تولیدی صحت مواد تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کے معاملے پر سینیٹ قائمہ کمیٹی میں اختلاف
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
فائل فوٹو
تولیدی صحت کا مواد تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کے معاملے پر سینیٹ قائمہ کمیٹی میں اختلاف ہوگیا۔
سینیٹر بشریٰ انجم بٹ کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تعلیم کے اجلاس میں سینیٹر قرۃ العين مری کی جانب سے نصابی کتابوں کی وفاقی نگرانی اور تعلیمی ترمیمی بل 2024 کے معیارات کی بحالی پر بحث کی گئی۔
ممبر کمیٹی قرۃ العين مری نے تولیدی صحت کا مواد سلیبس کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ بچے انٹرنیٹ پر غلط چیزیں تلاش کر رہے ہیں۔ بچیوں کی شادی سے پہلے ان کی رہنمائی کرنی چاہیے، اس سے بہتر ہے انھیں نصاب میں بہتر انداز میں پڑھایا جائے۔
چیئرپرسن کمیٹی نے پوچھا کہ تولیدی صحت کا سلیبس کس عمر کے بچوں کو پڑھایا جائے گا؟
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے تولیدی صحت کا مواد سلیبس میں شامل کرنے کی مخالفت کی۔ سینیٹر گردیب سنگھ نے بھی سلیبس میں تولیدی صحت کا مواد شامل کرنے کے بل کی مخالفت کردی۔
سینیٹر فوزیہ ارشد نے بھی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے بچوں کے نصاب میں تولیدی نظام کا واضح خاکہ نہیں ہونا چاہیے، جب میرے بچے امریکا میں پڑھتے تھے تو مجھ سے پوچھا گیا کیا آپ کے بچوں کو تولیدی نظام کےحوالہ سے نصاب پڑھایا جائے؟ یہ چوائس والدین کے اختیار میں ہونی چاہیے کہ تولیدی نظام پڑھایا جائے یا نہیں۔
ایم کیو ایم کی سینیٹر خالدہ عطیب نے کہا کہ پرائمری سطح تک سلیبس میں تولیدی صحت کا مواد شامل نہیں ہونا چاہیے۔
اجلاس میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف فیشن ڈیزائن میں چانسلر کی تعیناتی کا معاملہ بھی زیر غور آیا، بشریٰ انجم نے کہا کہ ایک وائس چانسلر 25 سال سے کام کر رہا ہے تو اس کے خلاف کوئی کیسے بولے گا؟
چیئرمین ایچ ای سی نے کہا کہ گراؤنڈ پر بہت سارے چیلینجز موجود ہیں، قانون کے مطابق وائس چانسلر مدت ملازمت کی ایکسٹینشن کا معاملہ ختم کردیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پڑھایا جائے کہا کہ
پڑھیں:
تعلیمی دباؤ کا نقصان: بچے کی طبیعت مسلسل 14 گھنٹے سے ہوم ورک کرتے کرتے بگڑ گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چین کے شہر چانگشا میں ایک افسوسناک واقعہ سامنے آیا ہے جہاں صرف 11 سالہ بچہ مسلسل 14 گھنٹے ہوم ورک کرنے کے بعد اسپتال جا پہنچا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ گزشتہ ماہ پیش آیا جب بچے نے صبح 8 بجے سے رات 10 بجے تک بغیر کسی وقفے کے ہوم ورک کیا۔ رات 11 بجے کے قریب اس کی طبیعت اچانک بگڑ گئی، اسے گھبراہٹ، تیز سانسیں، سر درد، چکر اور ہاتھ پاؤں سن ہونے کی شکایت ہونے لگی۔ گھبراہٹ میں والدین فوراً اسے اسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹروں نے فوری طور پر آکسیجن لگائی۔
ڈاکٹرز کے مطابق بچے کی طبیعت زیادہ دباؤ اور حد سے زیادہ پڑھائی کے سبب خراب ہوئی۔ والدین بھی اس پر سختی سے ہوم ورک مکمل کرنے کا دباؤ ڈال رہے تھے جس کی وجہ سے بچہ مسلسل گھنٹوں پڑھنے پر مجبور ہوا۔ اسپتال کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اگست کے مہینے میں اسی اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں 30 سے زائد بچے انہی علامات کے ساتھ لائے گئے تھے۔
ماہرین نے بتایا کہ بچوں میں یہ مسائل تعلیمی دباؤ، امتحانات میں کامیابی کے خوف اور موبائل فون کے زیادہ استعمال کے باعث بڑھ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں بچے ذہنی و جسمانی طور پر تھکن اور دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں جو بعض اوقات سنگین طبی مسائل کا باعث بنتے ہیں۔
یہ واقعہ چین کے سخت تعلیمی نظام پر ایک بار پھر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے، جہاں مشکل امتحانات اور بہترین کارکردگی دکھانے کی دوڑ نے بچوں کو کم عمری میں ہی ذہنی دباؤ کا شکار بنا دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر والدین اور تعلیمی ادارے اس دباؤ کو کم کرنے پر توجہ نہ دیں تو بچوں کی صحت اور مستقبل دونوں بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔