Islam Times:
2025-07-07@02:14:15 GMT

درِ ہدایت بند ہونے سے پہلے

اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT

درِ ہدایت بند ہونے سے پہلے

اسلام ٹائمز: واقعہ کربلا کی یہ رات جس میں امام حسین علیہ السلام نے عمر بن سعد کو تنہائی میں گفتگو کیلئے بلایا، تاریخ کا ایک عظیم ترین لمحہ ہے۔ یہ صرف دو افراد کی ملاقات نہیں تھی، بلکہ یہ صداقت اور فریب، روشنی اور تاریکی، قربِ خداوندی اور دنیا پرستی کے درمیان ایک فیصلہ کن مکالمہ تھا۔ یہ حق و باطل کے درمیان آخری مکالمہ تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے نرمی، محبت، خلوص اور حجت کے تمام دروازے کھول دیئے۔ انہوں نے گھر، مال، زمین، حتیٰ کہ عزت و جان کے تحفظ کی ضمانتیں پیش کیں، تاکہ عمر بن سعد راہِ ہدایت کو اختیار کر لے۔ لیکن وہ خوف، حرص اور حکومت کی لالچ میں اتنا ڈوبا ہوا تھا کہ معرفت کی روشنی کو ٹھکرا کر ظلم کی اندھیروں میں گم ہوگیا۔ امام حسین علیہ السلام نے ہر در کھولا، ہر دروازہ دکھایا، ہر راستہ سمجھایا۔ لیکن جس کی آنکھ پہ دنیا کی دھول چڑھ جائے وہ سورج کو بھی مٹی سمجھتا ہے۔ تحریر: آغا زمانی

رات کا دامن تاریکیوں سے بوجھل تھا۔ فرات کے کنارے ہوا میں ایک عجیب گھٹن تھی، جیسے وقت تھم گیا ہو، جیسے مقدر اپنے فیصلہ کن لمحے کے دہانے پر ٹھہر گیا ہو۔ چاند نیم چہرہ نکالے آسمان کی بے کنار وسعتوں سے اس زمین کو تک رہا تھا، جہاں تاریخ کی اہم ترین دعوتِ ہدایت دی جانے والی تھی۔ یہ وہ رات تھی، جس میں ابنِ فاطمہ، وارثِ نبوّت، امام حسین علیہ السلام نے ایک اور در کھولا تھا، شاید کوئی اب بھی صداقت کی آواز سن لے، شاید کوئی دل ابھی باقی ہو جو ہدایت کی دھڑکن پر دھڑکنے لگے۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے باوفا صحابی عمرو بن قرظہ انصاری کو روانہ کیا کہ جاؤ، عمر بن سعد سے کہو میں اس سے رات کی خلوت میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں، ایک فیصلہ کن گفتگو۔ پیغام پہنچا اور عمر بن سعد نے ملاقات پر رضامندی ظاہر کر دی۔ رات کے سناٹے میں، جب ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی، امام حسین بیس اصحاب کے ساتھ وعدہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ ابوالفضل العباس بن علی (ع) اور علی اکبر (ع) بھی تھے، وہ جوان جن کا چہرہ رسولِ خدا کا آئینہ تھا۔

دوسری جانب عمر بن سعد بھی اپنے بیس سپاہیوں کے ساتھ آیا۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب میں سے عباس بن علی (ع) اور علی اکبر (ع) کے علاوہ سب کو واپس کر دیا۔ اسی طرح عمر بن سعد نے بھی اپنے بیٹے اور غلام کو اپنے پاس رکھا اور باقی کو واپس بھیج دیا، گفت و شنید کا آغاز ہوا اور پہلے امام حسین علیہ السلام نے گفتگو کا آغاز کیا، چاندنی میں امام حسین علیہ السلام کا چہرہ ایسے دمک رہا تھا، جیسے چودہویں کا چاند، جیسے حق خود گویا ہو۔ امام کی آواز میں وہ صبر و سکون بھی تھا، جو پہاڑوں کو جھکا دیتا ہے اور وہ جلال بھی جو جھوٹ کی دیواروں کو پاش پاش کر دیتا ہے۔ "اے سعد کے بیٹے، کیا تو مجھ سے جنگ کرے گا؟ اور اس خدا سے نہیں ڈرتا، جس کی بارگاہ میں تجھے لوٹ کر جانا ہے۔؟" عمر بن سعد نے نظریں جھکا لیں، جیسے الفاظ سے کہیں زیادہ آنکھوں کی شرمندگی بول رہی ہو۔ "کیا تو نہیں جانتا کہ میں کس کا بیٹا ہوں؟ میں حسین (ع) ہوں۔ علی (ع) کا بیٹا، فاطمہ (س) کا نور، محمد (ص) کا خون۔ کیا یہ حسب و نسب تیرے لیے دلیل نہیں۔؟ آ، ابھی بھی وقت ہے۔ اس فوج کو چھوڑ دے اور ہمارے ساتھ آجا۔ خدا کی قسم، تجھے خدا کا قرب حاصل ہوگا۔"

عمر بن سعد کے لب ہلے: "اگر میں اس گروہ کا ساتھ چھوڑ دوں تو یہ میرا گھر جلا دیں گے۔" امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "میں تمہیں نیا گھر بنا دوں گا۔" عمر بن سعد نے پھر بہانہ کیا: "مجھے اندیشہ ہے کہ میرا مال و دولت چھین لیا جائے گا۔" امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: "میں تجھے حجاز میں اپنی جائیداد دوں گا۔ وہ مال جو اس دولت سے کہیں بہتر ہے۔" ایک دوسری روایت کے مطابق پھر امام حسین علیہ السلام نے ایک دوسری پیش کش کی: "میں تمہیں بغیبغہ دوں گا۔ وہ زرخیز زمین، وہ کھجوروں کا باغ، جس کے لیے معاویہ نے دس لاکھ دینار کی پیش کش کی تھی، مگر میں نے اسے کبھی فروخت نہ کیا۔" عمر بن سعد کا چہرہ بدلنے لگا، لیکن اس کی روح میں بغاوت تھی۔ اس نے ایک اور بہانہ تراشا: "مجھے اندیشہ ہے کہ ابن زیاد میرے خاندان کو قتل کرا دے گا۔" یہ سن کر امام حسین علیہ السلام کے لہجے میں پہلی بار درد کی لہر در آئی، وہ درد جو جان لیتا ہے کہ سامنے کھڑا انسان ہدایت سے محروم ہوچکا ہے۔

امام حسین علیہ السلام کھڑے ہوگئے۔ آسمان کی طرف نگاہ بلند کی اور فرمایا: "اے سعد کے بیٹے، تو نے دنیا کے عارضی سائے کو ابدی روشنی پر قربان کر دیا۔ جان لے، خدا کی قسم، تو زیادہ دن عراق کا گیہوں نہیں کھا سکے گا۔" عمر بن سعد نے ہنسی اڑاتے ہوئے کہا: "میرے لیے جو کافی ہے۔" امام (ع) کے لیے وہ لمحہ تھا، جب صبر بھی صداقت کی تلوار بن جاتا ہے۔ "تم مجھے قتل کرو گے؟ اور یہ سمجھتے ہو کہ عبید اللہ تمہیں رے اور گرگان کی حکومت دے گا، خدا کی قسم تمہیں نصیب نہیں ہوگی۔ یہ تو ایک عہد ہے، جو مجھ سے کیا گیا ہے، تمہاری یہ دیرینہ آرزو ہرگز پوری نہ ہوگی۔ اب تم جو چاہو کرو۔" پھر امام علیہ السلام نے ایک آخری پیش گوئی کی، ایسی جو تاریخ کے کانوں میں ہمیشہ گونجتی رہے گی: "میرے بعد تمہیں دنیا میں خوشی ملے گی نہ آخرت میں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کوفہ کی گلیوں میں تمہارا سر نیزے پر بلند ہے اور بچے تمہارے چہرے پر پتھر مار رہے ہیں۔" عمر بن سعد خاموش تھا۔ ایک لمحہ۔۔ اور وہ زندگی کا سب سے عظیم فیصلہ کرسکتا تھا۔ لیکن وہ ہار گیا۔۔ اپنے آپ سے، اپنے لالچ سے، اپنے خوف سے۔ امام علیہ السلام کے قدموں تلے بہشت تھی، مگر اس نے اسے ٹھکرا دیا۔

واقعہ کربلا کی یہ رات جس میں امام حسین علیہ السلام نے عمر بن سعد کو تنہائی میں گفتگو کے لیے بلایا، تاریخ کا ایک عظیم ترین لمحہ ہے۔ یہ صرف دو افراد کی ملاقات نہیں تھی، بلکہ یہ صداقت اور فریب، روشنی اور تاریکی، قربِ خداوندی اور دنیا پرستی کے درمیان ایک فیصلہ کن مکالمہ تھا۔ یہ حق و باطل کے درمیان آخری مکالمہ تھا۔ امام حسین علیہ السلام نے نرمی، محبت، خلوص اور حجت کے تمام دروازے کھول دیئے۔ انہوں نے گھر، مال، زمین، حتیٰ کہ عزت و جان کے تحفظ کی ضمانتیں پیش کیں، تاکہ عمر بن سعد راہِ ہدایت کو اختیار کر لے۔ لیکن وہ خوف، حرص اور حکومت کی لالچ میں اتنا ڈوبا ہوا تھا کہ معرفت کی روشنی کو ٹھکرا کر ظلم کی اندھیروں میں گم ہوگیا۔ امام حسین علیہ السلام نے ہر در کھولا، ہر دروازہ دکھایا، ہر راستہ سمجھایا۔ لیکن جس کی آنکھ پہ دنیا کی دھول چڑھ جائے وہ سورج کو بھی مٹی سمجھتا ہے۔

اس ملاقات سے امام حسین علیہ السلام کی اعلیٰ ترین فضیلت، اخلاقی بلندی اور انسانیت سے محبت ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے حتی الوسع کوشش کی کہ خون نہ بہے، جنگ نہ ہو اور انسان فلاح پا لے۔ مگر یزیدی کردار کے حامل لوگ نہ صرف ہدایت سے محروم تھے بلکہ خود غرضی، بے وفائی اور دنیا پرستی کی دلدل میں غرق تھے۔ عمر بن سعد صرف ایک شخص نہیں بلکہ وہ باطل نظام کا نمائندہ تھا۔ ایسا نظام جو اقتدار کے بدلے حق کو پامال کرتا ہے، سچائی کا خون کرتا ہے اور دین کے نام پر ظلم روا رکھتا ہے۔ اس ملاقات میں اس کی روحانی پستی کھل کر سامنے آگئی، وہ جانتا تھا کہ حسین علیہ السلام حق پر ہیں، مگر وہ دنیا کے خوف میں مبتلا ہو کر اپنا ضمیر، اپنی آخرت اور اپنی تاریخ بیچ بیٹھا۔ امام حسین علیہ السلام کی یہ گفتگو ہر دور کے انسان کے لیے بیداری کی صدا ہے۔ ہر انسان کے سامنے عمر بن سعد جیسا موقع آتا ہے۔ یا وہ حسین(ع) کا ساتھ دیتا ہے اور حق کی راہ پر قربانی دیتا ہے، یا وہ عمر بن سعد بن جاتا ہے اور وقتی مفادات کے لیے ابدی ہلاکت مول لیتا ہے۔

آج بھی ہمارے سامنے وہی سوال ہے۔ ہم امام حسین علیہ السلام کے راستے کو چنتے ہیں یا عمر بن سعد کے بہانوں والے انجام کو۔؟ ہم گھر، مال، حکومت، یا سچائی۔۔ کس کو عزیز رکھتے ہیں۔؟ کربلا صرف جنگ کا نام نہیں، یہ ضمیر کی عدالت ہے، جہاں ہر روز ہم بھی کسی نہ کسی عمر بن سعد کی طرح آزمائے جاتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کا مشن فقط اقتدار کا انکار نہیں بلکہ انسان کو انسان بنانے کی کوشش تھی۔ یزیدی کردار کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ وہ حق کو جان کر بھی اسے پامال کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر امام حسین علیہ السلام کی آواز آج بھی زندہ ہے، جو ہر ضمیر کو پکار رہی ہے، کیا تم سچ کے ساتھ ہو۔؟ یا تمہیں بھی دنیا کے چند دانے دھوکا دے چکے ہیں۔؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امام حسین علیہ السلام نے مکالمہ تھا کے درمیان فیصلہ کن دیتا ہے کے ساتھ کے لیے نے ایک سعد کے ہے اور

پڑھیں:

کربلا سے سبق اور اس کی عصرِ حاضر میں اہمیت

کربلا سے سبق اور اس کی عصرِ حاضر میں اہمیت WhatsAppFacebookTwitter 0 7 July, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد مرتضیٰ نور

کربلا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو صرف ایک جنگ یا تصادم نہیں بلکہ ایک ابدی پیغام اور اصولوں کی فتح ہے۔ 10 محرم الحرام 61 ہجری کو حضرت امام حسینؑ اور ان کے باوفا ساتھیوں نے باطل، ظلم اور جبر کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کا مقصد صرف اقتدار کا حصول نہیں بلکہ دین اسلام کے حقیقی پیغام کو بچانا تھا۔ کربلا کا واقعہ رہتی دنیا تک ہمیں حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کی بصیرت دیتا ہے۔

یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ سچائی، انصاف اور اصولوں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے، چاہے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ امام حسینؑ نے نہ صرف باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کیا بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف خاموشی بھی جرم ہے۔ انہوں نے قربانی دے کر یہ اصول واضح کر دیا کہ اگر دین کی بقا کے لیے جان بھی دینی پڑے تو یہ سود مند سودا ہے۔

آج کی دنیا میں جہاں ناانصافی، جبر، کرپشن اور طاقت کے ناجائز استعمال نے انسانیت کو کچل رکھا ہے، کربلا کا پیغام اور بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ موجودہ حالات میں اگر کوئی شخص یا قوم ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے تو وہ حسینی راستے پر ہے۔ امام حسینؑ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ اگر سچ کے لیے اکیلے بھی کھڑے ہونا پڑے تو گھبرانا نہیں چاہیے، کیونکہ سچائی بالآخر غالب آتی ہے۔

کربلا ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ حکومت اور اقتدار کا مقصد عوام کی خدمت ہے، نہ کہ ذاتی مفاد یا ظلم و جبر۔ اسی طرح سماجی سطح پر بھی ہمیں مظلوموں، محروموں اور کمزوروں کا ساتھ دینا چاہیے، کیونکہ یہی حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں۔

امام حسینؑ کے قول “اگر دین محمدؐ کا باقی رہنا میری قربانی کے بغیر ممکن نہیں، تو اے تلوارو! آ جاؤ!” میں وہ جرات، ایثار اور قربانی کا جذبہ جھلکتا ہے جو ہر حق پرست انسان کے لیے مشعل راہ ہے۔ آج کے دور میں جب دنیا مختلف بحرانوں سے دوچار ہے، تو کربلا کا پیغام ہمیں باطل کے خلاف ڈٹ جانے، سچائی کے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوموں کی حمایت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔

نتیجتاً، کربلا صرف ماضی کا واقعہ نہیں بلکہ ایک زندہ تحریک ہے جو ہر دور کے انسان کو جھنجھوڑتی ہے کہ وہ ضمیر کو زندہ رکھے، حق کے لیے قربانی دینے کو تیار رہے، اور دنیا کے ظالم نظاموں کے سامنے جھکنے سے انکار کرے۔ امام حسینؑ کی قربانی ہمیں انسانیت، صداقت، عدل اور غیرت کا وہ درس دیتی ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔

آج اگر ہم دنیا کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں، تو فلسطین خصوصاً غزہ میں ہونے والا ظلم و ستم ہمیں کربلا کی یاد دلاتا ہے۔ نہتے، مظلوم اور محصور فلسطینی عوام، بالخصوص عورتیں، بچے اور بوڑھے، ظالم قوتوں کے محاصرے، بمباری اور انسانیت سوز مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں پانی، بجلی، دوائی، خوراک اور بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے کربلا میں امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا گیا تھا۔ دنیا کی بے حسی اور خاموشی بھی ہمیں یزیدی دربار کی یاد دلاتی ہے، جہاں حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ مگر جیسے امام حسینؑ کی قربانی نے حق کو زندہ رکھا، ویسے ہی غزہ کے مظلوموں کی استقامت بھی تاریخ میں ایک نئی کربلا رقم کر رہی ہے، جو ظلم کے خلاف مزاحمت اور آزادی کے لیے قربانی کی علامت بن چکی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبریوم عاشور پر زبردست انتظامات، وزیراعظم کی صوبائی حکومتوں، سکیورٹی فورسز اور پولیس کو شاباش آئینی لغزش: آزاد پھر سے آزاد ہو گئے پی ٹی آئی کی آئینی غلط فہمی اور سنی اتحاد کونسل کی حمایت کی بھاری قیمت سپریم کورٹ نے انتخابی عمل میں ‘ریورس انجینئرنگ’ کو مسترد کر دیا حق کی تلوار اور ظلم کا تخت اسلام آباد میں خاموش مون سون نے خطرے کی گھنٹی بجا دی سوات کے بہتے پانیوں میں آنسوؤں کی رم جھم حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • نواسہ رسولؐ کی جد و جہد ظلم و جبر کیخلاف سینہ سپر ہونے کا ابدی پیغام ہے، مریم نواز
  • کربلا سے سبق اور اس کی عصرِ حاضر میں اہمیت
  • امام حسین (ع) رہتی دنیا تک انسانیت کیلئے مشعل راہ ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • امام حسینؓ کی سیرت سے رہنمائی لینے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، وزیراعظم
  • امت کو حسینی کردار اپنانا ہوگا!
  • شہادت امام حسینؓ
  • امام حسین علیہ السلام کا فلسفہ حق، ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام ہے ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان
  • ہیرو آف کربلا
  • امام حسینؑ مولانا مودودیؒ کی نظر میں