data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">کراچی: کراچی میں گزشتہ سال ریبیز زدہ گائے کے کسان کو کاٹنے کے واقعے کو عالمی جریدے میں کیس اسٹڈی کے طور پر شائع کردیا گیا ہے۔ کراچی کے علاقے لانڈی میں یہ انوکھا اور خطرناک واقعہ گزشتہ سال اگست میں پیش آیا تھا جہاں ریبیز (کُتّے کے کاٹنے سے پھیلنے والی بیماری) میں مبتلا ایک گائے نے اپنے ہی مالک کو کاٹ لیا۔ خوش قسمتی سے کسان نے بروقت طبی امداد حاصل کی، جس سے اس کی جان بچ گئی۔ اس واقعے کو ایک بین الاقوامی طبی جریدے میں کیس اسٹڈی کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایک 18 سالہ کسان کو اس وقت گائے نے ہاتھ اور انگوٹھے پر کاٹ لیا جب وہ اسے چارہ کھلا رہا تھا۔ واقعہ کے فوری بعد متاثرہ نوجوان نے کراچی کے انڈس اسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک کے ریبیز پریوینشن اینڈ ٹریننگ سینٹر (RPTC) سے رجوع کیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق، کسان کے زخم عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق زمرہ 3 میں آتے تھے، جنہیں فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

ڈاکٹروں نے کسان سے مزید معلومات کیں تو پتا چلا کہ مذکورہ کسان کو 4 سال قبل ایک کتے کے کاٹنے پر ریبیز سے بچاؤ کا مکمل کورس (PEP) دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے اسے اس بار صرف بوسٹر ڈوز دی گئی، جو کہ WHO کی 2018 کی گائیڈ لائنز کے مطابق ہے۔ ویکسین کی 2 خوراکیں دونوں بازوؤں پر جلد کے نیچے (intradermally) دی گئیں، جن سے اس کے جسم میں جراثیم سے حفاظت کے لیے اینٹی باڈیز بن گئیں۔ چونکہ مریض کو پہلے ہی ویکسین دی جا چکی تھی، اس لیے ریبیز امیونوگلوبیولن دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

ڈاکٹروں نے اسے ہدایت کی کہ وہ گائے کے رویے پر نظر رکھے۔ واقعے کے 3 ہفتے بعد کسان نے ڈاکٹروں کو مطلع کیا کہ گائے غیرمعمولی حرکتیں کر رہی ہے اور کچھ ہی دن میں وہ مر گئی۔ اس اطلاع پر ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی کی ایک ٹیم نے مشتبہ ریبیز زدہ گائے کا سر لیبارٹری تحقیقات کے لیے حاصل کیا، جس پر کیے گئے ریورس ٹرانسکرپشن-پولیمر چین ری ایکشن (RT-PCR) ٹیسٹ سے گائے میں ریبیز کی تصدیق ہوگئی۔

طبی ماہرین کے مطابق، یہ پہلا معروف واقعہ ہے جس میں کسی ریبیز زدہ گائے نے انسان کو کاٹا ہو۔ ریبیز کی عام وجہ آوارہ کتوں کا کاٹنا ہوتی ہے، مگر اس کیس میں ممکنہ طور پر ایک ریبیز زدہ کتے نے گائے کو پہلے کاٹا، جس سے وہ خود اس مہلک مرض میں مبتلا ہو گئی۔

https://www.

researchgate.net/publication/391814354_A_Rabid_Cow_Bites_the_Hand_that_Feeds_it

ماہرین نے اس کیس کو بروقت اور درست طبی ردِعمل کی کامیاب مثال قرار دیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر ریبیز کے ممکنہ خطرے میں فوری طبی امداد حاصل کی جائے تو انسانی جان بچائی جا سکتی ہے۔

اس حوالے سے اسپتال حکام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ گائے عام طور پربراہ راست ریبیز کے پھیلاؤ کا سبب نہیں بنتی۔

ریبیز اور اس سے بچاؤ کی تدابیر

ریبیز (Rabies) ایک مہلک وائرل بیماری ہے جو عموماً کتے، چمگادڑ، لومڑی، یا دیگر ممالیہ جانوروں کے کاٹنے یا نوچنے سے انسان یا دیگر جانوروں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ وائرس متاثرہ جانور کے لعاب (saliva) کے ذریعے پھیلتا ہے۔

ریبیز ایک نیوروٹروپک وائرس ہے جو مرکزی اعصابی نظام (دماغ اور ریڑھ کی ہڈی) کو متاثر کرتا ہے۔

گر وائرس ایک بار علامات پیدا کر دے، تو بیماری تقریباً ہمیشہ مہلک ثابت ہوتی ہے۔

علامات ظاہر ہونے سے پہلے اگر فوری طبی امداد لی جائے تو اس سے بچا جا سکتا ہے۔

ریبیز کی علامات (انسان میں):

ابتدائی علامات: بخار، تھکن، کاٹے جانے کی جگہ پر جلن یا درد، بے چینی، ذہنی الجھن، پانی یا ہوا سے ڈر لگنا، فالج، جھٹکے لگنا، کومہ کی حالت، اور آخر کار موت۔

ریبیز سے بچاؤ کی تدابیر:پیشگی ویکسینیشن

ایسے افراد جو جانوروں سے واسطہ رکھتے ہیں (ویٹرنری ڈاکٹرز، لیبارٹری ورکرز، جنگلوں یا فارموں میں کام کرنے والے) کو ریبیز ویکسین لگوانی چاہیے۔

جانور کے کاٹنے کے بعد احتیاط:

اگر کسی کو جانور کاٹ لے تو فوری طور پر متاثرہ جگہ کو اچھی طرح صابن اور پانی سے تقریباً 15 منٹ تک دھویا جائے۔

دھونے کے بعد الکوحل یا پایوڈین (جراثیم کش دوا) لگائیں۔

فوری طور پر اسپتال جاکر ڈاکٹر سے رجوع کریں تاکہ اینٹی ریبیز ویکسین (ARV) اور اگر ضرورت ہو تو ریبیز امیونوگلوبلین (RIG) دی جا سکے

ویکسین کورس مکمل کیا جائے:

عام طور پر 4 یا 5 انجیکشنز کا کورس ہوتا ہے، جو مخصوص دنوں میں لگائے جاتے ہیں، 3، 7، 14 دن اور کبھی 28 دن تک میں۔

پیشگی احتیاطی تدابیر:

آوارہ کتوں اور دیگر مشکوک جانوروں سے دور رہیں۔

اپنے پالتو جانوروں کو بھی ریبیز سے بچاؤ کی ویکسین لگوائیں۔

بچوں کو سکھائیں کہ وہ اجنبی یا زخمی جانوروں کے قریب بالکل نہ جائیں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے کاٹنے کے مطابق گائے نے ہوتی ہے سے بچاؤ کو کاٹ

پڑھیں:

احسان: مالک سے وفاداری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اگر احسان فرماں برداری کی انتہا ہے تو یہ ہر نیک کام میں ہونا چاہیے۔ لیکن احسان کے ایک مفہوم کے مطابق ان سب کاموں میں سے چوٹی کا کام اللہ کا کلمہ بلند کرنے کا کام ہے اور اس کو خصوصاً احسان کہا گیا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے مندرجہ ذیل اقتباسات اس کی وضاحت کرتے ہیں:
’’ان دونوں چیزوں کے فرق کو ایک مثال سے یوں سمجھیے کہ حکومت کے ملازموں میں سے ایک تو وہ لوگ ہیں جو نہایت فرض شناسی و تن دہی سے وہ تمام خدمات ٹھیک ٹھیک بجا لاتے ہیں جو ان کے سپرد کی گئی ہوں۔ تمام ضابطوں اور قاعدوں کی پوری پوری پابندی کرتے ہیں اور کوئی کام ایسا نہیں کرتے جو حکومت کے لیے قابلِ اعتراض ہو۔ دوسرا طبقہ ان مخلص وفاداروں اور جان نثاروں کا ہوتا ہے جو دل و جان سے حکومت کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ صرف وہی خدمات انجام نہیں دیتے جو ان کے سپرد کی گئی ہوں، بلکہ ان کے دل کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ سلطنت کے مفاد کو زیادہ سے زیادہ کس طرح ترقی دی جائے۔ اس دھن میں وہ فرض اور مطالبے سے زائد کام کرتے ہیں۔ سلطنت پر کوئی آنچ آئے تو وہ جان و مال اور اولاد سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ قانون کی کہیں خلاف ورزی ہو تو ان کے دل کو چوٹ لگتی ہے۔ کہیں بغاوت کے آثار پائے جائیں تو وہ بے چین ہوجاتے ہیں اور اسے فرو کرنے میں جان لڑا دیتے ہیں۔ جان بوجھ کر خود سلطنت کو نقصان پہنچانا تو درکنار اس کے مفاد کو کسی طرح نقصان پہنچتے دیکھنا بھی ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتا ہے اور اس خرابی کے رفع کرنے میں وہ اپنی حد تک کوشش کا کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔ ان کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں بس ان کی سلطنت ہی کا بول بالا ہو اور زمین کا کوئی چپہ ایسا باقی نہ رہے جہاں اس کا پھریرا نہ اُڑے۔

اسلام کی اصل طاقت محسنین کا گروہ ہے۔ اصلی کام جو اسلام چاہتا ہے کہ دنیا میں ہو، وہ اسی گروہ سے بن آسکتا ہے۔ جو لوگ اپنی آنکھوں سے خدا کے دین کو کفر سے مغلوب دیکھیں، جن کے سامنے حدود اللہ پامال ہی نہیں بلکہ کالعدم کردی جائیں، خدا کا قانون عملاً ہی نہیں بلکہ باضابطہ منسوخ کردیا جائے، خدا کی زمین پر خدا کا نہیں بلکہ اس کے باغیوں کا بول بالا ہو رہا ہو، نظامِ کفر کے تسلط سے نہ صرف انسانی سوسائٹی میں اخلاقی وتمدنی فساد برپا ہو بلکہ خود اُمتِ مسلمہ بھی نہایت سرعت کے ساتھ اخلاقی و عملی گمراہیوں میں مبتلا ہورہی ہو، اور یہ سب دیکھ کر بھی ان کے دلوں میں نہ کوئی بے چینی پیدا ہو، نہ اس حالت کو بدلنے کے لیے کوئی جذبہ بھڑکے، بلکہ اس کے برعکس وہ اپنے نفس کو اور عام مسلمانوں کو غیر اسلامی نظام کے غلبے پر اصولاً و عملاً مطمئن کردیں، ان کا شمار آخر محسنین میں کس طرح ہوسکتا ہے؟
آپ دنیوی ریاستوں اور قوموں میں بھی وفادار اور غیر وفادار کی اتنی تمیز ضرور پائیں گے کہ اگر ملک میں بغاوت ہوجائے یا ملک کے کسی حصے پر دشمن کا قبضہ ہوجائے تو باغیوں اور دشمنوں کے تسلط کو جو لوگ جائز تسلیم کرلیں یا ان کے تسلط پر راضی ہوجائیں اور ان کے ساتھ مغلوبانہ مصالحت کرلیں، یا ان کی سرپرستی میں کوئی ایسا نظام بنائیں جس میں اصلی اقتدار کی باگیں انہی کے ہاتھ میں رہیں اور کچھ ضمنی حقوق اور اختیارات انھیں بھی مل جائیں، تو ایسے لوگوں کو کوئی ریاست اور کوئی قوم اپنا وفادار ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی، خواہ وہ قومی عادات و اَطوار کے کیسے ہی سخت پابند اور جزئی معاملات میں قومی قانون کے کتنے ہی شدید پیرو ہوں۔

ان سب ریاستوں اور قوموں کے پاس وفاداری کو جانچنے کا ایک ہی معیار ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی شخص نے دشمن کے تسلط کی مزاحمت کس حد تک کی، اس کو مٹانے کے لیے کیا کام کیا اور اس اقتدار کو واپس لانے کی کیا کوشش کی جس کی وفاداری کا وہ مدعی تھا۔ پھر کیا معاذ اللہ خدا کے متعلق آپ کا یہ گمان ہے کہ وہ اپنے وفاداروں کو پہچاننے کی اتنی تمیز بھی نہیں رکھتا جتنی دنیا کے ان کم عقل انسانوں میں پائی جاتی ہے؟‘‘… (تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)
احسان کے اس مفہوم کو ہم ایسے بیان کرسکتے ہیں: اللہ کے دین کے غلبے کے لیے ساری قابلیت اور سارے وسائل صرف کردینا، دل و جان سے اس کی تکمیل کی کوشش کرنا۔ یہ مفہوم درج ذیل آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے:
’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے‘‘ (العنکبوت: 69)۔

جنھوں نے اللہ کی راہ میں قتال کیا، مصیتیں اٹھائیں، ان کے متعلق کہا گیا:
’’آخرکار اللہ نے ان کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور اس سے بہتر ثوابِ آخرت بھی عطا کیا۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ(محسنین) پسند ہیں‘‘ (اٰل عمرٰن: 148)۔
’’جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا اُن میں جو اشخاص نیکوکار (احسان والے) اور پرہیزگار ہیں اُن کے لیے بڑا اجر ہے‘‘ (اٰل عمرٰن: 172)۔
’’اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ احسان کا طریقہ اختیا ر کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے‘‘ (البقرۃ: 195)۔
سیاق وسباق کے مطابق اس جگہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مراد اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی و جہد میں مالی قربانیاں کرنا ہے۔
انبیاؑ جن کی زندگیاں دین کی دعوت اور اس کی خاطر قربانیوں میں گزریں اور جنھیں جھٹلایا گیا، ان کا ذکر محسنین کہہ کر کیا گیا:
’’پھر ہم نے ابراہیمؑ کو اسحاقؑ اور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو راہِ راست دکھائی (وہی راہِ راست جو) اس سے پہلے نوحؑ کو دکھائی تھی۔ اور اُسی کی نسل سے ہم نے داؤدؑ، سلیمانؑ، ایوبؑ، یوسفؑ، موسٰی اور ہارونؑ کو (ہدایت بخشی)۔ اِس طرح ہم نیکو کاروں(محسنین) کو ان کی نیکی کا بدلہ دیتے ہیں‘‘ (الانعام: 84)۔
ان کے قصوں کے بعد بھی قرآن میں آٹھ مرتبہ کہا گیا کہ ہم محسنین کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ضلع غربی کے عوام کا دیرینہ مسئلہ پانی ہے‘مرتضیٰ وہاب
  • 13افراد کےڈوبنےکے واقعہ کی 63 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ
  • کراچی ، کھوکھراپارمیں گھرکے باہر 16 سالہ لڑکی کی لاش ملنے کا واقعہ ، جنسی زیادتی کا انکشاف
  • کراچی: کھرکھراپار میں گھر کے باہر 16 سالہ لڑکی کی لاش ملنے کا واقعہ، جنسی زیادتی کا انکشاف
  • نجی ایئرلائن کی سنگین غفلت، کراچی جانے والا مسافر بنا دستاویز جدہ پہنچا دیا
  • احسان: مالک سے وفاداری
  • نیوکراچی ٹاؤن میں برساتی نالوں کی صفائی، محمد یوسف ہنگامی دورہ
  • لاہور میں بلی اور خرگوش کے قتل کی دھمکی پر خاتون کے خلاف مقدمہ درج
  • کسان کارڈ فیز ٹو کے تحت 100 ارب روپے کے بلاسود قرضے دینے پر اتفاق