“غزہ میں جنگ بندی آئندہ ہفتے ممکن “ٹرمپ کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
نیویارک (اوصاف نیوز)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کے روز کہا کہ مجھے یقین ہے کہ غزہ میں جاری تنازع میں جنگ بندی آئندہ ہفتے کے اندر ممکن ہو سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بیان وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں کانگو اور روانڈا کے درمیان ایک معاہدے کی تقریب کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا۔ انہوں نے کہا کہ “میں سمجھتا ہوں ہم جنگ بندی کے بہت قریب ہیں”۔
ٹرمپ کے مطابق، انہوں نے حال ہی میں ان افراد سے بات چیت کی ہے جو اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری دشمنی کے خاتمے کے لیے ثالثی کر رہے ہیں۔ صدر نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں لیکن ان کے بیان کو ایک مثبت اشارہ قرار دیا جا رہا ہے کہ امریکا پسِ پردہ مذاکرات میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب غزہ میں صورتحال شدید کشیدگی کا شکار ہے، اور انسانی جانوں کے ضیاع پر عالمی برادری کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ مجھے امن قائم کرنے میں خوشی ہوتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیوز بریفنگ میں عالمی سطح پر اہم بیانات دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ فوری طور پر تجارتی مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی ایران پر دوبارہ حملے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ “کینیڈا کی جانب سے ہماری ڈیری مصنوعات پر 400 فیصد ٹیرف لگانا امریکا پر واضح حملہ ہے، کینیڈا یورپی یونین کی نقل کر رہا ہے جو پہلے زیر بحث ہے۔” انہوں نے خبردار کیا کہ آئندہ 7 روز میں کینیڈا پر نئے ٹیرف عائد کیے جائیں گے۔
ایران کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ “ایران کی ایٹمی تنصیبات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے، اب ان کے پاس کوئی جوہری ہتھیار باقی نہیں۔” انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پیش آئی تو ایران پر دوبارہ حملے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی فضائیہ نے 52 ہزار فٹ کی بلندی سے ایرانی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا اور یہ آپریشن آسان نہیں تھا لیکن امریکا نے اسے مکمل کیا۔
صدر ٹرمپ نے عالمی سطح پر قیامِ امن کے سلسلے میں بھی خود کو سراہتے ہوئے دعویٰ کیا کہ “ہم نے اسرائیل اور ایران کے درمیان امن قائم کر دیا ہے، پاک بھارت کشیدگی کم کی اور اب کانگو اور روانڈا کی 30 سالہ جنگ کا بھی خاتمہ کرا دیا۔”ٹرمپ کا مزید کہنا تھا غزہ میں بھی امن قائم کرنے کے قریب ہیں۔
ایران کا آئی اے ای اے سے تعاون معطل، پارلیمنٹ نے فیصلہ منظور کر لیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ رہا ہے
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ نے غزہ جنگ بندی کیلئے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کردیا
ٹرمپ انتظامیہ نے عرب رہنماؤں کے سامنے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کردیا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے رپورٹ کیا ہے کہ ایک سینئر انتظامی عہدیدار اور معاملے سے واقف علاقائی ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے منگل کو عرب رہنماؤں کے سامنے غزہ کی جنگ ختم کرنے کے لیے 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا، جس کے نتیجے میں رہنماؤں کے درمیان اس بات پر تبادلۂ خیال ہوا کہ حتمی تجاویز پر کس طرح اتفاق کیا جائے جو ممکنہ طور پر اس تنازع کو ختم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
بدھ کے روز امریکا کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا تھا کہ آئندہ دنوں میں ’ کسی نہ کسی قسم کی پیش رفت’ ہو گی لیکن انہوں نے تفصیلات نہیں بتائیں۔
اسٹیو وٹکوف نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی وفد اور عرب رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد کہا کہ’ ہمارا اجلاس بہت نتیجہ خیز رہا’ ۔
اسٹیو وٹکوف نے نیویارک میں کونکورڈیا سمٹ کے دوران کہا کہ’ ہم نے جو پیش کیا اسے ہم مشرقِ وسطیٰ میں، غزہ میں، ٹرمپ 21 نکاتی امن منصوبہ کہتے ہیں۔’
انہوں نے مزید کہا کہ’ میرے خیال میں امن منصوبے میں اسرائیل اور خطے کے تمام پڑوسیوں کے خدشات دونوں کو مدنظر رکھا گیا ہے، اور ہم پرامید ہیں، بلکہ مجھے کہنا چاہیے پراعتماد ہیں، کہ آئندہ دنوں میں ہم کسی نہ کسی قسم کی پیش رفت کا اعلان کر سکیں گے۔’
امریکی انتظامیہ کے اس منصوبے میں کئی نکات شامل تھے جن کا پہلے بھی عوامی سطح پر ذکر کیا جا چکا ہے، جیسے تمام یرغمالیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی، ایک الگ ذریعے کے مطابق اس منصوبے میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ غزہ میں حماس کے بغیر حکومت قائم کرنے کا فریم ورک بنایا جائے اور اسرائیل بتدریج غزہ کی پٹی سے انخلا کرے۔
دو علاقائی سفارت کاروں کے مطابق علاقائی رہنماؤں نے ٹرمپ کے منصوبے کے بڑے حصے کی توثیق کی لیکن کچھ تجاویز بھی دیں جنہیں وہ کسی حتمی منصوبے میں شامل کرنا چاہتے ہیں، ان میں شامل نکات یہ تھے کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کا انضمام نہ ہونا، یروشلم کی موجودہ حیثیت برقرار رکھنا، غزہ کی جنگ ختم کرنا اور حماس کی تحویل میں موجود تمام یرغمالیوں کی رہائی، غزہ میں انسانی امداد میں اضافہ اور اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کا حل نکالنا۔
ایک سفارت کار نے کہا کہ’ یہ اجلاس بہت مفید رہا’ اور وضاحت کی کہ اس میں تفصیلات پر بھی بات ہوئی۔
یہ نئی پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے دوحہ میں حماس کی لیڈرشپ کو نشانہ بنانے کے لیے بمباری کی تھی جس کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کے ذریعے جاری تمام مذاکرات رک گئے تھے، اس حملے کے بعد خطے کے دورے میں وزیر خارجہ مارکو روبیو نے مذاکراتی تصفیے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ وقت ختم ہو رہا ہے۔’
قطریوں نے اس ہفتے ٹرمپ سے ملاقات میں یہ پیشکش کی کہ وہ ثالثی کا کردار جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ انہیں یقین دہانی کرائی جائے کہ اسرائیل آئندہ ان کے ملک پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔
رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ جاری کوششوں پر مزید بات کرنے کے لیے دوبارہ ملاقات کریں گے، اور یہ ملاقات بدھ کے روز مارکو روبیو کے ساتھ ہوئی، مارکو روبیو نے اس ملاقات کے آغاز میں کہا کہ ’ غزہ اور فلسطینی عوام کے مستقبل کے حوالے سے اس وقت بھی بہت اہم کام جاری ہے۔’
یورپی حکومتوں کو بھی ٹرمپ انتظامیہ کے پیش کردہ منصوبے کا خلاصہ فراہم کیا گیا اور دو یورپی سفارت کاروں نے سی این این کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تنازع ختم کرنے کی ایک نئی سنجیدہ کوشش ہے۔
ایک افسر نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے مزید انضمام سے روک سکتا ہے، اور ایسا قدم معاہدہ ابراہیم کے پھیلاؤ کو تقریباً ناممکن بنا دے گا، جو ٹرمپ انتظامیہ کا ایک مقصد ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ منصوبہ سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والی دو ریاستی حل پر ایک کانفرنس کے موقع پر خلیجی شراکت داروں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
امریکا نے اس کانفرنس کا اس بنیاد پر بائیکاٹ کیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا حماس کو انعام دینے کے مترادف ہوگا۔