اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 10 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) اور یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) کی نئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے بڑے لسانی نمونوں (ایل ایل ایم) کی تیاری اور استعمال میں معمولی سی تبدیلیوں کی بدولت کارکردگی پر سمجھوتہ کیے بغیر توانائی کے صَرف میں غیرمعمولی کمی لائی جا سکتی ہے۔

اس تحقیق کے مطابق، بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے بڑے پیمانے پر وسائل خرچ کرنے والے نمونوں (ماڈل) کے بجائے مختصر، منظم اور مضبوط نمونے اسعمال کرنا بہتر ہے۔ ایسے اقدامات سے توانائی کے صرف کو 90 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

Tweet URL

یونیسکو کے پاس اپنے تمام 194 رکن ممالک کو ڈیجیٹل تبدیلی اور انہیں مصنوعی ذہانت سے متعلق ایسی پالیسیاں بنانے اور نافذ کرنے میں مدد دینے کی ذمہ داری ہے جن کی بدولت توانائی کی بچت ہو اور اس ٹیکنالوجی کی تیاری اور استعمال کو اخلاقی اصولوں کے مطابق اور پائیدار بنایا جا سکے۔

(جاری ہے)

2021 میں ادارے کے رکن ممالک نے مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات کے حوالے سے یونیسکو کی پیش کردہ سفارشات کی متفقہ طور پر منظوری دی تھی۔ یہ ایک انتظامی طریقہ کار ہے جس میں ماحول اور ماحولیاتی نظام پر مصنوعی ذہانت کے اثرات بارے پالیسی سے متعلق باب بھی شامل ہے۔

'زیادہ سمجھدار، مختصر، مضبوط اور وسائل کا مؤثر استعمال کرنے والی مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل تبدیلی کا مستقبل' کے عنوان سے اس رپورٹ میں حکومتوں اور ٹیکنالوجی کی صنعت سے کہا گیا ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت سے متعلق پائیدار تحقیق و ترقی پر سرمایہ کاری کریں۔

اس کے ساتھ مصنوعی ذہانت سے متعلق خواندگی بڑھانے کی ضرورت بھی ہے تاکہ صارفین کو اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں بہتر آگاہی دی جا سکے۔ماحولیاتی نقصان کی روک تھام

دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ لوگ روزانہ مصنوعی ذہانت کے آلات استعمال کرتے ہیں۔ ایسی ہر سرگرمی پر تقریباً 0.

34 واٹ آور توانائی استعمال ہوتی ہے۔

اس طرح سالانہ حساب سے دیکھا جائے تو یہ 310 گیگا واٹ آور بنتے ہیں جو کم آمدنی والے کسی افریقی ملک میں سالانہ 30 لاکھ لوگوں کی جانب سے استعمال کی جانے والی بجلی کے برابر توانائی ہے۔

اس پورٹ کی تیاری کے لیے 'یو سی ایل' میں کمپیوٹر کے ماہرین نے کئی طرح کے 'ایل ایل ایم' پر تجربات کیے۔ ان سے تین ایسی اختراعات کی نشاندہی ہوئی جو توانائی کی پائیدار بچت میں مد دے سکتی ہیں جبکہ اس سے مصنوعی ذہانت کے ذریعے حاصل کردہ جوابات کی درستگی بھی متاثر نہیں ہو گی۔

مصنوعی ذہانت سے متعلق چھوٹے لسانی نمونے بھی بڑوں کی طرح مفید ہوتے ہیں۔ انہیں مخصوص مقاصد کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور وہ 90 فیصد تک توانائی بچاتے ہیں۔ اس وقت صارفین اپنی ضروریات کے لیے عمومی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے بڑے نمونوں پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم، تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ تراجم یا خلاصہ کاری جیسے مخصوص کاموں کے لیے استعمال ہونے والے چھوٹے نمونے بڑے پیمانے پر توانائی کی بچت میں مدد دیتے ہیں۔

توانائی کی بچت

تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ مخصوص کام کے لیے مصنوعی ذہانت کے مخصوص نمونے کا استعمال کم خرچ میں اچھے نتائج دیتا ہے۔

ڈویلپر بھی مصنوعی ذہانت کے نمونوں کی تیاری کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 'ماہرین کا مرکب' نامی ایک آن ڈیمانڈ نظام میں میں کئی چھوٹے اور مخصوص ماڈلز شامل ہوتے ہیں۔ ایسا ہر نمونہ صرف اسی وقت فعال ہوتا ہے جب کسی خاص کام کو انجام دینے کی ضرورت ہو۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختصر اور مزید جامع اقدامات کی بدولت توانائی کے استعمال میں 50 فیصد سے زیادہ بچت لائی جا سکتی ہے۔ کوانٹائزیشن جیسی تکنیک کے استعمال سے ان نمونوں کے حجم کو کم کرنے سے توانائی بچانے میں مدد ملتی ہے جبکہ نتائج کی درستگی بھی برقرار رہتی ہے۔

قابل رسائی نمونے

اس وقت مصنوعی ذہانت کے بیشتر ڈھانچے امیر ممالک میں ہیں جس کی وجہ سے اس شعبے میں عالمگیر عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ٹیلی مواصلاتی یونین (آئی ٹی یو) کے مطابق، افریقہ میں مصنوعی ذہانت کی صلاحیت رکھنے والے صرف پانچ فیصد لوگوں کو تخلیقی مصنوعی ذہانت کی تیاری یا استعمال کے لیے درکار کمپیوٹر کی طاقت تک رسائی ہے۔

رپورٹ میں بتائے گئے طریقے کم آمدنی والے علاقوں میں اس ٹیکنالوجی کی تیاری اور استعمال کو ترقی دینے میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں جہاں توانائی اور پانی کی کمی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں کم وسائل والی ایسی جگہوں پر مصنوعی ذہانت کے چھوٹے نمونے زیادہ قابل رسائی ہو سکتے ہیں جہاں ہر وقت اور تیزرفتار انٹرنیٹ دستیاب نہیں ہوتا۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مصنوعی ذہانت سے متعلق مصنوعی ذہانت کے توانائی کی کی تیاری اور اس کے لیے

پڑھیں:

نجی اسکولوں کی من مانیاں ختم: فیس، کتابوں اور ماحول سے متعلق نئی گائیڈ لائنز جاری

لاہور میں نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے والدین پر مالی دباؤ اور غیر ضروری فیسوں کے مطالبات پر قابو پانے کے لیے ڈسٹرکٹ اسکول ایجوکیشن اتھارٹی نے سخت گائیڈ لائنز جاری کر دی ہیں، جن کے تحت کسی بھی اسکول کو مقررہ فیس سے زائد رقم وصول کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

گائیڈ لائن کے مطابق کوئی بھی نجی اسکول ٹیوشن فیس سالانہ صرف 5 فیصد تک بڑھا سکتا ہے، اس سے زائد اضافہ غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اسکول انتظامیہ کسی بھی سرگرمی یا سمر کیمپ کی مد میں اضافی فیس وصول نہیں کرے گی، اور نہ ہی طلبہ کو مخصوص دکانوں سے کتابیں یا کاپیاں خریدنے پر مجبور کیا جائے گا۔

والدین کو درپیش ایک اور اہم مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی گئی ہے کہ کوئی بھی نجی اسکول طلبہ سے ایڈوانس فیس نہیں لے گا۔ صرف ماہانہ بنیاد پر فیس وصول کرنے کی اجازت ہوگی، اور فیس کی عدم ادائیگی کی صورت میں کسی بھی طالبعلم کو اسکول سے نکالنے یا تذلیل کا نشانہ بنانے پر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

گائیڈ لائن میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ تمام نجی تعلیمی ادارے طلبہ کے لیے ایک محفوظ، دوستانہ اور ہراسگی سے پاک ماحول فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔ اسکول انتظامیہ پر لازم ہوگا کہ وہ تعلیمی ماحول کو خوشگوار بنائے اور طلبہ کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔

ڈسٹرکٹ اسکول ایجوکیشن اتھارٹی نے تمام نجی اسکولوں کے مالکان کو مذکورہ نئی ہدایات پر فوری عملدرآمد کا حکم دیا ہے، اور خلاف ورزی کی صورت میں قانونی کارروائی کی بھی تنبیہ کی ہے۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • وفاقی وزیر آئی ٹی شزہ فاطمہ خواجہ سے میٹا کے اعلیٰ سطحی وفد کی ملاقات ، ڈیجیٹلائزیشن، مصنوعی ذہانت اور باہمی تعاون پر تبادلہ خیال
  • 80 سے زائد چینی اور غیر ملکی اکیڈمیشنز کی ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کانفرنس میں شرکت کی تصدیق
  • نجی اسکولوں کی من مانیاں ختم: فیس، کتابوں اور ماحول سے متعلق نئی گائیڈ لائنز جاری
  • مصنوعی ذہانت پر یو این اعلیٰ سطحی کانفرنس کا جنیوا میں شروع
  • مصنوعی ذہانت اور ملازمتوں کا مستقبل: خطرہ، تبدیلی یا موقع؟
  • مصنوعی ذہانت کے ذریعے جعلسازی کا بڑا واقعہ، امریکی وزیر خارجہ بن کر 5 اہم شخصیات  سے رابطے
  • جعلی مارکو روبیو کا اسکینڈل: امریکی و غیر ملکی حکام کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے دھوکا دینے کی کوشش
  • بیرونی کمپنیوں کو کاروبار دوست ماحول فراہم کرنا ترجیح ہے، وزیراعظم
  • اماراتی کمپنیوں کو ملک میں کاروبار دوست ماحول فراہم کرنا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے؛ وزیراعظم