گنڈاپور کی قیادت میں قافلہ پرامن لاہورگیا، شوکت یوسفزئی
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
رہنما تحریک انصاف شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ چاہے کتنا بھی زور لگا لیں عوام عمران خان کے ساتھ ہیں، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں جو قافلہ لاہور گیا ہے وہ پرامن طریقے سے وہاں گئے ہیں، اپنا میسج دے رہے ہیں ، یہ ایک قسم سے پنجاب کو جگانے کیلیے بھی ہے، آپ نے دیکھا کہ جگہ جگہ پہ لوگ نکلے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آپ نے یہ بھی دیکھا کہ جو لوگ نکلے انھوں نے پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اور پولیس نے گرفتار بھی کیا یہ جو ہے حکومت کی فسطائیت ہے لیکن عوام کی محبت آپ دیکھیں کہ مریدکے، اور دوسری جگہوں پہ جو بھی قافلہ گیا ہے لوگوں نے کتنا زبردست استقبال کیا، اس کا مطلب ہے کہ لوگ سیاست کرنا چاہتے ہیں، لوگ عمران خان کا ساتھ دینا چاہتے ہیں۔
ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ چینی کا معاملہ عکاسی کرتا ہے ہماری فائر فائٹنگ پالیسی کی، چینی کی پیداوار کے اعدادوشمار تو آتے ہیں ان پر اتفاق رائے نہیں ہوتا، پھر ہمیں ایکسپورٹ کرنی پڑتی ہے،ایکسپورٹ اس لیے کرنی پڑتی ہے تاکہ ملک میں جو گلٹ(glut) ہے اس کو ختم کیا جا سکے اور قیمتوں کو مستحکم رکھا جا سکے پھر ہم چینی اتنی زیادہ ایکسپورٹ کر دیتے ہیں کہ ملک کی ضرورت پوری نہیں کر پاتے اور قیمتیں آسمان پر چلی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شوگرمل مالکان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ گلٹ نکال رہے ہیں اور گلٹ نکالتے نکالتے شارٹ فال آ جاتا ہے، یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ نہ ہم اعدادوشمار اچھے بنا سکتے ہیں نہ پالیسی بنا سکتے ہیں اور نہ ہی ہم ریگولیٹری رجیم چلا سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپےٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس ہر چھوٹ ہوتی ہے۔
جسٹس جمال خان نے ایڈیشنل اٹارنی جزل سے مکالمہ کیا کہ یہ تو آپ محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں، عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکھٹا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکھٹا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں۔
عاصمہ حامد نے دلیل دی کہ جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے۔
عاصمہ حامد نے کہا کہ مالی سال کا پروفیٹ موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔