واشنگٹن کی حمایت سے ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا نے پہلی بار ایران کے توانائی کے شعبے پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

پابندیوں کا ہدف ایک عراقی تاجر سلیم احمد سعید اور ان کی متحدہ عرب امارات میں قائم کمپنی ہے، جس پر الزام ہے کہ اس نے ایرانی تیل کو عراقی تیل میں ملا کر غیر قانونی طریقے سے برآمد کرنے کی کوشش کی۔

امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ایران کا طرزِ عمل اسے تباہی کی جانب لے گیا ہے، اُسے امن کا انتخاب کرنے کے بے شمار مواقع ملے، لیکن اس کی قیادت نے انتہا پسندی کا راستہ چنا۔

یہ بھی پڑھیں:

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی محکمہ خزانہ تہران کے مالی وسائل کو نشانہ بناتا رہے گا تاکہ اس کے تخریبی عزائم کو روکا جا سکے۔

یاد رہے کہ 24 جون کو جنگ بندی کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا تھا کہ چین ایرانی تیل خرید سکتا ہے اور امریکا ایران پر سے توانائی کی پابندیاں اٹھانے پر غور کر رہا ہے، تاہم یہ وعدہ زیادہ دیر نہ نبھایا جاسکا۔

گزشتہ ہفتے ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے اسرائیل کے خلاف فتح کا دعویٰ سامنے آنے پر انہوں نے فوری طور پر پابندیوں میں نرمی کا ہر اقدام روک دیا ہے۔

مزید پڑھیں:

صدر ٹرمپ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے اسرائیل کو خامنہ ای کو قتل کرنے سے روکا اور انہیں ’انتہائی بدنما اور ذلت آمیز موت‘ سے بچایا۔

اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز کا کہنا تھا کہ اسرائیل سپریم ایرانی لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو نشانہ بنانا چاہتا تھا، لیکن مناسب موقع موجود نہیں تھا۔

13 جون کو اسرائیل نے بغیر کسی براہ راست اشتعال کے ایران پر فضائی حملے کیے، جن میں سینکڑوں ایرانی شہری اور اعلیٰ فوجی افسران ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں امریکا نے بھی اسرائیلی مہم کا ساتھ دیا اور ایران کی 3 جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں:

جوابی کارروائی میں ایران نے اسرائیل پر میزائل داغے اور قطر میں امریکی فوجیوں کے اڈے پر بھی حملہ کیا، صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکی فضائی حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کر دیا۔

بدھ کے روز پینٹاگون نے اعلان کیا کہ ان حملوں کے نتیجے میں ایران کا جوہری پروگرام ایک سے دو سال پیچھے چلا گیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ایران کے پاس موجود افزودہ یورینیم کے ذخائر کہاں موجود ہیں۔

ایران نے گزشتہ ماہ ایک قانون منظور کیا جس کے تحت وہ اقوامِ متحدہ کے جوہری نگران ادارے، آئی اے ای اے، کے ساتھ تعاون معطل کرے گا کیونکہ یہ ادارہ امریکا اور اسرائیل کے حملوں کی مذمت کرنے میں ناکام رہا۔

مزید پڑھیں:

اس فیصلے پر امریکا اور متعدد یورپی ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

جمعرات کے روز ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے انکشاف کیا کہ ایران اور امریکا کے درمیان عمان اور قطر کے ذریعے بالواسطہ سفارتی روابط موجود ہیں تاکہ موجودہ بحران کا سفارتی حل تلاش کیا جا سکے۔

’سفارت کاری کو فریب یا نفسیاتی جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے، ایران کو لگتا ہے کہ اس کی سفارتی کوششوں کو دھوکا کیا گیا ہے۔‘

مزید پڑھیں:

واضح رہے کہ جنگ کے آغاز سے چند گھنٹے قبل صدر ٹرمپ نے سفارت کاری کے عزم کا اعادہ کیا تھا، اور امریکی حملوں سے چند روز قبل کہا تھا کہ وہ دو ہفتوں میں جنگ میں شمولیت کے بارے میں فیصلہ کریں گے تاکہ ایران اور یورپی طاقتوں کے درمیان بات چیت کا موقع مل سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل اسماعیل بقائی امریکا آیت اللہ ایران پینٹاگون توانائی جنگ بندی جوہری تنصیبات خامنہ ای ڈونلڈ ٹرمپ سفارت کاری علی خامنہ ای قطر وزارت خارجہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل اسماعیل بقائی امریکا ا یت اللہ ایران پینٹاگون توانائی جوہری تنصیبات خامنہ ای ڈونلڈ ٹرمپ سفارت کاری علی خامنہ ای مزید پڑھیں کہ ایران امریکا ا خامنہ ای کی جانب کیا کہ

پڑھیں:

صہیونی اخبار کا سعودی عرب کیطرف سے ایرانی ڈرونز روکنے میں اسرائیل کی مدد کا دعویٰ

اسرائیل ہیوم کے مطابق اردن، امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے بھی اسرائیلی فوج کی ایرانی ڈرون کو روکنے میں مدد کی ہے۔ سعودی وزارت خارجہ نے اس رپورٹ کی اشاعت کے وقت تک اسرائیلی میڈیا کے دعوے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایک اسرائیلی میڈیا آوٹ لیٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب نے حالیہ 12 روزہ جنگ کے دوران صیہونی حکومت کے خلاف ایران کے فضائی حملوں کو پسپا کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیل ہیوم صیہونی اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان حالیہ جنگ کے دوران سعودی عرب سمیت بعض عرب ممالک نے بالواسطہ طور پر ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو روکنے میں حصہ لیا تھا۔ اسرائیلی آؤٹ لیٹ نے خلیجی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کی فضائیہ نے عراق اور اردن سمیت خطے کی فضائی حدود میں ایرانی ڈرونز کو روکنے کے لیے ہیلی کاپٹر روانہ کیے تھے، ان میں سے کچھ ڈرون مقبوضہ فلسطین تک اپنا سفر جاری رکھ سکتے تھے، لیکن انہیں اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی روک لیا گیا۔

اسرائیل ہیوم کے مطابق اردن، امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے بھی اسرائیلی فوج کی ایرانی ڈرون کو روکنے میں مدد کی ہے۔ سعودی وزارت خارجہ نے اس رپورٹ کی اشاعت کے وقت تک اسرائیلی میڈیا کے دعوے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم اسلامی جمہوریہ ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد، ریاض نے باقاعدہ بیان جاری کیا تھا جس میں اس جارحیت کی شدید مذمت کی گئی تھی اور اسے ایران کی خودمختاری اور سلامتی کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔ سعودی عرب نے زور دے کر کہا تھا کہ یہ حملہ بین الاقوامی قوانین اور پروٹوکولز کی صریح خلاف ورزی ہے۔ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے بھی اپنے ایرانی ہم منصب سید عباس عراقچی کے ساتھ فون کال میں حملے کی مذمت کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے اقدامات سے کشیدگی کم کرنے کی کوششوں میں خلل پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • حماس غزہ میں جنگ بندی کے لیے کس بات کی ضمانت مانگ رہی ہے؟
  • صدر ٹرمپ کی پیش کی گئی آخری جنگ بندی تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں، حماس
  • 12 روزہ جنگ میں کس نے کیا کھویا کیا پایا
  • صہیونی اخبار کا سعودی عرب کیطرف سے ایرانی ڈرونز روکنے میں اسرائیل کی مدد کا دعویٰ
  • اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کے لیے تیار ہے ،ٹرمپ
  • غزہ میں جنگ بندی کی راہ ہموار، اسرائیل جنگ بندی کیلئے مان گیا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • اسرائیل 60 روزہ جنگ بندی کے لیے شرائط مان گیا، ٹرمپ کا دعویٰ
  • مشرق وسطیٰ،میں اب کیا ہوگا
  • اسرائیل، امریکا کے عزائم کو متحد ہو کر ہی ناکام بنانا ہوگا( حافظ نعیم )