Islam Times:
2025-10-04@23:36:02 GMT

کیا بین الاقوامی سطح پر یورپ بے بس ہورہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, August 2025 GMT

کیا بین الاقوامی سطح پر یورپ بے بس ہورہا ہے؟

اسلام ٹائمز: یورپ کی تنہائی کی تشویش بالکل درست ہے اور یورپ خود کو بے بس محسوس کر رہا ہے اسی لیے یورپ اپنا دفاعی بجٹ بڑھا رہا ہے اور اس نے فوجیوں میں بھی اضافے کی کوششیں شروع کر دی ہیں مگر یورپ کے لوگ زیادہ ہی پر امن ہوگئے ہیں۔ جرمنی کو ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی کمی کا سامنا ہے مگر کوئی بھی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ فرانس کے صدر نے کہا ہے کہ یورپ پریشان نہ ہو اگر یورپ کو کوئی ایٹمی خطرہ پیش ہوا تو ہم یورپ کے لیے ایٹمی ہتھیار استعمال کریں گے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس 

ٹرمپ کے آنے سے امریکی خارجہ پالیسی ناقابل اعتبار ہو چکی ہے، کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ اگلے سال، مہینے یا ہفتے نہیں بلکہ دن کیا ہوگا؟ رات کو امریکی میڈیا کچھ اور خبریں چلا کر رائے عامہ کو ہمورا کرتا ہے اور صبح نیند سے جاگتے ہیں ناشتے کے ٹیبل سے ٹرمپ کا بیان ہر چیز کا رخ موڑ دیتا ہے۔ کسی تجزیہ نگار نے درست کہا تھا کہ ٹرمپ ناقابل اعتبار اور خطرناک حد تک غیر سنجیدہ ہے مگر ایک حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ایک بڑی طاقت کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے اس کے فیصلے دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کے آنے سے امریکی استعمار کے مخالفین نے تو اپنی حکمت پر نظر ثانی کرنی ہی تھی امریکہ کے دوست بھی اس کو بھگت رہے ہیں۔ یورپ بڑی پریشانی میں ہے۔ ٹرمپ نے آتے ہی اسے بتا دیا کہ ہم نیٹو کا مزید پورا بوجھ نہیں اٹھائیں گے، اب یورپ کو عیاشی سے نکل کر اپنی حفاظت کے لیے خرچ کرنا پڑے گا۔

یورپ کے لیے ایک بڑی پریشانی امریکہ کا یورپ کو بائی پاس کرکے روس سے خود مذاکرات کرنے کی پالیسی اختیار کرنا ہے۔ آپ ٹرمپ پیوٹن ملاقات پر بی بی سی اور یورپی میڈیا کی کوریج دیکھیں تو آپ کو یوں لگے جیسے یہ ملاقات مکمل ناکام ہوگئی ہے اور ٹرمپ کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ روس نے ٹرمپ کے ساتھ دھوکہ کر دیا ہے اور اب امریکہ کو روس کے خلاف جنگ میں کھلے انداز میں شریک ہو جانا چاہیئے۔ ٹرمپ یورپ کو اس کی اوقات دکھا رہا ہے کہ تم کچھ نہیں ہو، تم نے ہماری ہاں میں ہاں ملانی ہے۔ ویسے ٹرمپ سے جب یورپ کی روس کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کے حوالے سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ انہیں کسی مناسب وقت پر بعد میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ابھی اس نے کہا کہ میں یوکرین کے صدر کو فون کروں گا اور ملاقات کے بعد فون بھی کر دیا۔

فرانس، جرمنی اور برطانیہ پریشان ہیں کہ اگر امریکہ نے روس سے صلح کر لی جو وہ کر لے گا کیونکہ اس کی نظر روس کی معدنیات پر ہے تو ہمارا کیا ہوگا؟ معروف دفاعی تجزیہ نگار کاشف رضا صاحب نے ٹرمپ پیوٹن ملاقات پر بہت زبردست لکھا ہے: ملاقات کے بعد پیوٹن نے امید ظاہر کی کہ دونوں ملک ایک بار پھر ماضی کی طرح تصادم کے بجائے مکالمہ اور تعاون کی راہ اپنائیں گے۔ صدر ٹرمپ کے نیٹو ممالک سے تعلقات مثالی نہیں، صدر پیوٹن امریکی صدر کے مزید قریب ہو کہ ان امریکہ و مغرب کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کرنا چاہتے ہیں۔ جس سے نہ صرف انہیں یوکرین پر اچھی ڈیل مل سکتی ہے بلکہ دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنا کر روسی مفادات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے صدر پیوٹن نے مختلف شعبہ جات میں تجارت کے وسیع مواقع کی طرف متوجہ کرتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی بات کی۔

صدر پیوٹن نے نیٹو کی وجہ سے روسی سلامتی کو لاحق خطرات کا بھی ذکر کیا اور امید ظاہر کی کہ جنگ کی بنیادی وجوہات کو ختم کیا جائے گا، صدر پیوٹن نے کہا کہ امید ہے مغربی ممالک اس امن عمل کو ثبوتاژ نہیں کریں گے۔ انہوں نے یوکرین کو برادر ملک قرار دیتے ہوئے جنگ پر حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے ساتھ اتفاق رائے کے بعد روسی سلامتی کے ساتھ یوکرین کی سلامتی کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرین نیٹو سمیت کسی سیکورٹی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا اور بدلے میں روس یوکرین پر حملہ نہ کروانے کی امریکہ کو ضمانت فراہم کرے گا۔

یورپ کی تنہائی کی تشویش بالکل درست ہے اور یورپ خود کو بے بس محسوس کر رہا ہے اسی لیے یورپ اپنا دفاعی بجٹ بڑھا رہا ہے اور اس نے فوجیوں میں بھی اضافے کی کوششیں شروع کر دی ہیں مگر یورپ کے لوگ زیادہ ہی پر امن ہوگئے ہیں۔ جرمنی کو ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی کمی کا سامنا ہے مگر کوئی بھی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ فرانس کے صدر نے کہا ہے کہ یورپ پریشان نہ ہو اگر یورپ کو کوئی ایٹمی خطرہ پیش ہوا تو ہم یورپ کے لیے ایٹمی ہتھیار استعمال کریں گے۔

ابھی یورپ کو اقوام متحدہ میں ایک اور ناکامی ہونے والی ہے۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ ایران کو دھمکا رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اسنیپ بیک میکانزم کو فعال کیا جائے گا۔ اسنیپ بیک میکانزم کیا ہے؟اسے سمجھنا ضروری ہے۔ یہ بین الاقوامی معاہدات بالخصوص ایران کے جوہری معاہدے (JCPOA) کے تناظر میں استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ہے۔ اس سے مراد ایسا خودکار اور فوری عمل ہے جس کے تحت اگر کسی فریق کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی ثابت ہو جائے تو اس پر سے ہٹائی گئی تمام بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ لاگو ہو جاتی ہیں، اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں دوبارہ ووٹنگ یا طویل سفارتی و قانونی عمل کی ضرورت پیش آئے۔ اس طرح یہ میکانزم ایک احتیاطی (preventive) ہتھیار کے طور پر بھی کام کرتا ہے، جو فریقین کو مسلسل معاہدے پر قائم رہنے پر مجبور کرتا ہے۔

ایران نیوکلئیر ڈیل (JCPOA) جو 2015ء میں ایران اور عالمی طاقتوں (P5+1) کے درمیان طے پائی۔ چین اور روس اس کے استعمال کی مخالفت کر رہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ میکانزم سفارتکاری اور گفت و شنید کے بجائے دباؤ اور تصادم کی پالیسی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ایک غیر منصفانہ نظام ہے جس میں طاقت کے ذریعے ہی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتکار بھی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔ چین نے کا اعلان بہت اہم ہے اس نے کہا ہے کہ ہم اس کی مخالفت کریں گے اس لیے اسے فعال کرنا اب آسان نہیں رہا لگ یوں رہا ہے کہ یہاں بھی ایک ناکامی اور بے بسی یورپ کی منتظر ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صدر پیوٹن نے کہا کہ پیوٹن نے یورپ کی یورپ کے یورپ کو کریں گے ٹرمپ کے کے ساتھ کے لیے ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ : یورپ کے مختلف ممالک میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے

یورپ کے مختلف شہروں میں اسرائیلی افواج کی جانب سے گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملے کے بعد احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ ان مظاہروں میں بڑی تعداد میں فلسطین کے حامی کارکنان، طلبہ اور یونینز کے ارکان شریک ہوئے۔

ترک خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق اٹلی کے دارالحکومت روم میں سیکڑوں مظاہرین نے ٹرمنی اسٹیشن کے سامنے پیاچا دی چیونکوینتو پر جمع ہو کر اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرین نے فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے امدادی قافلے پر حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

 

اسی طرح اسپین کے شہر بارسلونا میں بھی سیکڑوں افراد نے اسرائیلی قونصلیٹ کے باہر احتجاج کیا اور غزہ کے عوام کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کیا۔

جرمنی کے شہر برلن میں درجنوں افراد مرکزی ریلوے اسٹیشن کے باہر جمع ہوئے اور اسرائیلی کارروائی کے خلاف مظاہرہ کیا، جبکہ بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں احتجاجی ریلی نکالی گئی جو پلاس دی لا بورس سے چل کر بیلجین وزارتِ خارجہ تک پہنچی۔

 

مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ انسانی ہمدردی کی کوششوں پر کھلا حملہ ہے اور عالمی برادری کو فلسطین کے مظلوم عوام کی مدد کے لیے فوری قدم اٹھانا چاہیے۔


 

متعلقہ مضامین

  • ’غزہ میں نسل کشی بند کرو‘، یورپ کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد کا احتجاج، لندن میں گرفتاریاں
  • یورپ میں سیاہ فام تارکین وطن کی شناخت اور حقوق کی جنگ
  • صمود فلوٹیلا کے گرفتار0 50 کارکنوں کو یورپ ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ
  • جنگ بندی یا سیاسی ماتحتی؟ ٹرمپ کا غزہ پلان اور اس کے نتائج
  • امدادی قافلے پر اسرائیلی حملہ بین الاقوامی پانیوں میں قانون اور انسانیت دونوں کی صریح توہین ہے، صادق جعفری
  • امریکہ جو چاہے نہیں کر سکتا، سید عباس عراقچی
  • اسرائیل کا گلوبل صمود فلوٹیلاکے گرفتار کارکنان کو یورپ منتقل کرنے کا اعلان
  • اسرائیل کا غزہ جانے والے بحری قافلے صمود کے کارکنوں کو یورپ ڈی پورٹ کرنے کا اعلان
  • یورپ کے مختلف ممالک میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے
  • گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ : یورپ کے مختلف ممالک میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے