data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) لیاری میں رہائشی عمارت کے المناک انہدام کے 60 گھنٹے طویل ریسکیو آپریشن کا اختتام ہو گیا ہے، اور جائے حادثہ سے بھاری مشینری ہٹا لی گئی ہے۔ یہ سانحہ اپنے پیچھے 27 انسانی جانوں کے ضیاع کا داغ چھوڑ گیا ہے، جن میں 16 مرد، 9 خواتین اور 2 بچے شامل ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں زیادہ تر کا تعلق ہندو برادری سے تھا۔ تاہم، ریسکیو آپریشن کے خاتمے کے بعد یہ اہم سوال اب بھی باقی ہے کہ اس دلخراش سانحے کا ذمہ دار کون ہے۔حادثے کے بعد لیاری میں آج اداسی، خاموشی اور ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں کل تک قہقہے گونجتے تھے، آج وہاں پھٹی ہوئی کتابیں، خالی بستے، جوتے، ٹوٹے پھوٹے برتن اور رکشوں و موٹر سائیکلوں کی باقیات بکھری پڑی ہیں۔ یہ تباہ شدہ اشیاء ان بے شمار زندگیوں کی نشان دہی کر رہی ہیں جو اس حادثے کی نذر ہو گئیں۔ٹی وی اسکرینوں پر نظر آنے والا ایک خالی جیومیٹری باکس، جو کسی اسٹور سے نہیں بلکہ اسی ملبے سے ملا، انعمتا نامی ننھی پری کا ہے جو اس حادثے کے بعد بے گھر ہو گئی ہے۔ ملبے کے ڈھیر سے صرف یہ ڈبیا ہی نہیں بلکہ اس کی ایک کاپی اور رپورٹ کارڈ بھی ملا ہے جس میں اس نے امتحانات میں A1 گریڈ حاصل کیا تھا۔ انعمتا کا خوابوں سے بھرا خالی بستہ بھی جائے حادثہ سے ملا، جو اس کے روشن مستقبل کے بکھر جانے کی علامت ہے۔اس دلخراش حادثے نے کئی خاندانوں کو بے آسرا کر دیا ہے۔ ایک متاثرہ رکشہ ڈرائیور نے فریاد کی ہے کہ اس حادثے نے اس کے بچوں کی روزی روٹی چھین لی ہے۔ اس کا واحد ذریعہ معاش، اس کا رکشہ بھی ملبے تلے دب کر تباہ ہو گیا ہے۔ وہ نم آنکھوں سے حکومت سے اپیل کر رہا ہے کہ “حکومت پیسے نہ دے، کم سے کم رکشہ دے دے تاکہ روزگار کا بندوبست ہو جائے۔ میرے تو ہاتھ ہی ٹوٹ گئے ہیں (یعنی اب کچھ کمانے کے قابل نہیں رہا)۔” اندازہ ہے کہ متاثرہ عمارت کے ملبے تلے دب کر 50 سے زائد رکشوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ریسکیو آپریشن کے خاتمے کے بعد، متاثرین اور عوام کی نظریں اب حکام کی طرف ہیں کہ اس عمارت کے انہدام کے ذمہ داروں کا تعین کب ہو گا۔ یہ سوال شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ناقص تعمیرات، حکومتی عدم توجہی، یا کسی اور غفلت کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا؟ متاثرہ خاندان انصاف اور اپنے نقصانات کے ازالے کے منتظر ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے بعد

پڑھیں:

زخمی شخص نے بغدادی میں عمارت گرنے کے واقعے کا آنکھوں دیکھا حال بتادیا

کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں گزشتہ روز منہدم ہونے والی عمارت کے متاثرہ شخص نے عمارت گرنے کے واقعے کا آنکھوں دیکھا حال بتا دیا۔

شہید محترمہ بےنظیر بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف ٹراما میں زخمی یوسف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عمارت خالی کرنے کے 2 نوٹس پہلے ہی دیے جا چکے تھے۔

متاثرہ شخص کا کہنا تھا کہ حادثے سے پہلے عمارت میں دو بار لرزش محسوس ہوئی، حادثے کے وقت چوتھی منزل پر موجود تھا، خالہ کے ساتھ سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ ملبہ سر پر گرا۔

کراچی: بغدادی میں عمارت گرنے کا واقعہ، کل سے ریسکیو آپریشن جاری، 16 افراد کی لاشیں نکال لی گئیں

اسپتال انتظامیہ کے مطابق حادثے کے 3 زخمی زیرِ علاج ہیں۔

واضح رہے کہ کراچی کے علاقے لیاری بغدادی میں گزشتہ روز منہدم ہونے والی عمارت کے ملبے سے 16 افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔

ریسکیو ذرائع کے مطابق 5 منزلہ عمارت کے ملبے میں 6 سے 7 افراد کے دبے ہونے کی اطلاع ہے۔ 20 گھنٹے سے امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور اس میں مزید 8 گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

جاں بحق ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ متاثرہ عمارت کے اطراف میں موجود دیگرعمارتوں کو بھی خالی کرا کر پولیس کی نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لیاری عمارت حادثہ، ملبے سے 2 بچوں کو نکالنے والے کون تھے؟
  • لیاری بلڈنگ حادثہ: 20 آنجہانی ہندو افراد کی تدفین کر دی گئی
  • کراچی، لیاری کے عمارت حادثے میں جاں بحق 20 ہندوؤں کی اجتماعی تدفین
  • سانحۂ لیاری: انتظامیہ نے متاثرین کی رہائش کا انتظام نہیں کیا
  • کراچی لیاری میں عمارت گرنے کے بعد تیسرے روزیسکیو آپریشن مکمل، جاں بحق افرادکی تعداد 27 ہوگئی
  • برطانیہ کا کراچی لیاری سانحے پر اظہار افسوس، ریسکیو آپریشن میں مشکلات
  • لیاری میں عمارت گرنے کا واقعہ؛ اموات کی تعداد 26 ہوگئی، ریسکیو آپریشن جاری
  • زخمی شخص نے بغدادی میں عمارت گرنے کے واقعے کا آنکھوں دیکھا حال بتادیا
  • مخدوش عمارتوں کے متاثرین کو متبادل رہائش دینا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے: کھیئل داس کوہستانی