حماس غزہ میں جنگ بندی کے لیے کس بات کی ضمانت مانگ رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
غزہ میں تازہ اسرائیلی حملوں میں کم از کم 59 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جبکہ حماس کی جانب سے امریکا کی نئی جنگ بندی تجویز پر اس شرط کے ساتھ آمادگی ظاہر کی گئی ہے کہ اس کے ذریعے جنگ کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جائے گا۔
عرب خبر رساں ادارے نے ایک ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ بتایا ہے کہ حماس اس بات کی ضمانت چاہتی ہے کہ مجوزہ 60 روزہ سیزفائر کا اختتام جنگ کے خاتمے پر ہوگا، نہ کہ محض ایک عارضی وقفہ۔ یہ شرط ماضی کی متعدد ناکام مذاکراتی کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل غزہ سے نکل جائے، جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے معاہدے پر تیار ہیں، حماس
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اعلان کیا تھا کہ اسرائیل نے حماس کے ساتھ مجوزہ سیزفائر معاہدے کی شرائط تسلیم کرلی ہیں، اس معاہدے کے تحت دونوں فریق 60 روزہ سیزفائر کے دوران جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے بات چیت جاری رکھیں گے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق اگر حماس کی جانب سے جمعہ تک مثبت جواب آتا ہے تو اسرائیل بھی مذاکرات کے اگلے مرحلے میں شریک ہوگا۔ یہ بات چیت ممکنہ طور پر مصر یا قطر میں منعقد کی جائے گی، جہاں پہلے سے ہی ثالثی جاری ہے۔
معاہدے کی تفصیلات میں شامل ہے کہ حماس 10 اسرائیلی یرغمالیوں کو بتدریج رہا کرے گی اور 18 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرے گی، جس کے بدلے میں فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق غزہ میں اب بھی 50 یرغمالیوں میں سے 20 زندہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق امریکی تجویز پر دستخط کر دیے
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے قریبی ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پیر کو امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے واشنگٹن جارہے ہیں، لیکن اس سے قبل اسرائیلی کابینہ سیزفائر کی منظوری دے سکتی ہے۔
اسرائیلی وزیر توانائی ایلی کوہن نے مقامی ویب سائٹ Ynet سے گفتگو میں کہا کہ ’معاہدے کو آگے بڑھانے کی مکمل تیاری ہے۔‘
ادھر غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بمباری کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق، اسرائیلی حملے میں غزہ سٹی کے ایک اسکول پر بمباری کے نتیجے میں 17 افراد شہید ہوگئے، جہاں بے گھر خاندان پناہ لیے ہوئے تھے۔ ایک عینی شاہد وفا العرقان نے بتایا۔ ’ہم سوئے ہوئے تھے کہ اچانک خیمہ ہم پر گر گیا اور آگ بھڑک اٹھی۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا، کیا یہ انصاف ہے کہ اتنے سارے بچے جل جائیں؟‘
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی کے امکانات روشن، نیتن یاہو امریکی تجویز مان گئے
جنوبی غزہ کے ناصر اسپتال کے عملے کے مطابق امدادی سامان کے ایک مرکز کی جانب جاتے ہوئے اسرائیلی فائرنگ میں کم از کم 20 افراد شہید ہوئے۔
یاد رہے کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی تھی جب حماس کے جنگجو اسرائیل میں داخل ہو کر 1,200 افراد کو ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔ اس کے بعد سے اسرائیل کی فوجی کارروائی میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 57 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ 20 لاکھ کی آبادی میں سے بیشتر بے گھر اور بھوک کا شکار ہوچکے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں کرے گا جب تک حماس غزہ میں مسلح اور برسراقتدار ہے، جبکہ حماس، جو اب شدید کمزور ہوچکی ہے، جنگ کے خاتمے کی صورت میں تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسرائیل جنگ بندی حماس غزہ فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل فلسطین کے مطابق کی جانب کہ حماس جنگ کے کے لیے
پڑھیں:
قطر پر حملے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا، امریکی میڈیا
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے منگل کی صبح حملے سے پہلے ٹرمپ سے بات کی تھی، اسرائیلی حکام کے مطابق حملے سے پہلے امریکا کو مطلع کر دیا گیا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ قطر پر حملے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے منگل کی صبح حملے سے پہلے ٹرمپ سے بات کی تھی، اسرائیلی حکام کے مطابق حملے سے پہلے امریکا کو مطلع کر دیا گیا تھا۔ خبر ایجنسی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں تھے، تب امریکا کو بتایا گیا تھا، صدر ٹرمپ کو حملے کی مخالفت کا موقع نہیں ملا تھا۔ خیال رہے کہ 9 ستمبر کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر فضائی حملے کیے، صہیونی فوج کا ہدف فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کی مرکزی قیادت تھی۔ اسرائیلی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ دوحہ میں حماس کے مذاکراتی رہنماؤں کو دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ تل ابیب سے جاری کیے گئے بیان میں اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا تھا کہ دوحہ میں دھماکے کے ذریعے حماس کے سینیئر رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا۔
حماس کے ذرائع کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے کے وقت حماس کے متعدد رہنماؤں کا اجلاس جاری تھا، اجلاس میں حماس رہنماء غزہ جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر غور کر رہے تھے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی بمباری کے دوران اجلاس میں حماس کے 5 سینیئر رہنماء خالد مشعل، خلیل الحیہ، زاہر جبارین، محمد درویش اور ابو مرزوق موجود تھے، اجلاس کی صدارت سینیئر رہنما ڈاکٹر خلیل الحیہ کر رہے تھے۔ ایک اسرائیلی عہدے دار کا کہنا تھا کہ دوحہ میں حماس رہنماؤں پر حملے سے پہلے امریکا کو اطلاع دی گئی تھی، امریکا نے حماس رہنماؤں پر حملے میں مدد فراہم کی ہے۔ اسرائیلی وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ قطر میں موجود حماس رہنماؤں پر حملہ انتہائی درست اور بہترین فیصلہ تھا۔