صارفیت، آدھی روٹی اور دل ونگاہ کی مسلمانی
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہم اپنے فلیٹ کی گیلری سے دیکھ رہے تھے۔ نیچے فلیٹ میں نئے لوگ شفٹ ہورہے تھے۔ لوگ کیا صرف دو میاں بیوی تھے۔ لیکن ان کا سامان! دو بڑے ٹرکوں پر لوڈ تھا جسے چار مزدور اٹھا اٹھاکر کمروں میں منتقل کررہے تھے۔ لگتا تھا دونوں میاں بیوی کی زندگی کا مقصد اور محور بس چیزیں اور اشیاء جمع کرنا تھا۔ آج کل زندگی کا یہی ڈھب ہے۔ بیش تر لوگوں کی زندگیاں محبت، تجربے اور تخلیق سے جینے کے بجائے محض مادی اشیاء کے زیادہ سے زیادہ حصول کے گرد گھوم رہی ہیں۔ محبت، جو کبھی ہر چیز کا پھیلائو اور وسعت تھی، سب کچھ جس میں سما جاتا تھا اب مادی اشیاء اس پر غالب اور برتر ہیں۔
اٹھارویں صدی کے وسط (1760ء) سے انیسویں صدی کے وسط (1840ء) تک صنعتی انقلاب کی پہلی لہر، جب برطانیہ میں بھاپ کے انجن، پاورلوم، اسپننگ جینی اور دیگر مشینوں کی ایجاد سے زرعی معیشت سے دنیا مشینی اور شہری معیشت کی طرف منتقل ہونا شروع ہوئی، صنعتوں اور فیکٹریوں کا جال بچھنے لگا، ریلوے، اسٹیل اور دیگر شعبوں میں تیزی سے ترقی ہونے لگی تب لوگوں کو بتایا گیا کہ اب مشینیں انسانوں کا کام آسان بنائیں گی۔ آمدنی، آسائش، آرام، فرصت اور تفریح زیادہ ہوگی۔ علم، تعلیم، انصاف اور شہری آزادی سب کو ملے گی۔ ہر شخص محنت کرکے امیر بن سکے گا۔ سائنس انسانی نجات دہندہ کا کردار ادا کرے گی۔ بیماریاں ختم ہو جائیں گی، فاقہ کشی ماضی کا قصہ بن جائے گی اور زندگی بہتر سے بہتر ہوجائے گی۔
سرمایہ دارانہ نظام کا دکھایا ہوا یہ خواب، خواب ہی رہا۔ مشینوں نے انسان کو فرصت اور تصورِ جاناں کے لمحات تو کیا دینے تھے اس کے دن رات کام میں جکڑدیے حتیٰ کہ وقت کی کمی عام شکایت بن گئی۔ لوگوں کے پاس محبت کرنے کا وقت بھی نہیں رہا۔ شہروں میں صنعتی آلودگی بڑھ گئی۔ رشتے یوں آلودہ ہوئے کہ خاندانی نظام بکھر گیا۔ انسانوں کے درمیان روحانی وجذباتی فاصلے وسیع سے وسیع تر ہوگئے۔ انسان اپنے آپ سے اجنبی ہو گیا۔ ایک دوسرے سے اجنبی ہو گیا۔ گزشتہ مہینے مشہور ٹی وی آرٹسٹ عائشہ خان جن کا کام تقریباً پانچ دہائیوں پر پھیلا ہوا تھا 19 جون 2025 کو گلشن اقبال کراچی میں ان کے فلیٹ میں ان کی لاش کا انکشاف اس حال میں ہوا کہ وہ تنہائی کی حالت میں ایک ہفتے پہلے وفات پا چکی تھیں۔ ایک ہفتے وہ منظر سے غائب رہیں پاس پڑوس کسی کو تشویش ہوئی اور نہ ان کی خبر لینے کی خواہش کسی دل میں بیدار ہوئی۔ بدبو آنے پر پولیس کو اطلاع دی گئی۔ ان کا ایک بیٹا اسلام آباد میں تھا جب کہ دیگر بچے بیرون ملک رہائش پذیر تھے۔ اس ایک ہفتے اور نہ جانے کب سے انہوں نے اپنی 76 سالہ بوڑھی ماں کی کوئی خیر خبر نہیں لی۔ پولیس سرجن کے مطابق لاش پہلے سے گندے پن کی وجہ سے سڑچکی تھی۔
سرمایہ دارانہ نظام کے خواب کا آج حاصل یہ ہے کہ سرمایہ چند لوگوں کے ہاتھ میں مرکوز ہے اور محنت کش طبقات کا حال برا ہے۔ پہلے ایک فرد کماتا تھا اور پورا گھر کھاتا تھا۔ آج سب مل کر کما رہے ہیں اور پھر بھی پورا نہیں ہورہا۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو مادی اشیاء کی دوڑ میں دوڑے چلے جارہے ہیں۔ نت نئے ملبوسات، گاڑیوں، فون اور برانڈز میں زندگی کی خوشیاں تلاش کررہے ہیں۔ تعیشات کے حصول کی غلامی کررہے ہیں۔ اپنی زندگی اور محنت کو ان کے حصول میں کھپا رہے ہیں پھر بھی روحانی خلا میں معلق اور ناآسودہ ہیں۔ وہ ایک ایسی مادی دنیا میں ہیں جہاں سب کچھ ہے سوائے دل، روح اور تخیل کے۔ ہر رشتے سے کٹ کر محض صارف (Consumer) بن کر اشیاء کی پرستش کررہے ہیں۔ یہ پرستش وقتی سکون تو پہنچاتی ہے لیکن طلب مزید بڑھا دیتی ہے۔
وہ لوگ جو اس دنیا کے پچھواڑے میں ہیں جن کے پاس کچھ نہیں وہ بھی اشیاء کی اسی غلامی کو کامیابی اور خوشی کا پیمانہ سمجھنے لگے ہیں۔ محبت، سچائی، دیانت اور قربانی جیسے آئیڈیل اب سماج کے اس حصے میں بھی پسپا ہورہے ہیں۔ برانڈز، شہرت اور ظاہری چمک ان کے ضمیروں کو بھی دھند لارہی ہے۔ یہ طبقے بھی بس موقع کی تلاش میں ہیں وہ بھی خیالی نجات کے اسی کاروبار میں شریک ہونے کے لیے مرے جارہے ہیں۔ محنت کش عوام بھی فکری زوال کا شکار ہیں۔ محروم طبقہ بھی اشیاء اور ظاہری چمک دمک کو آئیڈیل اور خوشیوں کا باعث سمجھنے لگا ہے۔ آدھی روٹی کھا کر شکر کرنے والے بھی اب کم سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ آدھی روٹی اور دل ونگاہ کی مسلمانی بھی اب زوال پذیر ہے۔ معاشرہ عدل، محبت اور دیانت داری کے اصولوں سے خالی ہو جائے تو دولت بھی بدبختی لے کر آتی ہے۔ اب کوئی بھی ان قربانیوں کی قیمت پر دولت کو بدبختی سمجھ کر اس سے گریزاں ہونے پر تیار نہیں خواہ اس کے لیے عدل محبت اور دیانت داری کو چھوڑنا پڑے۔
اب روح کو پیاسا رکھ کر جسم کو آسودگی دینے والی دنیا کہیں بری نہیں رہی۔ مادی ترقی کی وجہ سے روحانی زوال ہو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ محبت، سچائی، قربانی اور دیانت وغیرہ اب بس وغیرہ وغیرہ ہیں۔ ان موضوعات پر باتیں، تقریریں اور تحریریں اچھی لگتی ہیں ترقی کی غلامی کو آزادی کا نام دے کر ہم جو زندگی بسرکررہے ہیں اس زندگی میں ان جذبوں کا مقام بس یہیں تک رہ گیا ہے۔ جہاں زندگی میں بہت سی اشیاء سجاوٹ کے طور پر گھر میں رکھ لی جاتی ہیں وہاں ان جذبوںکو بھی زندگی میں کسی مقام پر رکھ لیا گیا ہے دیگر بہت سی چیزوں کی طرح۔ مارکس نے جو بات مذہب کے بارے میں کہی تھی وہ بات اب اشیاء اور صارفیت پر صادق آتی ہے۔ اب اشیا اور صارفیت اس دور کے انسان کی افیون ہیں۔
اب لوگ ایسی مشینیں ہیں جو صرف فائدہ تخلیق کرنا چاہتی ہیں بہر قیمت۔ ایک ایسی مشین کے پرزے جو اخلاقیات سے عاری ترقی اور پیداوار کا ماڈل خلق کرتے ہیں یا پھر ایک ایسی مشین کے پرزے جن کی سوچ اور جن کے جذبات تک پر باہر کی قوتوں کا، میڈیا کا، عالمی بیوروکریسی کا اور حکومتوں کا کنٹرول بڑھ گیا ہے۔ وہ اپنی محنت اپنی فکر اور اپنے رشتوں سے کٹ گئے ہیں۔ جذبات اور اخلاقیات سے بیگانہ ہو گئے ہیں۔ ہمہ وقت کارکردگی دکھانے والی مشینیں، فائدے اور پیداوار کے دبائو میں سانس لیتی ہوئیں جنہیں ایسا محسوس کروایا جا رہا ہے کہ جیسے وہ آزاد ہیں مگر ان کی سوچ، جذبات اور نظریات پہلے سے طے شدہ دائروں میں قید ہیں۔ پہلے سے دائرے بنادیے گئے ہیں جن میں وہ گردش کررہے ہیں اور اس گردش کو آزادی سمجھ رہے ہیں۔ ہم جو دیکھ اور سمجھ رہے ہیں اس کے سوتے ہمارے اندر سے نہیں پھوٹتے بلکہ ٹی وی، میڈیا، اشتہارات اور بیرونی طاقتیںطے کرتی ہیں کہ ہمیں کیا سوچنا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے صنعتی ترقی کی صورت لا محدود ترقی، لا محدود آزادی اور لا محدود خوشی کا جو خواب دکھایا تھا وہ ایک بڑے دھوکے کے سوا کچھ ثابت نہیں ہوا۔ معاشی ترقی بس چند امیر ملکوں تک ہی رہی وہاں بھی مخصوص طبقوں تک۔ اس نظام سے دنیا میں امیر اور غریب کے درمیان فرق میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کی رپورٹوں کے مطابق یہ اس نظام کا ثمر ہے کہ دنیا کی آبادی کا ایک فی صد طبقہ دنیا کی نصف سے زیادہ دولت پر قابض ہے۔ امریکا، برطانیہ، جا پان اور جرمنی میں بھی دولت کا بڑا حصہ چند کمپنیوں اور خاندانوں کے پاس ہے۔
دنیا بھر میں متوسط طبقہ سکڑ رہا ہے اور نچلا طبقہ جان توڑ محنت کے باوجود غربت میں دھنس رہا ہے۔ اس نظام نے جس صارفیت اور کنزیومر ازم کو جنم دیا اس نے خوشی کو زیادہ سے زیادہ اشیاء اور چیزوں کے جمع کرنے، برانڈز اور نمودو نمائش سے جوڑ دیا ہے لیکن انسان کو اور اخلاقیات کو فراموش کردیا ہے۔ اب دل ونگاہ کی مسلمانی برقرار اور زندہ رکھنے کے لیے آدھی روٹی پر گزر بسر کرنے والے کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا دھی روٹی جارہے ہیں کررہے ہیں رہے ہیں
پڑھیں:
حماس ختم شُد۔۔۔۔ تو پھر مذاکرات کس سے؟
اسلام ٹائمز: آج جب اسرائیل اور امریکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حماس کو ختم کر دیا گیا ہے تو وہ دراصل اپنے خوف کو چھپا رہے ہوتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں کہ حماس ابھی زندہ ہے، متحرک ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اسرائیل کیلئے ایک لازوال سوال بن چکی ہے اور حماس کہہ رہی ہے کہ اگر ہم ختم ہوچکے تو تم ہم سے بات کیوں کر رہے ہو۔؟ یہ سوال صرف اسرائیل کیلئے نہیں، پوری دنیا کیلئے ایک آئینہ ہے۔ اگر اس آئینے میں جھانکنے کی ہمت ہو تو وہ یہ دیکھے گی کہ جنگ میں ٹینک اور جہاز صرف جسم مارتے ہیں، نظریئے نہیں اور جب تک نظریہ زندہ ہو، مذاکرات بھی جاری رہتے ہیں، خواہ دشمن اسے جتنا بھی ختم شدہ قرار دے۔ تحریر: ظہیر حسین
دنیا کی طاقتور ترین زبانیں جب کسی گروہ یا ریاست کے خلاف بولتی ہیں تو اُن کے الفاظ کے نیچے ہمیشہ طاقت، ایجنڈے اور خاص مفاد کا خنجر پوشیدہ ہوتا ہے۔ آج جب اسرائیل، امریکہ اور ان کے دوست یورپی ممالک بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے حماس کو ختم کر دیا ہے، تو یہ محض ایک اعلان نہیں بلکہ ایک (خالی) بیانیہ ہے۔ ایک ایسا بیانیہ جس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کا سب سے مضبوط ستون مٹی میں دفن ہوچکا ہے اور اب میدان اسرائیل کے امن اور من مانی کے لیے بالکل خالی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر واقعی حماس ختم ہوچکی ہے، تو پھر اسرائیل انہی ختم شدہ عناصر سے مذاکرات کیوں کر رہا ہے۔؟ کیا مردوں سے مذاکرات ہوتے ہیں؟ یا یہ اعترافِ شکست کی ایک باپردہ صورت ہے۔؟
یہ پہلا موقع نہیں کہ حماس کو مٹانے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔ غالباً 2006ء میں جب حماس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو مغربی دنیا نے اس جمہوری عمل کو ماننے سے انکار کر دیا، کیونکہ جمہوریت تب تک قبول ہوتی ہے، جب نتائج مغربی دنیا کے حق میں آئیں۔ پھر غزہ پر پابندیاں، جنگیں اور محاصرے مسلط کیے گئے۔ ہر بار کہا گیا کہ حماس ختم ہوگئی، لیکن ہر بار وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور منظم ہو کر اُبھری۔ اکتوبر 2023ء کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیل نے پورے غزہ کو کھنڈر بنا دیا۔ لاکھوں بے گھر، ہزاروں شہید، اسپتال ملبے میں دفن اور دنیا کی نظروں کے سامنے ایک نسل کو مٹایا گیا۔ تب بھی یہی کہا گیا: حماس اب باقی نہیں رہی، یعنی حماس ختم شد۔
لیکن اب صورت حال کچھ اور بتاتی ہے۔ حماس اب بھی مذاکرات کی میز پر موجود ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو ہوں یا قطر، مصر یا دیگر ثالث، سب اسی ختم شدہ حماس کے ساتھ متبادل حل اور جنگ بندی پر بات کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے وزراء کبھی یہ ماننے سے انکاری نظر آتے ہیں کہ وہ کسی حماس کے نمائندے سے بات کر رہے ہیں، لیکن حقائق کچھ اور کہتے ہیں۔ دراصل، یہ وہ سچ ہے جسے چھپایا نہیں جا سکتا: حماس ختم نہیں ہوئی، بلکہ اسرائیل اپنے مقاصد میں ناکام ہوچکا ہے۔ یہ سوال کہ مذاکرات کس سے؟ خود اسرائیلی بیانیے کو جھٹلا دیتا ہے۔
اگر حماس کا وجود ختم ہوچکا ہے تو پھر اسرائیل روزانہ کی بنیاد پر کس سے قیدیوں کے تبادلے کی بات کرتا ہے۔؟ جنگ بندی کی شرائط طے کرنے کے لیے کس سے مشورہ کیا جاتا ہے۔؟ جنگی قیدیوں کی رہائی کا اختیار آخر کس کے پاس ہے۔؟ اگر حماس ایک ختم شدہ گروہ ہے تو وہ ایسی پوزیشن میں کیسے ہے کہ پوری دنیا اس کے ساتھ ثالثی کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔؟ یہ سب اس بات واضح اور روشن ثبوت ہے کہ طاقت کا توازن یکطرفہ نہیں رہا اور ختم شدہ کہہ کر اسرائیل اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اسرائیل اور اس کے حمایتی حماس کو ایک دہشتگرد تنظیم قرار دیتے ہیں، لیکن جب بات اپنے فوجیوں کی رہائی کی ہو، تو وہی دہشتگرد اچانک مذاکراتی فریق بن جاتے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست کا یہی تضاد دنیا کے لیے باعثِ شرم ہونا چاہیئے۔ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق، اُن کی زمین، اُن کے بچوں، اُن کی زندگی کو ایک دہشتگرد تنظیم کے نام پر قربان کیا جا رہا ہے، لیکن جب ذاتی مفاد آتا ہے تو انہیں بات چیت کے لائق سمجھا جاتا ہے۔ یہ حقیقت اب روزِ روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ حماس ایک تنظیم سے زیادہ ایک نظریہ ہے۔ اسے بمباری سے نہیں مارا جا سکتا، نہ اسے زمین بوس کرنے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ وہ فلسطینی جو اپنے بچے کھو کر بھی مزاحمت سے پیچھے نہیں ہٹے، وہ نسل جو ملبے میں پیدا ہو کر بھی آزادی کے خواب دیکھتی ہے، اُن کے دلوں سے حماس کو کون نکال سکتا ہے۔؟
اگر چند چہروں کو مار کر یا دفاتر کو زمین بوس کرکے کوئی تحریک ختم کی جا سکتی، تو تاریخ میں نہ الجزائر آزاد ہوتا، نہ ویتنام، نہ جنوبی افریقہ۔ حماس کا وجود اب فلسطینی مزاحمت کی اجتماعی شعور میں ضم ہوچکا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے اسرائیل اور اس کے پشت پناہ جانتے بھی ہیں اور ماننے سے کتراتے بھی ہیں۔ اسی لیے وہ حماس کو ختم شدہ قرار دیتے ہوئے بھی اس سے مذاکرات پر مجبور ہیں۔ یہ صرف ایک عسکری مجبوری نہیں بلکہ سیاسی اعتراف ہے۔ جو زبان حماس کی قبریں کھود رہی تھی، وہ اب حماس سے سیز فائر کی بھیک مانگ رہی ہے۔ جو طاقتیں غزہ کو قبرستان بنانے پر تُلی ہوئی تھیں، وہ اب انہی قبر والوں سے امن کی باتیں کر رہی ہیں تو پھر سوال یہ بنتا ہے، اگر حماس ختم ہوچکی ہے تو اسرائیل اور امریکہ بار بار قطر کیوں دوڑتے ہیں۔؟
اصل میں یہ جنگ صرف زمین یا راکٹوں کی نہیں، بیانیے کی بھی ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ دنیا اسے مظلوم اور مجبور سمجھے اور فلسطینیوں کو صرف حماس کی آڑ میں انتہاء پسند دکھایا جائے۔ مگر جنگ کے اس منظرنامے نے خود اسرائیل کے چہرے سے وہ نقاب اتار دیا ہے، جسے وہ دہائیوں سے اوڑھے ہوئے تھا۔ جو ریاست دن رات انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی دہائیاں دیتی تھی، آج وہی ریاست بچوں کے جنازوں پر بم برسا رہی ہے اور جب دنیا چیخ اٹھتی ہے تو وہی ریاست مذاکرات کے پردے میں خود کو امن پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لہٰذا، آج جب اسرائیل اور امریکہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حماس کو ختم کر دیا گیا ہے تو وہ دراصل اپنے خوف کو چھپا رہے ہوتے ہیں۔
وہ اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں کہ حماس ابھی زندہ ہے، متحرک ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اسرائیل کے لیے ایک لازوال سوال بن چکی ہے اور حماس کہہ رہی ہے کہ اگر ہم ختم ہوچکے تو تم ہم سے بات کیوں کر رہے ہو۔؟ یہ سوال صرف اسرائیل کے لیے نہیں، پوری دنیا کے لیے ایک آئینہ ہے۔ اگر اس آئینے میں جھانکنے کی ہمت ہو تو وہ یہ دیکھے گی کہ جنگ میں ٹینک اور جہاز صرف جسم مارتے ہیں، نظریئے نہیں اور جب تک نظریہ زندہ ہو، مذاکرات بھی جاری رہتے ہیں، خواہ دشمن اسے جتنا بھی ختم شدہ قرار دے۔