اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 ستمبر ۔2025 )پاکستان اور آسٹریلیا نے تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور عالمی و علاقائی امن کیلئے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا ہے یہ اتفاق رائے چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی سے آسٹریلیا کے ہائی کمشنر کی پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہونے والی ملاقات میں کیا گیا .

(جاری ہے)

ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر زور دیا گیا، جبکہ تجارت، تعلیم، دفاع اور پارلیمانی تعاون سمیت مختلف شعبوں پر بھی گفتگو ہوئی یوسف رضا گیلانی نے سبکدوش ہونے والے ہائی کمشنر کی خدمات کو سراہا اس موقع پر چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور آسٹریلیا کے سفارتی تعلقات 1948 سے قائم ہیں اور وقت کے ساتھ مزید وسعت اختیار کر گئے ہیں، دونوں ممالک جمہوری اقدار، دو ایوانی پارلیمانی نظام کی مشترکہ روایات سے عوامی سطح پر جڑے ہیں.

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی فرینڈشپ گروپس کے کردار کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے، پارلیمانی وفود کے تبادلوں سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بہتری آ سکتی ہے، خواتین کو بااختیار بنانے اور زندگی کے ہر شعبے میں شامل کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور آسٹریلیا کا تجارتی حجم اڑھائی ارب ڈالر ہے، مزید اضافے کی بڑی گنجائش موجود ہے.

چیئرمین سینیٹ نے زرعی ٹیکنالوجی، قابلِ تجدید توانائی، معدنی وسائل اور آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ پاکستانی برآمدات میں اضافہ چاہتے ہیں، ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، آئی ٹی سروسز اور خوراکی مصنوعات میں صلاحیت موجود ہے یوسف رضا گیلانی نے دونوں ممالک کے ایوانِ صنعت و تجارت اور نجی شعبے کیلئے مشترکہ فورم کے قیام کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان آسٹریلیا میں مختلف شعبوں میں فعال کردار ادا کر رہا ہے، انہوں نے دفاعی تعاون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سائبر سکیورٹی، میری ٹائم آگاہی اور امن مشنز میں مزید تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے، آسٹریلیا کی ترقیاتی معاونت کا اعتراف اور امداد کو سراہتے ہیں.

موسمیاتی تبدیلی پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ پاکستان شدید متاثر ممالک میں شامل ہے، سیلاب اور بارشوں سے صوبے متاثر ہوئے، موسمی تغیرات سے نمٹنے کیلئے بین الاقوامی تعاون اور مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کے ساتھ تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں، سپیکر کی حیثیت سے آسٹریلیا کا دورہ کیا تھا، پاکستانی آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور زرمبادلہ بھیج رہے ہیں، اعلی سطح پر وفود کے تبادلوں میں تیزی لانے کی اشد ضرورت ہے، دفاع اور تجارت میں تعاون کی وسیع گنجائش موجود ہے، عوامی سطح پر روابط انتہائی اہمیت رکھتے ہیں.

آسٹریلین ہائی کمشنر نے سیلاب میں نقصانات پر اظہار افسوس اور ہمدردی کیا، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ بین الاقوامی ادارے اور مخیر حضرات سیلاب زدگان کی امداد کیلئے آگے بڑھیں چیئرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی نے ISC کے بارے میں بھی آسٹریلیا کے ہائی کمشنر کو آگاہ کیا کہ رواں برس نومبر میں ISC کانفرنس کا آغاز ہوگا، آسڑیلیا کے پارلیمانی وفد کی شرکت کانفرنس کے لئے اہم ہوگی چیئرمین سینٹ نے آسٹریلین پارلیمنٹ کی قیادت کو کانفرنس میں شرکت کی باضابطہ دعوت بھی دی آئی ایس سی کی سفیر اور چیئرمین سینٹ کی ایڈوائزر مصباح کھر نے بھی آسٹریلین ہائی کمشنر کو آئی ایس سی کے اغراض و مقاصد اور کانفرنس کے موضوع کے بارے میں آگاہ کیا.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان اور آسٹریلیا یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ آسٹریلیا کے ہائی کمشنر کہ پاکستان ضرورت ہے کہا کہ

پڑھیں:

بھارتی افواج کی مشترکہ جنگی مشق ’’ایکسر سائز تریشول‘‘

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251107-03-6

 

وجیہ احمد صدیقی

بھارت نے پاکستان کی سرحد کے قریب سرکریک کے متنازع علاقے میں ’’ایکسر سائز تریشول‘‘ نامی جنگی مشق شروع کی ہے، جس میں بھارتی آرمی، ائر فورس اور نیوی کے فوجیوں سمیت 50 ہزار سے زیادہ فوجی حصّہ لے رہے ہیں۔ یہ مشق گجرات، راجستھان اور بحیرۂ عرب کے علاقوں میں ہو رہی ہے۔ تاکہ اپنی جنگی تیاری سے پاکستان کو دہشت زدہ کیا جا سکے۔ پاکستان نے اس مشق کو بھارت کی جانب سے فالس فلیگ کارروائی (false flag operation) قرار دیا ہے، اور بیان دیا ہے کہ بھارت جھوٹ کی بنیاد پر جنگ لڑنے کا بہانہ گھڑ رہا ہے جیسے کشتیاں ڈبو دی گئیں، طیارے گرا دیے گئے۔ بھارت کا مقصد ہر طریقے سے کشیدگی پیدا کرنا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے بحری اور ہوائی راستوں پر انتباہی نوٹس (NOTAMs) جاری کر رکھے ہیں، جن سے کشیدگی اور تنائو کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ باوجود حالیہ شرمناک شکست کے بھارت جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہے اور برصغیر کو جنگ کے دہانے پر لے جانا چاہتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے نہ صرف اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کیا ہے بلکہ بھارتی جارحیت کے خلاف چوکس رہنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔ بھارتی فوجی مشقیں درحقیقت کشیدگی کو مزید بڑھانے اور علاقے میں عدم استحکام پھیلانے کی کوشش ہیں، جن کے نتائج پورے خطے کے امن کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ بھارت کی یہ کارروائی پاکستان کی عالمی سطح پر علاقائی طاقت بننے کی کوششوں کو روکنے کے لیے کی گئی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ہر ممکن حکمت عملی نے بھارتی جارحیت کو ناکام بنایا ہے اور بھارت کی یہ تیاری صرف جنگ کے گڑھے میں خود کو دھکیلنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کی قیادت اور فوج کی طرف سے بھارت کو واضح طور پرخبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ کسی بھی قسم کی جارحیت کرے گا تو اسے سخت جواب دیا جائے گا۔

برصغیر کو امن اور استحکام کے راستے پر لے کر جانا چاہیے نہ کہ جنگ کے اندھیروں میں دھکیلنا چاہیے، اور بھارت کی ایسی جنگی حرکات خطے میں امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہیں۔ اس وقت ضروری ہے کہ عالمی برادری بھارت کی جارحانہ سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ اور ایسی کوششیں کرے کہ برصغیر کو تباہی سے بچایا جا سکے۔ بھارت کی فوجی مشقوں کے بین الاقوامی نتائج کئی پہلوؤں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ علاقائی کشیدگی میں اضافہ: سرکریک کے متنازع علاقے میں بھارت کی بڑی فوجی مشقوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ جائے گی، جس سے پورے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام متاثر ہوگا۔

عالمی تشویش اور ردعمل: بین الاقوامی برادری خاص طور پر وہ ممالک جو جنوبی ایشیا میں امن میں دلچسپی رکھتے ہیں، بھارت کی ان جارحانہ تیاریوں کو تشویش کی نظر سے دیکھیں اور ممکن ہے کہ خطے میں تصادم کو روکنے کے لیے ثالثی یا دبائو ڈالنے کی کوشش کریں۔

علاقائی ریاستی عسکریت میں اضافہ: فوجی مشقیں اکثر عسکری قوت کا اظہار ہوتی ہیں، اور اس طرح کے مظاہروں سے خطے کے دیگر ممالک بھی اپنی دفاعی صلاحیتیں بڑھانے پر مجبور ہوسکتے ہیں، جس سے ہتھیاروں کی دوڑ میں شدت آ سکتی ہے۔

پاکستان کی دفاعی پوزیشن مضبوط ہونے کی عالمی قبولیت: بھارت کی جارحیت اور مشقوں کے جواب میں پاکستان کی چوکس رہنے اور دفاعی تیاری کرنے کی حکمت عملی کو عالمی سطح پر حمایت مل سکتی ہے، خاص طور پر اگر بھارت کی کارروائیاں خطے میں امن خراب کرنے کے مترادف سمجھی جائیں۔

سفارتی تعلقات پر منفی اثرات: بھارت کی فوجی سرگرمیاں پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات کو مزید پیچیدہ کر سکتی ہیں، خاص طور پر پاکستان سمیت دوسرے ممالک اور عالمی طاقتوں کے ساتھ، جنہیں خطے میں استحکام اور تعاون کی ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر، بھارت کی فوجی مشقیں عالمی سطح پر اس خطے میں جاری کشیدگی کو بڑھاوا دیں گی، جس کے اثرات صرف جنوبی ایشیا تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سفارتی اور سیکورٹی حلقوں میں بھی انہیں سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ عالمی ذمے دار طاقتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دو طرفہ امن کشیدگی دور کرنے کے لیے زور دیں تاکہ برصغیر کو جنگ کے خطرے سے بچایا جا سکے۔

سرکریک تنازع پر پاکستان کے دلائل اور ثبوت: 1۔ تاریخی اور جغرافیائی دعوے پاکستان کا موقف ہے کہ سرکریک کا علاقہ پاکستان کے صوبہ سندھ کا حصہ ہے اور اس کی سرحدیں تاریخی طور پر طے شدہ ہیں۔ پاکستان نے اپنے دعوے کی بنیاد برطانوی دور حکومت میں بننے والے نقشوں اور معاہدوں پر رکھی ہے، جن میں سرکریک کو پاکستان کی حدود میں شامل دکھایا گیا ہے۔ پاکستان کا اصرار ہے کہ بھارت اس علاقے میں اپنے دعوے کے لیے مناسب قانونی اور تاریخی حقائق پیش نہیں کر سکا۔ 2۔ پاکستان بار بار کہتا ہے کہ سرکریک تنازع کا پرامن حل بین الاقوامی قوانین کے تحت ہونا چاہیے، اور اس معاملے کو اقوام متحدہ یا دیگر بین الاقوامی فورمز پر لے جانے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ بھارت کی فوجی کارروائیاں اور مشقیں بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہیں اور خطے میں امن کے لیے خطرہ ہیں۔ 3۔ فوجی اور حکومتی ثبوت پاکستانی فوج اور حکومت نے متعدد بار بھارتی اقدامات کو غیر قانونی اور جارحانہ قرار دیا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت سرکریک میں اپنی فورسز کی تعیناتی بڑھا کر کشیدگی پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کو اس بات سے آگاہ کیا ہے اور اپنے دفاع کے لیے جوابی اقدامات کیے ہیں، جن کا مقصد علاقے میں سلامتی اور بقا کو یقینی بنانا ہے۔ 4۔ پاکستانی میڈیا، سیاسی جماعتیں اور عوام سرکریک کے حوالے سے یکساں موقف رکھتے ہیں کہ یہ علاقہ پاکستان کی اٹوٹ ملکیت کا حصہ ہے۔ اس بارے میں پاکستان کے اعلیٰ حکام مستعدی کے ساتھ عالمی برادری کو آگاہی دیتے رہے ہیں کہ بھارت سرکریک کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ 5۔ پاکستان کی پیش کردہ دستاویزات میں برطانوی دور کے نقشے، سرکاری خط و کتابت، اور اقوام متحدہ کے نوٹیفکیشن شامل ہیں جو اس خطے میں پاکستان کی حاکمیت کی تائید کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے متنازع علاقے میں فوجی مشقوں اور جھوٹے واقعات کو ایک پروپیگنڈے کے طور پر پیش کیا گیا ہے تاکہ علاقے میں کشیدگی کو بڑھا کر مسئلہ کشمیر جیسا تنازع پیدا کیا جا سکے۔

پاکستان کے دلائل اور ثبوت تاریخی، قانونی اور فوجی حقائق پر مبنی ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سرکریک پر پاکستان کا مؤقف مضبوط اور جائز ہے۔ بھارت کی جانب سے فوجی سرگرمیوں اور جھوٹے واقعات کے الزام نے خطے کی صورتحال کو نازک بنا دیا ہے، اور اس صورتحال میں پاکستان کا موقف خطے میں امن کے قیام کے لیے بین الاقوامی حمایت کے متقاضی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ پاکستان کی یہ پوزیشن عالمی قانون اور روایتی حقائق کے مطابق برقرار رہتی ہے اور اس کے مطابق سرکریک کا تنازع عالمی اداروں کی مداخلت سے طے ہونا چاہیے خاص کر اقوام متحدہ کے ذریعے۔ باہمی مذاکرات سے یہ معاملات طے نہیں ہو سکتے بھارت کو بین الاقوامی قوانین کی پابندی پر مجبور کرنا ہوگا کام چاہے طاقت کے ذریعے ہو یا بھارت پر اقتصادی پابندیاں لگا کر۔

 

وجیہ احمد صدیقی

متعلقہ مضامین

  • بھارتی افواج کی مشترکہ جنگی مشق ’’ایکسر سائز تریشول‘‘
  • پاکستان اور ترکیہ کی وزارت داخلہ کے مابین تعاون کو مزید فعال کرنے کیلئے جوائنٹ ورکنگ گروپ کے قیام پر اتفاق
  • صدرِ مملکت کی چین کے نائب صدر سے ملاقات،علاقائی و عالمی فورمز پر قریبی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • چیئرمین سی جے سی ایس سی کا برونائی کا دورہ، دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا برونائی کا دورہ، دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد کا دورہ برونائی، دفاعی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • صدر زرداری کی امیرِ قطر سے ملاقات، پاکستان اور قطر کے تاریخی تعلقات مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
  • پاکستان، ایران کے درمیان میڈیا کے شعبے میں تعاون کیلئے مفاہمتی یاداشت پر دستخط 
  • پاکستان اور ایران کے درمیان میڈیا کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ، اب تعلقات مزید مستحکم ہوں گے، عطااللہ تارڑ
  • کینیڈا اور پاکستان کا دوطرفہ تعلقات میں نئے باب کے آغاز پر اتفاق