یوم آزادی اور اس کے تقاضے
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
یوم آزادی اور معرکہ حق میں فتح کی خصوصی تقریب جناح اسپورٹس کمپلیکس میں ہوئی۔ اس موقعے پر وزیر اعظم شہباز شریف کا خطاب نہ صرف ایک رسمی تقریر تھا بلکہ اس میں کئی اہم سیاسی پیغامات، قومی اتحاد کی اپیل اور تاریخی حوالوں کا باریک بین تجزیہ موجود تھا۔ دوسری جانب ملک بھر میں 79 واں یوم آزادی جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا، رواں سال یوم آزادی کو معرکہ حق کی عظیم فتح سے منسوب کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے جہاں آزادی کی اہمیت کو اجاگر کیا، وہیں ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ’’ میثاقِ استحکامِ پاکستان‘‘ کی ایک بار پھر پیشکش کی۔ یہ وہ نکتہ ہے جسے صرف ایک سیاسی بیان سمجھنا کافی نہیں۔ پاکستان اس وقت جن داخلی چیلنجز سے گزر رہا ہے، ان میں معیشت، سیاسی انتشار، عدالتی نظام پر سوالات، خارجہ پالیسی میں دباؤ اور عوامی اعتماد میں کمی جیسے مسائل سرفہرست ہیں۔ ان تمام چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے قومی سطح پر ایک متفقہ حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس کا آغاز اسی ’’میثاق‘‘ سے کیا جا سکتا ہے جس کی تجویز وزیر اعظم نے دی۔
میثاقِ جمہوریت کی طرز پر اگر تمام سیاسی قوتیں ایک ٹیبل پر بیٹھ کر چند بنیادی قومی امور پر اتفاق کر لیں، تو یہ ملک کی تقدیر بدلنے کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔ ایسے معاہدے کا مقصد کسی ایک جماعت کو فائدہ پہنچانا نہیں بلکہ پورے نظام کو بچانا ہے، تاکہ ادارے مضبوط ہوں، عوام کا اعتماد بحال ہو، اور دنیا کو یہ پیغام جائے کہ پاکستان ایک مستحکم اور بالغ نظر ریاست ہے۔وزیر اعظم کے خطاب میں بھارت کے حوالے سے تاریخی دفاعی تناظر کو بھی واضح انداز میں بیان کیا گیا، جو کہ ملکی سالمیت اور خود داری کا مظہر ہے۔
پاکستان نے ماضی میں بھی دشمن کی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آیندہ بھی اپنی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ تاہم، جہاں ہم بیرونی خطرات کی بات کرتے ہیں، وہاں ہمیں اندرونی خطرات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہم نے خود اپنے معاشرے کو تعصبات، انتہا پسندی اور انتشار کا شکار کر دیا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر مختلف الزامات لگا کر جس طرح عوام میں نفرت پیدا کر رہی ہیں، اس سے ملکی استحکام کو شدید دھچکا پہنچ رہا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب ملک کو مہنگائی، بے روزگاری، اور معاشی بحران نے گھیر رکھا ہے، عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے بجائے سیاست دان اپنے بیانیوں کے ذریعے صرف الزامات اور جوابی الزامات کی سیاست میں مصروف ہیں۔ کوئی پارٹی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ شاید اُس سے بھی کہیں غلطی ہوئی ہو۔ ہر ایک اپنے آپ کو معصوم اور باقیوں کو قصور وار قرار دیتا ہے۔
اس ذہنیت کو ختم کیے بغیر قومی مفاہمت ممکن نہیں۔ملک کے موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اب ضد، انا، اور ذاتی مفادات کو چھوڑ کر اجتماعی مفاد کو مقدم رکھا جائے۔ جمہوریت صرف الیکشن کا نام نہیں بلکہ برداشت، مکالمہ، اور شراکتِ اقتدار کا نام ہے۔ جس ملک میں اپوزیشن کو دشمن اور حکومت کو ظالم قرار دیا جائے، وہاں نہ تو سیاسی نظام پنپ سکتا ہے اور نہ ہی معیشت بہتر ہو سکتی ہے۔
اس وقت ہمیں سیاست کی تطہیر اور نیت کی درستگی کی اشد ضرورت ہے۔وزیر اعظم کی جانب سے تمام سیاسی قوتوں کو مذاکرات کی دعوت دینا ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس میں نیت کی سچائی اور عمل کی مضبوطی بھی نظر آنی چاہیے۔ یہ دعوت صرف تقریر تک محدود نہ رہے بلکہ اس پر عملی پیش رفت بھی ہو۔اپوزیشن جماعتوں پر بھی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ حکومت کی راہ میں بلاجواز کانٹے نہ بوئیں اور ملکی مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن دست تعاون بڑھائیں۔
ہمیں اپنے تعلیمی نصاب، میڈیا کے کردار، اور سوشل میڈیا کے رویوں پر بھی نظر ثانی کرنا ہوگی۔ سچ، تحقیق اور دلیل کا کلچر پروان چڑھانا ہوگا۔ صرف نعروں، جذبات اور وائرل بیانات سے ملک نہیں بنتے۔ ہمیں صبر، مستقل مزاجی، اور تدبر سے کام لینا ہوگا۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان صرف ایک ریاست نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے، جو انصاف، مساوات اور انسان دوستی پر قائم ہوا، اگر ہم ان اصولوں کو پس پشت ڈال دیں تو پھر صرف جغرافیہ باقی رہ جائے گا، روح ختم ہو جائے گی۔
ہماری سیاسی جماعتیں اگر واقعی پاکستان سے محبت رکھتی ہیں تو وہ ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں۔ ایک مضبوط، خوشحال، اور متحد پاکستان ہی ہر جماعت کے مستقبل کی ضمانت ہے۔ اگر ملک ہی نہ رہے، یا عوام ہی بد حال رہیں، تو اقتدار کا حاصل کیا ہوگا؟ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر سوچنا ہوگا۔
تحریکِ پاکستان کے رہنماؤں نے جس نظریاتی ریاست کا خواب دیکھا تھا، اس کی بنیاد دینِ اسلام، عدل، مساوات، اخوت اور خود داری پر رکھی گئی تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے، قانون کی حکمرانی ہوگی، اقلیتوں کو تحفظ ملے گا اور ریاست اپنی خارجہ و داخلہ پالیسیوں میں خود مختار ہوگی، مگر آج جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں ان خوابوں کی محض جھلکیاں ہی نظر آتی ہیں، حقیقت بہت حد تک مختلف اور تلخ دکھائی دیتی ہے۔
معاشی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور بنیادی سہولیات کی کمی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ صحت، تعلیم اور انصاف جیسے بنیادی شعبے مسلسل نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ ملک کے بڑے شہر تو کسی نہ کسی طور سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں، مگر دیہی علاقوں کی حالت زار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی کا پہیہ صرف چند مخصوص طبقات کے لیے ہی گھوم رہا ہے۔ کیا یہی وہ پاکستان تھا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کے لیے لاکھوں افراد نے جانیں قربان کیں؟
بدقسمتی سے آج بھی ہم لسانی، مسلکی، صوبائی اور نسلی تعصبات کا شکار ہیں۔ اتحاد، یقین اور قربانی کے وہ جذبے جو تحریکِ پاکستان کا خاصا تھے، آج بکھرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ نوجوان نسل جو کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتی ہے، بے راہ روی، مایوسی اور غیر یقینی کا شکار ہے۔ ان کے پاس نہ مناسب تعلیم ہے، نہ روزگار اور نہ ہی کوئی واضح سمت۔ جب قوموں کے نوجوان منزل سے نا آشنا ہو جائیں تو ان کی ترقی کا خواب فقط خواب ہی رہ جاتا ہے۔ ہمیں ایک ایسی سوچ اپنانا ہوگی جو صرف ذات تک محدود نہ ہو بلکہ قوم کی فلاح پر مبنی ہو۔ ہم سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ملک سلامت ہے تو ہم سب سلامت ہیں، اگر ریاست کمزور ہوئی تو ہم میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔
تعلیم وہ ہتھیار ہے جس سے ہم نہ صرف غربت، جہالت اور شدت پسندی کا خاتمہ کرسکتے ہیں بلکہ ایک پر امن، مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ بھی قائم کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا نصاب جو تحقیق، تخلیق اور تنقیدی سوچ کو فروغ دے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو جدید علوم سے آراستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ بدلتی ہوئی دنیا کا مقابلہ کر سکیں۔ صرف رٹا سسٹم سے قومیں ترقی نہیں کرتیں بلکہ علمی و فکری بیداری ہی اصل اثاثہ ہوتی ہے۔سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکن، ادیب، شاعر، اور فنکار بھی قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ان سب کو چاہیے کہ وہ اپنے ہنر، قلم اور اثر و رسوخ کو مثبت انداز میں استعمال کریں تاکہ معاشرے میں برداشت، رواداری اور محبت کو فروغ دیا جا سکے۔ فرقہ واریت، تعصب اور نفرت کے بیج بونے والوں کے خلاف متحد ہو کر کھڑا ہونا ہوگا۔دوستیاں، اتحاد اور معاہدے صرف جذبات کی بنیاد پر نہیں، بلکہ قومی مفاد کو مدنظر رکھ کر کیے جائیں۔ کشمیر کا مسئلہ آج بھی ایک کھلا زخم ہے۔ ہمیں ہر فورم پر اس مسئلے کو اجاگر کرنا ہوگا، مگر اس کے لیے ہمیں سفارتی مہارت، داخلی اتحاد اور بین الاقوامی قوانین سے واقفیت کی ضرورت ہے۔ فلسطین، یمن، روہنگیا، اور دیگر مظلوم اقوام کے لیے آواز بلند کرنا ہماری اخلاقی ذمے داری ہے، مگر اس کے لیے ہمیں پہلے اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا۔
یوم آزادی کا دن ہمیں اس عہد کی تجدید کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کا ادراک کریں، اپنے ماضی سے سبق سیکھیں، حال کو سنواریں اور مستقبل کے لیے واضح لائحہ عمل طے کریں۔ آزادی ایک نعمت ہے، مگر اس کی حفاظت، بقا اور استحکام کے لیے قربانی، شعور اور محنت درکار ہوتی ہے۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا۔
کیا ہم نے اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کیا ہے؟ کیا ہم نے نئی نسل کے لیے ایک محفوظ، خوشحال اور پر امن پاکستان چھوڑا ہے؟اگر ان سوالات کے جواب نفی میں ہیں تو ہمیں خوشی کے بجائے فکر، جشن کے بجائے تجدیدِ عزم، اور نعروں کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ دن ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم ذاتی، اجتماعی اور قومی سطح پر اپنے کردار کا ازسرنو جائزہ لیں۔ ہمیں وعدہ کرنا ہوگا کہ ہم اس ملک کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کے مطابق ایک اسلامی، جمہوری، ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے دن رات محنت کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرنا ہوگا ہیں بلکہ ضرورت ہے کے بجائے کے لیے
پڑھیں:
کیا واقعی ہم آزاد ہیں؟
قوم اس مرتبہ اپنا اناسی واں یوم آزادی جوش و خروش سے منائے گی۔ ہر سال ہی ہر پاکستانی اپنی اپنی بساط کے مطابق 14 اگست کی تیاری کرتا ہے بلکہ ملکی اور قومی سطح پر بھی یوم آزادی کو شایان شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ قومی پرچم گھروں اور سرکاری عمارتوں کی چھتوں پر دکھائی دیتے ہیں، میڈیا پر اس حوالے سے خصوصی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں، اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ آزادی کو بھرپور انداز سے منانے کی باوجود ہم صحیح معنوں میں آزادی کے فلسفے سے روشناس نہیں ہوئے۔
وجہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ ہم نے آزادی کو محض ایک دن کے طور پر منانا تو قبول کرلیا ہے لیکن اپنے اندر کوئی تبدیلی نہیں لاسکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی آزادی کے وہ معنی سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں جن کےلیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں؟ کیا ہم نے آزادی کی حقیقی روح کو سمجھ کر اسے مکمل طور پر حاصل کرلیا ہے؟
آزادی کا مطلب ہے ہر فرد کا اپنے خیالات، عقائد، اور زندگی کے ہر شعبے میں مکمل خودمختاری کا ہونا۔ ذہنی آزادی، معاشرتی آزادی، اقتصادی آزادی، اور سیاسی آزادی، یہ سب مل کر حقیقی آزادی کی تعریف کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر شخص بلا خوف و خطر اپنی رائے کا اظہار کرسکے، جہاں انصاف ہو، اور جہاں ہر فرد کو برابر کے مواقع ملیں، وہی حقیقی آزادی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہے لیکن کئی آوازیں دبا دی جاتی ہیں۔ معاشرتی آزادی بھی پابندیوں کا شکار ہے۔ رنگ، نسل اور جنس کی بنیاد پر معاشرے میں تفریق پائی جاتی ہے۔ لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ساری ذمے داری اگرچہ حکومت کی بھی نہیں ہے، ہمیں انفرادی انداز میں ملک کی ترقی کےلیے آگے بڑھنا چاہیے لیکن ہم فرقہ واریت، نسلی تعصب، جھوٹ، مکر و فریب اور دیگر سماجی برائیوں سے اپنا دامن نہیں چھڑاتے۔ اپنی اخلاقی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے، خواہ وہ سڑک پر سے کوڑا کرکٹ اٹھانا ہو یا کسی غریب کی مدد کرنا ہو، یا کسی کے راستے سے پتھر ہٹانا ہو، ہم چھوٹی چھوٹی نیکیاں نہیں کماتے۔
ہماری آزادی کو محدود کرنے والے کئی عوامل ہیں۔ بدعنوانی اور ناانصافی نظام کو کمزور کرتے ہیں، اور معاشرت میں عدم مساوات کو بڑھاتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں خامیاں شعور اور سوچ کو محدود کرتی ہیں، جس کی وجہ سے لوگ اپنی آزادی کی قدر نہیں سمجھ پاتے۔ قدامت پسند رسم و رواج بھی بہت سے افراد، خصوصاً خواتین، کو مکمل آزادی حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔ ساتھ ہی، دہشت گردی اور داخلی و خارجی مسائل کی وجہ سے ملک میں عدم استحکام پایا جاتا ہے، جو حقیقی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
حقیقی آزادی حاصل کرنے کےلیے ہمیں اجتماعی اور انفرادی سطح پر بہتری کی ضرورت ہے۔ تعلیم اور شعور کو بڑھانا ہوگا تاکہ ہر فرد اپنی حقوق اور ذمے داریوں کو سمجھ سکے۔ جمہوریت کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ہر شخص کی آواز کو سنا جاسکے اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ انصاف کا نظام شفاف اور مؤثر بنانا ہوگا تاکہ ہر ظلم کے خلاف ایک مضبوط قانونی راستہ موجود ہو۔ سماجی تبدیلی کو فروغ دینا ہوگا، خصوصاً برداشت اور رواداری کے جذبے کو فروغ دینا ہوگا۔
نوجوانوں کی توانائی اور جذبے کو مثبت انداز میں استعمال کرنا ہوگا تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
14 اگست محض ایک دن نہیں بلکہ ایک عہد ہے جو ہمیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان کو عظیم تر حقیقی معنوں میں بنائیں گے، خود میں تبدیلی پیدا کریں گے، اپنی اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور عالمی دنیا میں پاکستان کا پرچم باوقار انداز میں لہرائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔