پاکستان کی حمایت کرنا جرم نہیں ہے، الہ آباد ہائی کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
ریاض احمد کے وکیل نے دلیل دی کہ پوسٹ سے ملک کے وقار یا خودمختاری کو ٹھیس نہیں پہنچی، کیونکہ اس میں ہندوستانی جھنڈا، نہ ہی ملک کا نام یا کوئی ایسی تصویر ہے جس سے ہندوستان کی توہین ہوتی ہو۔ اسلام ٹائمز۔ ایک اہم فیصلے میں الہٰ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر کوئی شخص بھارت یا کسی خاص واقعہ کا ذکر کئے بغیر صرف پاکستان کی حمایت کرتا ہے، تو پہلی نظر میں یہ انڈین جسٹس کوڈ (بی این ایس) کی دفعہ 152 کے تحت جرم نہیں بنتا، یہ سیکشن ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے جرائم کی سزا دیتا ہے۔ جسٹس ارون کمار سنگھ دیشوال کی بنچ نے 18 سالہ ریاض احمد کو ضمانت دیتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ ریاض احمد پر مبینہ طور پر ایک انسٹاگرام اسٹوری پوسٹ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، جس میں لکھا تھا چاہے جو ہوجائے، وہ سپورٹ تو بس پاکستان کا کریں گے۔ اس بات پر بی این ایس کی دفعہ 152 اور 196 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ریاض احمد کے وکیل نے دلیل دی کہ پوسٹ سے ملک کے وقار یا خودمختاری کو ٹھیس نہیں پہنچی، کیونکہ اس میں ہندوستانی جھنڈا، نہ ہی ملک کا نام یا کوئی ایسی تصویر ہے جس سے ہندوستان کی توہین ہوتی ہو۔
انہوں نے دلیل دی کہ محض کسی ملک کی حمایت کرنا، چاہے وہ ہندوستان کا دشمن ہی کیوں نہ ہو، بی این ایس کی دفعہ 152 کے تحت نہیں آتا۔ وکیل نے یہ بھی بتایا کہ کیس میں چارج شیٹ پہلے ہی داخل کی جا چکی ہے، اس لئے حراست میں پوچھ گچھ کی ضرورت نہیں ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کی جانب سے انسٹاگرام آئی ڈی کے ذریعے کی گئی اس طرح کی پوسٹس علیحدگی کو فروغ دیتی ہیں۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے کہا کہ ریاض نے ایسی کوئی پوسٹ نہیں کی جس سے بھارت کی بے عزتی ہو۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی واقعے یا بھارت کا نام لئے بغیر محض پاکستان کی حمایت کرنا، بنیادی طور پر بھارت کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کا جرم نہیں ہوگا۔
عدالت نے عمران پرتاپ گڑھی بمقابلہ ریاست گجرات میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ سوچ اور اظہار کی آزادی ہمارے آئین کے بنیادی نظریات میں سے ایک ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ دفعہ 152 ایک نئی شق ہے جس میں سخت سزا دی گئی ہے، اس لئے اسے احتیاط سے لاگو کیا جانا چاہیئے۔ بنچ نے کہا کہ دفعہ 152 کو لاگو کرنے سے پہلے معقول شخص کی احتیاط اور معیارات کو اپنانا چاہیئے، کیونکہ سوشل میڈیا پر بولے جانے والے الفاظ یا پوسٹ بھی آزادیٔ اظہار کے تحت آتے ہیں، جن کی مختصر تشریح نہیں کی جانی چاہیئے، جب تک کہ یہ ایسی نوعیت کی نہ ہو جو کسی ملک کی خودمختاری اور سالمیت کو متاثر کرتی ہو یا علیحدگی کو فروغ دیتی ہو۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ریاض احمد نے کہا کہ کی حمایت کے تحت
پڑھیں:
حیدرآباد: میر مرتضیٰ بھٹو کی سالگر ہ کے موقع پر ہائی کورٹ بارمیں کیک کاٹاجارہاہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-2-21