اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ، سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی ترقیاتی اتھارٹی (سی ڈی اے) کے مستقبل پر ایک بڑا عدالتی فیصلہ سامنے آیا ہے، جس کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو سی ڈی اے کو تحلیل کرنے اور اس کے تمام اختیارات و اثاثے میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کے حوالے کرنے کی ہدایت دی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی کی جانب سے جاری کیے گئے تفصیلی تحریری فیصلے میں سی ڈی اے کی جانب سے جاری کردہ رائٹ آف وے اور ایکسس چارجز کا ایس آر او کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نوٹیفکیشن کے تحت اٹھائے گئے تمام اقدامات غیر قانونی تصور کیے جائیں گے۔
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ اگر سی ڈی اے نے اس ایس آر او کی بنیاد پر کسی شہری یا ادارے سے مالی رقوم وصول کی ہیں تو وہ رقم فی الفور واپس کی جائے۔ عدالت نے مزید کہا کہ سی ڈی اے آرڈیننس ایک مخصوص مقصد کے تحت جاری کیا گیا تھا، لیکن وقت گزرنے اور نئی قانون سازی کے بعد اس کی قانونی افادیت ختم ہو چکی ہے۔
فیصلے میں حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ سی ڈی اے کی تحلیل کا عمل فوری طور پر شروع کرے اور مکمل کرے، تاکہ میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد کو باقاعدہ انتظامی، مالیاتی اور ترقیاتی اختیارات منتقل کیے جا سکیں۔
عدالت نے اس امر پر بھی زور دیا کہ مقامی حکومت کے ادارے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں اور اسلام آباد کا مکمل ایڈمنسٹریٹو، ریگولیٹری اور میونسپل فریم ورک لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت چلایا جائے۔
فیصلے کے مطابق منتخب بلدیاتی نمائندوں کی منظوری کے بغیر کسی بھی قسم کے ٹیکس نافذ نہیں کیے جا سکتے، جب کہ سی ڈی اے کو ٹیکس عائد کرنے کا کوئی قانونی اختیار حاصل نہیں ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ پیٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشنز پر عائد رائٹ آف ایکسس ٹیکس بھی غیر آئینی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلام آباد سی ڈی اے کے تحت
پڑھیں:
سندھ ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ
سندھ ہائیکورٹ نے کراچی میں ای چالان جرمانے غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے فریقین سے 25 نومبر تک جواب طلب کر لیا، کیس کی مزید سماعت 25 نومبر تک ملتوی کر دی۔ سندھ ہائیکورٹ میں بس اونرز ایسوسی ایشن کی ای چالان کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل منصف جان ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر سزا دینا انتظامیہ کا اختیار نہیں بلکہ موٹر وہیکل ترمیم ایکٹ سیکشن 121 اے کے تحت ٹریفک مجسٹریٹ ہی سزا دے سکتا ہے۔ وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ای چالان اور جرمانوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے، شہر کی سڑکوں کی حالت خراب اور ٹریفک سائن واضح نہیں ہیں، کمرشل بسوں پر ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کاروبار کی کمر توڑ دے گا۔ درخواست میں کہا گیا کہ کیمروں کے ذریعے نگرانی کا نظام درست اقدام ہے لیکن جرمانوں کی رقم غیر منصفانہ اور ناقابل برداشت ہے، عدالت نے آئندہ سماعت پر تمام فریقین کو جواب داخل کرانے کی ہدایت کر دی اور کیس کی مزید سماعت 25 نومبر تک ملتوی کر دی۔