اسلام آباد میں تعینات سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاءاللہ شاکری کے انٹرویو سے اقتباس (دوسری قسط)
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاء اللہ شاکری نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ہم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بالادستی کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کو امریکی ایجنسی کو قبول کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ میں ضرور کہوں گا، نہیں، ایسا نہیں ہوگا اور پاکستانیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ایک بااختیار اور خودمختار ریاست و اتھارٹی ہے اور مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات پر مبنی ایک اسلامی جمہوریہ۔ اس لیے پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے عزائم کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچا سکتا ہے، کچھ دوسرے ممالک بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔ ترجمہ: علی واحدی
سوال: حالیہ برسوں میں، ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان اقتصادی، سیاسی اور سلامتی کے شعبوں میں چین کے نمایاں شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر ابھرا ہے۔ آپ کے خیال میں پاک چین تعلقات ایران کے لیے کیا فائدے رکھتے ہیں؟
آپ نے دیکھا کہ چین کی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ جنوبی ایشیا کی طرف ہے جو پاکستان کے داخلی راستے سے گزرتا ہے اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے مغربی چین کو بحیرہ عمان کے گرم پانیوں سے ملاتا ہے۔ چین کی خارجہ پالیسی کی دوسری جہت، جس کا تعلق خلیج فارس اور وسطی ایشیا کے حصے سے ہے، ایران کے ساتھ تعلق کے بغیر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ چین پاکستان ایران مثلث ایک بہت ہی بامعنی مثلث ہوگی اور اقتصادی راہداریوں کی تشکیل کے ذریعے چین کے سٹریٹیجک منصوبوں کو پاکستان سے مزید جوڑ سکے گی۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنی قومی صلاحیتیں قائم کی ہیں۔ پاکستان کے برعکس، جو چین کا وہاں صلاحیت بڑھانے کا انتظار کر رہا ہے، ہم نے پہلے ہی صلاحیت تیار کر لی ہے۔ یعنی ہمارے پاس تقریباً 280 ملین ٹن بندرگاہ کی گنجائش ہے۔
ہماری ریلوے مکمل طور پر ملک گیر ہے، یعنی یہ جنوب کو شمال سے ملاتی ہے، اور ہماری مشرقی مغربی ریلوے بھی زیر تعمیر ہے۔ اس کے علاوہ چابہار سے زاہدان کو ملانے والی ریلوے اس لنک کو مکمل طور پر مکمل کر دے گی۔ کوئٹہ سے زاہدان کو ملانے والی ریلوے ایک سو سال پرانی ہے۔ اس لیے ہمارے ملک میں مواصلاتی نیٹ ورک یا تو تیار ہیں یا ان کا ایک چھوٹا سا حصہ زیر تعمیر ہے، جو انشاء اللہ ہماری مقامی صلاحیتوں سے تعمیر کیا جائے گا۔ یقیناً ان صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے چینی حکومت سرمایہ کاری کر سکتی ہے اور اس مسئلے کو ایران اور چین کے درمیان طویل المدتی تزویراتی تعاون کی دستاویز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
سوال: پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ملٹری، سیکورٹی اور سیاسی ڈپلومیسی کے حوالے سے جو دیرینہ تعلقات ہیں، کیا ہم ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو سہل بنانے میں اسلام آباد کے کردار پر اعتماد کر سکتے ہیں؟
دیکھیں ہم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بالادستی کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کو امریکی ایجنسی کو قبول کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ میں ضرور کہوں گا، نہیں، ایسا نہیں ہوگا اور پاکستانیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ایک بااختیار اور خودمختار ریاست و اتھارٹی ہے اور مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات پر مبنی ایک اسلامی جمہوریہ۔ اس لیے پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے عزائم کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچا سکتا ہے، کچھ دوسرے ممالک بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔
اگر پاکستان تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ سفارتی تقاضوں کو اس طرح پہنچا سکتا ہے جس سے ایران اور امریکہ کے درمیان تبادلے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں ہمیں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے قبل پاکستانی بھی خطے کے بعض ممالک کے حوالے سے ثالثی کے لیے تیار تھا۔ اب ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ امریکی اس کام کے لیے پاکستان کی صلاحیت کو استعمال کرنا چاہیں گے، لیکن میرے خیال میں اگر پاکستان اس سلسلے میں قابل قدر کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے اسلامی جمہوریہ ایران کی آزادی اور خودمختاری کے نظرئے کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچانا چاہیے۔
سوال: ایک طویل تاریخ کے ساتھ ایک سفارت کار کے طور پر، اس خطے (برصغیر اور وسطی ایشیا) میں ایک طرف ایران اور افغانستان کے درمیان اور دوسری طرف پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کی کشیدگی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، اور یہ بھی کہ اس علاقے میں چین کے اقدامات کیا ہیں؟
آپ نے دیکھا ہے کہ آجکل آبی وسائل کو بانٹنے والے ممالک کے درمیان آبی سفارت کاری ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائے سندھ ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت میں آنے والے کچھ دریا چین سے نکلتے ہیں اور ہمارے ہاں دریائے ہلمند کا مسئلہ افغانستان کے ساتھ چل رہا ہے جس پر ماضی میں کسی نہ کسی طرح اتفاق ہوا اور پھر مختلف ادوار میں اس کے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ میرے خیال میں جن ممالک کو ہائیڈرو پولیٹکس سے شدید خطرہ ہے ان میں سے ایک پاکستان ہے، کیونکہ ہندوستانیوں نے کہا ہے کہ ہم دریائے سندھ کے معاہدے کو معطل کر رہے ہیں اور یہ مسئلہ پاکستان کے 80 فیصد آبی وسائل کو متاثر اور محدود کر دے گا۔ اس مسئلے کا ہمارے اور افغانستان کے درمیان پانی کے تناؤ سے بالکل بھی موازنہ نہیں نہیں کی سکتا ہے (تقریباً 500 ملین کیوبک میٹر کے اعداد و شمار کے ساتھ)۔
سندھ طاس یا سندھ آبی معاہدے میں بہت وسیع بحث شامل ہے، اس طرح کہ پاکستان کے تقریباً 80% لوگوں کی روزی روٹی ان دریاؤں سے وابستہ ہے۔ اس لیے میری رائے میں پانی کے مسئلے کو کبھی بھی دوسرے تنازعات کا یرغمال نہیں بنانا چاہیئے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اتفاق کیا گیا ہے اور کسی کو بھی ان آبی وسائل کو یرغمال نہیں بنانا چاہیئے جو دونوں ممالک کے شہریوں کے درمیان مشترک ہیں۔ یہ اس مسئلے سے متعلق تمام بین الاقوامی قانونی قواعد اور انسانی ہمدردی کے تحفظات کی تحریف کو ظاہر کرتا ہے۔ ان وسائل میں سمندر کی طرح پانی کے وسائل بھی شامل ہیں جو ملکوں کے درمیان مشترک ہیں اور یہ مسئلہ ہندوستان اور پاکستان اور ایران اور افغانستان دونوں کے درمیان حل ہونا چاہیئے۔
سوال: اگر آپ آخر میں کسی خاص نکتہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم استفادہ کریں گے؟
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے تناظر میں علمی اور سائنسی تعلقات بہت کمزور ہیں، آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان میں متعلقہ تعلیمی اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی راہیں تلاش کرنی چاہیں، ہم ایران اور پاکستان کے درمیان اس رابطہ کو بہت قوی و مضبوط کرسکتے ہیں۔
اصل لنک:
https://ana.
ir/fa/news/991353/
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان پاکستان کے ایران اور کے درمیان ایران کے سکتا ہے کے ساتھ اس لیے ہے اور کے لیے ہیں کہ چین کے
پڑھیں:
اسلام آباد میں ’غیر قانونی‘ مساجد کے تنازع کا حل کیا ہے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اگست 2025ء) اسلام آباد کے راول ڈیم چوک میں قائم مدنی مسجد کو کپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے گزشتہ ہفتے کی رات منہدم کر کے وہاں پودے لگا دیے جس کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف علماء کے بیانات سامنے آنے لگے اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
سی ڈی اے کا اصرار ہے کہ یہ انہدام قانون کے مطابق اور مسجد انتظامیہ کی رضامندی سے کیا گیا۔
جبکہ مذہبی طبقے کا کہنا ہے کہ مدرسے کی منتقلی پر اتفاق ہوا تھا لیکن مدنی مسجد کا انہدام کسی معاہدے کا حصہ نہ تھا۔رحمت اللعالمین اتھارٹی کے چیئرمین خورشید ندیم ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’مسجد ایک سماجی ادارہ پے۔ مدنی مسجد کے حوالے سے کیا معاہدہ ہوا، سول سوسائٹی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔
(جاری ہے)
ایسے معاملات عوام کے سامنے اور عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے طے ہونے چاہئیں۔
غیر قانونی مساجد کا مسئلہ پیچیدہ ہے اور پُرامن حل کا متقاضی ہے۔‘‘ممکنہ طور پر پُرامن حل کیا ہو سکتا ہے؟ یہ جاننے سے پہلے ہم مسئلے کی پیچیدگی کو تاریخی و سماجی پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت میں غیر قانونی مساجدایک منصوبہ بند شہر کے طور پر اسلام آباد کے وسیع سبزہ زار نہ صرف شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ صاف ہوا کے بھی ضامن ہیں۔
ایسے بہت سے ٹکڑوں اور نالوں پر مختلف وقتوں میں مساجد اور مدارس تعمیر ہوتے رہے جن کی تعداد اب سینکڑوں میں ہے۔اس حوالے سے سی ڈی اے نے اپنی آخری رپورٹ دس سال پہلے جاری کی تھی جو 'دی ایکسپریس ٹربیون‘ کے مطابق وزارت داخلہ کی ہدایت پر تیار کی گئی تھی تاکہ غیر قانونی مساجد کے درست اعداد و شمار حاصل کیے جا سکیں۔
مذکورہ رپورٹ کے مطابق،’سی ڈی اے کی حدود میں واقع 492 میں سے 233 مساجد غیر قانونی ہیں جو موسمی نالوں کے کنارے، اہم شاہراہوں کی گزرگاہوں اور گرین بیلٹس پر تعمیر کی گئی ہیں۔
‘ جبکہ قانونی طور پر قائم کی گئی 259 مساجد میں کئی ایسی ہیں جو اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے تعمیرات کا دائرہ وسیع کر چکی ہیں۔ سی ڈی اے غیر قانونی تعمیرات روکنے میں ناکام کیوں؟’راول راج‘ کے مصنف اور اسلام آباد کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے محقق سجاد اظہر ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ستر کی دہائی کے بعد اسلام آباد میں مساجد اور مدارس کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔
مذہبی گروہوں کو ریاستی سرپرستی حاصل ہوئی تو انہوں نے جہاں چاہا ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد بنا لی۔‘‘بہت سے قانونی اور سماجی ماہرین سوال اٹھاتے ہیں کہ جب یہ مساجد اور مدارس تعمیر ہو رہے تھے تب سی ڈی اے کہاں تھی؟
سجاد اظہر سی ڈی اے کے انتظامی ڈھانچے پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہتے ہیں، ”سی ڈی اے میں سول سروس کے افسران اپنی دو تین سال کی عارضی پوسٹنگ پر آتے ہیں، اس کے مستقل ملازمین گریڈ سولہ سے نیچے والا عملہ ہوتا ہے جو تمام باریکیاں جانتا ہے۔
بڑے افسران عملی طور پر غیر موثر ہوتے ہیں۔ سرکاری پلاٹ سے براہ راست کوئی شہری متاثر نہیں ہو رہا ہوتا اس لیے آرام سے مسجد اور مدرسہ بن جاتے ہیں۔ اس میں سی ڈی اے کے نچلے طبقے کے مالی مفادات اور مسلکی تعصبات بھی شامل ہوتے ہیں۔‘‘سی ڈی اے نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو ادارہ جاتی موقف دینے سے معذرت کی البتہ ادارے کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ”حالیہ واقعے میں آپ دیکھ لیں کس طرح مذہبی گروہ سرعام دھمکیاں دے رہے ہیں، نہ ہم نے یہ گروہ تیار کیے اور نہ ہم ان سے نمٹ سکتے ہیں۔
چھ چھ ماہ میٹنگز چلتی ہیں، ایک آپریشن کرتے ہیں اور پھر ہمیں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ مساجد اور مدرسے نہ ہماری اجازت سے بنتے ہیں نہ ہمارے کہنے سے ان کے خلاف آپریشن کیے جاتے ہیں۔ ہم اتنے صاحب اختیار نہیں۔‘‘ اداروں کی ساکھ اور عوامی حمایت سے محرومیاسلام آباد میں جب بھی سی ڈی اے تجاوزات کے خلاف آپریشن کرے پسند ناپسند اور غیر مساوی رویے کی شکایات سامنے آتی ہیں۔
’مارگلہ کہانی‘ کے نام سے اسلام آباد کی تاریخ، ثقافت اور سماجی روایات پر کتاب لکھنے والے مصنف اور قانون دان آصف محمود ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”سی ڈی اے کچی آبادیاں اور مساجد مسمار کرنے میں جس پھرتی سے کام لیتا ہے وہ بڑے بڑے غیر قانونی پلازوں اور کلبوں کے معاملے میں کیوں نظر نہیں آتی؟ مارگلہ نیشنل پارک میں تعمیرات پر پابندی ہے مگر وہاں ہوٹل کھلے ہیں، گنز اینڈ کنٹری کلب دھوم دھام سے چل رہا ہے، اگر آپ طاقتور طبقوں کے خلاف آپریشن نہیں کر سکتے تو آپ کی کیا ساکھ رہ جاتی ہے؟ عوام آپ پر کیوں اعتماد کرے؟ کیوں ساتھ کھڑی ہو؟‘‘
سجاد اظہر اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں،”کراچی میں نسلا ٹاور گرایا جا سکتا ہے لیکن یہاں شاہراہِ دستور پر کانسٹی ٹیوشن ون کی غیر قانونی عمارت کھڑی ہے، عدالتی حکم نامے بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
‘‘وہ کہتے ہیں، یہ محض سی ڈی اے کی نہیں حساس اداروں کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان ہے۔”جنہوں نے کچھ مسالک کو سرکاری چھتری فراہم کی اور وہ اتنا طاقتور ہوئے کہ انتظامی مشینری کی یہ جرات نہیں کہ ان کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکے۔ لال مسجد کا کیس آپ کے سامنے ہے، جو مولوی ایک تھانے کی مار ہوا کرتے تھے وہ جب چاہیں پوری ریاست کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔
‘‘خیال رہے مدنی مسجد کے انہدام کے بعد لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا، ”اگر مساجد گرائی گئیں تو جنگ ہو گی، کھلی جنگ۔ ہم سول نافرمانی کی تحریک شروع کریں گے۔ یہ بے ایمان لوگ، یہ یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ، ان کا حساب ہونا چاہیے۔‘‘
ممکنہ حل کیا ہے؟خورشید ندیم کے مطابق،”مساجد کا کردار سماجی ہونا چاہیے، سیاسی نہیں۔
ریاست نے ماضی میں انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، مگر اب واضح ہے کہ مدارس و مساجد کو سکیورٹی پالیسی کا حصہ بنانا نقصان دہ ہے۔ جب تک مساجد سیاست سے الگ نہیں ہوں گی، مذہبی طبقہ ریاست کو چیلنج کرتا رہے گا۔‘‘ وہ تجویز دیتے ہیں کہ پارلیمنٹ علماء کی مشاورت سے قانون سازی کرے، مساجد کے انتظام اور گرین بیلٹس پر قائم مسجدوں کے لیے شفاف پالیسی وضع کرے۔اس حوالے سے سجاد اظہر کہتے ہیں، ”شہری حکومتیں عوامی نمائندوں اور مقامی انتظامیہ کے ذریعے چلنی چاہییں، جو پانی، صفائی، ٹریفک اور تعمیرات سمیت غیر قانونی تجاوزات کے معاملات دیکھے۔ موجودہ صورتحال میں بہتر ہو گا جو مساجد عوامی ضرورت پوری کر رہی ہیں مگر کاغذی کارروائی میں غیر قانونی ہیں، انہیں جرمانہ یا زمین کے عوض ریگولرائز کیا جائے اور یہ مرحلہ وار ہو۔
‘‘اوپن یونیورسٹی کے شعبہ فکر اسلامی سے وابستہ استاذ ڈاکٹر طاہر اسلام عسکری نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”چونکہ یہ مساجد پہلے ہی وفاقی اداروں کی منظوری سے چل رہی ہیں، اس لیے موجودہ حالات میں انہیں چھیڑنے کے بجائے ریگولرائز کرنا بہتر ہے۔ نئی مساجد کی تعمیر کے لیے لائسنس، نقشے اور زمین کی الاٹمنٹ کے سخت اصول نافذ کیے جائیں اور ان پر عملدرآمد کے لیے ایک آزاد مانیٹرنگ کمیٹی قائم کی جائے۔
ادارت: جاوید اختر