سکھراورگردونواح میں ہلکی بارش سے بھی گرمی کا زور کم نہ ہوسکا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سکھر (نمائندہ جسارت) سکھر میں شدید گرمی کا زور ٹوٹ نہ سکا، حبس زدہ موسم کے باعث کاروباری اور گھریلو سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں، جبکہ شہر کی سڑکوں پر ٹریفک بھی معمول سے کہیں کم دکھائی دے رہا ہے۔ چند روز قبل سکھر اور گردونواح میں ہلکی بارش ہوئی تھی، مگر بارش کے بعد گرمی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئی ہے۔ گرمی اور حبس کے باعث شہری گھروں اور دکانوں تک محدود ہو گئے ہیں، جس کے سبب نہ صرف روزمرہ معمولات متاثر ہوئے ہیں بلکہ کاروباری سرگرمیاں بھی ماند پڑ گئی ہیں۔اس حوالے سے دکانداروں کا کہنا ہے کہ محرم الحرام کے مہینے میں کاروبار ویسے ہی کم ہو جاتا ہے، اس مہینے میں شادی بیاہ کی تقریبات بھی نہیں ہوتیں، جس سے خریداری پر فرق پڑتا ہے، اب اوپر سے گرمی نے عوام کو گھروں میں محصور کر دیا ہے، جس سے کاروبار مزید متاثر ہوا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان کے مستقبل کو خطرات! نئی رپورٹ میں سنگین موسمی بحرانوں کی پیشگوئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی ماحولیاتی ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستان کو شدید موسمیاتی چیلنجز کا سامنا رہے گا۔
پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ارم ستار نے کہا کہ 2050 تک ملک میں سیلاب، شدید بارشوں اور خشک سالی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی نہ صرف موسم کو بدل رہی ہے بلکہ صحت، خوراک، زراعت، پانی اور روزمرہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرے گی۔
بوسٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر عادل نجم نے گفتگو میں کہا کہ “ماحولیاتی تبدیلی نے تقریریں نہیں سننی، اسے اپنا کام کرنا ہے اور اس کا اثر ہر شخص پر پڑے گا”۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان کے معاشی، سماجی اور صحت عامہ کے نظام پر اس کے نتائج مزید سنگین ہوں گے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان خطے میں موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں شامل ہے۔ جون تا ستمبر 2025 کے تباہ کن سیلاب نے ملک کی معیشت کو 822 ارب روپے سے زائد نقصان پہنچایا اور لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔
ماہرین نے زور دیا کہ پاکستان کو فوری طور پر کلائمیٹ ایڈاپٹیشن اور ریزیلینس پالیسیوں پر توجہ دینی ہوگی، ورنہ آنے والے دہائیوں میں صورتحال مزید خطرناک ہوسکتی ہے۔