سیلاب سے متاثرہ افراد کے نقصانات کا 100 فیصد ازالہ کریں گے، وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور
اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT
پشاور:
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں کسی کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور سیلاب سے متاثرہ افراد کے نقصانات کا 100 فیصد ازالہ کریں گے۔
ایکسپریس نیوز سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ قدرتی آفت سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے رابطہ کرکے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اپنے وسائل بہت ہیں اور متاثرہ افراد کی مدد کی جائے گی، سیلاب سے متاثرہ افراد کا 100 فیصد نقصان پورا کریں گے۔
وزیراعلیٰ کے پی نے کہا کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم سیلاب سے متاثرہ افراد کے ساتھ کھڑے ہیں، مشکل کی اس گھڑی میں کسی کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری پہلی کوشش سیلاب سے متاثرہ افراد کو تمام سہولیات فراہم کرنا ہے اور اس کے بعد ہم سیلاب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیں گے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ابھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے نقصانات کا جائزہ لے رہا ہوں اور اس کے بعد تعمیراتی کام شروع کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ کی طرف سے قدرتی آفت ہے اور ان شا اللہ ہمارا فوکس ریسکیو آپریشن پر ہے، ریسکیو آپریشن شروع ہے اور کافی راستہ کلیئر ہو گیا ہے، ہم نے ہیلی مانگے ہوئے ہیں اور کام بھی کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہمیں راستے کھولنے ہیں، لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ جن لوگوں کا جتنا بھی نقصان ہوا ہے ان کا نقصان پورا کریں گے، جانی نقصان کا ازالہ تو نہیں کر سکتے لیکن جو گھر اور دیگر نقصان ہوا ہے ان شا اللہ وہ نقصان ہم مکمل پورا کریں گے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ تمام صوبوں کے چیف منسٹرز نے کل رابطہ کیا تھا اور اظہار یکجہتی کی تھی اور سب نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، این ڈی ایم سے رابطے میں ہیں انہوں نے بھی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، جس بھی چیز کی کمی ہوگی وہ این ڈی ایم اے سے لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن جو آفت آئی ہے پہلے بحالی کا کام کریں گے اور اس کے بعد ڈیٹا لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کا حصہ ہیں اور اس کے وسائل پر ہمارا حق بھی ہے، وفاق اور این ڈی ایم اے ہمارے لوگوں کو سہولت دیں، میرا لوگوں سے وعدہ ہے جس کا جتنا نقصان ہوا ہے وہ ہم پورا کریں گے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ابھی تک کسی نے بھی متاثرہ افراد کے ساتھ 100 فیصد تعاون نہیں کیا، لوگ تھوڑی سی مدد کرتے ہیں لیکن ہم 100 فیصد ازالہ کریں گے، ہم اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں،
وزیراعلیٰ نے کہا کہ جہاں پر بھی کسی کا نقصان ہوا ہے خواہ وہ گاؤں میں ہے یا تاجر ہیں سب کا ازالہ کریں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ افراد متاثرہ افراد کے ازالہ کریں گے پورا کریں گے نقصان ہوا ہے اور اس کے انہوں نے
پڑھیں:
سیلاب سے معاشی نقصان
پاکستان میں سیلاب سے محصولات میں کمی ہوگی نہ بڑا معاشی نقصان، یہ آئی ایم ایف کا خیال ہے۔ مزید کہا گیا کہ پاکستان میں حالیہ سیلاب نے معیشت کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچایا۔اور میں سوچ رہا تھا کہ کاش یہ حساب کتاب لگانے والے کبھی اس گاؤں میں جاتے، جہاں گھرکا دروازہ آج بھی ملبے کے نیچے ہے، جہاں اناج کے ڈھیر کی جگہ پانی کیچڑ ہے، جہاں رات کے کھانے میں بچے ماں کی آنکھوں کو دیکھتے ہیں، پلیٹ کو نہیں اور ماں دور اندھیرے میں اپنے شوہرکا انتظار کر رہی ہوتی ہے جو اب پلٹ کر نہیں آئے گا۔
اخبارات یہی کہتے ہیں کہ یہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔ عوام کہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ بے شمار نقصان ہوا ہے، مرنے والے بہت سے عزیز و اقارب، زیر آب آنے والی فصلیں، مکانات کا ملبہ، اگر کوئی چھوٹا کسان اپنے مال مویشی کھو دے تو وہی اس کا سب سے بڑا نقصان ہے، اگر کوئی کسان پہلے ہی قرضوں میں ڈوبا ہو تو یہ پانی کے اونچے اونچے ریلے اسے کیا ڈبوئیں گے۔ پہلے ہی وہ قرض میں ڈوبا ہوا ہے پھر اسے اخبار کی سرخیوں میں یہ پڑھنے کو مل جائے کہ بڑا معاشی نقصان نہیں ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے تو اس کے دل پرکیا گزری ہوگی۔
اگر بڑے نقصان کا مطلب مجموعی معیشت میں نمایاں کمی ہے تو آئی ایم ایف اور حکومت اس کو ایک نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ جو اندازے اور ماڈلزکا ڈیٹا انھیں بتائے، لیکن اگر ’’بڑے نقصان‘‘ کا معیار زندگی، انسانی معیشت، غربت، بقا اور معاشرے میں معاشی عدم توازن ہو تو پھر ہر جان، ہر مویشی، ہر فصل، ہرگھرکا نقصان بڑا ہوا ہے۔
کہا گیا کہ حکومت سیلاب سے متعلق اخراجات کو ہنگامی پول سے پورا کرسکتی ہے۔ شرح نمو کا یہ ہدف4.2 فی صد تھا جو اب 4 فی صد کے قریب ہی رہ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف نے کسی مدد امداد سے صاف ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ نقصان کو معمولی قابل برداشت قرار دے کر راہ فرار اختیار کر لی ہے۔ کہا گیا کہ نقصان اعشاریہ تین فی صد جی ڈی پی کا ہے۔ تو حکومت چاہتی ہے کہ اسے قابل انتظام نقصان قرار دے اور معاشی استحکام کو خطرے میں نہ ڈالے۔ اس کا مطلب ہے کہ معاشی نمو برقرار رہے گی، مگر مزید کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ آئی ایم ایف کی نظر میں بڑا نقصان ہوا ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر آئیں چلتے ہیں پیر والا کے کسی دیہات میں، ایک چھوٹا کسان جس نے اپنی دھان کی فصل کھو دی ہے یہ اس کا سب سے بڑا نقصان ہے۔
اس دیہاتی کے خالی باڑے کو دیکھیے جہاں جابجا جانور باندھنے کے کھونٹے ابھی بھی قائم ہیں لیکن وہ کہانی سنا رہے ہیں کہ غریب کسان کے سارے جانور پانی بہا کر لے گیا اور اس کی معیشت بھی دریا برد ہو کر صفر ہو گئی ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات جاری ہیں، ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کو دو قسطوں کے اجرا کی امید ہے۔ یہ قسطیں دو مختلف قرضوں کے پروگراموں کے تحت مجموعی طور پر ایک ارب 20 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں کل معاشی نقصانات کا تخمینہ تقریباً 360 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ البتہ ابھی مزید نقصان کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔
2022 میں سندھ میں آنے والے نقصانات کا اندازہ 10 ارب ڈالر لگایا گیا تھا جو کہ اگرچہ کم ہے پھر بھی اس وقت ڈالر ریٹ 300 کے قریب کے لحاظ سے 3 ہزار ارب روپے نقصان بنتا ہے اور فی الحال نقصان کا اندازہ جوکہ 2022 کے مقابلے میں 5 سے 7 گنا زیادہ ہے۔ان تمام باتوں سے فی الحال یہی نظر آ رہا ہے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں معاشی اعداد و شمار اور انسانی حقیقت میں نمایاں فرق ہے۔ نقصان تو غریب کا ہوا ہے، ایسا معلوم دیتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ انسانی دکھ، بدحالی، فاقہ کشی کو اعداد و شمار میں صفائی کے ساتھ چھپا دیتا ہے۔
ایک ملک کی مجموعی معیشت کو دیکھتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو نہیں کہ دیہی معیشت ڈوب گئی ہے اور بہت سے لوگ بچھڑ گئے۔جب رات کے اندھیرے میں ماں خالی نگاہوں سے دور سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہے اور بچہ سامنے رکھی ہوئی پلیٹ کو نہیں دیکھتا۔ ایک بیوی کو اپنے شوہر کا انتظار ہے جو سیلابی پانی کو چیرتا ہوا گیا تھا کہ گھر کے کچھ قیمتی سامان کو لے آؤں۔ آج وہ بھوکی پیاسی حسرت بھری نگاہوں سے اس کے انتظار میں بیٹھی ہے۔ اس کا تو سب کچھ نقصان ہوگیا۔ سب کچھ برباد ہو گیا۔ وہ انتظار کرتی ہے اور اپنے بچے کے بھوک سے ستائے ہوئے چہرے کو دیکھتی ہے۔ بچے کو بھی اپنی بھوک پیاس کی پرواہ نہیں۔ وہ سوال کرتا ہے تو روٹی پانی کا نہیں پوچھتا۔ اپنی ماں سے روتے ہوئے پوچھتا ہے’’ اماں! بابا کب آئیں گے؟‘‘