لاہور میں نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے والدین پر مالی دباؤ اور غیر ضروری فیسوں کے مطالبات پر قابو پانے کے لیے ڈسٹرکٹ اسکول ایجوکیشن اتھارٹی نے سخت گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں، جن کے تحت کسی بھی اسکول کو مقررہ فیس سے زائد رقم وصول کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

گائیڈ لائن کے مطابق کوئی بھی نجی اسکول ٹیوشن فیس سالانہ صرف 5 فیصد تک بڑھا سکتا ہے، اس سے زائد اضافہ غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اسکول انتظامیہ کسی بھی سرگرمی یا سمر کیمپ کی مد میں اضافی فیس وصول نہیں کرے گی، اور نہ ہی طلبہ کو مخصوص دکانوں سے کتابیں یا کاپیاں خریدنے پر مجبور کیا جائے گا۔

والدین کو درپیش ایک اور اہم مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی گئی ہے کہ کوئی بھی نجی اسکول طلبہ سے ایڈوانس فیس نہیں لے گا۔ صرف ماہانہ بنیاد پر فیس وصول کرنے کی اجازت ہوگی، اور فیس کی عدم ادائیگی کی صورت میں کسی بھی طالبعلم کو اسکول سے نکالنے یا تذلیل کا نشانہ بنانے پر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

گائیڈ لائن میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ تمام نجی تعلیمی ادارے طلبہ کے لیے ایک محفوظ، دوستانہ اور ہراسگی سے پاک ماحول فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔ اسکول انتظامیہ پر لازم ہوگا کہ وہ تعلیمی ماحول کو خوشگوار بنائے اور طلبہ کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔

ڈسٹرکٹ اسکول ایجوکیشن اتھارٹی نے تمام نجی اسکولوں کے مالکان کو مذکورہ نئی ہدایات پر فوری عملدرآمد کا حکم دیا ہے، اور خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی کی بھی تنبیہ کی ہے۔

Post Views: 6.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: نجی اسکول

پڑھیں:

بلوچستان یونیورسٹی: مادری زبانوں کے شعبے ضم کرنے کا فیصلہ، اساتذہ، طلبہ اور سیاسی حلقوں میں شدید اضطراب

بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کی سطح پر مادری زبانوں کے تحفظ اور ترویج سے متعلق شدید خدشات نے سر اٹھا لیا ہے۔ حکومت بلوچستان کی جانب سے یونیورسٹی آف بلوچستان کے پشتو، بلوچی اور براہوی شعبوں کو یکجا کر کے ’انسٹیٹیوٹ آف لینگویجز اینڈ لٹریچر‘ میں ضم کرنے کے مجوزہ منصوبے پر صوبے بھر میں تشویش اور مخالفت کی لہر دوڑ گئی ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی میں دنیا کا واحد براہوی شعبہ بھی قائم ہے، جس کی ممکنہ بندش یا انضمام پر نہ صرف اساتذہ اور طلبہ پریشان ہیں بلکہ علمی اور ادبی حلقے بھی اسے مادری زبانوں کی شناخت اور ان کے علمی فروغ کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبہ کا کہنا ہے کہ ان شعبوں کو یکجا کرنا ان کی زبانوں کی شناخت مٹانے کے مترادف ہے اور اس سے مقامی زبانوں میں تحقیق اور تعلیم کا عمل متاثر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: شمالی علاقہ جات کی زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے تقریب کا انعقاد

جامعہ بلوچستان کے اساتذہ، پروفیسرز اور تعلیم دوست حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان زبانوں کے شعبے ختم کرنے یا ضم کرنے کے بجائے انہیں مزید فروغ دیا جائے تاکہ مادری زبانوں کے ذریعے صوبے کی تہذیب، ثقافت اور تاریخ کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔

اس تنازع پر نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی شدید ردعمل دیا ہے۔ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت بلوچستان نے یونیورسٹی آف بلوچستان کے وائس چانسلر کو تحریری طور پر ہدایت دی ہے کہ پشتو، بلوچی اور براہوی شعبوں کو ملا کر ایک ادارے میں ضم کیا جائے۔ انہوں نے اس فیصلے کو مقامی زبانوں اور قوموں کے خلاف سازش قرار دیا اور کہاکہ محض مالی نقصان کے نام پر اگر یہ شعبے ختم کیے جا رہے ہیں تو پورا ملک خسارے میں ہے، اس کا کیا کیا جائے گا؟

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ جب بلوچی زبان سویڈن میں پڑھائی جا رہی ہے تو بلوچستان میں اسے بند کرنا ناقابل فہم ہے۔ انہوں نے اس فیصلے کو مادری زبانوں کے قتل سے تعبیر کیا اور واضح کیاکہ ان کی جماعت اس حکومتی اقدام کے خلاف ہر ممکن جمہوری جدوجہد کرے گی۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پشتونخوا نیشنل پارٹی نے بھی اس حکومتی فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس اقدام کو فی الفور واپس لیا جائے۔

دوسری جانب گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل نے یونیورسٹی آف بلوچستان کے گیارہویں سینیٹ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس مسئلے پر بھی گفتگو کی۔ گورنر نے اس بات کا اعتراف کیاکہ یونیورسٹی کے بعض ڈیپارٹمنٹس خاص طور پر زبانوں کے شعبوں میں اساتذہ کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے مالی بوجھ بڑھ رہا ہے اور اس کے لیے ایک پائیدار حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہاکہ منصوبہ ایسا ہونا چاہیے جو غیر ضروری اخراجات کم کرنے کے ساتھ ساتھ قومی زبانوں کی ترقی اور ترویج کو بھی یقینی بنائے۔

گورنر بلوچستان نے مزید کہا کہ صوبے کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ محض تعلیم دینے کے بجائے جدید تحقیق کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے وائس چانسلرز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اداروں کے لیے واضح ریسرچ ایجنڈا تشکیل دیں، تحقیق کے لیے فنڈ مختص کریں اور اس کی رپورٹ چانسلر آفس میں جمع کرائیں تاکہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیز میں تحقیق اور علم کی نئی راہیں کھلیں۔

یہ بھی پڑھیں: میری مادری زبان اردو نہیں انگریزی ہے، اداکارہ سلمیٰ حسن کا انکشاف

بلوچستان میں مقامی زبانوں کے تحفظ اور ترویج کے حوالے سے یہ معاملہ صوبے میں اعلیٰ تعلیم کی پالیسی، ثقافتی شناخت اور سماجی ہم آہنگی سے جڑا ہوا حساس موضوع بنتا جا رہا ہے، جس پر سیاسی اور سماجی حلقوں کی گہری نظر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بلوچستان یونیورسٹی شدید تشویش شعبوں کا انضمام مادری زبانیں وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • اسکول میں ماہواری چیک کرنے کے لیے طالبات کو برہنہ کرنے کا واقعہ؟
  • ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطین کے حامی طلبا کا ریکارڈ ہارورڈ سے طلب کرلیا
  • مصنوعی ذہانت کو ماحول دوست بنانے پر یونیسکو کی تجاویز جاری
  • 55 سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے والے شخص نے مثال قائم کردی
  • بینک کا گوشوارہ کافی نہیں۔ آمدن ثابت کرنے اور ٹیکس سے متعلق سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • بینک کا گوشوارہ آمدن ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں، سپریم کورٹ کا ٹیکس سے متعلق کیس میں فیصلہ
  • پنجاب کے سرکاری اسکولوں میں انقلابی بہتری اور اقدامات کیا ہیں؟
  • بلوچستان یونیورسٹی: مادری زبانوں کے شعبے ضم کرنے کا فیصلہ، اساتذہ، طلبہ اور سیاسی حلقوں میں شدید اضطراب
  • الفاظ سے عاری، بھونک کر بات کرنے پر مجبور،کتوں کے درمیان پلنے والا بچہ ریسکیو