شہری اور دیہاتی زندگی میں بہت بنیادی فرق ہے۔شہری زندگی کی بات کریں تو اس میں جدید سہولیات کے مواقع ہیں اور یہ تیز رفتار طرزِ زندگی کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔جبکہ دیہاتی زندگی قدرتی ماحول،سادگی اور روایتی طرزِ زندگی پر مبنی ہے۔زندگی شہر کی ہو،یا دیہات کی، حادثات و واقعات پر مبنی ہے۔روز مرہ زندگی کو دیکھتے ہیں تو ان گنت واقعات سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے۔ایسے بھی واقعات گزرتے ہیں جو انہونے ہی نہیں،چونکا دینے والے بھی ہوتے ہیں۔اگرچہ جرائم کی روک تھام کے لیئے بہت سے ادارے موجود ہیں لیکن پھر بھی ان کی بیخ کنی نہیں ہوتی۔ قانون اور ادارے جرائم کی روک تھام میں ناکام نظر آتے ہیں۔معاشرتی قدریں گہنا سی گئی ہیں۔ دانشور اور حالات پر گہری نظر رکھنے والے بھی اب برملا کہنے لگے ہیں کہ معاشرتی اقدار کا جب تک خیال نہیں رکھا جاتا،حالات اسی طرح چلتے رہیں گے۔آخر کب تک ہم ان ساری مصیبتوں کا بوجھ اٹھائیں گے۔کیا ہم وہ لمحے نہیں دیکھ سکتے؟ جب ہم بھی اچھا وقت دیکھ سکیں اور ہماری بھی زندگیوں میں ڈھنگ کا کوئی بدلا آ جائے۔ہم بھی آسانیوں کو زندگی کا حصہ بنتے دیکھیں۔اگرچہ سائنس نے ہمیں نئی جہتوں میں داخل کر دیا لیکن کوئی کسک اب بھی باقی ہے کہ ہم نے بہت کچھ کھو دیا اور بہت کچھ کھونے والے ہیں۔پہلی سی محبتیں رہی ہیں وہ شفقتیں اور نہ ہی ماضی کی روایات۔جدید معاشرتی تہذیب نے سب اچھی اقدار کو مٹا دیا ہے۔وہ کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے جو نہیں دیکھنا چاہتے۔تعلیم کے نام پر بیوپار ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کے پاس ڈگریاں ہیں لیکن سکلز نہیں۔ ان حالات میں اچھے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔شہروں میں تعلیم، صحت، نقل و حمل اور مختلف تفریح کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں، جبکہ دیہی زندگی میں ایسا نہیں۔شہروں میں کاروبار اور ملازمتوں کے بھی وسیع مواقع موجود ہوتے ہیں۔ خاص طور پر کارپوریٹ اور کافی صنعتی شعبے یہاں ہیں جبکہ گائوں میں ایسا کچھ نہیں۔محرومیوں کا طویل سلسلہ ہے جو ہمیں دیہی زندگی میں ملتا ہے۔شہر کی زندگی بہت تیز رفتار ہے۔مواصلات کے ذرائع بھی زیادہ اور وسیع ہیں۔سفری سہولتیں بھی آسان اور تیز رفتار ہیں۔زیادہ آبادی ہونے سے شہروں میں کثافت بھی زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث ہجوم،بھیڑ بھاڑ اور ٹریفک کا مسئلہ رہتا ہے۔آلودگی کے مسائل بھی یہاں بہت زیادہ ہیں ٹریفک گرد سے اٹھی ہوائوں کے باعث یہاں ماحولیاتی آلودگی بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔شہر اگرچہ جدید ہو گئے ہیں۔ بہت ترقی کر لی ہے۔ لیکن شہروں میں رہنے والے اکثر تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔لوگوں کا ایک دوسرے سے میل جول کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ وہ عنصر ہے جس نے لوگوں کی اکثریت کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ اس کا شکار مرد ہی نہیں،اب عورتیں بھی ہو رہی ہیں۔دیہی معاشروں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ مضبوط سماجی روابط رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کی آبادی کم ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں امن اور سکون شہری علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ یہاں شور شرابا اور ٹریفک کے مسائل نہیں ہوتے۔لوگ قدرتی ماحول میں اپنا وقت گزارتے ہیں-
موجودہ پنجاب حکومت نے پنچاب کی دیہی زندگی کو بہتر بنانے کے لیئے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن میں کسانوں کے لئے آسان شرائط پر قرضے،ٹریکٹرز اور کھاد کی فراہمی جبکہ صحت و تعلیم کے بہت سے منصوبے بھی شامل ہیں۔تاریخ شاہد ہے جن دیہی علاقوں نے ترقی کی، وہ دیہی علاقے گائوں سے قصبے بن گئے۔بعد میں یہی قصبے مزید ترقی کر کے شہروں میں تبدیل ہوئے۔
تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ گیتھا یوک جو ترکی میں واقع ہے وہ پہلا باقاعدہ شہر ہے جو گائوں اور قصبوں کے ملاپ سے بنایا گیا۔تہذیب انسانی کی ارتقا میں ہمیشہ سے ٹائون پلاننگ کسی نہ کسی صورت شامل رہی ہے-حکمرانوں کی ضرورت اور وسائل کی دستیابی نے جب شہروں کو جنم دیا تو دیہات سے لوگ شہروں میں آ کر آباد ہونے لگے۔ یہ وہ لوگ تھے جو وسائل رکھتے تھے یا وسائل پیدا کرنے کی خواہش ان میں تھی۔انسانی تہذیب کے ابتدائی دور سے ہی شہروں کا وجود ملتا ہے۔زیادہ تر شہر دریا یا سمندر کے کنارے بسائے گئے۔دنیا میں جہاں بھی ترقی اور خوشحالی ہے۔وہ شہروں ہی کی مرہون منت ہے-پاکستان میں شہروں اور شہری آبادی کا سلسلہ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کا ہے۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور اور ڈھاکہ وغیرہ پہلے سے شہر تھے۔انگریزوں نے بھی منصوبہ بندی سے کچھ شہر بسائے۔جیسے ایبٹ آباد، فیصل آباد وغیرہ۔تاہم آزادی کے وقت ہماری بیشتر آبادی دیہاتوں میں ہی اقامت پذیر تھی۔ پاکستان بننے کے بعد دیہات سے شہروں کی طرف اقامت اختیار کرنے کے سلسلے نے نئے شہروں کو آباد کیا جہاں بسنے والوں کے لئے ان شہروں نے اعلی تعلیم اور روزگار کے بہت سے مواقع پیدا کئے۔جبکہ احساس محرومی بھی رہا جس سے یہاں جرائم نے جنم لیا۔تاہم دیہی علاقوں میں جرائم کا تناسب وہ نہیں جو شہروں میں ملتا ہے۔جرائم کی بیخ کنی کے لئے اگرچہ بہت سے ادارے سرگرم عمل ہیں لیکن جرائم ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔اس اعتبار سے دیہات کی زندگی پرامن اور اطمینان بخش ہے کہ یہاں ہنگامہ آرائی اور جرائم کی کوئی لہر نظر نہیں آتی۔ کاش ہمارے شہر بھی امن کا گہوارہ بن جائیں۔گائوں جیسے ہو جائیں۔شہری لوگ بھی دیہی علاقے کے لوگوں کی طرح امن، محبت اور سادگی سے رہنا اور جینا سیکھ لیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دیہی زندگی جرائم کی بہت سے ہے شہر
پڑھیں:
وقت بہت کچھ دکھا رہا، تاریخ بن رہی ہے، شیر افضل مروت
لاہور:سینئر سیاست دان شیر افضل مروت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جس کو وقتی طور پر شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ کوئی ان کی فتح ہے لیکن دیکھیں جس طرح یہ آپس میں لڑ پڑے ہیں ایسی سیٹیں لینے پہ وہ پارٹیاں جو جمہوریت کی دعوے دار بنی ہیں، کوئی مذہب کی دعوے دار ہیں، کوئی اخلاقیات کی باتیں کرتی تھیں اب وہ آپس میں لڑ رہی ہیں، وقت بہت کچھ دکھا رہا ہے اور یہ آج کی تاریخ بن رہی ہے اور لکھی جا رہی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ چھینا جھپٹی کا ماحول ہے، دنیا کے کسی ملک میں بھی معاشرے اس طرح کی چھینا جھپٹیوں سے ترقی نہیں پاتے ہیں۔
ماہر ماحولیات ملک امین اسلم نے کہا کہ 2022 میں بہت بڑی تباہی تھی ہمیں ڈویلپمنٹ فنانسنگ کی ترجیحات کو کلائمٹ چینج کی طرف منتقل کرنی چاہییں تھیں، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے متاثر ایک ملک ہے اور پچھلے دہائی سے جو ٹاپ ٹین ممالک ہیں ان میں اس کا شمار ہوتا ہے، ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ سردیوں میں بارشیں کم ہو رہی ہیں اور گرمیوں میں زیادہ ہو رہی ہیں، پچھلے سال سردیوں کی بارشیں ستر فیصد کم ہوئیں جس سے قحط سالی ہو گئی، جب اسی سال گرمیوں میں پچاس فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جس سے اربن فلڈنگ ہوئی۔
ماہر ماحولیات ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ ابھی تک ہم اس چیز کو سمجھ ہی نہیں پائے کہ ہمارا ہائیڈرولوجیکل سسٹم ہے کیا، ہمارے ہائیڈرولوجیکل سسٹم کے بارے مں جو فیصلہ سازی ہوتی ہے اس میں ہائیڈرولوجی کے اور واٹر ریسورسز کے ایکسپرٹ نہیں بیٹھتے اس میں یا تو بیوروکریٹ بیٹھتے ہیں، یا سیاست دان بیٹھتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ سول انجنیئر بیٹھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تنیوں میں سے کوئی بھی ہائیڈرولوجی اور واٹر ریسورسز کا ایکسپرٹ نہیں ہوتا، آپ کے پاس اس وقت جو سب سے بڑا قحط ہے وہ علم کا ہے اور ماہرین کا ہے، سمندر میں پانی کا جانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا آپ کے جسم میں پانی کا جانا ضروری ہے۔