عینی شاہدین کے مطابق، اسرائیلی فضائیہ نے 4 اسکولوں کو نشانہ بنایا، غزہ شہر کے ایک رہائشی صلاح الدین نے بتایا: "دھماکے رکنے کا نام نہیں لے رہے، اسکولوں اور گھروں پر بمباری کی گئی، ہر لمحہ زلزلے جیسا محسوس ہوتا ہے۔" اسلام ٹائمز۔ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے تازہ ترین اور شدید ترین حملوں میں کم از کم 60 فلسطینی شہید ہوگئے۔ اسرائیلی ٹینک مشرقی غزہ کے علاقے زیتون میں داخل ہوگئے اور اسکولوں پر بمباری کی گئی، جس کے باعث ہزاروں خاندانوں کو جان بچا کر نقل مکانی کرنا پڑی۔ عینی شاہدین کے مطابق، اسرائیلی فضائیہ نے 4 اسکولوں کو نشانہ بنایا، غزہ شہر کے ایک رہائشی صلاح الدین نے بتایا: "دھماکے رکنے کا نام نہیں لے رہے، اسکولوں اور گھروں پر بمباری کی گئی، ہر لمحہ زلزلے جیسا محسوس ہوتا ہے۔" صحت حکام کا کہنا ہے کہ صرف پیر کے روز 58 افراد شہید ہوئے، جن میں زیتون میں 10، غزہ شہر کے جنوب مغرب میں 13 افراد شامل ہیں۔ مزید 22 افراد، جن میں خواتین، بچے اور ایک مقامی صحافی شامل ہیں، ایک ساحلی کیفے پر حملے میں شہید ہوئے۔

فلسطینی صحافیوں کی تنظیم کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 220 سے زائد صحافی شہید ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ وہ صرف حماس کے عسکری مراکز کو نشانہ بنا رہی ہے اور شہریوں کے تحفظ کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم، گراؤنڈ پر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، غزہ کی 80 فیصد آبادی یا تو بے گھر ہو چکی ہے یا نقل مکانی پر مجبور ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی 60 روزہ جنگ بندی کی تجویز دی گئی ہے، جس کے تحت حماس آدھے یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جبکہ اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو چھوڑے گا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے امریکی تجویز تسلیم کر لی ہے، اب فیصلہ حماس کو کرنا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے مطابق

پڑھیں:

پُر امن فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کا حملہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251003-03-2

 

وہی ہوا جس کا ڈر تھا، عالمی دہشت گرد ریاست اسرائیل کی فوج نے تمام بین الاقوامی ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے گلوبل صمود فلوٹیلا پر حملہ کر دیا ہے اور ظالم اسرائیلی فوجی اہلکار انسانی ہمدردی کے تحت غزہ میں محصور فلسطینی باشندوں کے لیے خوراک اور دوسرا امدادی سامان لے جانے والے بحری قافلے کے جہازوں میں داخل ہو گئے ہیں اور ان جہازوں پر سوار امدادی کارکنوں اور انسانی حقوق کے علمبردار رضا کاروں کو حراست میں لے لیا ہے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا کے قافلہ میں شامل کشتیوں کے غزہ کے قریب پہنچنے پر ان پر سوار افراد کی حفاظت کے پیش نظر فلو ٹیلا کے منتظمین نے براہ راست ویڈیو ٹیلی کاسٹ کرنا شروع کر دی تھی تاہم اسرائیلی فوجیوں نے جہازوں اور کشتیوں پر حملہ کے فوری بعد سب سے پہلا کام یہی کیا کہ کیمرے بند کروا دیے اور اس کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کر دیں۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ امدادی کارکن اور رضا کار ایک ’’قانونی بحری ناکہ بندی‘‘ کی خلاف ورزی کی کوشش کر رہے تھے۔ اسرائیل کے اس ظالمانہ اقدام اور مسلمہ بین الاقوامی قانون، جس کی رو سے انسانی امداد کے قافلوں کو کسی صورت روکا نہیں جا سکتا، کی خلاف ورزی پر عالمی سطح پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اٹلی کی سب سے بڑی ورکرز یونین نے صمود فلوٹیلا کے ساتھ اسرائیلی فوج کی طرف سے روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف جمعہ کے روز احتجاج کے طور پر عام ہڑتال کی کال کا اعلان کیا ہے۔ قبل ازیں اطالوی وزیر خارجہ زنتونیو تا جانی نے کہا تھا کہ ان کے اسرائیلی ہم منصب نے انہیں یقین دلایا ہے کہ اسرائیلی افواج فلوٹیلا کے رضا کاروں پر کسی قسم کا تشدد نہیں کریں گی۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانجیسکا البانیز اور کولمبیا کے صدر گستاد پیئرو نے مطالبہ کیا ہے کہ فلو ٹیلا کو کسی رکاوٹ اور نقصان کے بغیر آگے بڑھنے دیا جائے۔ فلوٹیلا کے ایک جہاز پر سوار امریکی خاتون رضا کار لیلیٰ مجازی نے اپنے پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام کے ذریعے دنیا کو بتایا ہے ہے کہ میرے اس ویڈیو پیغام جاری کرنے کا مطلب ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے ہمیں اغواء کر لیا ہے اور ہمیں ہماری مرضی کے خلاف زبردستی اسرائیل لے جایا جا رہا ہے، لیلیٰ مجازی نے اپنے اس پیغام میں عالمی رائے عامہ پر زور دیا ہے کہ ’’میں آپ سب سے درخواست کرتی ہوں کہ امریکی حکومت پر دبائو ڈالیں کہ وہ غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کی سرپرستی اور شراکت ختم کرے اور فلوٹیلامشن میں موجود انسانی ہمدردی کے تمام کارکنوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنائے۔ گلوبل صمود فلوٹیلا کا مقصد اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کا غیر انسانی اور غیر قانونی محاصرہ توڑنا، محصورین تک خوراک اور انسانی امداد پہنچانا اور غزہ کے لیے ایک انسانی راہداری قائم کرنا ہے۔ اس مشن کو بین الاقوامی سول سوسائٹی کی طرف سے منظم کیا گیا ہے۔ ’صمود‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب مزاحمت اور استقامت ہے۔ اس مشن میں دنیا بھر کے انسانی حقوق کے کارکنان، ڈاکٹر، وکلا، سیاست دان، فنکار اور انسانی حقوق سے متعلق مختلف تنظیموں کے نمائندے شامل ہیں۔ کم و بیش پچاس کشتیوں پر سوار چوالیس سے زائد ملکوں سے تعلق رکھنے والے ان رضا کاروں کی تعداد پانچ سو سے زائد ہے۔ سول سوسائٹی کے زیر اہتمام یہ اپنی نوعیت کی تاریخ کی سب سے بڑی بحری مہم بتائی جاتی ہے۔ اس مہم میں شریک کشتیوں اور جہازوں نے اسپین کے شہر بار سلونا اور تیونس سمیت مختلف بندر گاہوں سے اپنا سفر شروع کا تھا اور اب اکٹھے ہو کر غزہ کی جانب بڑھتے ہوئے وہاں کی ناکہ بندی توڑنے اور وہاں محصور فلسطینی باشندوں کو خوراک، ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے لیے کوشاں ہیں۔ فلوٹیلا میں ایک وفد پاکستان کی نمائندگی بھی کر رہا ہے اس پاکستانی وفد کی قیادت جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خاں کر رہے ہیں جنہوں نے فلوٹیلا کے آغاز سے اسرائیلی فوج کے اس پر حملے تک مسلسل پاکستانی عوام سے رابطہ رکھا اور گلوبل صمود فلوٹیلا کے سمندر کی لہروں پر سفر اور سرگرمیوں کے بارے میں اپنے اہل وطن اور دنیا بھر میں اردو سمجھنے والوں کو آگاہ اور باخبر رکھا۔ اس بحری قافلے میں معروف ماحولیاتی کارکن گرینا تھنبرگ، فراسیسی سیاست دان میری میسحود اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن سمیت انسانیت کا درد رکھنے والے مختلف مذاہب، مختلف ممالک اور مختلف براعظموں سے تعلق رکھنے والے مختلف رنگ و نسل کے متعدد اہم لوگ شامل ہیں۔ اسرائیل نے قافلہ کے شرکاء کو اپنی فوج کے ذریعے باقاعدہ حراست میں لینے سے قبل ڈرونز کی پروازوں کے ذریعے رضا کاروں کو خوفزدہ کرنے کی متعدد کوششیں کیں تاہم بحری بیڑے کے رضا کاروں نے آخر دم تک ہمت نہیں ہاری اور کوئی کمزوری دکھائے بغیر بلند حوصلوں کے ساتھ اپنی طے شدہ منزل مقصود کی جانب استقامت اور پامردی سے سفر جاری رکھا۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے قافلے کے شرکاء کو گرفتار کرنے سے قبل فلوٹیلا میں شامل ’الما‘ نامی مرکزی کشتی کے جی پی ایس اور انٹرنیٹ سسٹم پر سائبر حملہ کر کے اس سے باقی دنیا کا رابطہ منقطع کر دیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان کے ذریعہ گلوبل صمود فلوٹیلا اور اس کے رضا کاروں کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ریاستوں کی مسلسل بے عملی نے دنیا بھر کے انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے کارکنوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ محاصرہ توڑنے کے لیے پر امن اقدامات کریں ریاستوں کی ذمے داری ہے کہ وہ فلوٹیلا کو محفوظ راستے کی ضمانت دیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ ریاستیں کہاں ہیں جن سے ایمنسٹی انٹرنیشنل، فلوٹیلا کے تحفظ و سلامتی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس ترقی یافتہ اور مہذب ہونے کی دعوے دار دنیا میں ان ریاستوں کا کوئی وجود ہوتا تو اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کی ہمت ہی کیوں ہوتی؟ اب ان سب ریاستوں کی ناک کے نیچے اور آنکھوں کے سامنے اسرائیل نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی ہمدردی کے کارکنوں کے مکمل طور پر پرامن قافلے کو روک ہی نہیں لیا بلکہ ان رضا کاروں کو حراست میں بھی لے لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا میں امن اور انسانی حقوق کی ان نام نہاد علم بردار ریاستوں کو غزہ میں انسانیت کا بہتا ہوا خون کیوں نظر نہیں آتا۔ بھوک سے بلکتے بچے، ادویات اور علاج معالجہ سے محروم زخموں سے چور کراہتے ہوئے نہتے اور بے بس شہری اور بے یارو مدد گار، مظلوم، مجبور اور محصور خواتین کیوں دکھائی نہیں دیتیں کیا اس کی وجہ اس کے علاوہ کوئی اور بھی ہے کہ یہ مظلومین اور محصورین مسلمان ہیں اور بے دریغ بہایا جانے والا یہ خون مسلمانوں کا ہے…؟ امریکی صدر ٹرمپ کی تمام دھمکیاں اور الٹی میٹم آخر ’حماس‘ اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں ہی کے خلاف کیوں بروئے کار آتے ہیں وہ آخر اسرائیل کو بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری، بین الاقوامی قوانین کی پابندی اور بے گناہ انسانی جانوں کے تحفظ و سلامتی پر مجبور کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کرتے؟؟

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل نے ٹرمپ کا غزہ پر حملے روکنے کا مطالبہ بمباری میں اُڑا دیا، مزید 66 فلسطینی شہید کر دیئے
  • اسرائیلی فوج نے غزہ میں بمباری مزید تیز کردی، جبری انخلاء کا نیا حکم
  • اسرائیل کے غزہ پر حملے نہ رکے، 24 گھنٹوں میں مزید 66 فلسطینی شہید
  • حماس کا مثبت ردعمل: ٹرمپ کا اسرائیل سے غزہ پر بمباری روکنے کا مطالبہ
  • ٹرمپ نے غزہ امن منصوبے پر رضامندی کے لیے حماس کو اتوار تک کی ڈیڈلائن دے دی
  • غزہ پر اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں تیزی، مزید 63 فلسطینی شہید
  • غزہ پر اسرائیلی حملے، ایک دن میں 57 فلسطینی جاں بحق
  • غزہ میں مزید 53 فلسطینی شہید، اسرائیلی وزیر دفاع کا آخری الٹی میٹم
  • پُر امن فلوٹیلا پر اسرائیلی فوج کا حملہ
  • غزہ پر اسرائیلی حملوں میں شدت آگئی، مزید 77 فلسطینی شہید