نورِ مصائب: اپنے مولا و آقا امام حسینؑ سے کسب شدہ رہبرِ انقلاب کی ایک جاوداں سیرت
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کربلا میں امام حسینؑ کی شہادت، اسلام کی حیاتِ نو کا ذریعہ بنی، آج بھی شہادتیں امتِ مسلمہ کی بیداری کا سبب ہیں۔ ہمارا یہ دور، جسے عصرِ غیبت کہا جاتا ہے، درحقیقت امامِ زمانہؑ کی نیابت کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہے۔ ’’حسینؑ منی و انا من الحسینؑ‘‘ یہ حدیث نہ صرف نسبی رشتے کی نشاندہی کرتی ہے، بلکہ مقصدِ شہادت کی وحدت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے ۔ آج بھی ہر وہ قیادت جو "مِنْ الحسین" ہے، وہی راہِ حق پر چلنے والوں کو نورِ ہدایت بخشتی ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں اہل بیتؑ کی سیرت پر چلنے والی قیادت میسر آئی۔ تحریر: ابو ہادی رضوی
1۔ مصائب میں چہرۂ انور: امام حسینؑ کی تاریخی سیرت
امام حسینؑ پر روزِ عاشورا جیسے جیسے مصائب کی شدت بڑھی، آپ کا چہرہ مبارک روشن تر ہوتا گیا۔ تاریخی روایات کے مطابق، جب آپؑ تنہا رہ گئے، زخموں سے چور ہو چکے تھے، اور تشنگی نے جان لیوا شکل اختیار کر لی تھی، تب بھی آپ کے چہرے پر سکونِ ایمانی اور نورِ ولایت جگمگا رہا تھا۔ یہ کیفیت صرف جسمانی تابانی نہیں، بلکہ ربانی تائید کی علامت تھی، جس کا تذکرہ مصائبِ کربلا کی تفصیلات میں ملتا ہے ۔ جیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ ’’جب امامؑ میدانِ جنگ میں اترے، آپ کے چہرے پر ایسی تابانی تھی کہ دشمن بھی حیران رہ گیا‘‘۔
2۔ موجودہ دور میں رہبرِ انقلاب کی استقامت کا نمونہ
جس طرح امام حسینؑ مصائب میں مضبوط رہے، ان کے فرزند اور غلام آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی شخصیت بھی شدائد میں نورانیت کی زندہ مثال ہے۔
● شہادتوں کے بعد تابانی:
شہید قاسم سلیمانی کی شہادت ہو یا سید حسن نصر اللہ کی، وہ شہید اسمٰعیل ہنیہ کے شہادت ہو یا شہید شہید یحی سنوار کی، یا حالیہ جنگ میں انقلاب اسلامی پر صیہونی حملوں کے نتیجے میں سپاہ پاسداران انقلاب اور آرمی کے سربراہوں اور جنرلز کی شہادتیں ہوں یا عظیم سائنسدانوں اور عوام کی شہادتیں، ان سب کے بعد بھی آپ کے چہرے کی ’’روحانی تابانی میں اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔ یہ کیفیت اُس "نورِ مصائب" کی یاد دلاتی ہے جو کربلا میں جلوہ گر ہوئی تھی۔
● فلسطین اور صہیونی جارحیت:
غزہ کے مظلوموں پر ظلم کے دور میں بھی آپ کے خطابات میں امید اور جہد کی روشنی موجود رہتی ہے، جو اہل بیتؑ کی سیرت کی عکاسی کرتی ہے۔
3۔ عشرۂ محرم ۱۴۴۷ ہجری: رہبر کی عدم موجودگی اور پھر اچانک شرکت
● دھمکیوں کے باوجود عاشورائی عزم:
امریکی و صہیونی دھمکیوں کے باعث رہبر کی مجالسِ عزاء میں عدم شرکت سے دل گرفتگی پھیلی، لیکن یہ فیصلہ بذاتِ خود حفاظتِ رہبریتِ امت کے لئے تھا۔
● شبِ عاشور کی مجلس میں اچانک شرکت:
حسین علیہ السلام کا غلام ہو اور حسین علیہ السلام کی مجلس میں شرکت نہ کرے، ایسا ہو نہیں سکتا۔ جب آپ اچانک حسینیہ امام خمینیؒ میں تشریف لائے، تو حاضرین نے "حَیدَر حَیدَر" کے نعروں سے استقبال کیا۔ یہ منظر اُس روحانی تعلق کی یاد دلاتا ہے جو امام حسینؑ کے غلاموں کو ان کی ذات سے ہوتا ہے۔
4۔ نتیجہ: ایک جاوداں سیرت معصومین علیہ السلام
● امام حسینؑ کی سیرت سے کسب شدہ یہ سیرت رہبر انقلاب کی استقامت کا مظہر ہے:
مصائب میں صبر، استقامت، اور نورِ ایمانی کی افزائش۔ جیسے کربلا میں شہادت، اسلام کی حیاتِ نو کا ذریعہ بنی، آج بھی شہادتیں امتِ مسلمہ کی بیداری کا سبب ہیں۔ ہمارا یہ دور، جسے عصرِ غیبت کہا جاتا ہے، درحقیقت امامِ زمانہؑ کی نیابت کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہے۔ ’’حسینؑ منی و انا من الحسینؑ‘‘ یہ حدیث نہ صرف نسبی رشتے کی نشاندہی کرتی ہے، بلکہ مقصدِ شہادت کی وحدت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے ۔ آج بھی ہر وہ قیادت جو "مِنْ الحسین" ہے، وہی راہِ حق پر چلنے والوں کو نورِ ہدایت بخشتی ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں اہل بیتؑ کی سیرت پر چلنے والی قیادت میسر آئی۔ جس طرح کربلا میں مصائب، نورِ امامت کو دھندلا نہ سکے۔ آج بھی ہمارا عزم ہے۔ "هذا هو عهدنا مع الحسين"۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کربلا میں کی شہادت کرتی ہے پر چلنے کی سیرت آج بھی
پڑھیں:
زائد پالیسی ریٹ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے،امان پراچہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(بزنس رپورٹر) وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت(ایف پی سی سی آئی) کے نائب صدر محمدامان پراچہ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی سود کی شرح کو 11 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے کوحقا ئق کے مخالف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک غیرمتنازع مانیٹری پالیسی جس میں شرح سود سنگل ڈیجٹ میں ہو، صنعتی پیداوار میں اضافہ، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور قیمتوں کے استحکام کے لیے ضروری ہے،اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ کو برقرار رکھنا موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں ”ناقابلِ فہم” ہے۔ امان پراچہ نے کہا کہ موجودہ مہنگائی کی شرح کو مدِنظر رکھتے ہوئے پالیسی ریٹ کو کم کرکے ابتدائی مرحلے میں سنگل ڈیجٹ اور بعدازاں 6 سے 7 فیصد کے درمیان لانا چاہیے تاکہ معاشی حقائق سے ہم آہنگی پیدا ہو اور ترقی کو فروغ ملے۔ نائب صدر ایف پی سی سی آئی نے کہا کہ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ اگست 2025 میں مہنگائی کی شرح 3 فیصد تک آ چکی ہے اور زیادہ شرح سود براہِ راست پیداواری لاگت کو متاثر کرتی ہے،پاکستان میں شرح سود خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پہلے ہی کہیں زیادہ ہے جو معاشی سرگرمیوں کوبری طرح سے متاثر کرتی اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جبکہ سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جبکہ زیادہ شرح سود کرنسی کے بہاؤ کو محدود کرتی ہے، جس سے معاشی سرگرمیاں اور ترقی متاثر ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سود کی شرح کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کاروباری ماحول کو سخت متاثر کرے گا، سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرے گا اور معاشی بحالی کو روکے گا،اس لئے کاروبار کو فروغ دینے اور عالمی منڈی میں مسابقتی رہنے کے لیے ضروری ہے کہ پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے۔