50 سالہ مختیار خان جب بیرون ملک سے آئے اپنے بیٹے کو لینے ایئرپورٹ جا رہے تھے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ دوبارہ کبھی اپنے خاندان سے نہیں مل سکیں گے۔ وہ جب بیٹے کو لے کر گھر پہنچے تو پورا خاندان بے رحم سیلاب کی نذر ہو چکا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں بارشوں اور سیلاب سے تبائی، 344افراد جاں بحق، پنجاب میں مزید بارشوں کی پیشگوئی

مختیار خان کا تعلق بونیر کے پیر بابا کے نواحی گاؤں دگئی سے ہے۔ وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے جس کی وجہ سے بچ گئے لیکن ان کے خاندان کے 22 افراد سیلاب میں بہہ کر جاں بحق ہو گئے۔ جن کی اجتماعی نماز جنازہ ہفتے کے روز ادا کی گئی۔

گھر سے باہر 4 افراد بچ گئے

مختیار خان انتہائی غمگین تھے لیکن آنسو نہیں تھے۔ وہ اپنے پیاروں کے جنازے لے کر جنازہ گاہ پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ جمعے کے روز وہ گھر پر نہیں تھے بلکہ بیرون ملک سے آنے والے بیٹے کو لینے ایئرپورٹ گئے تھے لیکن جب واپس آئے تو کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ انہیں گاؤں میں سیلاب آنے کی اطلاع فون پر دی گئی تھی لیکن اتنی بڑی تباہی کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ میری زندگی کا پہلا اتنا تباہ کن سیلاب تھا جو سب کچھ بہا لے گیا‘۔

غم کی شدت کے باعث مختیار خان زیادہ بات نہیں کر پا رہے تھے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان کی خواتین اور بچوں سمیت 22 افراد جاں بحق ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ’میری بیوی، بیٹا، بہو، بیٹیاں، نواسے، پوتیاں اور کزن سمیت سب سیلاب میں بہہ گئے’۔

انہوں نے بتایا کہ ان کا بڑا خاندان ایک ہی جگہ اکٹھا رہتا تھا۔ ’ہم صرف 4 لوگ باقی بچ پائے ہیں؛ میں، میرا بیٹا اور 2 بچے جو اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے‘۔

مختیار خان نے رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ ’میری تو زندگی ہی اجڑ گئی۔ نہ گھر رہا نہ گھر والے۔ سمجھ نہیں آ رہا میرے ساتھ یہ کیا ہو گیا‘۔

پورا گاؤں سیلاب میں بہہ گیا

گاؤں کے ایک اور رہائشی عالم گل نے بتایا کہ گاؤں کی آدھی آبادی سیلاب میں بہہ گئی ہے۔ اب تک 35 لاشیں نکالی جا چکی ہیں جن میں سے 22 کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔

عالم گل نے کہا کہ میں نے اپنی 55 سال کی عمر میں ایسا تباہ کن سیلاب پہلے کبھی نہیں دیکھا‘۔

انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت لاشیں نکالی ہیں لیکن بڑی تعداد میں لوگ اب بھی لاپتا ہیں۔ ’جنازے اٹھانے کے بعد دوبارہ تلاش شروع کریں گے‘۔

بونیر کے بیشنی گاؤں کے رہائشی سبحان اللہ نے بتایا کہ سیلاب میں ان کا گاؤں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ تقریباً 9 بج کر 45 منٹ کا وقت تھا۔ بارش ہو رہی تھی کہ اچانک سیلاب آ گیا۔ پانی کا ریلا اتنا تیز تھا کہ سامنے جو بھی آتا بہہ جاتا۔ میرے سامنے کئی گھروں کو بہا لے گیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے گھر والے بچ گئے لیکن کئی پڑوسی سیلاب میں بہہ گئے۔

پیشے کے لحاظ سے استاد سبحان اللہ نے بتایا کہ اب تک 45 لاشیں نکالی گئی ہیں اور بڑی تعداد میں گاؤں والے لاپتا ہیں اور ان کے پڑوس کے کئی گھر مکمل طور پر بہہ گئے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ہی خاندان کے 17 افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جبکہ 8 ابھی تک لاپتا ہیں۔

ان کا کہنا تھا بارش کے دوران لوگ گھروں کو محفوظ سمجھ کر اندر بیٹھے تھے لیکن اچانک آنے والا سیلاب پکے مضبوط گھروں کو بھی بہا کر لے گیا۔

سبحان اللہ نے کہا کہ اب گھروں کی جگہ بڑے بڑے پتھر ہیں جن کو ہٹانا ہمارے بس کی بات نہیں۔

مزید پڑھیے: شدید بارشوں اور سیلاب کے بعد خیبر پختونخوا کے 8 اضلاع میں ایمرجنسی نافذ

گاؤں کے رہائشی بلال خان نے شکوہ کیا کہ ابھی تک ریسکیو اور امدادی سرگرمیوں کے لیے متعلقہ اداروں کے لوگ نہیں آئے جو مشکل میں گھرے لوگوں پر بہت بڑا ظلم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم غم میں ہیں، سمجھ نہیں آتا لاشیں دفن کریں یا ملبہ کھود کر مزید تلاش کریں‘۔

ہر جگہ مٹی اور کیچڑ

سیلاب کے بعد بونیر میں بارش تو رک چکی ہے لیکن متاثرہ علاقوں میں صورتحال انتہائی خراب ہے۔ پیر بابا بازار سمیت ہر جگہ مٹی اور کیچڑ ہے جس کی وجہ سے پیدل چلنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ دکانیں اور گھر مٹی سے بھر گئے ہیں جنہیں مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت صاف کرنے میں مصروف ہیں۔ حکومتی مشینری صرف سڑکوں کی صفائی کرتے دکھائی دی۔

کیچڑ اور پتھروں کی وجہ سے کئی راستے بند ہیں اور متاثرہ علاقوں تک پہنچنے کے لیے لوگوں کو گھنٹوں پیدل چلنا پڑ رہا ہے۔

حکومت کہاں ہے؟

متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ بے یارو مددگار ہیں۔ بلال خان نے کہا کہ زیادہ تر لاشیں مقامی لوگوں نے خود نکالی ہیں۔

بلال خان نے کہا کہ سرکاری حکام اس کڑے وقت میں بھی صرف تصویریں اور تشہیر کرتے نظر آئے لیکن اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔

انہوں نے بتایا کہ ایک روز قبل ہیلی کاپٹر کے ذریعے کچھ مقامات پر ریسکیو آپریشن کیا گیا لیکن وہ بھی محدود پیمانے پر تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ ان کے لیے کوئی انتظام نہیں۔ خیمے تک نہیں ملے تو یہ لوگ رات کیسے گزاریں گے؟

انہوں نے مزید کہا کہ فوری طور پر ادویات، میڈیکل ٹیم، صاف پانی اور خوراک کی اشد ضرورت ہے۔

سیلاب سے متاثرہ اقلیتی برادری بھی ریسکیو کی منتظر

دیپک کمار، جو پیر بابا کے رہائشی ہیں، نے بتایا کہ اقلیتی برادری کے 60 گھر سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے گھروں میں اب بھی پانی بھرا ہوا ہے جو ہم خود نہیں نکال سکتے۔ خواتین اور بچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا ہے لیکن گھروں میں مٹی اور پانی جمع ہے۔ ہماری صرف اتنی درخواست ہے کہ ریسکیو ٹیمیں آ کر پانی اور مٹی نکالنے میں مدد کریں’۔

بونیر میں تباہی کیوں ہوئی؟

مقامی افراد اور ضلعی حکام کے مطابق بونیر میں کوئی بڑا دریا نہیں ہے لیکن جمعے کو شدید بارش اور بادل پھٹنے کے باعث برساتی نالوں میں پانی آیا جو مقامی آبادی کو نقصان پہنچاتا ہوا پیر بابا بازار میں داخل ہو گیا۔

جاں بحق افراد کی تعداد

خیبر پختونخوا میں جمعے کے سیلابی ریلوں سے اب تک 300 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں 279 مرد، 15 خواتین اور 13 بچے شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں 17 مرد، 4 خواتین اور 2 بچے شامل ہیں۔

صوبے میں مجموعی طور پر 74 گھروں کو نقصان پہنچا ہے جن میں سے 11 مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر ہے جہاں اب تک 184 افراد جان سے جا چکے ہیں۔

سیاست سے بالاتر ہو کر کام کریں گے، امیر مقام

وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام نے بونیر کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ وقت سیاست کا نہیں۔ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کو متاثرین کے لیے کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ریسکیو آپریشن جلد مکمل ہو اور بجلی و موبائل سروس بحال کی جا سکے۔

تمام وسائل استعمال کر رہے ہیں، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے مطابق صوبے کے متاثرہ 8 اضلاع میں فلڈ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے تاکہ ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیوں میں تیزی لائی جا سکے۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں تباہ کن بارشوں سے جانی و مالی نقصان پر نواز شریف کا اظہارِ افسوس

انہوں نے کہا کہ بھاری مشینری کے ساتھ امدادی سرگرمیاں جاری ہیں اور تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بونیر بونیر سیلاب کی تباہ کاری سیلاب کے پی سیلاب.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بونیر سیلاب کی تباہ کاری سیلاب کے پی سیلاب انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا سیلاب میں بہہ مختیار خان خواتین اور جاں بحق ہو نہیں تھے پیر بابا گھروں کو بھی نہیں ہیں اور کے لیے ہیں جن

پڑھیں:

پنجاب میں مزید بارشوں کا امکان‘ بھارت سے دریاؤں میں دوبارہ سیلابی پانی چھوڑے جانے کا خدشہ

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 اکتوبر 2025ء ) صوبہ پنجاب میں مزید بارشوں کے امکان کے ساتھ بھارت سے دریاؤں میں دوبارہ سیلابی پانی چھوڑے جانے کا خدشہ بھی ظاہر کردیا گیا۔ اس حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے بتایا کہ ملک میں موسم تبدیل ہو رہا ہے جو سردی کے آغاز کی علامت ہے، اس دوران چند روز میں پنجاب کے مختلف علاقوں میں بارشیں ہوسکتی ہیں، آج صوبے کے مختلف اضلاع میں ہلکی بارش کا امکان ہے، 5 اکتوبر سے راولپنڈی سے لاہور تک زیادہ بارشیں ہوسکتی ہیں، کل جنوبی پنجاب میں بھی بارش ہونے کا امکان ہے، اس دوران بالائی علاقوں میں 70 ملی میٹر تک بارشیں متوقع ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب سے پنجاب کے 27 اضلاع متاثر ہوئے، اس وقت ہیڈ مرالہ پر 20 ہزار کیوسک پانی آرہا ہے، اگلے 48 گھنٹوں میں بھارت سے ایک لاکھ کیوسک پانی آنے کا امکان ہے، اسی طرح مرالہ کے مقام پر اس وقت 23 ہزار کیوسک پانی گزر رہا ہے، یہاں سے 26 اگست کو 9 لاکھ کیوسک پانی گزر چکا ہے، اس لیے موجودہ صورتحال زیادہ بڑا چیلنج نہیں ہوگی۔

(جاری ہے)

ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ منگلا ڈیم میں بھی پانی کی سطح بلند ہے لیکن جہلم میں بڑی سیلابی صورتحال متوقع نہیں، تاہم ستلج میں بھارت سے 50 ہزار کیوسک اور تھین ڈیم سے راوی میں 35 ہزار کیوسک پانی آنے کا امکان ہے، سیلاب سے متاثرہ 27 اضلاع میں سروے جاری ہے جس میں ساڑھے 11 ہزار افراد حصہ لے رہے ہیں، سروے ٹیموں میں پاک فوج، ضلعی انتظامیہ اور مختلف محکموں کے افسران شامل ہیں، اس سلسلے میں 2 ہزار 213 ٹیموں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2010ء میں 3 لاکھ 50 ہزار، 2012ء میں 38 ہزار 196 اور 2014ء میں 3 لاکھ 59 ہزار متاثرین کو 14 ارب روپے جاری ہوئے، اسی طرح 2022ء میں 56 ہزار متاثرین کو 10 ارب روپے جاری کیے گئے، اب تک گزشتہ 15 برس میں مجموعی طور پر 51 ارب روپے سیلاب متاثرین میں تقسیم کیے جا چکے ہیں، تاہم 2025ء کا سیلاب حالیہ تاریخ کے تمام سیلابوں کے مقابلے میں زیادہ نقصان دہ ہے، جس میں گھروں، مویشیوں، فصلوں اور انسانی جانوں کا بڑا نقصان ہوا۔

متعلقہ مضامین

  • سب سے مل آؤ مگر…
  • پنجاب میں مزید بارشوں کا امکان‘ بھارت سے دریاؤں میں دوبارہ سیلابی پانی چھوڑے جانے کا خدشہ
  • آنے والے دنوں میں مزید بارش متوقع ہے: ڈی جی پی ڈی ایم اے
  • آزاد کشمیر کی 12 نشستوں کا معاملہ آئینی، سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے: اعظم تارڑ
  • یہ کووڈ نہیں، پریشان نہ ہوں بس علامات کا فرق جانیں
  • آزاد کشمیر میں مظاہرین کے مطالبات بجا لیکن تشدد کا راستہ نہیں اپنانا چاہیے: کوآرڈینیٹر وزیراعظم
  • سونم کپور کے یہاں دوسری خوشخبری متوقع، کیا فلموں میں واپسی کھٹائی میں پڑگئی؟
  • سیلاب پر فوری امداد نہیں مانگیں گے، کوشش ہے اپنے زورِ بازو پر معاملات ٹھیک کریں؛ وزیر خزانہ
  • سمجھ کیوں نہیں آتی کہ امریکہ ناقابل اعتبار ہے
  • آزاد کشمیر کی صورتحال پر اوورسیز ممبر اسمبلی محمد اقبال مستعفی