Jasarat News:
2025-09-18@12:57:42 GMT

صارفیت، آدھی روٹی اور دل ونگاہ کی مسلمانی

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہم اپنے فلیٹ کی گیلری سے دیکھ رہے تھے۔ نیچے فلیٹ میں نئے لوگ شفٹ ہورہے تھے۔ لوگ کیا صرف دو میاں بیوی تھے۔ لیکن ان کا سامان! دو بڑے ٹرکوں پر لوڈ تھا جسے چار مزدور اٹھا اٹھاکر کمروں میں منتقل کررہے تھے۔ لگتا تھا دونوں میاں بیوی کی زندگی کا مقصد اور محور بس چیزیں اور اشیاء جمع کرنا تھا۔ آج کل زندگی کا یہی ڈھب ہے۔ بیش تر لوگوں کی زندگیاں محبت، تجربے اور تخلیق سے جینے کے بجائے محض مادی اشیاء کے زیادہ سے زیادہ حصول کے گرد گھوم رہی ہیں۔ محبت، جو کبھی ہر چیز کا پھیلائو اور وسعت تھی، سب کچھ جس میں سما جاتا تھا اب مادی اشیاء اس پر غالب اور برتر ہیں۔

اٹھارویں صدی کے وسط (1760ء) سے انیسویں صدی کے وسط (1840ء) تک صنعتی انقلاب کی پہلی لہر، جب برطانیہ میں بھاپ کے انجن، پاورلوم، اسپننگ جینی اور دیگر مشینوں کی ایجاد سے زرعی معیشت سے دنیا مشینی اور شہری معیشت کی طرف منتقل ہونا شروع ہوئی، صنعتوں اور فیکٹریوں کا جال بچھنے لگا، ریلوے، اسٹیل اور دیگر شعبوں میں تیزی سے ترقی ہونے لگی تب لوگوں کو بتایا گیا کہ اب مشینیں انسانوں کا کام آسان بنائیں گی۔ آمدنی، آسائش، آرام، فرصت اور تفریح زیادہ ہوگی۔ علم، تعلیم، انصاف اور شہری آزادی سب کو ملے گی۔ ہر شخص محنت کرکے امیر بن سکے گا۔ سائنس انسانی نجات دہندہ کا کردار ادا کرے گی۔ بیماریاں ختم ہو جائیں گی، فاقہ کشی ماضی کا قصہ بن جائے گی اور زندگی بہتر سے بہتر ہوجائے گی۔

سرمایہ دارانہ نظام کا دکھایا ہوا یہ خواب، خواب ہی رہا۔ مشینوں نے انسان کو فرصت اور تصورِ جاناں کے لمحات تو کیا دینے تھے اس کے دن رات کام میں جکڑدیے حتیٰ کہ وقت کی کمی عام شکایت بن گئی۔ لوگوں کے پاس محبت کرنے کا وقت بھی نہیں رہا۔ شہروں میں صنعتی آلودگی بڑھ گئی۔ رشتے یوں آلودہ ہوئے کہ خاندانی نظام بکھر گیا۔ انسانوں کے درمیان روحانی وجذباتی فاصلے وسیع سے وسیع تر ہوگئے۔ انسان اپنے آپ سے اجنبی ہو گیا۔ ایک دوسرے سے اجنبی ہو گیا۔ گزشتہ مہینے مشہور ٹی وی آرٹسٹ عائشہ خان جن کا کام تقریباً پانچ دہائیوں پر پھیلا ہوا تھا 19 جون 2025 کو گلشن اقبال کراچی میں ان کے فلیٹ میں ان کی لاش کا انکشاف اس حال میں ہوا کہ وہ تنہائی کی حالت میں ایک ہفتے پہلے وفات پا چکی تھیں۔ ایک ہفتے وہ منظر سے غائب رہیں پاس پڑوس کسی کو تشویش ہوئی اور نہ ان کی خبر لینے کی خواہش کسی دل میں بیدار ہوئی۔ بدبو آنے پر پولیس کو اطلاع دی گئی۔ ان کا ایک بیٹا اسلام آباد میں تھا جب کہ دیگر بچے بیرون ملک رہائش پذیر تھے۔ اس ایک ہفتے اور نہ جانے کب سے انہوں نے اپنی 76 سالہ بوڑھی ماں کی کوئی خیر خبر نہیں لی۔ پولیس سرجن کے مطابق لاش پہلے سے گندے پن کی وجہ سے سڑچکی تھی۔

سرمایہ دارانہ نظام کے خواب کا آج حاصل یہ ہے کہ سرمایہ چند لوگوں کے ہاتھ میں مرکوز ہے اور محنت کش طبقات کا حال برا ہے۔ پہلے ایک فرد کماتا تھا اور پورا گھر کھاتا تھا۔ آج سب مل کر کما رہے ہیں اور پھر بھی پورا نہیں ہورہا۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو مادی اشیاء کی دوڑ میں دوڑے چلے جارہے ہیں۔ نت نئے ملبوسات، گاڑیوں، فون اور برانڈز میں زندگی کی خوشیاں تلاش کررہے ہیں۔ تعیشات کے حصول کی غلامی کررہے ہیں۔ اپنی زندگی اور محنت کو ان کے حصول میں کھپا رہے ہیں پھر بھی روحانی خلا میں معلق اور ناآسودہ ہیں۔ وہ ایک ایسی مادی دنیا میں ہیں جہاں سب کچھ ہے سوائے دل، روح اور تخیل کے۔ ہر رشتے سے کٹ کر محض صارف (Consumer) بن کر اشیاء کی پرستش کررہے ہیں۔ یہ پرستش وقتی سکون تو پہنچاتی ہے لیکن طلب مزید بڑھا دیتی ہے۔

وہ لوگ جو اس دنیا کے پچھواڑے میں ہیں جن کے پاس کچھ نہیں وہ بھی اشیاء کی اسی غلامی کو کامیابی اور خوشی کا پیمانہ سمجھنے لگے ہیں۔ محبت، سچائی، دیانت اور قربانی جیسے آئیڈیل اب سماج کے اس حصے میں بھی پسپا ہورہے ہیں۔ برانڈز، شہرت اور ظاہری چمک ان کے ضمیروں کو بھی دھند لارہی ہے۔ یہ طبقے بھی بس موقع کی تلاش میں ہیں وہ بھی خیالی نجات کے اسی کاروبار میں شریک ہونے کے لیے مرے جارہے ہیں۔ محنت کش عوام بھی فکری زوال کا شکار ہیں۔ محروم طبقہ بھی اشیاء اور ظاہری چمک دمک کو آئیڈیل اور خوشیوں کا باعث سمجھنے لگا ہے۔ آدھی روٹی کھا کر شکر کرنے والے بھی اب کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ آدھی روٹی اور دل ونگاہ کی مسلمانی بھی اب زوال پذیر ہے۔ معاشرہ عدل، محبت اور دیانت داری کے اصولوں سے خالی ہو جائے تو دولت بھی بدبختی لے کر آتی ہے۔ اب کوئی بھی ان قربانیوں کی قیمت پر دولت کو بدبختی سمجھ کر اس سے گریزاں ہونے پر تیار نہیں خواہ اس کے لیے عدل محبت اور دیانت داری کو چھوڑنا پڑے۔

اب روح کو پیاسا رکھ کر جسم کو آسودگی دینے والی دنیا کہیں بری نہیں رہی۔ مادی ترقی کی وجہ سے روحانی زوال ہو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ محبت، سچائی، قربانی اور دیانت وغیرہ اب بس وغیرہ وغیرہ ہیں۔ ان موضوعات پر باتیں، تقریریں اور تحریریں اچھی لگتی ہیں ترقی کی غلامی کو آزادی کا نام دے کر ہم جو زندگی بسرکررہے ہیں اس زندگی میں ان جذبوں کا مقام بس یہیں تک رہ گیا ہے۔ جہاں زندگی میں بہت سی اشیاء سجاوٹ کے طور پر گھر میں رکھ لی جاتی ہیں وہاں ان جذبوںکو بھی زندگی میں کسی مقام پر رکھ لیا گیا ہے دیگر بہت سی چیزوں کی طرح۔ مارکس نے جو بات مذہب کے بارے میں کہی تھی وہ بات اب اشیاء اور صارفیت پر صادق آتی ہے۔ اب اشیا اور صارفیت اس دور کے انسان کی افیون ہیں۔

اب لوگ ایسی مشینیں ہیں جو صرف فائدہ تخلیق کرنا چاہتی ہیں بہر قیمت۔ ایک ایسی مشین کے پرزے جو اخلاقیات سے عاری ترقی اور پیداوار کا ماڈل خلق کرتے ہیں یا پھر ایک ایسی مشین کے پرزے جن کی سوچ اور جن کے جذبات تک پر باہر کی قوتوں کا، میڈیا کا، عالمی بیوروکریسی کا اور حکومتوں کا کنٹرول بڑھ گیا ہے۔ وہ اپنی محنت اپنی فکر اور اپنے رشتوں سے کٹ گئے ہیں۔ جذبات اور اخلاقیات سے بیگانہ ہو گئے ہیں۔ ہمہ وقت کارکردگی دکھانے والی مشینیں، فائدے اور پیداوار کے دبائو میں سانس لیتی ہوئیں جنہیں ایسا محسوس کروایا جا رہا ہے کہ جیسے وہ آزاد ہیں مگر ان کی سوچ، جذبات اور نظریات پہلے سے طے شدہ دائروں میں قید ہیں۔ پہلے سے دائرے بنادیے گئے ہیں جن میں وہ گردش کررہے ہیں اور اس گردش کو آزادی سمجھ رہے ہیں۔ ہم جو دیکھ اور سمجھ رہے ہیں اس کے سوتے ہمارے اندر سے نہیں پھوٹتے بلکہ ٹی وی، میڈیا، اشتہارات اور بیرونی طاقتیںطے کرتی ہیں کہ ہمیں کیا سوچنا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام نے صنعتی ترقی کی صورت لا محدود ترقی، لا محدود آزادی اور لا محدود خوشی کا جو خواب دکھایا تھا وہ ایک بڑے دھوکے کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوا۔ معاشی ترقی بس چند امیر ملکوں تک ہی رہی وہاں بھی مخصوص طبقوں تک۔ اس نظام سے دنیا میں امیر اور غریب کے درمیان فرق میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کی رپورٹوں کے مطابق یہ اس نظام کا ثمر ہے کہ دنیا کی آبادی کا ایک فی صد طبقہ دنیا کی نصف سے زیادہ دولت پر قابض ہے۔ امریکا، برطانیہ، جا پان اور جرمنی میں بھی دولت کا بڑا حصہ چند کمپنیوں اور خاندانوں کے پاس ہے۔

دنیا بھر میں متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے اور نچلا طبقہ جان توڑ محنت کے باوجود غربت میں دھنس رہا ہے۔ اس نظام نے جس صارفیت اور کنزیومر ازم کو جنم دیا اس نے خوشی کو زیادہ سے زیادہ اشیاء اور چیزوں کے جمع کرنے، برانڈز اور نمودو نمائش سے جوڑ دیا ہے لیکن انسان کو اور اخلاقیات کو فراموش کردیا ہے۔ اب دل ونگاہ کی مسلمانی برقرار اور زندہ رکھنے کے لیے آدھی روٹی پر گزر بسر کرنے والے کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا دھی روٹی جارہے ہیں کررہے ہیں رہے ہیں

پڑھیں:

کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟

اڑن طشتریوں اور خلائی اغوا کی کہانیوں کو بھول جائیں کیونکہ اب سائنسدان زمین سے باہر زندگی کی تلاش کو ایک منظم اور سنجیدہ سائنسی مشن کے طور پر انجام دے رہے ہیں اور توقع ہے کہ اگلی دہائی میں ہمیں اس کا کوئی ثبوت بھی مل سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیویارک: آسمان میں پراسرار اشیا کی نقل و حرکت، کیا یہ خلائی مخلوق کی کارستانی ہے؟

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت زمین سے باہر زندگی کی تلاش کئی محاذوں پر جاری ہے۔ مریخ پر ناسا کا پریزروینس روور نمونے جمع کر رہی ہے جنہیں آئندہ برسوں میں زمین پر واپس لا کر تجزیہ کیا جائے گا۔

نظام شمسی کے منجمد چاندوں پر مشن بھیجے جا رہے ہیں تاکہ ان کی سطح کے نیچے چھپے سمندروں میں زندگی کے آثار تلاش کیے جا سکیں۔ دوسری جانب ماہرین فلکیات ہماری کہکشاں میں موجود دیگر سیاروں کی فضا کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں تاکہ کسی ’بائیو سگنیچر‘ یعنی حیاتیاتی نشان کا پتا چل سکے۔

مزید پڑھیے: پراسرار سیارچہ خلائی مخلوق کا بھیجا گیا کوئی مشن ہوسکتا ہے، ہارورڈ کے سائنسدان کا دعویٰ

برطانیہ کے ماہر فلکیات لارڈ مارٹن رِیس نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اگلے 10 سالوں میں ہمارے پاس یہ جاننے کے لیے کوئی ثبوت ہوگا کہ قریبی سیاروں پر کوئی حیاتیاتی سرگرمی موجود ہے یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم واقعی ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔

مریخ پر زندگی؟ ایک ممکنہ اشارہ

ستمبر 2025 میں ناسا نے اعلان کیا کہ مریخ کے جیجیرو کریٹر میں پرانے دریا کے کنارے سے ملنے والے مَڈ اسٹونز میں ایسے معدنیات دریافت ہوئے ہیں جو زمین پر عام طور پر حیاتیاتی عمل کے نتیجے میں بنتے ہیں جیسے گریگائٹ اور ویوینائٹ۔

اگرچہ یہ دریافت حتمی ثبوت نہیں ہے لیکن اسے مریخ پر ماضی کی زندگی کی ایک ممکنہ علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم ان نمونوں کو زمین پر لا کر جدید لیبارٹریز میں تجزیہ کرنے کے بغیر کوئی یقینی بات نہیں کی جا سکتی اور فی الحال ناسا کے ’مارس سیمپل ریٹرن مشن‘ کو فنڈنگ کے مسائل کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: ایلون مسک نے خلائی مخلوق کے وجود کے حوالے سے اپنی رائے بتادی

اوپن یونیورسٹی یو کے سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سوزانے شونزر کا کہنا ہے کہ اگر مریخ پر زندگی رہی ہے تو چٹانوں اور پانی کے تعاملات میں اس کے ثبوت چھپے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان نمونوں کی باریک بینی سے جانچ کرنی ہوگی۔

آئس چاند: ایک نیا افق

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ اگر زندگی کسی ایسے مقام پر دریافت ہو، جو زمین سے بالکل مختلف ہو، تو یہ زندگی کے آزاد آغاز کا ناقابل تردید ثبوت ہوگا۔

یورپا (Jupiter کا چاند) اور انسلیڈس (Saturn کا چاند) اس دوڑ میں سرِفہرست ہیں جہاں سمندر برف کی موٹی تہہ کے نیچے چھپے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: گوگل اے آئی نے زمین پر خلائی مخلوق کے پوشیدہ ٹھکانوں کی نشاندہی کردی

ناسا کا یورپا کلپر اور یورپی ایجنسی کا جوس مشن بالترتیب سنہ 2030 اور سنہ 2031 میں یورپا پہنچیں گے۔ یہ مشنز زندگی کا براہ راست ثبوت تو نہیں لائیں گے لیکن ماحول اور سمندر کی ساخت کا جائزہ لیں گے تاکہ مستقبل میں برف کے نیچے مشینیں بھیجنے کی راہ ہموار کی جا سکے۔

زمین جیسے سیارے؟ نیا مشاہدہ

اب تک ماہرین فلکیات ساڑھے 5 ہزار سے زائد ’ایگزو پلینٹس‘ (یعنی دیگر ستاروں کے گرد گھومنے والے سیارے) دریافت کر چکے ہیں۔ ان میں سب سے دلچسپ نظام TRAPPIST-1 ہے، جس میں زمین جیسے 7 سیارے موجود ہیں جن میں سے تین ‘قابل رہائش’ زون میں آتے ہیں۔

جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ اب ان سیاروں کی فضا کا تجزیہ کر رہی ہے۔ ستمبر 2025 میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق TRAPPIST-1e سیارے پر ایک ہلکی سی فضا کے آثار ملے ہیں اور سنہ 2026 میں مزید واضح نتائج متوقع ہیں۔

مزید پڑھیں: اڑن طشتری والی مخلوق کا تعلق کس سیارے سے ہے، انوکھا نقطہ نظر

ناسا کے ایکس پلینٹ سائنس انسٹیٹیوٹ کی ڈاکٹر جیسسی کرسچنسن نے کہا کہ اگر ہمیں ان سیاروں پر فضا کا سراغ ملا تو اگلے 20 سال کی تمام تحقیقی کوششیں انہی سیاروں پر مرکوز ہو جائیں گی۔

ذہین مخلوق کی تلاش: کہاں تک پہنچے؟

ذہین مخلوق (انٹیلیجنٹ لائف) کی تلاش کا آغاز 20ویں صدی کے وسط میں سیٹی پروگرام سے ہوا تھا جو ریڈیو سگنلز کے ذریعے دیگر دنیاوں سے رابطہ تلاش کرنے کی کوشش تھی۔

مزید پڑھیے: مریخ پر زندگی کے آثار: نئے اور مضبوط سراغ مل گئے

آج، بریک تھرو لسٹن جیسے پروگرام دور دراز کے سیاروں سے ممکنہ ریڈیو سگنلز کا تجزیہ کر رہے ہیں جبکہ 2028 میں شروع ہونے والا اسکوائر کلومیٹر ایرے ریڈیو ٹیلی اسکوپ ان کوششوں کو نئی وسعت دے گا۔

پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے جیسن رائٹ کہتے ہیں کہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر کوئی سگنل آیا تو ہم اسے کسی بھی وقت پکڑ سکتے ہیں۔

خاموش خلا بھی ایک جواب ہے

زندگی کی تلاش کی تمام کوششیں ہمیں یہ سکھا رہی ہیں کہ زمین سے باہر زندگی ممکن ہے لیکن ضروری نہیں کہ عام ہو۔ ڈاکٹر ساشا کوانز کہتے ہیں اگر ہمیں کچھ نہیں ملتا تو یہ بھی ایک اہم سائنسی نتیجہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے کچرا لانے والا جہاز پرواز کے لیے تیار

انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہو سکتا ہے کہ زندگی واقعی کائنات میں نایاب ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خلائی مخلوق خلائی مخلوق کا سراغ خلائی مخلوق کی نشاندہی فلکیات مریخ

متعلقہ مضامین

  • ماں کا سایہ زندگی کی بڑی نعمت‘ اس کا نعم البدل کوئی نہیں: عظمیٰ بخاری
  • آن لائن گیم کی لت 14 سالہ بچے کی زندگی نگل گئی
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • صبا قمر کی شادی ہونے والی ہے؟
  • کینیڈین شخص کی 20 سال بعد بینائی بحال، نایاب ’ٹوٹھ اِن آئی‘ سرجری کیا ہے؟
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟
  • حب چوکی پر بس سے اسمگل شدہ سامان نکل آیا، ضبط کرنے پر ٹرانسپورٹرز کا احتجاج، کسٹم کی ہوائی فائرنگ
  • پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنے لئے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے ہے. عطا تارڑ
  • پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف جنگ اپنے لیے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلیے ہے، عطا تارڑ