Jasarat News:
2025-07-06@07:23:57 GMT

جب کربلا نے پکارا!

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ماہِ محرم آتا ہے تو واقعاتِ کربلا کا تذکرہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان واقعات کی تاریخی شہادتیں اور مستند اسناد موجود ہیں مگر مجالس کے بیشتر واقعات مبالغہ آمیزی، داستان گوئی اور محفل آرائی کے زمرے میں آتے ہیں۔ سیّدنا امام حسینؓ نے دیگر صحابہ کی طرح یزید کی حکومت کو اس بنیاد پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ ایک نااہل اور کردار کے لحاظ سے انتہائی پست انسان تھا۔ آپؓ کو اہلِ عراق نے سفارتوں اور خطوط کے ذریعے سے دعوت دی کہ وہ کوفہ آجائیں تاکہ لوگ ان کی بیعت کر لیں۔ یہ طویل داستان تاریخ میں محفوظ ہے۔ کئی پیش بندیاں کرنے اور اپنے نمائندے مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ بھیجنے کے بعد آپؓ نے اس پُر خطر سفر کا فیصلہ کیا تھا۔ بعد میں حالات بدل گئے اور عراق کے نئے گورنر عبیداللہ ابنِ زیاد کے ظلم و ستم کے نتیجے میں بزدل اور بے وفا کوفیوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ مسلم بن عقیلؓ اور ان کے بچوں کو شہید کر دیا گیا، اور حالات یکسر بدل گئے۔ اس وقت تک امام حسینؓ حدودِ عراق میں داخل ہو چکے تھے۔ بدلے ہوئے حالات میں انہوں نے مزاحم قوتوں سے کہا کہ وہ ان کا راستہ چھوڑ دیں تاکہ وہ براہِ راست یزید سے جاکر بات کر لیں، یا ان کو واپس جانے دیا جائے مگر انہیں بتایا گیا کہ یا تو یزید کی بیعت کریں یا پھر مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ان حالات میں امام حسینؓ نے بزدلی کی بجائے بہادری کا راستہ اپنایا، اور رخصت کی بجائے عزیمت کی راہ لی۔ پھر وہ المناک معرکہ پیش آیا جس میں ایک جانب چند اہلِ حق تھے اور دوسری جانب ہوا و ہوس کے غلام ہزاروں لشکر۔ اس معرکے میں سیدنا حسینؓ کے تمام ساتھی ایک ایک کر کے شہید ہوتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ ایک معصوم بچہ بھی شہید ہوگیا۔

واقعاتِ کربلا تفصیلی ہیں، مگر اختصار کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جب سیدنا امام حسینؓ کو تمام راستے مسدود کرکے جنگ پر مجبور کر دیا گیا تو پھر آپؓ نے پیٹھ نہیں پھیری۔ البتہ یہ بھی آپ کی عظمت ہے کہ رات کو آپ نے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا کہ یہ لوگ میرے خون کے پیاسے ہیں۔ انھیں یا تو میری بیعت چاہیے یا پھر سر۔ آپ لوگوں سے ان کو کوئی غرض نہیں ہے۔ آپ رات کی تاریکی میں خاموشی سے یہاں سے کوچ کر جائیں۔ میں ان سے خود نمٹ لوں گا مگر ان کے سب ساتھیوں نے یک زبان یہ کہا کہ ہم کسی صورت آپؓ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا جینا مرنا آپ کے ساتھ ہے۔ آپ کے ان ساتھیوں میں حُر بن یزید اور اس کے چند رفقا حقیقت میں بنو امیہ کی طرف سے آپ کا راستہ روکنے والوں میں شامل تھے مگر آپؓ کی پر اثر تقریر کو سن کر انھوں نے سرکاری ذمے داریوں اور مناصب کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا اور آپ کے ساتھ آخر وقت تک وفاداری کا حق نبھایا۔
جب آپؓ کے سب ساتھی ایک ایک کرکے شہید ہوگئے تو آپ نے ایک یمنی چادر اپنے بدن پر لپیٹ لی۔ پھر تلوار لے کر میدان میں اترے۔ وہ جس جانب جھپٹتے تھے جنگجُو منتشر ہوجاتے تھے۔ آپ کو کئی زخم لگ چکے تھے اور پیاس سے بھی آپ نڈھال تھے۔ موت آنکھوں کے سامنے تھی مگر آپ بلا خوف و خطر دشمن سے نبرد آزما رہے۔ کربلا کا ذرہ ذرہ اس شہید وفا کو دیکھ کر پکار رہا تھا ؎
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں

دس محرم کے روز ظہر اور عصر کے درمیان آپؓ کی شہادت ہوئی۔ آپ کے قاتل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شمر بن ذی الجوشن تھا جبکہ یہ رائے بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ کو قبیلہ مْذحج کے ایک بدبخت شخص نے شہید کر دیا۔ یہ رائے امام ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں دی ہے۔ اس کے مقابلے میں تاریخ طبری میں جس شخص کو آپؓ کا قاتل قرار دیا گیا ہے، وہ نسان بن انس نخعی تھا اور آپ کا سر کاٹنے والے کا نام طبری نے خولی الاصبعی بیان کیا ہے۔ یہی رائے امام ذہبی کی بھی ہے۔
ایامِ کرب و بلا میں بعض مواقع پر خیموں میں موجود خواتین کی طرف سے اگر کسی نوعیت کی پریشانی کا اظہار ہوا تو اس عظیم انسان نے انھیں بہترین انداز میں تلقین فرمائی کہ مومن کی ڈھال صبر ہے۔ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی حیاتِ ابدی کو اتنے موثر اور دلنشین پیرائے میں بیان فرماتے رہے کہ ان کے ملفوظات پڑھ کر دل کو عجیب تسکین ملتی ہے۔ اگر امام حسینؓ کمزوری دکھا جاتے تو ایک بہت بڑا فکری انحراف رونما ہوجاتا۔ اس میں شک نہیں کہ عملی طور پر خلافت ملوکیت میں بدل گئی جو امت کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے، مگر یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ اگر فکری لحاظ سے بھی یہ امت راستہ کھو بیٹھتی تو اس کا حال بھی ان دیگر مذاہب کی طرح ہوتا جو الہامی کتب اور وحیِ ربانی کی روشنی سے فیض یاب ہونے کے باوجود مکمل طور پر اپنی منزل سے نابلد ہوگئے اور اپنا تشخص کھو بیٹھے۔ شہادتِ حسین ایک بہت بڑا سانحہ ہے لیکن اس کے بعد کے مراحل اس سے بھی زیادہ دلدوز ہیں۔

مستند روایات کے مطابق سیدنا حسینؓ کا سر کاٹ کر پہلے کوفہ میں عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا، پھر دمشق میں یزید کے دربار میں پیش کیا گیا۔ دونوں جگہ ان دونوں بد بخت افراد نے نواسۂ رسول کے بارے میں گستاخانہ رویہ اختیار کیا۔ یزید کے دربار میں جب امام کا سر پیش کیا گیا تو اس نے آپؓ کے چہرہ مبارک پر ایک چھڑی سے ٹھونکا دیا۔ مورخین کے مطابق اس نے بار بار یہ حرکت کی۔ اس موقع پر دربار میں آنحضورؐ کے صحابی سیدنا ابو برزہ اسلمیؓ بھی موجود تھے۔ ان سے برداشت نہ ہوسکا اور انھوں نے کہا: اے یزید! اس چہرۂ مبارک سے چھڑی دور کر لو۔ خدا کی قسم! میں نے اپنی آنکھوں سے بارہا یہ منظر دیکھا کہ نبی اکرمؐ اپنے مبارک لبوں سے اس چہرے کو نہایت محبت سے چوما کرتے تھے۔ دونوں درباروں میں خاندانِ اہل بیت کی عفت مآب بیٹیوں کو بھی حاضر کیا گیا اور دونوں جگہ ابن زیاد اور یزید نے بڑے تکبرکا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ حسین باغی تھا جو اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ ہر دو مقامات پر سیدنا حسینؓ کی شیردل ہمشیرہ سیدہ زینب بنت علیؓ نے ان کو منہ توڑ جواب دیا۔
یزید کو معاویہؓ نے بارہا یہ نصیحت کی تھی کہ وہ سیدنا حسینؓ کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے۔ فرمایا: حسینؓ، فاطمہؓ بنت محمدؐ کا بیٹا ہے۔ لوگوں کے دل میں اس کی بڑی محبت ہے۔ اس کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ہمیشہ صلہ رحمی اور نرمی اختیار کرنا۔ وہ ہمارے قریبی رشتے دار ہیں۔ یزید نے اپنے والد کی نصیحت پر عمل کرنے کے بجائے وہ راستہ اختیار کیا جو ظلم، شقاوت، سنگ دلی اور قطع رحمی کی بدترین مثال ہے۔ یزید کے بعض وکلا اس کی بریت ثابت کرنے کے لیے یہ دور کی کوڑی بھی لاتے ہیں کہ اس نے سیدنا حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا، یہ محض عبیداللہ بن زیاد کا عمل ہے۔ ان وکلا کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں کہ اگر اس نے ایسا حکم نہیں دیا تھا تو:

1۔کیا اس نے ابن زیاد سے کوئی ہلکی سی بھی باز پرس کی کہ اس کے حکم کے بغیر اس نے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیوں کیا؟
2۔تاریخ کے اس ریکارڈ کا کیا کیا جائے کہ ابن زیاد جس سے یزید نالاں تھا اس واقعے کے بعد اس کا پسندیدہ اور چہیتا گورنر بن گیا؟
3۔جب شہید کربلا کا سر یزید کے دربار میں پہنچا تو ابن زیاد ہی کی طرح ان کے چہرہ اطہر پر چھڑی سے ٹھونکے کیوں دیے گئے؟
4۔اتنے بڑے سانحے کے بعد بنات اہل بیت کو جس لب و لہجے میں اپنے دربارمیں اس نے مخاطب کیا اس کا اخلاقی یا انسانی لحاظ سے کیا جواز تھا؟
یزید کے اس عمل کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں۔ البتہ امام ابن تیمیہؒ کی طرح ہمارا موقف یہ ہے کہ اس کے باوجود سب و شتم اسلامی نقطۂ نظر سے ہر گز پسندیدہ عمل نہیں۔ یزید کا جو بھی جرم ہے، اس کا بدلہ وہ اللہ کے ہاں پارہا ہوگا اور روز محشر بھی پائے گا۔ اخلاقِ نبوی سے جو سبق ملتا ہے اس کے مطابق کسی جانی دشمن، بدترین کافر اور ناپاک جانور کو بھی گالی دینا منع ہے۔ ایک مومن کے لیے اسوۂ حسنہ رسول اللہ کی ذاتِ اقدس ہے۔ جہاں ہم اپنا یہ موقف واضح کرنا چاہتے ہیں وہیں ہم بلا خوف لومۃ لائم یہ حقیقت بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یزید جیسا ایک فرد جس کے بارے میں اس دور میں زندہ صحابہ کرام کی ایک بہت بڑی اکثریت کے خیالات و ملفوظات غیر مبہم انداز میں بتاتے ہیں کہ وہ ایک انتہائی ناپسندیدہ کردار ہے، نرم گوشہ رکھنا بڑی جسارت اور ناانصافی ہے۔ پھر یہ تو ایک جرم سے کم نہیں کہ جس شخصیت کو نبی اکرمؐ نے جنت کے نوجوانوں کا سردار ہونے کی بشارت دی، جسے آپؐ نے اپنے بازووں اور کندھوں پر اٹھایا اور جسے آپ نے اپنا محبوب قرار دیا، اس کے مقابلے میں یزید جیسے ایک مستبد، بدعمل اور قاتل حکمران کو ترجیح دی جائے۔ آنحضورؐ کی یہ حدیث کافی واضح ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص اسی کے ساتھ کھڑا ہوگا، جس کے ساتھ اس نے محبت کی۔ (صحیح بخاری)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ابن زیاد بن زیاد کے ساتھ کیا گیا یزید کے ہے کہ ا ہیں کہ کے لیے کی طرح کر دیا

پڑھیں:

واقعہ کربلا ظلم کیخلاف جرأت کی ترغیب دیتا ہے: مریم نواز

لاہور (نوائے وقت رپورٹ) ’’شاہ است حسین ؓ، بادشاہ است حسینؓ‘‘، وزیر اعلیٰ مریم نواز نے یوم عاشورہ پر اپنے پیغام میں کہا کہ حضرت امام حسینؓ اور ان کے جلیل القدر رفقاء کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اہل بیت سے محبت ہر مسلمان کے عقیدے اور ایمان کاجز ہے۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت نے امر کر دیا کہ تخت و تاج فانی ہے، اصول اور ایمان باقی ہیں۔ شہادت حسینؓ محض رنج و الم کا استعارہ نہیں بلکہ تحریک حیات ہے۔ حسنؓ اور حسینؓ حضرت محمدؐ کے دو پھول ہیں۔ حضرت امام حسینؓ کی جدوجہد کا بنیادی ہدف ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف سینہ سپر ہونے کے شعور کو بیدار کرنا تھا۔ حضرت امام حسین ؓ اور ان کے جانثار ساتھیوں کی عظیم قربانی تاریخ عالم کا درخشاں باب ہے۔ شہداء کربلا کی یاد تا ابد مظلوم قوموں کو حوصلہ اور ولولہ عطا کرتی رہے گی۔ مٹانے والے خود مٹ گئے، حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھی ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کی صدائے انقلاب ہر دور میں بلند ہوتی رہی ہے اور رہے گی۔ نواسہ رسولؐ کی جدوجہد ظلم اور جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے کا ابدی پیغام ہے۔ آج یوم عاشور پر ہمیں حضرت امام حسینؓ کی درخشاں تعلیمات کے مطابق عمل پیرا ہونے کا اعادہ بھی کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے کہاکہ واقعہ کربلا ہر فرد ہر قوم کو باطل سے حق اور فتنہ سے اتحاد کی دعوت دیتا ہے۔ واقعہ کربلا حق گوئی او رظلم کے خلاف آواز کی جرات کی ترغیب دیتا ہے۔ محرم الحرام ہمیں انفرادی اصلاح، اجتماعی فلاح اور باہمی اتحاد کا پیغام دیتا ہے۔ علاوہ ازیں مریم نواز  نے محرم کے موقع پر امن وامان، صفائی، عوام اور عزاداروں کی خدمت کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ پنجاب کی تاریخ کے محرم الحرام کے سب سے بڑے انتظامات کئے گئے۔ عزاداروں کے جلوسوں، مجالس کی بھرپور سکیورٹی کی گئی، پنجاب میں ایک لاکھ 8ہزار سے زائد پولیس اہلکار محرم میں سکیورٹی پر تعینات ہیں۔ انتظامیہ، پولیس، ریسکیو اور دیگر اداروں کابے مثال اشتراک کار عمل جاری رہا۔ امن کمیٹیوں کے ارکان جلوسوں اور مجالس کے قریب موجود  رہے اور انتظامات میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ محرم الحرام میں پہلی مرتبہ فیک نیوز کے سدباب کے لیے سائبر پٹرولنگ بھی کی جا رہی ہے۔ صوبائی، ڈویژن اور ڈسٹرکٹ میں جامع مانیٹرنگ کے لئے 7/24 کنٹرول روم قائم کئے گئے۔ عزاداروں کو خوراک اور پانی فراہم کیا گیا۔ فیلڈ ہسپتال، کلینکس آن ویلز سمیت پورا طبی عملہ موجود رہا ہے۔ عزاداروں کے لئے شربت اور لیموں پانی کی سبیلیں بھی قائم کی گئیں۔ عاشورہ کے جلو س کے شرکاء کے لئے ٹھنڈے پانی کی بوتلوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔ سکیورٹی کے لئے سیف سٹی کیمروں سے مسلسل نگرانی جاری ہے۔ داخلی اور خارجی مقامات پر خصوصی سکیورٹی گیٹس لگائے گئے۔ ڈرونز سے بھی نگرانی کی گئی۔ جلوس اور مجالس کیلئے ستھرا پنجاب کے تحت صفائی کا خصوصی اہتمام کیاگیا- گرمی اور حبس کے پیش نظر مجالس اور جلوس کے راستوں میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا -جلوسوں کے راستے سے ہر طرح کی رکاوٹیں ہٹائی گئیں۔ ادھر مریم نواز نے مظفرگڑھ کے قریب ٹریلر اور بس کے تصادم میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ علاوہ ازیں مریم نواز نے تونسہ کے قریب دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائی پر پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی کو شاباش دی ہے۔ پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی فتنہ الخوارج کے 5 دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر تحسین کی مستحق ہیں۔ وزیراعلیٰ نے پولیس اور سی ٹی ڈی ٹیم کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو خراج تحسین پیش کیا۔ مریم نواز نے کہاکہ دہشت گردوں کا تعاقب جاری رہے گا، دشمن کے مذموم عزائم خاک میں ملا دیں گے۔ علاوہ ازیں مریم نواز کی ہدایت پر حضرت سید علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کے مزار کے سالانہ غسل مبارک کی تقریب میں آنے والے زائرین کیلئے بہتر سے بہترین انتظامات کئے گئے۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر حضرت داتا گنج بخشؒ کے غسل مبارک کی تقریب میں سکیورٹی انتظامات کی مسلسل مانیٹرنگ جاری رہی۔ رش اور بھگدڑ سے بچنے کے لئے بہترین نظم و ضبط کا اہتمام کیا جائے۔ مریم نواز شریف نے اپیل کی کہ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی، سلامتی، استحکام اور سربلندی کیلئے خصوصی دعائیں کی جائیں۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے محبت، احترام، امن اور رواداری کا پیغام عام کیا ہے۔ دوسری جانب مریم نواز نے کیپٹن کرنل شیر خان شہید (نشانِ حیدر) کے 26 ویں یومِ شہادت پر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید نے دشمن کے سامنے فولادی دیوار بن کر مادر وطن کا دفاع کیا۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں آنے والی نسلوں کے دلوں میں حب الوطنی کا چراغ روشن کرتی رہیں گی۔ کیپٹن کرنل شیر خان شہید نے یہ ثابت کیا کہ وطن کی حرمت ہر چیز سے مقدم ہے۔ قوم اور افواج پاکستان کی بے مثال قربانیاں ہی اس وطن کی اصل طاقت ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حسینؓ کا راستہ یا یزید کا؟
  • واقعہ کربلا ظلم کیخلاف جرأت کی ترغیب دیتا ہے: مریم نواز
  • میدانِ کربلا کے عظیم شہسوارسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ
  • حق کی راہ میں دی جانے والی ہر قربانی باعثِ فخر ہے؛ محمد جنید انوار
  • موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
  • ہیرو آف کربلا
  • کربلا میں خواتین کا بے نظیر کردار
  • شریکۃ الحسین، ثانی زہرا، صحیفۂ وفا، سفیر کربلا سیّدہ زینبؓ
  • قیامِ امام حسین عالی مقامؓ