یوم عاشورہ کے موقع پر سرینگر میں عزاداروں سے خطاب کرتے ہوئے کربلا کے تاریخی واقعے کی تفصیل بیان کی اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثار ساتھیوں کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے یوم عاشورہ کی اسلامی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا حق، انصاف اور وقار کے لیے ڈٹے رہے۔ ذرائع کے مطابق میر واعظ نے یوم عاشورہ کے موقع پر سرینگر میں عزاداروں سے خطاب کرتے ہوئے کربلا کے تاریخی واقعے کی تفصیل بیان کی اور امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثار ساتھیوں کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے حق، انصاف اور وقار کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ میر واعظ نے کہا کہ جب ہم امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کی تعظیم کرتے ہیں تو ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ شدید مشکلات کے باوجود حق، انصاف اور وقار کے لیے کھڑا رہنا ایمان کی اعلی ترین شکل اور ثابت قدمی کا ایک لازوال سبق ہے۔ ان کی قربانی آنے والی نسلوں کو تحریک دلاتی رہے گی۔ میر واعظ نے فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے دعا کی اور غزہ اور دیگر مقامات پر روزانہ کی بنیاد پر ان کے قتل عام اور نسل کشی کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام سمیت پوری امت مسلمہ آزادی اور انصاف کی منصفانہ جدوجہد میں فلسطینی عوام کے ساتھ  کھڑی ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امام حسین علیہ السلام اور انصاف اور وقار کے میر واعظ کے لیے

پڑھیں:

ہیرو آف کربلا

محرم الحرام کا مبارک چاند صدیوں سے اپنے دامن میں بے شمار برکتیں، رحمتیں اور تاریخ اسلام کی عظیم قربانی کی یاد لیے طلوع ہوتا چلا آ رہا ہے۔ دراصل 10 محرم الحرام کی تاریخ ہمیں عہدِ اسلامی کے اس دور میں لے جاتی ہے جہاں سے توحید، عشق، ایثار و قربانی اور کامل بندگی کا نیا باب شروع ہوتا ہے۔

یہ مہینہ دراصل ان عظیم الشان قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو دین اسلام کی عظمت، اس کے تقدس اور بقا کی خاطر حضرت امام حسینؑ اور آپ کے رفقا نے کربلا کے میدان میں پیش کی تھیں، جن کے طفیل ہی دین اسلام کا رکا ہوا قافلہ دوبارہ متحرک ہو پایا تھا۔

انہی قربانیوں کے پس منظر میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا: “زندہ از قوت شبیری است” یعنی حق فقط حسینؑ کی طاقت سے ہی دنیا میں زندہ ہے۔

اگر تاریخ کے گھوڑوں کو آج سے 1400 سال پیچھے کی طرف سرپٹ دوڑائیں تو کربلا کے تپتے ریگزار پر زخموں سے چور ایک جوان کھڑا دکھائی دیتا ہے، جو اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھاتے اٹھاتے اپنا سب کچھ گنوا چکا ہے۔

وہ اپنی آنکھوں میں امڈی نمی کے ساتھ اپنے پیاروں کی لاشوں کو نظر بھر کر دیکھتا ہے، پھر اپنا رُخِ روشن آسمان کی طرف کر کے غیبی طاقت سے کچھ توانائی، کچھ حوصلہ حاصل کرتا ہے اور پھر پوری دنیا کو ایک واضح پیغام دیتا ہے۔

’میری جدوجہد کا اصل مقصد، میری اس تحریک اور اقدام کا اصل ہدف اُمت مسلمہ کی اصلاح، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔‘

یزید اِزم کے خلاف امام حسینؑ کا یہ پیغام ہر زمانے اور ہر عمر کے مسلمانوں کے لیے تھا۔ یہ ابدی پیغام دراصل جہاد تھا ان گمراہ اور باطل طاقتوں کے خلاف جو ہر دور میں حق، سچائی اور اخلاق کا گلہ گھونٹ کر دنیا کے سامنے اپنا بدصورت چہرہ لیے نمودار ہوتی رہی ہیں۔

حضرت امام حسینؑ کا کربلا کی جانب سفر دراصل دین اسلام کی بقا اور احیاء کا سفر تھا۔ یہ ایک ایسا تاریخی سفر تھا جس نے ظلم و تشدد کے راستوں کو ہمیشہ کے لیے مسدود کر دیا اور ظالم و مظلوم کی جنگ میں باطل قوتوں کو دنیا کے سامنے بیچ چوراہے پر ننگا کر دیا تھا۔

یہ وہ جدوجہد تھی جس نے حق و صداقت کے بجھتے چراغ کو جبری طوفانوں سے بچا کر ظالم ہواؤں کا رخ موڑا تھا اور اسے اپنے خون کی شکل میں ایندھن فراہم کر کے ہمیشہ کے لیے روشن تر کر دیا تھا۔ اسی روحانی سفر کے طفیل ہی اُمت محمدیہ کے عقیدہ و ایمان کی تجدید ہوئی تھی اور اسی انقلابی تحریک نے ہی انہیں شرک و بدعت اور فسق و فجور کی تمام آلائشوں سے پاک کیا تھا۔

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں جب کبھی حریت کی کوئی داستان لکھی گئی یا جب کبھی جبر سے مسلط رہنے والی حکومتوں کو عوامی مزاحمت درپیش آئی تو آزادی کی ان تمام تحریکوں نے کربلا کے ہیرو سے کہیں نہ کہیں استفادہ ضرور کیا۔

دنیا کے ہر صاحبِ عقل، صاحبِ شعور اور صاحبِ انصاف انسان نے اپنے دل میں امام حسینؑ کی جدوجہد کو ظلم، جبر و تشدد اور فساد کے خلاف ایک عالمگیر تحریک کی حیثیت سے نمایاں جگہ دی ہے۔

اپنے وقت کے بڑے بڑے دانشوروں اور سکالروں نے حسینؑ کی فکر کا مطالعہ کرنے کے بعد اُن کی جدوجہد کو معاشروں کی تبدیلی اور جبر کے خلاف ایک رہنما قوت کے طور پر تسلیم کیا ہے، حتیٰ کہ امام حسینؑ غیر مسلموں کے بھی رول ماڈل بن کر ابھرے ہیں۔

برصغیر کے عظیم لیڈر موہن داس کرم چند گاندھی (مہاتما گاندھی) حضرت امام حسین کے عدم تشدد پر مبنی فلسفہ کے نہ صرف قائل تھے بلکہ انہوں نے عدم تشدد پر مبنی تحریک آزادی کی بنیاد ہی فلسفہ حسینی سے متاثر ہو کر رکھی تھی۔ گاندھی نے آپ کے بارے میں کہا تھا:

ترجمہ: (میں نے یہ حسین سے سیکھا کہ ظلم سہہ کر بھی فتح مند ہوا جا سکتا ہے)

گاندھی جی نے ایک اور موقع پر کہا تھا:

ترجمہ: (میں سمجھتا ہوں کہ میرے پاس ہندوستانی قوم کے لیے کوئی نیا نظریہ، کوئی نئی تحریک نہیں سوائے اس سوچ اور فکر کے جو کربلا کے ہیرو نے پیش کی تھی)

پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا:

ترجمہ: (حسین کی سچائی کے راستوں پر دی گئی مثالی قربانی دراصل تمام گروہوں اور تمام طبقوں کے لیے مثالی ہے)

شایدا سی تناظر میں اردو کے مشہور شاعر جوش ملیح آبادی نے کہا تھا:

’انسان کو ذرا بیدار تو ہو لینے دو۔ ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین‘

ہندوستان کے نوبل ایوارڈ یافتہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور لکھتے ہیں:

ترجمہ: (انصاف اور سچائی کو طاقت اور ہتھیاروں کی بجائے جانوں کی قربانی سے بھی زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے حسین نے کر کے دکھایا)

لبنانی عیسائی مصنف انتونے بارا اپنی کتاب Husayn in Christian Ideology میں لکھتا ہے:

ترجمہ: (انسانی تاریخ میں کوئی جنگ ایسی نہیں گزری جس نے اتنی زیادہ عزت و شہرت اور ہمدردی حاصل کی ہو جتنی کربلا کی جنگ اور امام حسینؑ کی شہادت نے حاصل کی تھی)

امام حسینؑ نے اپنے خطبے میں واضح فرمایا تھا:

’اے لوگو! یہ (حکمران) اطاعت خدا کو ترک کر چکے ہیں اور شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بنا چکے ہیں۔ یہ ظلم اور فساد کو اسلامی معاشرے میں رواج دے رہے ہیں۔ مال ‘فے’ کو انہوں نے اپنے لیے مختص کر لیا ہے اور خدا کے حرام و حلال کو یکسر بدل چکے ہیں۔‘

اس خطبے سے عیاں ہوتا ہے کہ یزیدی دور کے حکمران احکام شریعت اور سنت نبوی کو بھول کر فسق و فجور، گمراہی اور گناہ کی دلدل میں اتر کر آلودہ ہو چکے تھے۔

کرپشن، عیاشی، حرام کاری اور عدل و انصاف کی عدم دستیابی کے باعث معاشی ناہمواری، غربت و افلاس میں اضافہ اور جہالت فروغ پا رہی تھی۔ سنت رسول ختم اور بدعت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ قرآن پاک اور قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا جا چکا تھا اور اسلامی معاشرہ تباہی کی طرف گامزن تھا۔

ایسی صورت حال میں امام حسینؑ پر ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ ان تمام برائیوں کے خلاف ڈٹ جائیں، انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور ظالم کا ہاتھ روک دیں۔ آپ کی جدوجہد کا مقصد ہرگز دولت و شہرت، عزت و حشمت، مال و متاع یا حکمرانی نہ تھا بلکہ صرف اور صرف اصلاح اُمت کا جذبہ کارفرما تھا۔

مشہور امریکی تاریخ دان Irvin Washington حضرت امام حسینؑ کی جدوجہد کو کچھ ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہے:

ترجمہ: (حسین کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ یزید کی ناجائز خواہشات کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے۔ لیکن اصلاح اُمت کے حوالے سے اُن پر عائد بھاری ذمہ داری نے انہیں یزید کی بیعت پر قطعاً راضی نہ ہونے دیا۔ اس کے برعکس انہوں نے وحشی اور کرپٹ اموی حکمرانوں کے ہاتھوں ہر قسم کے مصائب اور تکالیف گوارا کرنا قبول کیا۔ سر پر آگ کے شعلے اگلتا سورج، پاؤں کے نیچے تپتی زمین اور کربلا کے جلتے ریگزار کی گلہ گھونٹنے والی حدت کے خلاف لافانی حسین ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ حسینؑ کے صبر و استقامت کی روحانی داستان تا ابد زندہ رہے گی)

مشہور برطانوی ناول نگار چارلس ڈکنز لکھتے ہیں:

ترجمہ: (اگر حسین کی لڑائی صرف مادی خواہشات کے حصول کی خاطر ہوتی تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور خاندان کو ساتھ لے کر نکل کھڑے ہوتے۔ حسین کا طرز عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ اس نے صرف اسلام کی خاطر قربانی دی)

ہندوستان کے مشہور سوامی شنکر اچاریہ نے کہا تھا:

ترجمہ: (حسینؑ کی قربانی سے ہی اسلام دوبارہ زندہ ہوا، ورنہ آج کی دنیا میں کوئی بھی اس کا نام لیوا نہ ملتا)

امام حسینؑ کی قربانی جہاں دین اسلام کی بقا، تحفظ اور اسلامی شعائر کی تجدید کا مکمل احاطہ کرتی ہے، وہیں یہ قربانی اسباب کی نفی، خدا پر توکل، باطل کے خلاف کھلی بغاوت، ایمان کی طاقت اور ایک اعلیٰ درجے کی سچی محبت کی روشن دلیل بھی پیش کرتی ہے۔

بدقسمتی سے ہمارا آج کا مسلم معاشرہ امام حسینؑ کی جدوجہد، دین کے لیے ان کی دی گئی قربانیوں اور ان کی تحریک کو یکسر بھلا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر طرف فرقہ پرستی، خود غرضی، مادہ پرستی، حرص و طمع، نفس پرستی، منافقت، بزدلی، مخبری، احساس کمتری اور کینہ پروری کے وائرس پھیل چکے ہیں۔

ان جراثیموں نے نہ صرف ہماری اخلاقی اور دینی حالت کو پست کر دیا ہے بلکہ ہمیں اپنے مفادات کا غلام بنا کر ذات برادری، جماعت و مسلک اور فرقے کے مفادات کا اسیر بنا دیا ہے۔

آج اگر ہم نظر اٹھا کر دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم سب اپنے اپنے مسلکی خانوں میں بٹ کر کمزور سے کمزور تر ہو چکے ہیں اور ہمہ وقت اپنے اپنے فرقے کی برتری کے لیے نہ صرف متعین رہتے ہیں بلکہ اس کی خاطر مخالف فرقے کے فرد کا سر اتارنے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔

ایک وہ دور تھا جب ایک خدا، ایک دین، ایک پیغمبر اور ایک ہی قبلہ پر متفق مسلمان سمندر کی طرح ناقابلِ تسخیر ہوا کرتے تھے، مگر جب سے ہم صراطِ مستقیم سے بھٹکے ہیں، تب سے ہی ہماری قوت ختم ہوئی اور ہم سمندر سے ندی نالوں میں تقسیم ہو کر بے اثر ہو چکے ہیں۔

فکرِ حسینؑ سے دوری کی واحد وجہ یہی ہے کہ آج ہم میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا نہ حوصلہ پایا جاتا ہے اور نہ تلاشِ حق کا جذبہ۔

امام حسینؑ اور ان کے رفقا کی قربانیوں کے تناظر میں ہم سب مسلمانوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے موجودہ حالات کا نئے سرے سے جائزہ لیں، اپنی زندگیوں میں جو غلطیاں، فساد اور تحریف نظر آئیں، انہیں دور کرنے کی نہ صرف کوشش کریں بلکہ باطل کا ساتھ دینے کی بجائے طاقت کے اصل سرچشمے (اللہ کی ذات) کی طرف رجوع کریں۔

ہمیں چاہیے کہ امام حسینؑ کی عملی جدوجہد کو نہ صرف خود اپنائیں بلکہ اپنی آئندہ نسلوں تک بھی اس جدوجہد کے ثمرات کو منتقل کرنے کی فکر کریں، کیونکہ امام حسینؑ کی تحریک باطل قوتوں کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک تھی جو حق تلفی، ناانصافی اور ظلم کے خاتمے کے لیے شروع کی گئی، جس میں حق بالاخر فاتح ٹھہرا۔

امام حسینؑ کی کوشش، فکر اور سعی صرف کربلا پر آ کر تمام نہیں ہوئی، بلکہ وقت کی یزیدی طاقتوں (امریکہ و اسرائیل) سے ہم آج بھی برسرِ پیکار ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عباس سیال، سڈنی

ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے غلام عباس سیال 2004 سے آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔ گومل یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کے بعد سڈنی یونیورسٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ میں بھی ماسٹرز کر رکھا ہے۔ آئی ٹی کے بعد آسٹریلین کالج آف جرنلزم سے صحافت بھی پڑھ چکے ہیں ۔ کئی کتابوں کے مصنف اور کچھ تراجم بھی کر چکے ہیں۔

امام حسین کربلا محرم الحرام

متعلقہ مضامین

  • درِ ہدایت بند ہونے سے پہلے
  • امام حسین (ع) رہتی دنیا تک انسانیت کیلئے مشعل راہ ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • گرین سبیل: شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک غیر روایتی انداز
  • امن کیلیے انصاف، مکالمہ اور انسانی وقار کو ترجیح دی جائے، یوسف گیلانی
  • امن کے لیے انصاف، مکالمہ اور انسانی وقار کو ترجیح دی جائے، چیئرمین سینیٹ کی عالمی برادری سے اپیل
  • امام حسین علیہ السلام کا فلسفہ حق، ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام ہے ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان
  • کربلا کی جنگ سے ہمیں بے لوث ،عظیم تر بھلائی کیلئے قربانی کی اہمیت کا درس ملتا ہے‘ مسرت جمشید چیمہ
  • واقعہ کربلا حق پر ڈٹ جانے کی عظیم داستان ہے‘محمد یوسف
  • ہیرو آف کربلا