عورت کو اتنا خودمختار کردو کہ اسے زندگی کے بارے میں سب معلوم ہو: احسن خان
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
پاکستان شوبز انڈسٹری کے کامیاب اداکار احسن خان نے خواتین پر سرمایہ کاری کے ذریعے انہیں خودمختار بنانے پر زور دیا۔حال ہی میں احسن خان نے ایک یوٹیوب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے خواتین کی خودمختاری کے حوالے سے گفتگو کی۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اداکار نے کہا کہ ہم خواتین کو آگے بڑھانے میں انویسٹ نہیں کرتے، عورت کو اتنا خودمختار کردو کہ اسے زندگی کا سب پتا ہو، لیکن خودمختار ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت اپنے اصول، ثقافت اور مذہب چھوڑ دے، خاتون کو ہر چیز کی معلومات ہوگی تو وہ زیادہ اچھے طریقے سے چیزوں کو سمجھ سکے گی۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ بہت سی خواتین ایسی ہیں جن کی شوہر سے علیحدگی ہوچکی ہے یا ان کے شوہر دنیا سے کوچ کرچکے ہیں تو ایسی خواتین کو نہیں معلوم کہ انہوں نے دنیا پر کرنا کیا ہے، بہت سے لوگ اسے ماڈرن بات کی طرف لے جائیں گے لیکن میں کوئی ماڈرن بات نہیں کر رہا، میں ایک مذہبی بات کر رہا ہے اور حضرت خدیجہؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ وہ ایک خودمختار خاتون تھیں۔احسن خان نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی زندگی کو کیسے گزارنا ہے، یہ ہم اپنے بہترین لوگوں سے سیکھتے ہیں اور ہمارے لیے بہترین مثالیں یہ (حضرت خدیجہؓ جیسی) ہستیاں ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
دکھاوا یا ذہنی بیماری
مہنگائی کی مار نے اچھے اچھوں کی سٹی گم کردی ہے، ملک میں آدھے سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے لیکن آپ کسی بھی شاپنگ سینٹر یا شاپنگ مال میں چلے جائیں وہاں آپ کو رش نظر آئے گا۔ خواتین کی تعداد ہر شاپنگ مال میں زیادہ ہوتی ہے اورکہیں سیل لگ جائے تو خواتین بلا ضرورت بھی چار پانچ سوٹ تو لازمی لے کر آئیں گی۔ میاں کی جیب سلامت رہے تو ایسی فضولیات کے لیے پیسہ بہت ہے اور اگر میاں کی جیب اجازت نہ دے تو گھر میں تیسری عالمی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔
وہ خواتین جو جاب نہیں کرتیں، انھیں مہنگائی کا آسیب نظر نہیں آتا، بارہ بجے ملازمہ کے آنے پر بستر چھوڑنا اور پھر ناشتے کے بعد سہیلیوں یا میکے والوں کے ساتھ باتیں کرنا، ایک عام سی بات ہے، ان خواتین کو شوہر اے ٹی ایم کارڈ لگتا ہے جب تک یہ اے ٹی ایم کارڈ بیگم صاحبہ کی خواہشات پوری کرتا رہے تو ٹھیک ہے، ورنہ روز لڑائی جھگڑا،کبھی فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانے کی فرمائش، توکبھی سیل میں لگی اشیا کے لیے نقد رقم میاں صاحب سے وصول کرنی، نہ دینے پر جھگڑا کرنا،گھر میں کھانا نہ پکانا، عام سی بات ہے، ان خواتین کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ مرد کن تکالیف سے گزرتے ہیں، لیکن ان کو صبح ناشتہ بھی نہیں ملتا، اکثر گھروں میں مرد خود ناشتہ بناتے ہیں، بیگم صاحبہ ملازمہ کے آنے کے بعد اٹھیں گی۔
یہ کیا ہے؟ دراصل یہ سب دکھاوا ہے جو ایک طرح سے ذہنی بیماری بھی ہے۔ اوروں کی دیکھا دیکھی اپنا بجٹ آؤٹ کرنا، شوہر کو پریشان کرنا یا پھر ناراض ہو کر میکے چلے جانا۔ اس دکھاوے نے زندگیوں کو اجیرن کردیا ہے، شوہر کما کما کر لا رہا ہے اور بیویوں کے مزاج ہی نہیں ملتے، جب کہ ملازمت پیشہ خواتین ناجائز مطالبات نہیں کرتیں، ملازمت کرنا آسان نہیں ہے، سب کو سرکاری ملازمتیں نہیں ملتیں اور پرائیویٹ ملازمتوں میں ہمیشہ برطرفی کی تلوار سر پر لٹکتی رہتی ہے، لیکن گھریلو خواتین کی بے جا فرمائشوں کی وجہ سے مرد اکثر ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں دکھاوا بہت ہے، جو جوڑا ایک تقریب میں پہن لیا ہے وہ کسی دوسری تقریب میں نہیں پہنا جائے گا، گویا یہ کاغذی پیرہن ہوتے ہیں جو ایک بار پہن کر الماری میں لٹکا دیے جاتے ہیں۔ کہنے کو مہنگائی بہت ہے لیکن جس دکان پر آپ جائیں گے، خواتین وہاں ضرور موجود ہوں گی، یہی نہیں بلکہ آپسی گفتگو میں بھی بڑھ چڑھ کر جھوٹ بولا جاتا ہے، دکھاوے کی وجہ سے بعض اوقات انسان بڑی مشکل میں پڑ جاتا ہے۔
اب شادی بیاہ ہی کو لے لیجیے، اس دکھاوے کی وجہ سے بہت سے لڑکے اور لڑکیوں کی شادیاں نہیں ہو رہی ہیں، مہندی، مایوں، برات، ولیمہ، چوتھی۔ ایک طویل فہرست ہے، پہلے تو خواتین کے ملبوسات کی خریداری پر کثیر رقم خرچ ہو گی، پھر دونوں طرف شادی کی تیاریاں۔ لڑکے والے بری بنانے میں قرض دار ہو جاتے ہیں، سونے کا زیور لازمی دلہن کو چڑھانا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، دونوں طرف سے دلہن کے لیے چالیس سے پچاس جوڑے اور جوتے، جو وقت گزرنے کے ساتھ آؤٹ آف فیشن ہو جاتے ہیں اور پہنے نہیں جاتے، لڑکے والے سونے کے سیٹ کے لیے انھیں قرضہ لینا پڑتا ہے اور پھر یہ قرضہ اتارنا بھی پڑتا ہے۔ دلہن والے جہیز کے نام پر جو سامان دیا جاتا ہے اس میں سے اکثر چیزوں کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، اپر مڈل کلاس میں دکھاوا بہت ہے، وہ بلاضرورت بھی قیمتی اشیا جہیز میں دیتے ہیں۔
میرے اپارٹمنٹ کے قریب ہی ایک نوجوان اکیلے رہتے تھے، کاروبار اچھا تھا، والدین نہیں تھے البتہ بہن بھائی تھے، نوجوان نے اپنے اپارٹمنٹ کو بلڈنگ کا سب سے خوبصورت اپارٹمنٹ بنا دیا تھا، لڑکی ڈھونڈی جا رہی تھی، بالآخر مطلوبہ لڑکی مل گئی، نوجوان کی بہن نے واضح طور پر کہہ دیا کہ انھیں جہیز کے نام پر کچھ نہیں چاہیے، لیکن شادی سے دو دن پہلے ٹرک بھر کر سامان آگیا، اب یہ لوگ پریشان کہ سامان کہاں رکھیں، مسئلہ یہ بھی تھا کہ ٹی وی، فریج اور صوفے گھر میں تھے، انھیں یہ نہیں دینا چاہیے تھے جب کہ لڑکے والوں کی کوئی ڈیمانڈ بھی نہیں تھی، دو افراد کے گھر میں نہ دوسرے ٹی وی کی ضرورت تھی نہ فریج کی۔ بہتر ہوتا کہ والدین کچھ نقد رقم بیٹی داماد کو دے دیتے۔
جن کے پاس دو نمبرکا پیسہ ہے وہ تو دکھاوا کریں گے ضرور، مہندی، مایوں، برات اور ولیمہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کی جاتی ہیں، لیکن عام لوگوں کو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں۔ ایک مذہبی فریضے کو بلاوجہ زحمت کا باعث بنا دیا گیا ہے۔ دکھاوے کے عذاب سے نکل کر دیکھیں زندگی بہت خوب صورت ہے۔
دونوں خاندان مل بیٹھ کر معاملات طے کریں، بلاوجہ قرض دار ہونے کا کیا فائدہ، گزشتہ دنوں میں ایک شادی میں مدعو تھی، بال روم میں تقریب تھی اور لوگ بھی کم تھے، لڑکی کی ماں نے لڑکے والوں سے صاف کہہ دیا کہ برات میں 70 لوگ لائیں، انھوں نے خوش دلی سے قبول کر لیا، اور لڑکے والوں نے بھی ایک بال روم میں ولیمہ رکھا اور انھوں نے بھی مختصر لوگوں کو بلایا تھا، دونوں خاندانوں نے باہم صلاح و مشورے سے تمام معاملات طے کر لیے، نہ لاتعداد جوڑے دیے گئے، نہ لباس کی میچنگ کے ڈھیروں جوتے بھی نہیں دیے۔ لڑکے والوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ سونے کا سیٹ نہیں چڑھائیں گے، البتہ جوڑوں کی میچنگ کے پانچ جوتوں کے جوڑے بھی لائے۔ ویسے بھی اصلی سونے کے زیور اب کوئی نہیں چڑھاتا، اور اگر کوئی چڑھا بھی دے تو پہننے میں نہیں آتے، آئے دن خبریں آتی ہیں کہ کسی خاتون کی گلے کی چین چھین لی گئی۔
آئے دن پتا چلتا ہے کہ نجانے کتنی خواتین کے ہاتھوں سے چوڑیاں اتروا لی گئیں، میری بھتیجی کو زیور پہننے کا بہت شوق تھا، گزشتہ سال نئی گاڑی میں شوہر اور چھوٹے بیٹے کے ساتھ کہیں جا رہی تھیں، شوہر نے ٹوکا بھی کہ آرٹیفیشل جیولری پہن لو، لیکن انھوں نے ایک نہ سنی کہ جب اصلی جیولری ہے تو نقلی کیوں پہنیں۔ پھر ہوا یوں کہ کریم آباد چورنگی کے قریب گاڑی پٹرول پمپ پر روکی تاکہ پٹرول ڈلوا سکیں، ابھی پٹرول ڈلوا کر فارغ ہوئے تھے کہ تین ڈکیت آگئے اور اسلحے کے بل پر ساری جیولری اتروا لی اور نئی گاڑی بھی چھین لی۔ ایک ڈکیت پورے وقت دس سالہ بیٹے کے سر پر پستول تانے کھڑا رہا، کم بختوں نے ایک دھیلا نہ چھوڑا۔
اصل میں ایک مسئلہ اور بھی ہے، وہ ہے ’’ لوگ کیا کہیں گے۔‘‘ ناک کٹ جانے کا ڈر اور اسی لوگ کیا کہیں گے کے ڈر کی وجہ سے ڈھیروں جہیز دیا جاتا ہے، مایوں، مہندی کا خرچہ اٹھایا جاتا ہے اور زیر بار ہوا جاتا ہے، کیا یہ بہتر نہیں کہ غور کریں اور باہمی صلاح و مشورے سے مایوں، مہندی کو ختم کریں اور دونوں پارٹیاں صرف قریبی عزیزوں کو تقریب میں بلائیں، اس طرح نہ قرضہ لینا پڑے گا، نہ زیر بار ہوا جائے گا۔ اگر کوئی ایک پہل کر دے تو دوسروں کو بھی حوصلہ ہوگا۔
لیکن پھر وہی سوال ہے کہ ’’پہل کون کرے‘‘ لوگ رشتے داروں کی باتوں سے ڈرتے ہیں، لیکن کتنا ہی بڑھیا کھانا کھلائیں، بعد میں رشتے دار ایسی باتیں کرتے ہوئے پاتے جاتے ہیں کہ بریانی میں بوٹیاں بہت کم تھیں۔ قورمے میں مرچیں زیادہ تھیں، بروسٹ اندر سے کچا تھا، چکن کڑھائی بالکل بدمزہ تھی اور میٹھا تو کم پڑگیا تھا، لوگوں نے دو دو تین تین بار کھایا، کھا پی کر تنقید کرنا ہماری سوسائٹی میں عام ہے اور یہ بھی سو فی صد سچ ہے کہ جن لوگوں کو نئی نئی دولت ملتی ہے، ان میں دکھاوا بہت زیادہ ہوتا ہے، برسوں کی محرومیوں کا علاج وہ اچانک ملنے والی دولت کی نمائش سے کرتے ہیں۔
پنجاب میں تو اور برا حال ہے، وہاں جہیز میں لحاف، گدے اور چارپائیوں کے رنگین پائے تک دیے جاتے ہیں، کئی کئی عدد لحاف اور گدے اسٹور میں یا بڑے صندوقوں میں بند کرکے رکھ دیے جاتے ہیں اور مہمانوں کے آنے پر نکالے جاتے ہیں۔ ایک اور برا دستور یہ بھی ہے کہ آس پاس کے گاؤں گوٹھوں سے مہمان کئی کئی دن پہلے آ کر براجمان ہوتے ہیں۔ یہاں بھی ان کی ناراضگی کا خیال میزبانوں کو کرنا پڑتا ہے۔ وہی لوگ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں جنھیں اچانک کہیں سے دولت مل جائے۔ لیکن بعض جگہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ چادر دیکھ کر پاؤں نہیں پھیلاتے، لاکھوں کے قرض دار ہو جاتے ہیں اور پھر ساری عمر قرض چکانے میں گزر جاتی ہے، دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہو جاتا ہے۔