حماس کیخلاف مزید کارروائی خطرے سے خالی نہیں؛ اسرائیلی فوج کے سربراہ کی کابینہ کو بریفنگ
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے کابینہ کو بریفنگ میں خبردار کیا ہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف مزید عسکری کارروائیوں سے اسرائیلی یرغمالیوں کی جانیں شدید خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق آرمی چیف آف اسٹاف جنرل زامیر نے وزرا کو بتایا کہ موجودہ حالات میں یرغمالیوں پر ظلم و تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی حالت نہایت سنگین ہو چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں حماس کی شکست کے حق میں ہوں لیکن جتنا ہم ان کے خلاف آپریشن کو تیز کریں گے اتنا ہی ہم یرغمالیوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔
جنرل زامیر نے بتایا کہ فوج غزہ میں اپنے مقرر کردہ ہدف 75 فیصد حصے پر کنٹرول حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے۔
جنرل زامیر نے وزرا کو یاد دلایا کہ وہ پہلے بتا چکے ہیں کہ شمالی غزہ کی آبادی کو منتقل کر کے وہاں شدید فوجی دباؤ کے ذریعے حماس کو شکست دی جا سکتی ہے لیکن یرغمالیوں کی وجہ سے ایسا کرنا پیچیدہ ہے۔
اسرائیلی آرمی چیف آف اسٹاف زامیر نے مزید کہا کہ یہ درست نہیں کہ یرغمالی سے متعلق حتمی فیصلے کے بغیر موجودہ صورت حال کو جاری رکھا جائے۔
خیال رہے کہ غزہ میں اب بھی 50 یرغمالی حماس کی قید میں ہیں جن میں سے تقریباً 20 کے زندہ ہونے کا یقین کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی وزیر خزانہ اور دائیں بازو کے انتہا پسند رہنما بیزلیل سموٹریچ نے آرمی چیف آف اسٹاف کے اس بیان پر سخت تنقید کی اور الزام لگایا کہ وہ حکومت پر جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بیزلیل سموٹریچ نے آرمی چیف کو کہا کہ آپ دونوں کام کرسکتے ہیں۔ حماس کو شکست دیں اور یرغمالیوں کو واپس لائیں۔
ادھر اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ کی نمائندہ تنظیم "ہوسٹیجز اینڈ مسنگ فیملیز فورم" نے آرمی چیف کے بیان کو سیاسی قیادت کے سامنے سیاہ پرچم لہرانا قرار دیا۔
کابینہ اجلاس میں آرمی چیف آف اسٹاف کی تقریر کے بعد کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا جب کہ پیر کے روز دوسرا اجلاس بھی بغیر نتیجے ختم ہو گیا۔
اسرائیلی نیوز چینل کے مطابق کابینہ کے سامنے تین آپشنز زیر غور ہیں، اوّل یہ کہ غزہ کے پورے علاقے پر قبضہ دوم مکمل جنگ بندی کے ذریعے یرغمالیوں کی رہائی اور سوم شمالی غزہ میں حماس کے خلاف کارروائی کے ساتھ شہری آبادی کو جنوبی غزہ کی طرف دھکیلنا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اب بھی جنگ بندی کے آپشن کو رد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حماس کی مکمل تباہی تک جنگ جاری رہے گی۔
تاہم 21 ماہ سے جاری اس جنگ میں اب اسرائیلی عوام کی بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ عسکری طریقے سے مزید کچھ حاصل کرنا ممکن نہیں۔
اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں واشنگٹن میں جنگ بندی کے لیے سفارتی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم 7 جولائی کو وائٹ ہاؤس کا دورہ کریں گے جب کہ اسرائیلی وزیر برائے اسٹریٹجک امور رون ڈرمر پہلے ہی واشنگٹن میں امریکی حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
اب تک حماس مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ اسرائیل صرف عارضی جنگ بندی کے لیے تیار ہے تاکہ جنگ دوبارہ شروع کی جا سکے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا رمی چیف ا ف اسٹاف جنگ بندی کے حماس کی
پڑھیں:
حماس کے عسکری ونگ نے جنگ بندی منصوبہ مسترد کردیا، بی بی سی کا بڑا انکشاف
غزہ: برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق حماس کے عسکری ونگ کے سربراہ نے امریکا کے نئے جنگ بندی منصوبے کو مسترد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حماس رہنما عزالدین الحداد کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ دراصل حماس کو ختم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، اسی لیے وہ لڑائی جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا 20 نکاتی فریم ورک اسرائیل پہلے ہی قبول کرچکا ہے، لیکن اس میں حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے اور غزہ کی حکومت میں اس کا کوئی کردار نہ ہو۔
قطر میں موجود حماس کی کچھ سیاسی قیادت منصوبے کو ترامیم کے ساتھ قبول کرنے پر تیار ہیں، مگر ان کا اثر و رسوخ محدود ہے کیونکہ یرغمالیوں پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ غزہ میں حماس کے قبضے میں 48 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ منصوبے کے تحت پہلے 72 گھنٹوں میں تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔
حماس رہنماؤں کو اس بات پر بھی خدشہ ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کی رہائی کے بعد دوبارہ حملے شروع کر سکتا ہے، خاص طور پر اس واقعے کے بعد جب امریکا کی مخالفت کے باوجود دوحہ میں حماس قیادت پر فضائی حملہ کیا گیا۔
مزید برآں، منصوبے میں غزہ کی سرحدوں پر ’سیکیورٹی بفر زون‘ قائم کرنے اور ایک عارضی بین الاقوامی فورس تعینات کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے، جسے حماس ایک نئی قسم کا قبضہ قرار دیتی ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی منصوبے کی کئی شقوں سے پیچھے ہٹنے کے اشارے دیے ہیں اور کہا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کی مزاحمت کرے گا۔