امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ایرک ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ ان کے والد کی دوسری مدتِ صدارت ختم ہونے پر وہ یا خاندان کے دیگر افراد صدر منتخب ہونے کے لیے میدان میں آسکتے ہیں۔

ایرک ٹرمپ، جو ٹرمپ آرگنائزیشن کے شریک ایگزیکٹو نائب صدر بھی ہیں، نے کہا کہ اگر وہ امریکا کے صدر بننے کا فیصلہ کریں تو ‘راستہ آسان’ ہے۔

یہ بھی پڑھیے: صدر ٹرمپ کی کمپنی کا سونے کا موبائل فون لانچ کرنے کا اعلان، منصوبے پر تحفظات کیا ہیں؟

ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے خاندان کے دیگر ارکان بھی اس میں شامل ہوں؟ اگر جواب ہاں ہوتا، تو میرا خیال ہے کہ سیاسی راستہ آسان ہوتا، یعنی، میں یہ کر سکتا ہوں اور ہمارے خاندان کے دیگر ارکان بھی یہ کر سکتے ہیں۔

ایرک ٹرمپ نے زیادہ تر سیاست سے دور رہ کر خاندان کے کاروبار پر توجہ دی ہے تاہم انہوں نے ماضی میں کہا ہے کہ وہ ‘نصف سیاستدانوں سے بالکل متاثر نہیں’ ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایرک ٹرمپ خاندان کے

پڑھیں:

4.5 ملین برطانوی بچے غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، رپورٹ

لندن اسکول آف اکنامکس میں سماجی پالیسی کی پروفیسر کیتی اسٹیورٹ کہتی ہیں کہ گزشتہ پانچ سے دس سال نے ملک میں انتہائی سطح کی غربت ہے۔ تازہ ترین سرکاری رپورٹ کے مطابق 31% برطانوی بچے غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ تقریباً 4.5 ملین بچوں کے برابر ہے۔  اسلام ٹائمز۔ برطانیہ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان اپنی معاشرتی پوزیشن تیزی سے کھو رہے ہیں، کیونکہ کرایوں، بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ مزدوروں کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق برطانیہ میں بہت سے ایسے خاندان جو خود کو متوسط طبقے سے وابستہ سمجھتے تھے، گزشتہ برسوں میں شدید معاشی دباؤ کا شکار ہوئے ہیں۔

کرایوں میں اضافہ، بچوں کی نگہداشت کے اخراجات اور خوراک کی بڑھتی قیمتیں، جبکہ تنخواہیں تقریباً جمود کا شکار ہیں، اس صورتحال تک لے آئی ہیں کہ ملازمت پیشہ والدین بھی غربت سے باہر نہیں رہ پا رہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ برطانیہ میں بچپن کی غربت 2002 کے بعد سے اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، اور اب یورپ میں بھی سب سے زیادہ شرح رکھنے والے ممالک میں شامل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ 2012 سے نافذ حکومتی کفایت شعاری کی پالیسیوں نے اس بحران کو مزید شدید کر دیا ہے، اور تین یا اس سے زیادہ بچوں والے خاندان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ایک انتہائی متنازع حکومتی پالیسی دو بچوں کی حد ہے، جس کے تحت خاندان تیسرے یا اس سے زیادہ بچوں کے لیے سرکاری مالی امداد نہیں لے سکتے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس قانون نے سینکڑوں ہزار بچوں کو غربت کی لکیر کے نیچے دھکیل دیا ہے۔

لندن اسکول آف اکنامکس میں سماجی پالیسی کی پروفیسر کیتی اسٹیورٹ کہتی ہیں کہ گزشتہ پانچ سے دس سال نے ملک میں انتہائی سطح کی غربت ہے۔ شمالی لندن کی ایک سنگل ماں جافہ، جو سالانہ 45 ہزار پاؤنڈ کماتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے تین بچوں کی نرسری کے مکمل اخراجات ادا کرنے کے قابل نہیں۔ اسی طرح تازہ ترین سرکاری رپورٹ کے مطابق 31% برطانوی بچے غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ تقریباً 4.5 ملین بچوں کے برابر ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • ابراہم معاہدے کا حصہ بننا چاہتے ہیں، فلسطین کا دو ریاستی حل یقینی بنانا ہوگا، سعودی ولی عہد
  • ولی عہد اور ٹرمپ کی ملاقات: سعودی عرب ابراہیمی معاہدے کا حصہ بننے کے لئے تیار
  • 4.5 ملین برطانوی بچے غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، رپورٹ
  • خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟
  • محمد یونس کی عبوری حکومت نہیں چاہتی کہ عوامی لیگ انتخابات میں حصہ لے: شیخ حسینہ واجد
  • میکسیکو؛ جرائم اور کرپشن کے خلاف جنریشن زی کا احتجاج، صدارتی محل کی حفاظتی دیوار گرا دی
  • چلی، صدارتی و عام انتخابات،دائیں وبائیں بازو کے رہنمائوں میں کڑا مقابلہ متوقع
  • صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن
  • لالو کی بیٹی روہنی نے خاندان سے لاتعلقی کی اصل وجہ بتا دی
  • انتخابات میں شکست: لالو پرساد یادو کی بیٹی نے سیاست اور خاندان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا