Jasarat News:
2025-08-17@03:12:21 GMT

مشرق وسطیٰ،میں اب کیا ہوگا

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ 12 دن کے حملوں کے بعد جنگ بندی سے امریکا، اسرائیل اور ایران تینوں کو فیس سیونگ مل گئی ہے اور اچھا ہے۔ اب سب فریقوں کے پاس اپنی اپنی کامیابیوں کا اعلان کرنے کا موقع ہے۔ ٹرمپ نے تو اپنا اعلان کرتے ہوئے ’’گاڈ بلیس ایران‘‘ بھی کہہ دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ 20 برس قبل عراق پر جن کیمیاوی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر حملہ کیا گیا تھا اور ایران پر جس ایٹم بم کے بہانے حملہ کیا، نہ کیمیاوی ہتھیار ملے نہ ہی ایٹم بم کا سراغ ملا۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں 1500 کلومیٹر دور واقع ممالک ایک دوسرے کے خلاف کیا جنگی تیاریاں کرتے ہیں۔ (دونوں فریقوں کا نقصان ہوا ہے لیکن اس بارہ روزہ جنگ میں حماس نے غزہ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرکے اسرائیلی فوج کو دھکیل دیا ہے۔ مرتب)
ایران نے اس سارے منظرنامے (اسرائیل سے براہ راست جنگ اور پونے دو سال سے جاری جنگوں) میں بہت نقصان اٹھایا ہے۔ اس کی پراکسیز حزب اللہ، یمنی حوثی اور زینبیون کو کمزور کیا گیا اور شام میں ایران نواز حکومت بدلی گئی۔ جنگ میں ٹاپ لیڈر شپ کو گنوا دیا۔ کئی ایٹمی سائنسدان مارے گئے۔ جوہری انفرا اسٹرکچر کو بے حد نقصان پہنچا ہے۔ جوہری پروگرام ڈی ریل ہو چکا ہے جسے بحال کرتے چند ماہ سے کئی سال لگ جائیں گے بشرطیکہ اسے بحال کرنے دیا گیا۔ ایران کے دنیا میں پھیلے اثاثے ختم کر دیے گئے ہیں اور اس کے پر کاٹ کر اچھی طرح سے کلپ کر دیا گیا ہے۔ ایران کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ یورینیم کا تمام ذخیرہ اس نے محفوظ رکھا ہے اور اس کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ نیوکلیائی مواد ایران میں ہے یا کسی اور ملک میں موجود ہے لیکن ہے ایران کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ سی این این یہ اطلاع دے رہا ہے کہ امریکا نے ایران کو سفارتی ذرائع سے ایٹمی پروگرام ختم کرنے پر 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کر دی ہے۔ ظاہر ہے ایران اس ڈیل کو قبول نہیں کرے گا لیکن اس سے ایران کے اندر حکومت کے خلاف پریشر بنانے میں مدد ملے گی۔
اسرائیل نے بھی جنگ کا مزہ اچھی طرح چکھ لیا ہے۔ اس کی آبادیوں اور شہریوں کا اچھا خاصا نقصان ہوا ہے۔ آئرن ڈوم سسٹم کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ صہیونی ریاست کے شہریوں نے مالی و نفسیاتی نقصان بھی اٹھایا ہے۔ جب کوئی میزائل اسرائیل کی دھرتی پر گرتا ہے دل کو سکون ملتا ہے کہ بدمعاش ریاست کو بھی بارود کا مزہ تو چکھایا ہے۔ اسے بھی پتا چلے کہ اس کے ہاتھوں تباہ ہونے والوں پر کیا بیتی ہے۔ صرف سویلین عمارتوں کے نقصان کا اندازہ ڈیڑھ سے دو بلین کا لگایا گیا ہے۔ نشانہ بننے والی فوجی مقامات اور تیل کی تنصیبات کے نقصانات کا اندازہ سنسر ختم ہونے کے بعد لگے گا۔ معیشت کا بے اندازہ نقصان اس کے علاوہ ہے۔ اس کے حفاظتی میزائلوں کا ذخیرہ تقریباً ختم ہو چکا ہے جن کو دوبارہ بنانے کے لیے کثیر رقم درکار ہو گی۔ اسرائیل سے لاکھوں یہودیوں کے فرار ہونے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مختصر یہ کہ اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا تصور ناکام ہو چکا ہے۔
اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں ایرانی قوم مزید یکجا ہوئی ہے اور ایرانی قیادت کے خلاف جو عوامی خلا موجود تھا وہ بھی بھر گیا ہے۔ ایران میں بیرونی مداخلت کے ذریعے رجیم چینج پہلے بھی مشکل ترین عمل تھا اب وہ مزید مشکل ہو گیا ہے۔ ایران نے یہ بھی سب کو بتا دیا کہ اس کی سرزمین پر حملے کا جواب اپنی بساط کے مطابق بھرپور دیا جائے گا۔ اس سے اسلامی ملکوں میں اس کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔ لیکن اس کو دوسرے مسلمان ملکوں سے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا اور آئندہ وہاں مسلح گروپ بنانے سے گریز کرنا ہو گا۔
اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ ایران کی موجودہ رجیم مشرق وسطیٰ میں امریکا کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ ایران کا خوف پیدا کرکے ہی امریکا اپنا قیمتی اسلحہ عرب ممالک کو بیچ کر اپنی معیشت کو سنبھالا دے سکتا ہے۔ ایرانی حکومت کا خاتمہ وہ واحد معاملہ ہے جس پر امریکا اور اسرائیل کے درمیان واضح اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اسرائیل موجودہ ایرانی حکومت کا فوری خاتمہ چاہتا ہے جبکہ امریکا اس کو قائم رکھ کر اپنے فائدے اٹھانا چاہتا ہے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع کا جنگ بندی کے بعد بیان آیا ہے کہ ہمیں ایران کے سپریم لیڈر کو قتل کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا نے سپریم لیڈر کی جان لینے کی اجازت نہیں دی اور اسرائیل کو ان کے ٹھکانے کی اطلاع فراہم نہیں کی۔
20 ماہ سے جاری غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کو ہونے والے بے شمار نقصانات کے باوجود فلسطینی ریاست کے قیام کی اہمیت ساری دنیا پر واضح ہو گئی ہے۔ یورپی ممالک سمیت 150 ممالک نے آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ سفارتی محاذ پر ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ امریکا میں رائے عامہ تقسیم ہو چکی ہے۔ 50 سال سے کم عمر افراد کی اکثریت اسرائیل کے خلاف ہو چکی ہے۔ نیویارک کے مئیر کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں ایک مسلمان نے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کر لی ہے جس سے ہوا کے رخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ زہران ممدانی کی کامیابی کو امریکا میں فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی حمایت تسلیم کیا جا رہا ہے۔ لندن کے بعد اس سال نومبر میں ایک مسلمان نیو یارک کا مئیر بن سکتا ہے۔ حماس کی جدوجہد اور غزہ کے مسلمانوں کی قربانیوں سے القدس کی آزادی کا راستہ بھی جلد یا بدیر ہموار ہو گا۔ اسرائیل اپنی پوری قوت کے استعمال کے باوجود حماس کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے اور اسرائیلی افواج کی اموات مسلسل جاری ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ مستقبل میں حماس کے کردار کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک سیاسی گروپ کی صورت میں اپنے آپ کو کامیابی سے زندہ رکھ سکتی ہے۔ پچھلے دو برس میں ہونے والی تبدیلیوں سے مسئلہ فلسطین کو دنیا بھر میں مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور امت مسلمہ کے حوصلوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اس سارے معاملے میں امریکا کی تھانیداری یا چودھراہٹ برقرار رہی ہے۔ اس نے پھر پیغام دیا ہے کہ میں ہی دنیا کا پولیس مین ہوں۔ اسلامی دنیا کی کمزوری اور نا اتفاقی بھی واضح ہو گئی کہ OIC کے استنبول اجلاس کے دوران امریکا نے ایران پر حملہ کر دیا۔ اردن، مصر، متحدہ عرب امارات اور ترکی نے مسلمانوں کو مایوس کیا ہے۔ عرب حکمرانوں نے ایران پر حملے کی مخالفت میں بیان تو دے دیے لیکن عرب حکومتی حلقوں میں ایران اور اس کے حامی مسلح گروپوں کے کمزور ہونے پر خاصے اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
یورپ کی دوغلی پالیسی بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ اس نے اسرئیل کی حمایت کر کے ڈبل اسٹینڈرڈ کا لقب حاصل کر لیا ہے۔ چین اور روس اس جنگ میں عملی طور پر ایران کی مدد کو نہیں آئے لیکن سفارتی محاذ پر حمایت ضرور کی۔ ایران نے یہ جنگ تن تنہا لڑ کر دنیا کو حیران کر دیا ہے۔
اسرائیل کے جنگی اقدامات سے بھارت کی مودی حکومت کے جارحانہ عزائم کو حوصلہ ملا ہے کیونکہ بھارت اور اسرائیل اب اسٹرٹیجک پارٹنر بن چکے ہیں۔ انڈیا کے وزیر نے حال ہی میں دھمکی دی ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ختم ہو چکا اور سارے دریائوں کے پانی کو ہم کنٹرول کریں گے۔ بھارت نے چین میں ہونے والی SCO کانفرنس میں ایران کی حمایت میں کیے جانے والے اعلامیہ پر دستخط کرنے سے صاف انکار کر کے اسرائیل سے دوستی کا حق ادا کر دیا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو روکنے کی سکت امت مسلمہ کے پاس ہے یا نہیں۔ مسلمان ممالک کے آپس کے اتحاد، جدید ٹیکنالوجی اور ایشیا کی بڑی طاقتوں (روس، چین، جاپان) کی مدد کے بغیر اسرائیل کو علاقے کا چودھری بننے سے روکنا آسان کام نہیں ہے۔ مسلمان ملکوں کو اس ہدف کے حصول کے لیے سرگرم قائدانہ کردار کرنا پڑے گا۔ ترکی، پاکستان اور ایران ڈیفنس ٹیکنالوجی میں دوسرے اسلامی ملکوں کے مقابلے میں آگے ہیں۔ دفاعی پیداوار میں ان کا باہمی تعاون اور گلف ممالک کی ان دفاعی منصوبوں میں شرکت اچھے نتائج پیدا کر سکتی ہے۔
جنگ بندی کے باوجود یہ معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ ایک وقتی ٹھیرائو آیا ہے۔ عرب ممالک کو اپنے خطے کو میزائلوں کی اگلی بارش سے بچانے کے لیے حکمت عملی تیار کرنی ہو گی جس میں سفارت کاری اہم کردار ادا کرے گی۔ سعودی عرب سفارتی محاذ پر یورپی ممالک سے مل کر سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ ترکی، پاکستان اور ایران کو ان کوششوں میں شامل کرنے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چین اور روس کی ممکنہ مدد کے باوجود یہ دیکھنا ہوگا کہ امن قائم کرنے کی اس پالیسی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی سے ان کوششوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔
حزب اللہ، حوثیوں اور عراق میں موجود ایران نواز گروپوں نے ایران اسرائیل جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ابھی یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ آنے والے وقتوں میں یہ گروپ کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں اور ایران کس حد تک ان کو طاقتور رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ان مسلح گروپوں کی وجہ سے عرب دنیا میں بجا طور پر تشویش پائی جاتی ہے۔یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ غزہ میں جنگ بندی کی صورت میں اس کی تعمیر نو کے لیے 50 ارب ڈالر کون فراہم کرے گا۔ گلف کے ممالک اپنے خطے کو آئندہ جنگوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر اس رقم کا بڑا حصہ ادا کرنا پڑے گا۔اسرائیل کی کھلی جارحیت کے بعد ایران اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ ایٹم بم کے بغیر دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی صورتحال میں خطے میں مہلک ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔ رہ گئے امریکی صدر تو یہ چلتا پھرتا کارٹون ہیں۔ ان کی غیر متوازن شخصیت کی وجہ سے امریکا کے کردار کے بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس سارے منظر نامے میں یہ بات یقینی ہے کہ اگر فلسطین کی آزاد ریاست جلد قائم نہ کی گئی تو مشرق وسطیٰ چند سال میں ایک اور جنگ کا مزہ چکھے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اور اسرائیل اسرائیل کے کے باوجود اور ایران میں ایران ہو چکا ہے نے ایران ایران کی ایران کے یہ ہے کہ نے والے جا سکتا کے خلاف سکتا ہے ہے کہ ا گئی ہے گیا ہے کے بعد دیا ہے کیا جا کر دیا اور اس ہے اور رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

دشمن کی گیدڑ بھبکیوں سے ہمیں کوئی خوف نہیں، حزب اللہ لبنان

اپنے تازہ بیان میں مزاحمتی محاذ کیساتھ منسلک لبنانی رکن پارلیمنٹ نے اعلان کیا ہے کہ مزاحمتی محاذ کے قائد (سید حسن نصر اللہ) اور ہمارے دوسرے کمانڈروں کے قتل نے میدان میں ہماری مزاحمت کو مزید بڑھایا ہے اور ہم نے اپنے شہداء کے خون کا بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے! اسلام ٹائمز۔ لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمتی محاذ کے ساتھ وابستہ اتحاد الوفاء للمقاومہ کے رکن رامی ابو حمدان نے تاکید کی ہے کہ ملک کے مختلف طبقات کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات، اسرائیل و امریکی سازشوں کا نتیجہ ہیں۔ اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ لبنانی حکومت نے گذشتہ دہائیوں کے دوران غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کے مقابلے میں ملک کے جنوبی علاقوں کے عوام کی ذرہ بھر حمایت نہیں کی، رامی ابو حمدان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ غاصب صیہونی رژیم صرف اور صرف طاقت کی زبان ہی سمجھتی ہے۔

غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے بے دریغ حمایت کو سراہتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ، لبنانی فوج کو ایسے ہتھیار رکھنے تک سے روک دینا چاہتا ہے کہ جو اسرائیل کے لئے کسی بھی قسم کا خطرہ بن سکتے ہوں۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور شام حزب اللہ لبنان کے اہم حامی ہیں، رامی ابو حمدان نے تاکید کی کہ حزب اللہ لبنان کی بنیادیں قومی، قانونی و اخلاقی اصولوں پر قائم ہیں اور زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران و شام نے ہمیشہ لبنانی مزاحمت کی بے دریغ حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام کو مزاحمت کا لاجسٹک گیٹ وے سمجھا جاتا ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں سابق حکومت پر اس حد تک شدید حملے کیوں کئے گئے۔

اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ جیسے ہی غاصب صیہونی رژیم نے اپنے حملوں کا آغاز کیا تو حزب اللہ لبنان نے بھی فوری طور پر غزہ کے عوام کی حمایت کا فیصلہ کیا، رامی ابو حمدان نے کہا کہ فلسطینی عوام کی حمایت کے سلسلے میں ہمارے لئے کوئی بھی دھمکی یا ملامت اہم نہیں جبکہ مزاحمتی محاذ کے قائد (سید حسن نصر اللہ) اور ہمارے دوسرے کمانڈروں کے قتل کے بارے مَیں یہ ضرور کہوں گا کہ اس مسئلے نے میدان میں ہماری مزاحمت کو مزید بڑھایا ہے اور یہ کہ ہم نے اپنے شہداء کے خون کا بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے! 

یہ بیان کرتے ہوئے کہ امریکہ و اسرائیل میدان میں ذلت آمیز شکست کھا کر اب سیاست و سفارتکاری کا سہارا لینے آئے ہیں، انہوں نے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم اور حزب اللہ کے درمیان حالیہ جنگ بہت شدید تھی۔ انہوں نے کہا کہ درحقیقت، حزب اللہ نہ صرف اسرائیل کے ساتھ لڑ رہی تھی بلکہ وہ دنیا بھر کے ان تمام ممالک کے ساتھ جنگ میں داخل ہو چکی تھی کہ جو غزہ کی پٹی میں جاری انسانیت سوز اسرائیلی جنگ کے پشت پناہ ہیں۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امریکہ نے اسرائیل کو انتہائی مہلک ہتھیاروں کی منتقلی کے لئے ایک نیا ہوائی روٹ قائم کر رکھا ہے، لبنانی رکن پارلیمنٹ نے تاکید کی کہ اسرائیل حالیہ جنگ کے دوران لبنان کے کسی بھی سرحدی قصبے تک میں گھسنے کے قابل نہیں رہا تھا!

متعلقہ مضامین

  • کیا اسرائیل ایک نئی جنگ شروع کرنے والاہے؟
  • دشمن کی گیدڑ بھبکیوں سے ہمیں کوئی خوف نہیں، حزب اللہ لبنان
  • ٹرمپ کی کنفیوژن
  • ایران: جالوت کے مقابلے میں داؤد (ع)
  • جمہوریت، دفاع اور خودمختاری پرکوئی سمجھوتا نہیں ہوگا(بلاول بھٹو)
  • یوم آزادی اور اس کے تقاضے
  • اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام سے انکاری، نئے منصوبے کی منظوری دے دی
  • جمہوریت، دفاع اور خودمختاری پر کبھی سمجھوتا نہیں ہوگا،بلاول بھٹو زرداری
  • جمہوریت، دفاع اور خودمختاری پر کبھی سمجھوتا نہیں ہوگا: بلاول بھٹو زرداری
  • آج ہمیں وطن عزیز کو عظیم سے عظیم تر بنانے کا عہد کرنا ہوگا: مریم نواز