کیا ناگہانی اموات کا کووڈ ویکسین کے ساتھ کوئی تعلق ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جولائی 2025ء) عام افراد اور بالخصوص نوجوانوں کی ناگہانی اموات اور کووڈ ویکسینیشن کے درمیان تعلق کا معاملہ ایک بار پھر اس وقت سرخیوں میں آگیا جب جنوبی ریاست کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا نے ہاسن ضلع میں ایک نوجوان کی اچانک موت پر یہ دعویٰ کیا اس ’صحت مند‘ نوجوان کی موت کووڈ ویکسینیشن کی وجہ سے ہوئی۔
تاہم بھارت کی وزارت صحت نے ملک کے اعلیٰ طبی تحقیقی اداروں کی طرف سے کئے گئے وسیع مطالعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کووڈ انیس ویکسینیشن اور ملک میں بالغوں میں اچانک موت کے درمیان کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔
ایسٹرا زینیکا نے پوری دنیا سے اپنی کووڈ ویکسین واپس لے لی
وزارت صحت نے بدھ کے روز اپنی ایک رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا ہے کہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) اور آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) جیسے ملک کے معتبر طبی اداروں نے اپنی تحقیقات میں پایا کہ لائف اسٹائل کے انتخاب، پہلے سے موجود صحت کی حالتوں اور جینیاتی عوامل ان ناگہانی اموات میں کلیدی معاون ہیں۔
(جاری ہے)
حالیہ عرصے میں بھارت میں متعدد اچھے خاصے صحت مند نوجوان اچانک موت کی آغوش میں چلے گئے، جب وہ معمول کی سرگرمیوں، مثلاﹰ کھیل کود، تفریح، شادی بیاہ وغیرہ میں مشغول تھے۔ ان نوجوانوں کی ناگہانی اموات نے ایک بڑے حلقے میں اس خیال کو تقویت دی کہ ایسا کووڈ ویکسین لگوانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس صورت حال کے مدنظر حکومت کو ان دعوؤں کی سائنسی بنیادوں کا پتہ لگانے پر مجبور کیا، جس کے ابتدائی نتائج عام کردیے گئے ہیں۔
تاکہ خدشات کو دور کیا جائے، غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکا جائے اور لوگوں کو اصل صورت حال سے آگاہ کیا جائے۔کورونا وبا کے دوران کروڑوں بچے ویکسین سے محروم رہ گئے، یونیسیف
وزارت صحت نے کہا کہ اس سلسلے میں آئی سی ایم آر اور ایمس میں کرائے گئے مطالعات سے بھارت میں نوجوان بالغوں میں اچانک غیر واضح اموات کے بارے میں زیادہ جامع اور واضح حقیقت سامنے آئی ہے۔
وزارت نے کہا، ''یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کووڈ 19 کی ویکسینیشن خطرے میں اضافہ نہیں کرتی ہے، بلکہ بنیادی صحت کے مسائل، جینیاتی رجحان اور پرخطر لائف اسٹائل کے انتخاب کا کردار نامعلوم اچانک اموات میں کردار ادا کرتا ہے۔‘‘
بھارتی وزارت صحت نے اس بات پر زور دیا کہ سائنسی ماہرین نے سختی سے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ کووِڈ ویکسینیشن کو ناگہانی اموات سے جوڑنے والے بیانات غلط اور گمراہ کن ہیں اور سائنسی تحقیقات ان کی حمایت نہیں کرتے۔
سائنسی اداروں کی تحقیقات میں کیا پتہ چلابھارت کے اعلیٰ طبی ادارے دہلی کے ایمس نے کہا کہ اس کے مطالعے میں کووڈ ویکسینیشن اور ناگہانی اموات کے درمیان کوئی تعلق نہیں ملا، البتہ ان المناک واقعات کا بنیادی سبب لائف اسٹائل کے عوامل مثلاﹰ سگریٹ نوشی، ہائی بلڈ پریشر اور تناؤ پایا گیا۔
ایمس میں فارنزک میڈیسن کے شعبہ کے ایڈیشنل پروفیسر ڈاکٹر ابھیشیک یادو نے اپنے شعبہ کی طرف سے کرائے گئے دو مطالعات کا تفصیلی ذکر کیا۔
ان میں 2018 سے 2022 تک کے، کووڈ سے پہلے اور بعد کے اعداد و شمار کا موازنہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’محکمہ میں رپورٹ ہونے والے کیسز میں قلب سے اچانک ہونے والی اموات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔‘‘ایمس کے شعبہ پیتھالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر سدھیر آروا نے وضاحت کی کہ فارنزک ڈپارٹمنٹ میں لائے گئے 230 نوجوان افراد کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ دل کا دورہ موت کی سب سے عام (50 فیصد) وجہ ہے، جو اکثر لائف اسٹائل کے خطرے کے اشارے جیسے ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول، تناؤ اور موٹاپا سے منسلک ہوتے ہیں۔
25 فیصد معاملات میں، موت کی کوئی قابل شناخت وجہ کا تعین نہیں کیا جا سکا، اور محققین ممکنہ مالیکیولر تبدیلیوں کی کھوج کر رہے ہیں۔آئی سی ایم آر کی ایک عبوری رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مطالعہ کی جانے والی تقریباً 50 فیصد اموات دل کے دورے کی وجہ سے ہوئیں، مزید تحقیق جاری ہے۔
ایمس دہلی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر رندیپ گلیریا نے کووڈ انیس ویکسینیشن پر جاری خدشات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ اور آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے مطالعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ رپورٹ ہونے والی نوجوان اموات کا تعلق کووڈ 19 ویکسین سے نہیں ہے۔
ڈاکٹر گلیریا کا کہنا تھا، ’’کووڈ انیس ویکسین کے کچھ سائیڈ ایفیکٹ ہیں۔ تمام ویکسین یا دوائیوں کے کچھ سائیڈ ایفیکٹ ہوتے ہیں، لیکن ویکسینیشن اور ہارٹ اٹیک کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی بھی مطالعے سے یہ بات سامنے نہیں آئی۔‘‘
ڈاکٹر گلیریا نے مزید کہا، ’’ہارٹ اٹیک کی ایک وجہ جینیاتی پس منظر، لائف اسٹائل، جسمانی سرگرمی کی کمی اور زیادہ چربی والی خوراک اور بڑھتا ہوا موٹاپا ہے، جس کی وجہ سے ڈیسک پر کام کرنے والے نوجوانوں میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اور کووڈ انیس ویکسین اور اچانک دل کے دورے سے ہونے والی اموات کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ فارماسیوٹیکل کمپنیاں کیا کہتی ہیں؟انڈین ویکسین مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے کہا کہ بھارت میں تمام کووڈ انیس ویکسینز کو وسیع پیمانے پر طبی اور انسانی طبی آزمائشی جائزوں کی بنیاد پر ہنگامی استعمال کی اجازت ملی، جو حفاظت، افادیت، اور امیونوجنیسیٹی کے مثبت نتائج دکھا رہی ہے۔
کورونا وائرس کے خلاف ویکسین نہیں گولیاں، دوڑ میں کئی ممالک شامل
ایمس میں پلمونری میڈیسن کے شعبہ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر کرن مدن کہتے ہیں کہ ’’وبائی امراض کے دوران کووڈ انیس کی ویکسین نے شرح اموات کو کم کرنے میں انتہائی موثر اور اہم کردار ادا کیا۔‘‘
ڈاکٹر مدن نے اسے وبا کے وقت ’’زندگیوں کو بچانے کے واحد ممکنہ اقدام‘‘ قرار دیا، جس سے زیادہ اموات کو روکنے میں ’’بے پناہ فوائد‘‘ حاصل ہوئے۔
ویکسین کو تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کا ذریعہ ہونا چاہیے، ڈبلیو ایچ او
خیال رہے کہ عالمی سطح پر، 13 بلین سے زیادہ کووڈ ویکسین کی خوراکیں دی جا چکی ہیں، ڈبلیو ایچ او اب چھ ماہ یا اس سے زیادہ عمر کے ہر فرد کے لیے ویکسین لگانے کی سفارش کرتا ہے۔
بھارتی حکومت نے کہا کہ وہ شہریوں کی بہبود کے تحفظ کے لیے ثبوت پر مبنی صحت عامہ کی تحقیق کے لیے پرعزم ہے۔ تاہم عام افراد ہی نہیں، کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا جیسے اہم عوامی شخصیات کی کووڈ ویکسینیشن کے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے ابھی مزید تحقیقاتی نتائج سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے درمیان کوئی لائف اسٹائل کے تعلق نہیں کوئی تعلق آف میڈیکل کی وجہ سے نے کہا کہ نہیں ہے کے لیے
پڑھیں:
افغانستان میں انٹرنیٹ پر کوئی پابندی عاید نہیں‘ طالبان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251002-08-23
کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) طالبان حکومت نے افغانستان میں انٹرنیٹ کی ملک گیر پابندی کی خبروں کو مسترد کر دیا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کی وضاحت حالیہ دنوں میں ہونے والے بڑے پیمانے پر کمیونی کیشن بلیک آؤٹ کے بعد سامنے آئی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق طالبان حکام نے پاکستانی صحافیوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں جاری بیان میں کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی کی افواہوں میں صداقت نہیں۔ حکومت نے انٹرنیٹ پر پابندی عاید نہیں کی۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بندش تکنیکی وجوہات کی بنا پر ہوئی ہے۔ خاص طور پر پرانے فائبر آپٹک کیبلز کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی۔ خیال رہے کہ یہ طالبان حکومت کا اس معاملے پر پہلا باضابطہ اعلان ہے جس کے بعد پیر سے ملک بھر میں ٹیلیفون اور انٹرنیٹ سروسز شدید متاثر ہوئیں۔ عالمی انٹرنیٹ مانیٹرنگ ادارے نیٹ بلاکس کے مطابق پیر کو افغانستان میں 4 کروڑ 30 لاکھ آبادی والے ملک میں ‘‘مکمل انٹرنیٹ بلیک آؤٹ’’ ریکارڈ کیا گیا۔ اگرچہ طالبان نے اس بار براہِ راست ذمے داری قبول نہیں کی، تاہم اس سے قبل کئی صوبوں میں انٹرنیٹ سروسز اخلاقی برائیوں کے خلاف اقدامات کے تحت بند کی جا چکی ہیں۔16 ستمبر کو بلخ صوبے کے حکام نے انٹرنیٹ پابندی کی تصدیق کی تھی۔ اسی طرح بدخشاں، تخار، ہلمند، قندھار اور ننگرہار میں بھی حالیہ مہینوں میں پابندیاں رپورٹ ہوئیں۔ ایک افغان حکومتی اہلکار نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ تقریباً ‘‘آٹھ سے نو ہزار ٹیلی کمیونی کیشن ٹاورز’’ کو اگلے حکم تک بند رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ادھر طلوع نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے موبائل فونز پر 3G اور 4G انٹرنیٹ سروسز کو ایک ہفتے کے اندر بند کرنے کی ڈیڈلائن دی ہے۔ انٹرنیٹ اور ٹیلیفون سروسز کی بندش نے نہ صرف عوامی رابطوں کو متاثر کیا ہے بلکہ بینکاری، تجارت اور فضائی شعبے کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے خواتین کی ملازمتوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے جب کہ خواتین کے محرم کے بغیر سفر، عوام مقام پر جانے اور بیوٹی پارلز بھی بند کروا دیئے گئے۔