع بنا دیا کہ ہم نے دو دن پہلے ایران کو اس حملے کے بارے میں بتادیا تھا اس طرح ایران کو موقع مل گیا کہ ایٹمی صلاحیت کے حصول میں جو چیزیں قابل منتقلی تھیں وہ وہاں سے ہٹالی گئیں جو مشینیں نصب تھیں ان کی قربانی دے دی گئی۔ امریکی حملے سے یہ خوف بڑھ گیا کہ اب دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف جارہی ہے لیکن دوسرے دن یعنی 24 جون کو اچانک سیز فائر کا اعلان ہوگیا۔

اس جنگ کے تین فریق تھے امریکا، اسرائیل اور ایرا ن دیکھنا یہ ہے کہ جنگ جو ختم تو نہیں ہوئی لیکن عارضی طور پر رک گئی اس میں کس فریق نے کیا کھویا اور کیا پایا سب سے پہلے امریکا کی بات کرتے ہیں کہ جس نے اپنا عتماد کھویا دو ہفتے کا وقت دے کر اچانک حملہ کردیا ٹرمپ نے اپنا وقار کھویا کہ اپنے الفاظ کی حرمت کا بھی خیال نہ رکھا اور امریکی کانگریس نے اپنی اس روایت کو کھو دیا کہ امریکا کا کسی ملک پر حملہ کرنے سے پہلے کانگریس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ امریکا نے یہ سب کھونے کے بعد اسرائیل کو پالیا جو پہلے سے اس کی گود میں ہے۔ اسرائیل نے اس جنگ سے کیا پایا دیکھا جائے تو ایک عظیم الشان صفر۔ اسرائیلی حملے کے تین مقاصد بیان کیے گئے تھے پہلی تو یہ کہ ایران کی ایٹمی طاقت کو نیست ونابود کردیا جائے دوسری یہ کہ ایران میں رجیم چینج کردی جائے اور تیسرا مقصد یہ تھا کہ ایران ہتھیار ڈال دے۔ اسرائیل ان تینوں مقاصد کے حصول میں ناکام رہا، تجزیے یہ آرہے ہیں امریکی حملے سے ایران کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا بس نیوکلیئر پاور کے حصول میں چند ماہ کا اضافہ ہوگیا ہے اور سرنڈر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ سیز فائر کے بعد بھی ایران نے ایک بلیسٹک میزائل سے اسرائیل کو جو شدید نقصان پہنچایا جس میں ایک پیغام بھی پوشیدہ ہے کہ تم نے اگر سیز فائر کی خلاف ورزی کی تو ہم منہ توڑ جواب دینے کی اب بھی قوت رکھتے ہیں اسرائیل نے پایا تو کچھ نہیں لیکن کھویا کیا؟ اب تک اسرائیل کا پوری دنیا میں جو بھرم قائم تھا کہ کوئی اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا وہ ختم ہوگیا بلکہ اسرائیل نے اپنے اس بھرم کو کھو دیا اگر یہ جنگ کچھ دن اور جاری رہتی تو اسرائیل دنیا کے نقشے سے گم ہو چکا ہوتا یہ تو امریکا نے ہیروشیما اور ناگا ساکی جیسی طرز پر کارروائی کرکے جنگ ختم بھی کی اور سیز فائر بھی کرادیا۔ ایران نے کھویا کچھ نہیں بس جنگ میں نقصان ہوا ہے جو کہ ہوتا ہے لیکن اسرائیل کا اس سے کہیں زیادہ نقصان ہوا ہے اور ایران نے پایا کیا؟ ایران ایک شاندار ماضی اور قابل فخر تہذیب کا حامل ملک ہے اس جنگ نے ایک کمزور ایران کو مضبوط ایران بنادیا یعنی ایران نے ایک مضبوط ایران کو پالیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ائر ڈیفنس سسٹم یہ کہ ایران حملہ کردیا اسرائیل کی اسرائیل کو اسرائیل نے کہ اسرائیل ایران نے ایران کو سیز فائر ایران کی نے والے سے پہلے اس حملے ہے اور تھا کہ اس لیے

پڑھیں:

اسلام آباد میں تعینات سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاءاللہ شاکری کے انٹرویو سے اقتباس (دوسری قسط)

سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاء اللہ شاکری نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ہم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بالادستی کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کو امریکی ایجنسی کو قبول کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ میں ضرور کہوں گا، نہیں، ایسا نہیں ہوگا اور پاکستانیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ایک بااختیار اور خودمختار ریاست و اتھارٹی ہے اور مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات پر مبنی ایک اسلامی جمہوریہ۔ اس لیے پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے عزائم کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچا سکتا ہے، کچھ دوسرے ممالک بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔ ترجمہ: علی واحدی

سوال: حالیہ برسوں میں، ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان اقتصادی، سیاسی اور سلامتی کے شعبوں میں چین کے نمایاں شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر ابھرا ہے۔ آپ کے خیال میں پاک چین تعلقات ایران کے لیے کیا فائدے رکھتے ہیں؟
آپ نے دیکھا کہ چین کی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ جنوبی ایشیا کی طرف ہے جو پاکستان کے داخلی راستے سے گزرتا ہے اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے مغربی چین کو بحیرہ عمان کے گرم پانیوں سے ملاتا ہے۔ چین کی خارجہ پالیسی کی دوسری جہت، جس کا تعلق خلیج فارس اور وسطی ایشیا کے حصے سے ہے، ایران کے ساتھ تعلق کے بغیر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ چین پاکستان ایران مثلث ایک بہت ہی بامعنی مثلث ہوگی اور اقتصادی راہداریوں کی تشکیل کے ذریعے چین کے سٹریٹیجک منصوبوں کو پاکستان سے مزید  جوڑ سکے گی۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنی قومی صلاحیتیں قائم کی ہیں۔ پاکستان کے برعکس، جو چین کا وہاں صلاحیت بڑھانے کا انتظار کر رہا ہے، ہم نے پہلے ہی صلاحیت تیار کر لی ہے۔ یعنی ہمارے پاس تقریباً 280 ملین ٹن بندرگاہ کی گنجائش ہے۔

ہماری ریلوے مکمل طور پر ملک گیر ہے، یعنی یہ جنوب کو شمال سے ملاتی ہے، اور ہماری مشرقی مغربی ریلوے بھی زیر تعمیر ہے۔ اس کے علاوہ چابہار سے زاہدان کو ملانے والی ریلوے اس لنک کو مکمل طور پر مکمل کر دے گی۔ کوئٹہ سے زاہدان کو ملانے والی ریلوے ایک سو سال پرانی ہے۔ اس لیے ہمارے ملک میں مواصلاتی نیٹ ورک یا تو تیار ہیں یا ان کا ایک چھوٹا سا حصہ زیر تعمیر ہے، جو انشاء اللہ ہماری مقامی صلاحیتوں سے تعمیر کیا جائے گا۔ یقیناً ان صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے چینی حکومت سرمایہ کاری کر سکتی ہے اور اس مسئلے کو ایران اور چین کے درمیان طویل المدتی تزویراتی تعاون کی دستاویز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

سوال: پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ملٹری، سیکورٹی اور سیاسی ڈپلومیسی کے حوالے سے جو دیرینہ تعلقات ہیں، کیا ہم ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو سہل بنانے میں اسلام آباد کے کردار پر اعتماد کر سکتے ہیں؟
دیکھیں ہم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بالادستی کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کو امریکی ایجنسی کو قبول کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ میں ضرور کہوں گا، نہیں، ایسا نہیں ہوگا اور پاکستانیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ایک بااختیار اور خودمختار ریاست و اتھارٹی ہے اور مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات پر مبنی ایک اسلامی جمہوریہ۔ اس لیے پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے عزائم کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچا سکتا ہے، کچھ دوسرے ممالک بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔

اگر پاکستان تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ سفارتی تقاضوں کو اس طرح پہنچا سکتا ہے جس سے ایران اور امریکہ کے درمیان تبادلے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں ہمیں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے قبل پاکستانی بھی خطے کے بعض ممالک کے حوالے سے ثالثی کے لیے تیار تھا۔ اب ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ امریکی اس کام کے لیے پاکستان کی صلاحیت کو استعمال کرنا چاہیں گے، لیکن میرے خیال میں اگر پاکستان اس سلسلے میں قابل قدر کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے اسلامی جمہوریہ ایران کی آزادی اور خودمختاری کے نظرئے کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچانا چاہیے۔

سوال: ایک طویل تاریخ کے ساتھ ایک سفارت کار کے طور پر، اس خطے (برصغیر اور وسطی ایشیا) میں ایک طرف ایران اور افغانستان کے درمیان اور دوسری طرف پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کی کشیدگی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، اور یہ بھی کہ اس علاقے میں چین کے اقدامات کیا ہیں؟
آپ نے دیکھا ہے کہ آجکل آبی وسائل کو بانٹنے والے ممالک کے درمیان آبی سفارت کاری  ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائے سندھ ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت میں آنے والے کچھ دریا چین سے نکلتے ہیں اور ہمارے ہاں دریائے ہلمند کا مسئلہ  افغانستان کے ساتھ چل رہا ہے جس پر ماضی میں کسی نہ کسی طرح اتفاق ہوا اور پھر مختلف ادوار میں اس کے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ میرے خیال میں جن ممالک کو ہائیڈرو پولیٹکس سے شدید خطرہ ہے ان میں سے ایک پاکستان ہے، کیونکہ ہندوستانیوں نے کہا  ہے کہ ہم دریائے سندھ کے معاہدے کو معطل کر رہے ہیں اور یہ مسئلہ پاکستان کے 80 فیصد آبی وسائل کو متاثر اور محدود کر دے گا۔ اس مسئلے کا ہمارے اور افغانستان کے درمیان پانی کے تناؤ سے بالکل بھی موازنہ نہیں نہیں کی سکتا ہے (تقریباً 500 ملین کیوبک میٹر کے اعداد و شمار کے ساتھ)۔

سندھ طاس یا سندھ آبی معاہدے میں بہت وسیع بحث شامل ہے، اس طرح کہ پاکستان کے تقریباً 80% لوگوں کی روزی روٹی ان دریاؤں سے وابستہ ہے۔ اس لیے میری رائے میں پانی کے مسئلے کو کبھی بھی دوسرے تنازعات کا یرغمال نہیں بنانا چاہیئے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اتفاق کیا گیا ہے اور کسی کو بھی ان آبی وسائل کو یرغمال نہیں بنانا چاہیئے جو دونوں ممالک کے شہریوں کے درمیان مشترک ہیں۔ یہ اس مسئلے سے متعلق تمام بین الاقوامی قانونی قواعد اور انسانی ہمدردی کے تحفظات کی تحریف کو ظاہر کرتا ہے۔ ان وسائل میں سمندر کی طرح پانی کے وسائل بھی شامل ہیں جو ملکوں کے درمیان مشترک ہیں اور یہ مسئلہ ہندوستان اور پاکستان اور ایران اور افغانستان دونوں کے درمیان حل ہونا چاہیئے۔

سوال: اگر آپ آخر میں کسی خاص نکتہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم استفادہ کریں گے؟
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے تناظر میں علمی اور سائنسی تعلقات بہت کمزور ہیں، آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان میں متعلقہ تعلیمی اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی راہیں تلاش کرنی چاہیں، ہم ایران اور پاکستان کے درمیان اس رابطہ کو بہت قوی و مضبوط کرسکتے ہیں۔

اصل لنک:
https://ana.ir/fa/news/991353/

متعلقہ مضامین

  • رانا تنویر 4 روزہ دورے پر ایران پہنچ گئے
  • اسلام آباد میں تعینات سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاءاللہ شاکری کے انٹرویو سے اقتباس (دوسری قسط)
  • غزہ پر اسرائیلی حملے: برطانیہ، فن لینڈ، سوئیڈن اور اسرائیل میں احتجاجی مظاہرے
  • عنوان: موجودہ عالمی حالات
  • ایرانی مسلح افواج کا امریکا اور اسرائیل کو نیا انتباہ کیا ہے؟
  • کیا اسرائیل ایک نئی جنگ شروع کرنے والاہے؟
  • غزہ: اسرائیل سے امدادی قافلوں کے محافظوں پر حملے روکنے کا مطالبہ
  • ایران میں مسلح افراد سے جھڑپ میں ایک پولیس اہلکار ہلاک
  • ٹرمپ کی کنفیوژن
  • ایران: جالوت کے مقابلے میں داؤد (ع)