ججز ٹرانسفر فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل دائر
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے ٹرانسفرکیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سینئر وکیل منیر اے ملک نے ججز کی جانب سے انٹرا کورٹ اپیل سپریم کورٹ میں دائر کردی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر کو درست قرار دیا، سپریم کورٹ نے آئین اور حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا، درخواست میں استدعا کی گئی ہے ججز کا تبادلہ اور سنیارٹی کے تعین کیلیے معاملہ صدر کو بھجوانے کا حکم کالعدم اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کا تبادلہ آئین کے خلاف قرار دیا جائے۔
انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلے تک 19 جون کا فیصلہ معطل کیا جائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز کی انٹراکورٹ اپیل کیساتھ حکم امتناع کی درخواست بھی شامل ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ٹرانسفر ہوکر آنیوالے ججز کی سنیارٹی کی تعین سے صدر مملکت کو روکا جائے۔
جوڈیشل کمیشن کو جسٹس سرفراز ڈوگر کو مستقل چیف جسٹس تعینات کرنے سے روکا جائے۔ سپریم کورٹ میں جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عقیل عباسی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس اشتیاق ابراھیم اور جسٹس علی باقر نجفی وہ چھ آئینی بنچز کیلیے نامزد ججز ہیں جو ممکنہ طور پر یہ انٹرا کورٹ اپیل سن سکتے ہیں۔
دوسری جانب یکم جولائی کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بھی بلایا گیا ہے جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں مستقل چیف جسٹس کی تقرری کے علاوہ سندھ ہائیکورٹ، پشاور ہائیکورٹ اور بلوچستان کے چیف جسٹس صاحبان کی تقرریوں پر بھی غور ہوگا۔
آئندہ 48 گھنٹو ں میں صدر مملکت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سنیارٹی کا تعین کر سکتے ہیں۔ موجودہ طریقہ کا ر کے تحت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کیلیے جسٹس سردار سرفراز ڈوگر، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے ناموں پر غور ہونا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ میں سپریم کورٹ میں کورٹ اپیل چیف جسٹس ججز کی
پڑھیں:
مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 02 اکتوبر2025ء ) سپریم کورٹ آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا پہے کہ مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا ، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جو کہ 47 صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر نے وجوہات تحریر کی ہیں، تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں، جسٹس صلاح الدین پنہور کی سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ نے نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا تاہم تفصیلی فیصلہ آج آیا ہے۔(جاری ہے)
حریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو پٹیشنز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، 13 رکنی آئینی بینچ کے سامنے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، آئینی بینچ کے 11 ججوں نے فریقین اور اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا، بینچ کے دو ارکان نے مختلف رائے دی اور ریویو پٹیشنز مسترد کر دیں، دو ججز نے حتمی فیصلہ سنا کر مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سات غیر متنازع حقائق ہیں، سنی اتحاد کونسل کی حد تک مرکزی فیصلے میں اپیلیں متفقہ طور پر خارج ہوئیں کہ وہ مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں، مرکزی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دے دیا گیا جبکہ وہ فریق ہی نہیں تھی، پی ٹی آئی اگر چاہتی تو بطور فریق شامل ہو سکتی تھی مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی کیس میں کسی بھی فورم پر فریق نہیں تھی، جو ریلیف مرکزی فیصلے میں ملا برقرار نہیں رہ سکتا۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 80 آزاد امیدواروں میں سے کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا مخصوص نشستیں انہیں ملنی چاہئیں، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دیں، مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کر دیا گیا، جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔ یصلے میں کہا گیا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے سنی اتحاد کونسل اور اس کے چیئرمین کا کنڈکٹ قابل ستائش نہیں تھا، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دو دن ابتدائی دلائل دیے اور کیس میں تاخیر پیدا کرنے کیلئے دو درخواستیں دیں، مخصوص نشستوں کے کیس کو پریس نے بہت توجہ دی حالانکہ قانون بالکل واضح ہے اور کیس آسان تھا، سنی اتحاد کونسل نے نظرثانی دائر ہی نہیں کی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی تو یہ کہتے رہے اس ہار میں بھی میری جیت ہے۔ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نہ سپریم کورٹ میں فریق تھی، نہ پشاور ہائی کورٹ اور نہ ہی الیکشن کمیشن میں فریق تھی، پی ٹی آئی کے جن امیدواروں کو ریٹرنگ افسران نے آزاد قرار دیا اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہیں نہیں کہا پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑسکتی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سمیت کچھ پی ٹی آئی امیدواروں نے پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑا، 2024ء کے عام انتخابات میں بڑے بڑے نامور وکلاء نے پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑا، تعجب ہے ان نامور وکلاء میں سے کسی وکیل نے بھی آزاد قرار دینے کے ریٹرننگ افسر کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے امیدواران نے غلط سمجھا کہ انھیں آزاد قرار دے دیا گیا ہے، پی ٹی آئی کے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواران سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط سمجھنے کے برابر کے ذمہ دار ہیں، سپریم کورٹ مکمل انصاف 184 کے تحت کرسکتی ہے، مکمل انصاف کے نام پر اس فریق کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا جو مقدمے میں فریق ہی نہ ہو، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے مرکزی کیس فیصلے میں پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا جس کا اسے اختیار ہی نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی ججز کا اقلیتی ججوں کو نکال کر اپنے طور پر خصوصی بنچ تشکیل دینا غیر قانونی ہے، ایسی کوئی مثال بھی نہیں ملتی، آئین میں دی ہوئی ٹائم لائن تو پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کر سکتا ہے، آئین میں دی گئی واضح ٹائم لائنز کو تبدیل کرنا اختیارات کی تقسیم کی تکون کے نظریہ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا حدود سے تجاوز بھی ہے۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار کسی نے نہیں دیا کہ وہ آئینی کی تشریح کرتے کرتے آئین کو ہی دوبارہ تحریر کر ڈالے، سپریم کورٹ یا اس کے کسی جج کو قطعی یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر آئین کی تشریح کرے۔