سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاء اللہ شاکری نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ہم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بالادستی کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کو امریکی ایجنسی کو قبول کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ میں ضرور کہوں گا، نہیں، ایسا نہیں ہوگا اور پاکستانیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ایک بااختیار اور خودمختار ریاست و اتھارٹی ہے اور مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات پر مبنی ایک اسلامی جمہوریہ۔ اس لیے پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے عزائم کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچا سکتا ہے، کچھ دوسرے ممالک بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔ ترجمہ: علی واحدی

سوال: حالیہ برسوں میں، ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان اقتصادی، سیاسی اور سلامتی کے شعبوں میں چین کے نمایاں شراکت داروں میں سے ایک کے طور پر ابھرا ہے۔ آپ کے خیال میں پاک چین تعلقات ایران کے لیے کیا فائدے رکھتے ہیں؟
آپ نے دیکھا کہ چین کی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ جنوبی ایشیا کی طرف ہے جو پاکستان کے داخلی راستے سے گزرتا ہے اور گوادر بندرگاہ کے ذریعے مغربی چین کو بحیرہ عمان کے گرم پانیوں سے ملاتا ہے۔ چین کی خارجہ پالیسی کی دوسری جہت، جس کا تعلق خلیج فارس اور وسطی ایشیا کے حصے سے ہے، ایران کے ساتھ تعلق کے بغیر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ چین پاکستان ایران مثلث ایک بہت ہی بامعنی مثلث ہوگی اور اقتصادی راہداریوں کی تشکیل کے ذریعے چین کے سٹریٹیجک منصوبوں کو پاکستان سے مزید  جوڑ سکے گی۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنی قومی صلاحیتیں قائم کی ہیں۔ پاکستان کے برعکس، جو چین کا وہاں صلاحیت بڑھانے کا انتظار کر رہا ہے، ہم نے پہلے ہی صلاحیت تیار کر لی ہے۔ یعنی ہمارے پاس تقریباً 280 ملین ٹن بندرگاہ کی گنجائش ہے۔

ہماری ریلوے مکمل طور پر ملک گیر ہے، یعنی یہ جنوب کو شمال سے ملاتی ہے، اور ہماری مشرقی مغربی ریلوے بھی زیر تعمیر ہے۔ اس کے علاوہ چابہار سے زاہدان کو ملانے والی ریلوے اس لنک کو مکمل طور پر مکمل کر دے گی۔ کوئٹہ سے زاہدان کو ملانے والی ریلوے ایک سو سال پرانی ہے۔ اس لیے ہمارے ملک میں مواصلاتی نیٹ ورک یا تو تیار ہیں یا ان کا ایک چھوٹا سا حصہ زیر تعمیر ہے، جو انشاء اللہ ہماری مقامی صلاحیتوں سے تعمیر کیا جائے گا۔ یقیناً ان صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے چینی حکومت سرمایہ کاری کر سکتی ہے اور اس مسئلے کو ایران اور چین کے درمیان طویل المدتی تزویراتی تعاون کی دستاویز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

سوال: پاکستان کے امریکہ کے ساتھ ملٹری، سیکورٹی اور سیاسی ڈپلومیسی کے حوالے سے جو دیرینہ تعلقات ہیں، کیا ہم ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو سہل بنانے میں اسلام آباد کے کردار پر اعتماد کر سکتے ہیں؟
دیکھیں ہم نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بالادستی کی پالیسیوں کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک کو امریکی ایجنسی کو قبول کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔ میں ضرور کہوں گا، نہیں، ایسا نہیں ہوگا اور پاکستانیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ایک بااختیار اور خودمختار ریاست و اتھارٹی ہے اور مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات پر مبنی ایک اسلامی جمہوریہ۔ اس لیے پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے عزائم کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچا سکتا ہے، کچھ دوسرے ممالک بھی ایسا کرنا چاہتے تھے۔

اگر پاکستان تعمیری کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو وہ سفارتی تقاضوں کو اس طرح پہنچا سکتا ہے جس سے ایران اور امریکہ کے درمیان تبادلے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں ہمیں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے قبل پاکستانی بھی خطے کے بعض ممالک کے حوالے سے ثالثی کے لیے تیار تھا۔ اب ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ امریکی اس کام کے لیے پاکستان کی صلاحیت کو استعمال کرنا چاہیں گے، لیکن میرے خیال میں اگر پاکستان اس سلسلے میں قابل قدر کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے اسلامی جمہوریہ ایران کی آزادی اور خودمختاری کے نظرئے کو درست طریقے سے امریکیوں تک پہنچانا چاہیے۔

سوال: ایک طویل تاریخ کے ساتھ ایک سفارت کار کے طور پر، اس خطے (برصغیر اور وسطی ایشیا) میں ایک طرف ایران اور افغانستان کے درمیان اور دوسری طرف پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کی کشیدگی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، اور یہ بھی کہ اس علاقے میں چین کے اقدامات کیا ہیں؟
آپ نے دیکھا ہے کہ آجکل آبی وسائل کو بانٹنے والے ممالک کے درمیان آبی سفارت کاری  ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان دریائے سندھ ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت میں آنے والے کچھ دریا چین سے نکلتے ہیں اور ہمارے ہاں دریائے ہلمند کا مسئلہ  افغانستان کے ساتھ چل رہا ہے جس پر ماضی میں کسی نہ کسی طرح اتفاق ہوا اور پھر مختلف ادوار میں اس کے وعدے پورے نہیں ہوئے۔ میرے خیال میں جن ممالک کو ہائیڈرو پولیٹکس سے شدید خطرہ ہے ان میں سے ایک پاکستان ہے، کیونکہ ہندوستانیوں نے کہا  ہے کہ ہم دریائے سندھ کے معاہدے کو معطل کر رہے ہیں اور یہ مسئلہ پاکستان کے 80 فیصد آبی وسائل کو متاثر اور محدود کر دے گا۔ اس مسئلے کا ہمارے اور افغانستان کے درمیان پانی کے تناؤ سے بالکل بھی موازنہ نہیں نہیں کی سکتا ہے (تقریباً 500 ملین کیوبک میٹر کے اعداد و شمار کے ساتھ)۔

سندھ طاس یا سندھ آبی معاہدے میں بہت وسیع بحث شامل ہے، اس طرح کہ پاکستان کے تقریباً 80% لوگوں کی روزی روٹی ان دریاؤں سے وابستہ ہے۔ اس لیے میری رائے میں پانی کے مسئلے کو کبھی بھی دوسرے تنازعات کا یرغمال نہیں بنانا چاہیئے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اتفاق کیا گیا ہے اور کسی کو بھی ان آبی وسائل کو یرغمال نہیں بنانا چاہیئے جو دونوں ممالک کے شہریوں کے درمیان مشترک ہیں۔ یہ اس مسئلے سے متعلق تمام بین الاقوامی قانونی قواعد اور انسانی ہمدردی کے تحفظات کی تحریف کو ظاہر کرتا ہے۔ ان وسائل میں سمندر کی طرح پانی کے وسائل بھی شامل ہیں جو ملکوں کے درمیان مشترک ہیں اور یہ مسئلہ ہندوستان اور پاکستان اور ایران اور افغانستان دونوں کے درمیان حل ہونا چاہیئے۔

سوال: اگر آپ آخر میں کسی خاص نکتہ کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم استفادہ کریں گے؟
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے تناظر میں علمی اور سائنسی تعلقات بہت کمزور ہیں، آخر میں یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان میں متعلقہ تعلیمی اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی راہیں تلاش کرنی چاہیں، ہم ایران اور پاکستان کے درمیان اس رابطہ کو بہت قوی و مضبوط کرسکتے ہیں۔

اصل لنک:
https://ana.

ir/fa/news/991353/

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان پاکستان کے ایران اور کے درمیان ایران کے سکتا ہے کے ساتھ اس لیے ہے اور کے لیے ہیں کہ چین کے

پڑھیں:

ایرانی وزیر دفاع کا دورہ ترکی، دشمن کیخلاف متحد ہونیکا عہد

ترک وزیر دفاع نے گفتگو میں کہا کہ جس طرح ایران ترکی کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتا ہے، اسی طرح ترکی بھی سلامتی کو فروغ دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا، خاص طور پر مشترکہ سرحدوں پر اس کو ملحوظ رکھے گا۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع امیر عزیز نصیر زادہ نے جمہوریہ ترکی کے وزیر قومی دفاع یاشار گولر کی سرکاری دعوت کے جواب میں انقرہ کا دورہ کیا اور ملک کے حکام سے ملاقات کی۔ ایرانی وزیر دفاع نے پڑوسی ملک کے دورے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ دورہ دوطرفہ دفاعی تعلقات اور علاقائی امور پر براہ راست بات چیت کا موقع ہے۔ نصیر زادہ نے دونوں ممالک کے درمیان گہرے ثقافتی اور مذہبی مشترکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور ترکی کے درمیان یہ نکات اتنے وسیع ہیں کہ ان کے مقابلے میں اختلافات معمولی ہو جاتے ہیں، لیکن دشمنوں نے ہمیشہ ان اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور مشترکات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دفاعی تعلقات اور رابطوں کی ترقی اور استحکام کو ایران کی ترجیحات میں سے ایک قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ترکی عالم اسلام اور بین الاقوامی سطح پر ایک اہم ملک کی حیثیت سے موثر اقتصادی، سیاسی اور عسکری صلاحیتوں کا حامل ہے اور اس ملک کے ساتھ دفاعی اور عسکری تعلقات کی توسیع عالم اسلام اور خطے کے چیلنجوں کے حل میں موثر ثابت ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت نے غزہ، لبنان، یمن اور شام میں متعدد حملوں کے بعد قطر کو نشانہ بنایا ہے اور یہ تمام معاملات اس بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کے توسیع پسندانہ اور بحران ایجاد کرنے والے مزاج کی علامت ہیں، جس نے خطے کے ممالک پر پے در پے حملوں اور بے گناہوں کے قتل عام کے ساتھ خود کو دنیا کے لوگوں کی نظروں میں سب سے زیادہ قابل نفرت حکومتوں میں سرفہرست قرار دلوایا دیا ہے، خطہ اس کی مذمت اور اس شیطانی حکومت کے جرائم سے نمٹنے کی ضرورت پر متفق ہے۔ آخر میں انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی سطح کو بڑھانے میں فوجی تعاون کو مضبوط بنانے کے کردار پر زور دیتے ہوئے ترک وزیر دفاع کو تہران کا دورہ کرنے اور طے پانے والے معاہدوں پر عمل درآمد کی دعوت دی۔ ترک وزیر دفاع نے اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع کے انقرہ کے دورے کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ کیا اور اسے کو دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کی واضح علامت قرار دیا۔ خطے میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے جنرل گولر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خطے میں سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے مشترکہ تعاون کے لئے آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جس طرح ایران ترکی کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتا ہے، اسی طرح ترکی بھی سلامتی کو فروغ دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا، خاص طور پر مشترکہ سرحدوں پر اس کو ملحوظ رکھے گا۔  

متعلقہ مضامین

  • ایران نے اسرائیل سے روابط کے الزام میں 6 مبینہ دہشت گردوں کو پھانسی دے دی
  • جی7 ممالک کی جانب سے ایران پر پابندیوں کی بحالی کا مطالبہ، ایرانی وزارتِ خارجہ کا شدید ردعمل
  • ایران اچانک حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، سابق صیہونی وزیر جنگ
  • اسلام آباد:وفاقی وزیر رانا تنویر حسین سے ایتھوپیا کے سفیر ڈاکٹر جیمال بیکر عبداللہ ملاقات کررہے ہیں
  • اردگان نے ایرانی اداروں اور شخصیات کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیدیا
  • اردگان نے ایرانی اداروں اورشخصیات کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیدیا
  • ایرانی وزیر دفاع کا دورہ ترکی، دشمن کیخلاف متحد ہونیکا عہد
  • فیروز خان کی دوسری اہلیہ سے بھی علیحدگی ہوگئی؟ پوسٹ وائرل
  • پاکستان میں نو تعینات جرمن سفیر کی نائب وزیراعظم سے ملاقات
  • ملکی دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں ، مغربی مطالبات مسترد؛ ایران کا میزائل رینج بڑھانے کا اعلان