وہ خود کو انجیر کے درخت کے دو شاخہ پر بیٹھی فاقہ کشی سے مرتا ہوا دیکھ رہی تھی۔

یہ جاننے کے باوجود کہ، نجات مرنے میں نہیں،

بلکہ اُس  سے نکلنے میں ہے۔

فٹس روئے روڈ ( Fitzroy Road)  لندن پر واقع ایک سیلن زدہ سرد فلیٹ۔

وہ جلدی جلدی کمرے کے دروازے اور کھڑکیوں کی جھریوں اور درزوں پر تولیے رکھ کر ٹیپ چسپاں کر کے انہیں سیل بند کر رہی تھی۔ اس نے اپنی 2 سالہ بیٹی اور 9 ماہ کے بیٹے کو پیٹ بھر کر دودھ کی بوتلیں پلا دیں تھیں تاکہ رات بھر پرسکون نیند لیں سکیں، بچے کئی دن سے بیمار ہیں۔

خودکشی کی پچھلی 2 ناکام کوششوں کے بعد اس بار اس کا فیصلہ حتمی تھا تبھی اس نے اپنا سر اوون کے اندر کیا اور گیس کھول دی۔

                ——————————-

کمرہ بند اور ساکت ہے۔ دروازے کے نیچے درزے سے روشنی کی ایک نحیف لکیر اندر سرکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

دیواروں پر ٹھہرے سائے ایسے، جیسے وقت نے خود اپنی سانسیں تھام رکھی ہوں۔

بستر پر لیٹی نیم جان ‘سلویا پلاتھ’ کے نتھنوں میں ابھی بھی گیس کی بو رچی بسی ہے۔ آنکھیں نیم وا، ہونٹ بے جان اور سانسیں آخری دہانے پر۔

اکھڑی سانسوں کے وقفے طویل ہوتے جارہے ہیں۔

کمرے میں خاموشی منجمد ہے جیسے کائنات بھی اُس کے مرنے کا انتظار کر رہی ہو۔

اس کے آس پاس لوگ، رشتے، چہرے، آوازیں اور دعائیں اب سب پس منظر میں دھندلے ہو رہے ہیں۔

چاندی جیسے سفید بالوں والا ڈاکٹر وقت کی نبض پر ہاتھ رکھے اس کے سرہانے بیٹھا ہے۔ یونیٹیرین چرچ کا پادری بائبل تھامے، سر جھکائے انہماک سے مناجات پڑھنے میں مصروف ہے۔ اس کا شوہر ٹیڈ ہیوز اس وقت بھی ایک جوان خوب صورت عورت کے لمس کے تصور میں غرق ہے۔

سلویا نے طنزیہ نگاہ ٹیڈ پر ڈالی اور سوچا،

‘تم کیا سوچتے ہو میں ہمیشہ ایسے ہی جیتی رہوں گی؟

خبردار!

میں راکھ سے پھر اٹھوں گی۔

اپنے سرخ بالوں کے ساتھ اور مردوں کو ہوا کی طرح نگل لوں گی۔’

دھندلاتے چہروں پر صبر کی اذیت ناک لکیر واضح ہوتی جا رہی ہے۔

وہ جانتی ہے کہ سب ‘بادشاہ’ کا انتظار کر رہے ہیں۔

اور وہ خود بھی، شدت کے ساتھ۔

کہ کوئی نُور، کوئی نرم سا لمس، کوئی دست شفقت کچھ تو آئے۔

وہ عظیم لمحہ، جب روح قفسِ بدن سے آزاد ہو کر کہیں ابد کی طرف پرواز کرے گی۔

اور پھر۔۔۔

دَرز میں سے ایک آواز آتی ہے۔ بھن۔ بھن۔ بھن۔

ایک مکھی۔

سفید پَر، ہلکی سی چمک اور ایک بےترتیب بھنبھناہٹ۔

وہ بلب کے گرد ایک دائرے میں گھوم رہی تھی، کبھی چھت سے ٹکراتی تو کبھی دیوار سے۔

مکھی بھنبھناتی ہوئی  نیچے اتری۔ سلویا کے کان کے قریب آ کر ذرا دیر کو رکی اور پھر بھنبھاتی ہوئی بستر مرگ کے گرد چکر کاٹنے لگی۔

سلویا کو محسوس جیسے کمرے کی ساری خامشی کو اُس مکھی نے چیر ڈالا ہو۔

زندگی اور موت کے درمیاں وہ آخری لمحہ۔ جو کبھی مقدس محسوس ہوا کرتا تھا۔ مکھی کی بھنبھناہٹ میں تحلیل ہو گیا تھا۔

اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔

آج سلویا کو مکھی کی بھن بھن اپنے آس پاس کھڑے رشتےداروں کی دعائیں، پادری کی مناجات اور ڈاکٹر کی تسلیوں سے زیادہ سکون آور لگ رہی تھی۔ وہی  سلویا پلاتھ جو مکھی کی بھن بھناہٹ سے ہمیشہ چڑتی تھی۔ اسے یاد آیا جب وہ یخ بستہ سردی کے موسم میں اپنا اعترافی ناول ‘دی بیل جار’ لکھ رہی تھی تو نہ جانے کہاں سے ایک مکھی اس کے کمرے میں آن پھنسی تھی بالکل ویسے ہی جیسے ناول میں ڈورین کا کردار۔ بلا ارادہ۔ سلویا لکھتے ہوئے بار بار مکھی کو اپنے اسکارف سے دور بھگاتی تاکہ بھبھناہٹ اسے تنگ نہ کرے لیکن آج موت کے دروازے پر اُس نے سوچا؛

کیا یہ مکھی میری وہ آخری سانس لینے آئی ہے جو ابھی تک میرے سینے میں پھانس کی طرح اٹکی ہوئی ہے؟ اسے لگا کہ سینکڑوں نیند کی گولیاں اس کے حلق میں پھنسی ہوئی ہیں اور نرس جون اپنے کھردرے ہاتھوں سے اُن گولیوں کو اس کے گلے سے کھرچ کھرچ کر نکال رہی ہے۔ اگلے ہی لمحے اسے محسوس ہوا کہ وہ اسپتال کے سفید بستر پر نیم دراز ہے اور سفید کوٹ پہنے لوگ برقی جھٹکے دے کر اسکے بے جان جسم میں زندگی کی رمق لوٹانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ بے وقوف سالے!

وقت اب مسلسل نہیں رہا وہ تھمتا، پگھلتا، بکھرتا جا رہا ہے۔

اُس کے ذہن میں ایک سوال آیا:

کیا یہی ہے؟

کیا آخر میں بس ایک مکھی رہ جاتی ہے؟

نہ کوئی فرشتہ، نہ کوئی نُور، نہ کوئی روحانی صدا۔ صرف بھنبھناہٹ؟

کیا یہ ہے میری آخری ساتھی؟

ہاں تو حالت مرگ میں کیا فرق پڑتا ہے کہ فرشتہ ہو یا مکھی، سلویا نے سوچا۔

مکھی نے سلویا پلاتھ کے کان میں سرگوشی کی، ‘ہممم آخر کار تم نے کر دکھایا۔ تمھاری خودکشی کی یہ کوشش رائیگاں نہیں گئی۔’

‘میں نے پھر کر دکھایا۔ ہر 10 برس میں ایک بار میں یہ کر دکھاتی ہوں۔’

تم ہو کون؟ سلویا نے پوچھا۔

‘میں کوئی نہیں! تم کون ہو؟

کیا تم بھی ‘کوئی نہیں’ ہو؟

پھر تو ہم دونوں ایک جیسے ہوئے!

‘میں ایملی ڈکنسن۔’ مکھی نے سرگوشی کی اور نظم گنگنانے لگی،

‘آئی ہرڈ آ فلائی بز وین آئی ڈائیڈ۔’

(وقتِ مرگ میں نے ایک مکھی کی بھنبھناہٹ سُنی)

کمرے کا سکوت کچھ ایسا تھا جیسے کچھ پل کے لیے ہوا تھم جائے۔ طوفان کے درمیان۔

‘اوہ!’ سلویا سسک کر گویا ہوئی۔

‘دنیا کے شور میں بعض آوازیں سرگوشیاں ہوتی ہیں۔ وہ نہ چیختی ہیں، نہ قہقہے لگاتی ہیں۔ وہ محض کاغذ پر تحریر کی صورت ابھرتی ہیں، آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے خوابوں کو الفاظ کا پیرہن پہنانے کے لیے۔

ہم شاید وہی دو سرگوشیاں ہیں۔ دو مختلف وقتوں کی مسافر مگر ایک ہی جیسی تنہائی کا بوجھ اٹھائے۔

تم نے اپنی زندگی نیم تاریک کمروں میں گزار دی کھڑکیوں سے جھانکتے، سفید لباس پہنے، ‘I heard a fly buzz – when I died’ جیسے شعر کہتے ہوئے۔ اور میں۔ سلویا پلاتھ! جس نے سورج چھونے کی کوشش کی اور آخرکار راکھ بن کر لوٹی۔ جیسے ‘Lady Lazarus’ کا جلتا ہوا قُقنُس (فینکس)۔’

سلویا غنودگی میں بڑبڑانے لگی لیکن کمرے میں موجود لوگوں کو سوائے بھنبھناہٹ کے کچھ سنائی نہ دیا۔

ایملی: ہم ایک صدی کے فاصلے پر ایستادہ

ایک ہی درد کی دو صدائیں ہیں۔

میں 19ویں صدی کی عورت، جہاں تنہائی میرا مقدر تھی۔

تم نے 20ویں صدی میں جنم لیا جہاں اظہار تو ممکن تھا مگر قبولیت نہیں۔

لیڈی لزارس، ڈیڈی، ایپلیکینٹ، ٹیولپ اور ایج جیسی اعترافی شاعری اور دی بیل جار جیسا خودنوشت ناول تحریر کرنے والی بے باک ادیبہ اور شاعرہ۔ جب کہ دوسری جانب زندگی سے مسلسل راہ فرار؟ ایملی بھنبھنائی۔

سلویا: مرنا ایک فن ہے، دیگر فنون کی طرح اور میں یہ فن غیر معمولی مہارت سے کرتی ہوں۔

ایملی: لیکن تم تو یسوع مسیح کے لزارس جیسا معجزہ ہو۔ مر کر دوبارہ جی اٹھنے والی۔ لیڈی لزارس!

سلویا: یہ سیلن زدہ، رِستے سرد فلیٹ میں تنہا بھوک سے بلکتے، سردی سے ٹھٹھرتے بچے، مردہ جسم، سفید سانپ کی مانند لپٹے ہوئے جن کے پہلو میں دودھ کی صراحی خالی  پڑی ہے۔

 تم اسے زندگی کا نام دیتی ہوں؟ کیا میں اس  لیے تخلیق کی گئی کہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو دن بہ دن زنگ لگتے، بنجر ہوتے دیکھوں!

اور تم، ایملی! تم نے تو خود کو اپنے اندر قید کر لیا تھا۔ الماری کے کونوں کُھدروں میں،

برسوں اپنے لفظوں کو تہوں میں چُھپا کر، سینت سینت کر رکھتی رہی۔ اپنے اشعار دفن کرتی رہی۔

کیسی زندگی تھی وہ؟

بغیر چیخے؟

بنا بغاوت کے؟

ایسی زندگی کا فائدہ؟

تم نے تنہائی اور گوشہ نشینی میں خود کو لمحہ لمحہ موت سے ہم کنار کیا۔

ایملی: کس نے کہا میں مر گئی؟

‘میں موت کے لیے رک نہیں سکتی تھی۔

تو وہ خود از راہ مہربانی میرے لیے رکی۔

رتھ میں فقط ہم دو تھے،

اور لافانیت۔’

کون کہتا ہے مرنے کا مطلب ختم ہو جانا ہے؟ یہ ایک منزل سے دوسری کی جانب سفر ہے۔

یہ سچ ہے کہ ہم دونوں نے زندگی کو

ادھورا جیا۔

نہ ماں کی آغوش

ہمیں مکمل ملی نہ باپ کا عکس،

کیا زندگی میں یہ کمی۔

ہمارے اختتام کا پہلا باب نہ تھی؟

میں خامشی سے

اپنے اندر کے اندھیرے کو کاغذ پر اتارتی رہی۔

‘تم کہتی ہو کہ میں کیوں نہ چیخی؟

سلویا چیخیں اسی کی ہوتی ہیں کہ سنی جائیں۔

ایملی سفید پروں کو پھیلاتی بھن بھن کرتی دائرے میں گھومنے

لگی۔

سلویا: مجھے بیک وقت ماں باپ سے محبت بھی تھی اور ایک خوف زدہ نفرت بھی۔

وہی تپش میں نے ٹیڈ کے ساتھ بھی محسوس کی۔

میں چاہتی تھی، ایک نظم جیسی بیوی، پرتوں والی ماں، شعلہ رُو شاعرہ بنو۔

مگر میں کسی بھی سانچے میں پوری نہ ڈھل سکی اور آخر میرے لفظوں نے مجھے ہی نگل لیا۔

‘گل لالہ کے پھول بھی بے تاب ہیں۔

  سرد موسم کا یہاں راج ہے۔

دیکھو! ہر شے برف میں لپٹی، کتنی خاموش اور سفید ہے۔

میں خود اپنے پہلو میں لیٹی، مطمئن ہونا سیکھ رہی ہوں۔ روشنی دھیرے دھیرے ان سفید دیواروں، اِس بستر، اِن ہاتھوں پر پھیل رہی ہے۔

میں کوئی نہیں ہوں۔’

ایملی: نہیں سلویا، تم دراصل خدا بننا چاہتی تھیں۔ اپنی استعداد سے بڑھ کر اپنے آپ سے وعدے جو کر لیے تھے۔

اور جب تم خود سے نہ نباہ سکیں تو خود کو سزا دے ڈالی۔

تم شعلہ بنیں اور جل کے نظم ہو گئیں۔

اور میں؟ میں دھواں بنی اور وقت کے دھارے کے پیچھے چھپ گئی۔ ہم دونوں ہی نظم کے ادھورے مصرع کی طرح ہیں جو نامکمل ہونے کے باوجود انفرادیت سے لبریز ہوتا ہے۔

ٹک ٹک ٹک۔۔۔

وقت کی تھمی ہوئی سانسیں بکھرنے لگیں

سلویا پلاتھ کی زندگی کی ڈور ہاتھ سے چھوٹ رہی ہے۔

راہ عدم کی سواری تیار ہے سلویا!

                   ……………

کمرے میں سسکیاں آہستہ آہستہ آہ و زاری میں ڈھل گئیں۔

ڈاکٹر نے نہایت نرمی سے سلویا پلاتھ کی نیم وا آنکھیں بند کیں تو پادری نے بلند آواز میں مناجات کا ورد شروع کر دیا۔

‘عورت مکمل ہو چکی ہے۔

اس کا مردہ جسم کامیابی کی مسکراہٹ زیب تن کیے ہوئے ہے۔

یونانی تقدیر کا فریب جو اس کے چوغے (toga) کی تہوں میں بہتا چلا جاتا ہے۔

اس کے برہنہ پاؤں یوں گویا ہیں۔

کہ ہم بہت دور تلک آگئے ہیں۔ اب سب کچھ اپنے اختتام کو پہنچا۔’

کمرے میں مکھی کی بھن بھناہٹ آہستہ آہستہ مدہم پڑنے لگی۔

‘مکھی نہ صرف اب ‘دیکھ’ نہیں سکتی

بلکہ دیکھنے کے عمل کو بھی بھول چکی ہے۔’

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

زندگی فکشن موت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: زندگی فکشن موت مکھی کی بھن ایک مکھی کے ساتھ رہی تھی کی اور کے لیے کوئی ن رہی ہے خود کو کی طرح

پڑھیں:

امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

کلیولینڈ کلینک کے ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا کی آبادی کا تقریباً 5 فیصد حصہ یعنی قریب 1 کروڑ 70 لاکھ افراد، ایسے جینیاتی تغیرات (میوٹیشنز) کے حامل ہیں جو کینسر کے خطرات کو بڑھا سکتے ہیں اور یہ لوگ اپنی حالت سے لاعلم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایک بلڈ ٹیسٹ سے 50 اقسام کے کینسر کی تشخیص ابتدائی اسٹیج پر ہی ممکن ہوگئی

ریسرچ جرنل جے اے ایم اے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ جینیاتی تبدیلیاں محض ان افراد تک محدود نہیں جو کینسر کی خاندانی ہسٹری رکھتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو بظاہر خطرے کی فہرست میں شامل نہیں تھے۔

تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جوشوا آربزمین کے مطابق جینیاتی ٹیسٹنگ عموماً انہی افراد کے لیے کی جاتی رہی ہے جن کے خاندان میں کینسر کی تاریخ موجود ہو یا جن میں علامات ظاہر ہوں، تاہم تحقیق سے معلوم ہوا کہ بڑی تعداد ان افراد کی بھی ہے جن میں خطرناک جینز پائے گئے مگر وہ روایتی کیٹیگری میں نہیں آتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی دوا پروسٹیٹ کینسر کے مریضوں میں اموات 40 فیصد تک کم کرنے میں کامیاب

ان کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال قبل ازوقت تشخیص اور بچاؤ کے مواقع ضائع ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔

تحقیق میں 70 سے زائد عام کینسر سے متعلق جینز کا تجزیہ کیا گیا جس میں 3 ہزار 400 سے زیادہ منفرد جینیاتی تغیرات رپورٹ کیے گئے۔ ان تبدیلیوں کے باعث کینسر کا خطرہ طرزِ زندگی، خوراک، تمباکو نوشی یا ورزش سے قطع نظر بڑھ سکتا ہے، یعنی صحت مند زندگی گزارنے والے افراد بھی جینیاتی طور پر خطرے میں ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں بریسٹ کینسر تیزی سے پھیلنے لگا، ایک سال میں 5 ہزار کیسز سامنے آنے کی وجہ آخر کیا ہے؟

ریسرچ میں شریک ماہر یِنگ نی کا کہنا ہے کہ ان جینیاتی تغیرات کی بہتر سمجھ کینسر کے خدشات کو جانچنے کے لیے محض خاندانی تاریخ یا طرزِ زندگی پر انحصار کرنے کے بجائے زیادہ واضح راستہ فراہم کرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق تحقیق اس بات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ کینسر سے بچاؤ کے لیے باقاعدہ اسکریننگ جیسے میموگرام اور کولونوسکوپی کو عام اور باقاعدہ طبی نظام کا حصہ بنانا ناگزیر ہو چکا ہے، کیونکہ لاکھوں افراد ظاہری صحت کے باوجود جینیاتی طور پر خطرے میں ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news امریکا جینیاتی تغیر جے اے ایم اے کلیولینڈ کلینک کینسر

متعلقہ مضامین

  • شاہانہ زندگی گزارنے والے ممکنہ ٹیکس چوروں کی نشاندہی کرلی گئی
  • سکھر میں صفائی کا فقدان، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگ گئے، انتظامیہ غائب
  • موٹرسائیکل فلائی اوور سے نیچے گر گئی،سوارموقع پر جاں بحق
  • وزیر داخلہ کا ٹی چوک فلائی اوور اور شاہین چوک انڈر پاس کا دورہ  
  • تلاش
  • ڈپریشن یا کچھ اور
  • اسلام آباد کے 2 میگا پراجیکٹس پر کام میں تیزی، 60 فیصد تکمیل ہوچکی
  • امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
  • اسلام آباد کے 2  میگا پراجیکٹس پر کام کی رفتار تیز 
  • محسن نقوی  کا ٹی چوک فلائی اوور ،شاہین چوک انڈر پاس منصوبوں کا دورہ