اسرائیلی فوج کیخلاف نعرے لگانے پر برطانوی گلوکاروں کے امریکی ویزے منسوخ
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
برطانیہ میں ایک موسیقی کے فیسٹیول کے دوران اسرائیلی فوج کے خلاف نعرے لگانے اور فلسطین کی حمایت کرنے پر امریکی حکومت نے مشہور برطانوی میوزک بینڈ Bob Vylan کے اراکین کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں۔
بین الاقوامی خبررساں اداروں کے مطابق، ہفتے کو ہونے والے گلاسٹنبری میوزک فیسٹیول میں بینڈ کے گلوکار نے اسٹیج پر پرفارمنس کے دوران اسرائیلی جارحیت کے خلاف نعرے لگائے اور فلسطین کی آزادی کی حمایت کی۔
امریکی نائب وزیر خارجہ نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ: "گلاسٹنبری میں نفرت انگیز تقاریر اور نعرے بازی کے بعد Bob Vylan کے ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ جو غیرملکی نفرت اور تشدد کو فروغ دیتے ہیں، انہیں امریکا میں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔"
برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی نے بھی تسلیم کیا کہ بینڈ کی پرفارمنس کے دوران لائیو نشریات روک دینی چاہیے تھیں۔ نشریات میں واضح طور پر گلوکار کو یہ نعرے لگاتے ہوئے سنا گیا: "مرگ بر آئی ڈی ایف " "دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہو کر رہے گا"۔
Yeaaaaah Bob vylan #FreePalestine pic.
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ میں فلسطینی حامی آوازوں پر دباؤ اور سنسرشپ میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکی رپورٹ مسترد کر دی
پاکستان نے 12 اگست کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق جاری ہونے والی رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی مبینہ صورتحال پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں، میڈیا پر پابندیوں، اقلیتی حقوق اور مزدوروں کے تحفظ سمیت مختلف مسائل جو کے تو برقرار ہیں اور انسانی حقوق ک صورتحال میں گزشتہ سال کی نسبت کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔پاکستانی حکام نے اس رپورٹ کو حقائق کی یک طرفہ تشریح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں ملک کے جائز سیکیورٹی خدشات اور جاری اصلاحاتی اقدامات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق انسانی حقوق کے جائزے اکثر کمزور ممالک پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جبکہ فلسطین، کشمیر اور دیگر دیرینہ بحرانوں میں ہونے والی سنگین خلاف ورزیاں مسلسل نظرانداز کی جاتی ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان جیسے حساس علاقوں میں اقدامات دہشت گردی کے شدید خطرات کے پیش نظر کیے جاتے ہیں، جن میں سیکڑوں شہری اور سیکیورٹی اہلکار جانیں گنوا چکے ہیں۔مزید کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے بیشتر واقعات شدت پسند نیٹ ورکس میں شامل افراد سے متعلق ہوتے ہیں اور حقیقی کیسز قانونی کمیشنز کے ذریعے تحقیقات کے عمل سے گزرتے ہیں۔ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان میں انسدادِ تشدد قوانین نافذ ہیں، جن پر عدالتی نگرانی کے ساتھ عملدرآمد کیا جاتا ہے، جبکہ آزاد میڈیا پورے ملک میں سرگرم ہے اور عدالتوں نے صحافیوں کو غیر ضروری ہراسانی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے متعدد فیصلے دیے ہیں۔اقلیتی حقوق کے حوالے سے حکومتی موقف میں کہا گیا کہ مذہبی اور توہینِ مذہب سے متعلق قوانین کا مقصد ایک متنوع معاشرے میں امن قائم رکھنا ہے، ان کے غلط استعمال کی سزا دی جاتی ہے، جبکہ مسیحی اور سکھ شادی ایکٹ جیسے اقدامات پاکستان کے اقلیتی تحفظ کے عزم کا ثبوت ہیں۔مزید کہا گیا کہ مزدوروں کے حقوق کو بہتر بنانے کے لیے معائنوں میں اضافہ، یونینز کی رسائی میں وسعت اور کم عمری کی شادی کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے۔رپورٹ میں لگائے گئے بین الاقوامی جبر کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان کی بیرونِ ملک کارروائیاں صرف عالمی سطح پر تسلیم شدہ دہشت گرد خطرات کے خلاف ہیں۔ترجمان نے یہ بھی یاد دلایا کہ پاکستان نے کسی معاہدے کی پابندی کے بغیر 23 لاکھ افغان مہاجرین کو دہائیوں سے پناہ دے رکھی ہے، جو دنیا میں انسانی خدمت کی ایک منفرد مثال ہے۔